پِچھلی بار میں یہاں دسمبر کی کڑکڑاتی ٹھنڈ میں آیا تھا۔ اُس وقت پھلوں اور سُوکھے میوے کی پیٹِیاں لئے قُلی دوڑتے چلے آ رہے تھے۔ نیلی وردی میں ہندوستانی اور ہری وردی میں پاکستانی قُلی۔ اس بار بس اِکّا دُکّا قُلی نظر آ رہے ہیں۔ ایک بار پھر دونوں جانب کی جانچ کے بعد ہم پاکستانی سرحد میں اِمگریشن کاؤنٹر کی اور چل پڑے۔ ایک اعلی شان سفید گاڑی سے ایک خُوب صورت نوجوان اُترا۔ ڈرائیور کی پوشاک میں پاکستانی فوجی تھا۔ نُکیلی بل کھائی ہُوئی مُونچھوں اور کاؤ بائے ہیٹ پہنے افسر نے اُسکا استقبال کیا۔ آنے والا نوجوان کسی بڑے فوجی اَفسر یا نیتا کا مہمان تھا۔ اُسنے کہا، بارڈر دیکھنے کی خواہِش تھی۔ میں نے من ہی من کہا، اور ہمیں بارڈر کے اُس پار دیکھنے کی۔
ڈیڑھ برس میں ہی کتنا بدلاؤ آ گیا ہے۔ سڑک خاصی چوڑی ہو گئی ہے۔ دائیں طرف اِمگریشن دفتر کی نئی عِمارت بن چُکی ہے۔ لیکن ہمیں ابھی پرانی بلڈِنگ کی سمت ہی جانا ہے، کیونکہ ابھی دفتر وہیں ہے۔ ان نئی تعمیروں سے پتا چلتا ہے کہ ہمارے تعلقات بھی ایک نیے دور میں داخل ہو چُکے ہیں، جہاں بہت سی پرانی چیزوں سے چھٹکارا پانا ہے پھر چاہے وہ جگہ کی تنگی جھیلتی عمارت ہو یا عالمی جنگ کے دور میں پرانی دُشمنی۔
اس سفر پر مُجھ سمیت چھہ قلم کار اور صحافی جے پور سے، دو بٹھِنڈا سے، دو دلّی سے اور ایک چنڈیگڑھ سے ہیں۔ راجستھان شرمجیوی پترکار سنگھ کے صدر اِیش مدھو تلوار، نوجوان شاعر اومیندر، شاعر فرخ انجینِیر، ورشٹھ صحافی سنیتا چتُرویدی اور آننّد اگروال جے پور سے ہیں۔ شاعر۔افسانہ نگارڈاکٹر راجکُمار ملِک اور فلمکار اجے چاؤلا دلّی سے ہیں۔ ڈاکٹر آر۔پی۔ سِنگہ اور رگھو ویریر سِنگہ بٹھِنڈا سے ہیں تو گووند راکیش چنڈی گڑھ سے۔ موقعہ ہے پترن مُنارا انٹرنیشنل کانفیرنس۔ پترن مُنارا وہ جگہ ہے جہاں کبھی سرسوتی بہا کرتی تھی۔ جیسلمیر کے اُتّر پچھم سے رحیم یار خاں ضلعے میں واقع پترن مُنارا میں سیکڑوں کلومیٹر سےآثار قدیمہ کا خزانہ دبا ہوا ہے جِسکی گواہی میں ایک مینار کھڑی ہے۔
ساڈھے چھہ فٹ لمبے میزبان دوست اِرشاد امین دور سے ہی دکھائی دے جاتے ہیں۔ اپنے ساتھ چار دوستوں کو لئے آرہے ہیں۔ ہم گلے لگ رہے ہیں اور گُلاب کی پنکھُڑِیاں برسائی جا رہی ہیں۔ دفتری کارروائیاں ختم ہوتی ہیں اور ہم فوجی علاقے سے باہر آتے ہیں۔ چار کاروں میں سوار ہوتے ہیں ہم۔ اس بار سرحد پر آمد و رفت کم ہے اس لئے خوبصورت مصوری سے سجے ٹرک کہیں نظر نہیں آ رہے۔ البتّہ ایک بس ضُور آتی ہے جو بھاجپا کے جھنڈے کی طرح لال ہرے رنگ کی ہے۔ ایک خستہ حال لوکل بس۔
پِچھلی دفعہ واگھا سے لاہور جانے والی اس سڑک پر کام چل رہا تھا، آج وہ فوور لین ہو چُکی ہے۔ دوستی کا جذبہ بھرے دلوں کی طرح چوڑی اور خوبصورت۔ یوں سڑکوں کا حسن اُسکے دونوں طرف کے نظاروں سے ہوتا ہے اور یہاں کہیں کھیت لہلہا رہے ہیں تو کہیں اِینٹوں کے بھٹّوں کی چِمنِیاں۔ ایک گدھاگاڑی پر چارا لد کر جا رہا ہے، سنیتا چتُرویدی کے مُنہ سے بیساختہ نِکل پڑا، "اَرے یہاں بھی وہی گدھاگاڑی۔" ہاں، سچ میں سرحد پار کچھ بھی تو نہیں بدلتا سِواے دیواروں اور سائین بورڈوں پر لِکھی عبارت کے۔ ہِندی کی جگہ اُردو آ جاتی ہے۔ تھوڑا سا فاصلہ طے کرتے ہی آبادی آ جاتی ہے۔ جلُ موڑ۔ پِچھلی بار یہاں ٹھیلوں پر کنّو تھے، اس بار آڑو، سردا اور گرما کے ساتھ خربوزہ متیرا ہے۔ وہی گندگی کاعالم، بے ترتیب پھیلا کچرا، ہر طرف کیچڑ اور ٹریفک کے قانونوں کو ٹھینگا دکھاتے ڈرائیور اور راہگیر۔