پاکستان اور ہونڈوراس میں کیا فرق ہے - نیگروپونٹے سے سوال

نبیل

تکنیکی معاون
مشرف بچاؤ مشن پر پاکستان تشریف لانے والے امریکہ کے نائب وزیر خارجہ نیگروپونٹے اس وقت سناٹے میں آگئے جب سینٹر آف ریسرچ اور سیکیورٹی سٹڈیز کے ڈائریکٹر فرخ سلیم نے ان سے سوال پوچھا کہ پاکستان ہونڈوراس سے کس طرح مختلف ہے؟

نیگروپونٹے جواب میں صرف یہی منمنا سکے کہ آپ نے تو مجھے جواب دینے کے قابل نہیں چھوڑا ہے (“You have put me on the spot.”)

جو دوست اس سوال کا جواب جاننا چاہتے ہیں وہ حامد میر کا کالم نیگروپونٹے کون ہے پڑھ سکتے ہیں۔

فرخ سلیم نے نیگروپونٹے سے ایک اور سوال پوچھا اور اس سوال کے جواب میں بھی نیگروپونٹے ہکابکا ہونے کے سوا کچھ نہیں کر سکے تھے۔
سوال یہ تھا کہ آپ ہمارے چیف جسٹس کے بارے میں ایسا کیا جانتے ہیں جو ہمارے علم نہیں ہے؟

اس سوال کا مقصد امریکی حکومت کا پاکستانی عدلیہ کی معزولی کے غیرقانونی ہونے کو نظر انداز کرنا اور ڈھٹائی سے مشرف کی حمایت جاری رکھنے کی جانب اشارہ کرنا تھا۔

اپنے دورہ پاکستان کے دوران نیگروپونٹے وکلا کے وفد کے ساتھ ملاقات کے لیے تیار نہیں تھے۔ جب بالآخر اعتزاز احسن کو نیگروپونٹے کے ساتھ ملاقات کا وقت ملا تو انہوں نے تقریباً 15 منٹ تک نیگروپونٹے کو پاکستان میں ایک آزاد عدلیہ کی اہمیت پر لیکچر دیا۔
نیگروپونٹے نے جب کہا کہ پارلیمنٹ نے عدلیہ کی بحالی کے ایجنڈے پر 30 دن کے اندر عملدرآمد کا وعدہ کیا ہے تو اعتزاز احسن نے کہا "میں نے کہا کہ آپ عدلیہ کے ملبے پر پارلیمنٹ کی عمات نہیں کھڑی کر سکتے"

مزید پڑھیے: A New Diplomatic Order in Pakistan
 

نبیل

تکنیکی معاون
اسی سلسلے میں پڑھیں: مور کے پاؤں (رونامہ جنگ، 31 مارچ 2008 )

پرانی داستانوں کے طوطے میں اپنی جان کی حفاظت کے لئے پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے امریکہ کے ڈپٹی سیکرٹری آف سٹیٹ (نائب وزیر خارجہ) جان نیگرو پونٹے سے ہمارے ”دی نیوز“ کے ڈاکٹر فرخ سلیم نے ایک بظاہر بے ضرر سا سوال پوچھا تھا مگر جواب دینے میں تھوڑے سے تامل اور تاخیر کی وجہ سے اس کی صدائے باز گشت تقریباً پوری دنیا میں سنائی دی گئی۔ ڈاکٹر فرخ کا سوال تھا کہ ”ہنڈوراس (Honduras) اور پاکستان میں کیا فرق ہے؟“ سوال کا پس منظر یہ ہے کہ 68 سالہ پیشہ ور ڈپلومیٹ جان نیگرو پونٹے گزشتہ صدی کی آٹھویں دہائی میں ہنڈوراس میں امریکہ کے سفیر تھے مگر اپنے پیشے کے دیگر بہت سارے امریکی ساتھیوں کی طرح سامراج کے مفاد میں انسانی خون سے ہاتھ رنگنے کے غیر سفارتی فرائض میں بھی ملوث تھے۔ اس زمانے میں نکارا گوا میں بائیں بازو کی سوشلسٹ حکومت برسر اقتدار تھی۔ امریکہ کا حکمران طبقہ جس کا تختہ الٹ دینا چاہتا تھا اور اس مقصد کے لئے ہنڈوراس میں امریکہ کے سفیر کبیر گوریلا جنگ لڑنے والے دہشت گردوں اور چھاپہ ماروں کے جتھے تیار کرنے ان کو آلات حرب و ضرب، تربیت اور مالی وسائل فراہم کرنے کے فرائض کے انچارج تھے۔ اپنے ان خونی اورتباہ کن فرائض کی ادائیگی میں جان نیگرو پونٹے سے مبینہ طور پر بعض ایسے گھناؤنے اور انسانیت کو شرمانے والے مظالم بھی ”سرزد“ ہوئے کہ جو امریکہ کی CRUDE اور CRUELڈپلومیسی میں باعث شرم و ندامت نہیں سمجھا جاتا اور اگر انڈونیشیا سے چلی، ویت نام، ناگا ساکی، ہیروشیما اور اسرائیل تک پھیلے ہوئے امریکی ڈپلومیٹک کارناموں کا جائزہ لیا جائے تو سفاکیوں کی انتہائی درد ناک داستان لکھی جائے گی اور ان میں بے شمار پردہ نشینوں کے بھی نام آئیں گے۔ معلوم ہو گا کہ آج عالمی سطح پر دہشت گردی کے خلاف جنگ میں داد شجاعت دینے والے بیشتر لوگ دہشت گردی کے رحجان کے بانیوں کی فوج میں شامل رہے ہیں۔ امریکہ کے نائب وزیر خارجہ کو یہ یاد دلانا کچھ زیادہ غیر مناسب نہیں تھا کہ آج آپ جس صورت حال سے پریشان ہیں وہ سب آ پ کا اپنا کیا دھرا ہے۔ آپ کی اپنی کرم نوازیاں ہیں جو آپ کے لئے زحمت بن رہی ہیں۔

اور

مگر اپنے رنگین پروں کو پھیلا اور تان کر رقص کرنے والے مور کی توجہ اس کے بدصورت اور کھردرے پاؤں کی طرف متوجہ کرائی جائے یا کسی کے سامنے اس کا ناقابل دید ماضی رکھ دیا جائے تو کچھ عرصے کے لئے اس کی زبان گنگ ہو جاتی ہے اور یہی کچھ جان نیگرو پونٹے کے ساتھ بھی ہوا جب ڈاکٹر فرخ سلیم نے ہنڈوراس اور پاکستان میں پائے جانے والا فرق اور فاصلہ معلوم کرنا چاہا اور دنیا کی واحد سپر پاور کے نائب وزیر خارجہ فوری طور پر کوئی جواب نہ دے سکے۔ ہنڈوراس اور اسلام آباد یا نکارا گوا اور پاکستان کے درمیان فرق اور فاصلے میں بیسویں صدی کی آخری دہائیوں اور اکیسویں صدی کی پہلی دہائی کا فاصلہ اور فرق ہی نہیں ہے۔ اس فرق اور فاصلے کے درمیان افغانستان اور عراق کے درد ناک تجربات بھی موجود ہیں اور یہ انتہائی خوفناک صداقت بھی بیان کی جاتی ہے کہ امریکہ، عراق اور وہاں کے تیل پر قبضے کے لئے جو جنگ لڑ رہا ہے اس میں ہر سیکنڈ پر دو ہزار ڈالر خرچ ہو رہے ہیں اور دو ہزار ڈالر فی سیکنڈ کے خرچ سے ہم پوری دنیا کی غربت، جہالت اور بیماری کو ختم کر سکتے ہیں مگر غربت، جہالت اور بیماری کو ختم کرنا سامراجی مفاد میں نہیں ہے بلکہ سامراج کی خود کشی کے مترادف ہے۔ ہنڈوراس اور اسلام آباد کے درمیان فرق اور فاصلہ صرف ربع صدی کا ہی نہیں ہے ۔۔
 
اگر پاکستان پر ایک شخص کی حکومت رہتی ہے جیسے کہ مشرف یا کوئی بھی اور تو پاکستان کا حشر عراق جیسا کرنا بہت ہی آسان ہے۔ کہ پاکستان پر ایک ڈکٹیٹر کی حکومت تھی جس سے آزادی دلانا ضروری تھا۔۔۔

یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ کسی فرد واحد کو کسی طور ایک مقررہ مدت سے زیادہ حکومت نہ کرنے دی جائے۔ پاکستان کی حکومت و دولت ، پاکستانیوں‌کی میراث‌ہے۔ کسی فردی واحد کا حق نہیں۔ پاکستان کے آئین کی رو سے نیا خون ہر پانچ سال بعد ضروری ہے تاکہ نئے افراد نئے خیالات کے ساتھ آتے رہیں۔ اور اپنا حصے کی ذمہ داری اٹھاتے رہیں ۔ ایک نئے اور خوبصورت صبحانہ کے لئے نئی قیادت مقررہ مدت کے بعد تبدیل ہونا ضروری ہے۔

حکومت پاکستان قطعاً‌کوئی کمپنی نہیں کہ اسکے ڈایریکٹرز کا تعین کسی ہیڈ کوارٹر سے کیا جائے۔ حکومت و دولت پاکستان پاکستانیوں کے دل میں ہے جس کا تعین پاکستانی خود کریں‌گے۔
 

محسن حجازی

محفلین
واہ نبیل بھائی! عقابی نظریں رکھی ہوئی ہیں آپ نے حالات پر!
میں نے منو بھائی کا یہ کالم تو پڑھا تھا تاہم یہ تجسس تھا کہ آخر پونٹے صاحب نے جواب کیا دیا ہوگا؟ وہ آپ نے بتا دیا ہے کہ انہوں نے کیا فرمایا۔ دوسرا سوال بھی میرے علم میں نہیں تھا اور بہت کمال کا سوال اٹھایا ہے یعنی کہ کیا کہنے؟ کہ ایسا کیا ہے ہمارے چیف کے بارے میں جو آپ تو جانتے ہیں ہم نہیں جانتے؟
گیلانی صاحب نے دہشتگردی کے خلاف جنگ جاری رکھنے کا پختہ عزم تو ظاہر کیا لیکن جب عملی اقدامات یا فوجی کاروائیوں کی بات آئی تو خوبصورتی سے ٹال دیا کہ پارلیمنٹ فیصلہ کرے گی۔
نبیل بھائی!
یہ ناجی میاں زرداری اور نوازشریف میں پھوٹ ڈالنے کے چکر میں ہیں ذرا آج کا کالم تو دیکھئے۔
دوسری طرف پاکستانیوں کی بھاری اکثریت ان کے اتحاد اور دوستی کو بہت خوشگوار تبدیلی سمجھتی ہے اور خواہاں ہے کہ یہ تعلق دیر تک چلے اور شاید پاکستان کے مفاد میں بھی یہی ہے۔
دوسری طرف جاوید چودھری اور حامد میر جیسے لوگ دونوں جماعتوں کے تعلق کو مضبوط تر کرنے کی کوششیں کرتے نظر آتے ہیں۔ جاوید چودھری نے ایک واقعہ بھی لکھا ہے شہباز شریف اور نوازشریف کا آصف زرداری کی جان کے تحفظ کے بارے میں۔

بے حد شکریہ اس مفید مراسلے کے لیے۔
 

محسن حجازی

محفلین
ویسے یہ روزنامہ جن ابھی نکلنا شروع نہیں ہوا! :grin:
جنگ اخبار البتہ جن سے کم نہیں۔ یہ اخباروں کا نذیر ناجی ہے۔:grin:
 
اگر یہ ہو تو پھر رونا کس بات کا ہے۔ مسئلہ تو یہی ہے کہ یہ ہوتا نہیں۔

شمشاد بھائی آپ نے اس مسئلہ کی جڑ کی طرف اشارہ کیا ہے۔
اس بات سے واقفیت ہی اس کو حل کرے گی۔ افراد کے خیالات تیزی سے اور اقوام کے خیالات بتدریج تبدیل ہوتے ہیں۔

امید بہار ۔۔۔۔
 

سیفی

محفلین
لیکن میرے خیال میں تو پونٹے یہ تنبیہہ کرنے آئے تھے کہ پرواز اپنی حدود کے اندر کرو۔ ورنہ افغانستان اور قبائلی علاقوں پر حملے کے لئے صرف پاکستان ہی واحد روٹ نہیں ہے۔ بلکہ روس نے بھی نیٹو کو وسط ایشیائی ریاستوں کے متبادل راستے کی فراہمی کی پیشکش کی ہے۔ اور مغربی افواج صرف پاکستان کی محتاج نہیں رہیں۔
 

arifkarim

معطل
ہا ہا ہا، اگر پاکستان میں اسی طرح امریکی عمل دخلی جاری رہی تو ایک نیا مشرف بننے میں دیر نہیں لگے گی!
 
Top