پاکستانی کرکٹ ٹیم پرمیچ فکسنگ کے الزامات کا جواب

قمراحمد

محفلین
پاکستانی کرکٹ ٹیم پر میچ فکسنگ کے الزامات کا جواب

27437_703182342_9135_n.jpg

تحریر :- قمراحمد

جھوٹی ویڈیو نمبر ایک

سب سے پہلے میچ فکسنگ کے مرکزی کردار مظہر مجید کی اُس فوٹیج پر بات کی جائے جس کی بنیاد پر برطانوی اخبار “ نیوز آف دی ورلڈ“ نے یہ اسکینڈل اچھالا ہے “نیوز آف دی ورلڈ“ کے مطابق ویب سائٹ کے صفحہ پر موجود ویڈیو کی ریکارڈنگ 25 اگست 2010ء کو اُس وقت کی گئی جب انگلینڈ اور پاکستان کے مابین آخری ٹیسٹ میچ شروع نہیں ہوا تھا۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ اس ویڈیو کو اگر غور سے دیکھیں تو یہ مشتبہ نظر آتی ہے کیونکہ اِس پر ریکارڈنگ کا نہ کوئی وقت موجود ہے نہ ہی تاریخ اور نہ ہی یہ بتایا گیا ہے کہ کس جگہ خفیہ طور پر ریکارڈ کی گئی۔ جبکہ آج کے زمانے میں تو ہر ویڈیو اور تصویر بنانے والے کیمرے میں ریکارڈنگ کا وقت اور تاریخ ظاہر کرنے کا آپشن موجود ہوتا ہے۔ اگر کسی کو یاد ہو تو 26 اگست لارڈز ٹیسٹ کے پہلے دن انگینڈ کی اننگز میں صرف 12.3 اوورز کا کھیل ہوا تھا۔ باقی کا سارا دن بارش کی وجہ سے کھیل نہیں ہو پایا تھا۔ اس طرح کے حساس معاملات میں اِس امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا کہ ویڈیو ٹیسٹ میچ کے دو دن گزرنے (جب انگینڈ کی اننگز کہ تمام اوورز مکمل ہوچکے تھے)27 اگست کے بعد بنائی گئی ہو تبھی وہ میچ کے دوسرے یا تیسرے دن کے بجائے اختتامی گھنٹوں میں منظرِ عام پر لائی گئی۔

2- اِس طرح کی ویڈیو تو میچ کے دس دن کے بعد بھی بنا کر دنیا کو دیکھائی جا سکتی ہے۔ اگر برطانوی اخبار “نیوز آف دی ورلڈ“ اتنا ہی سچا ہوتا تو یہ ویڈیو بنانے کے ساتھ ہی وہ پولیس کے حوالے کر دیتا۔ اُس نے ویڈیو 28 تاریخ کو ہی پولیس کے حوالے کیوں کی۔ کیوں تین دن کا انتظار کیا۔؟؟؟ کیونکہ یہ اخبار جھوٹے ثبوت بنانے میں مصروف تھا اور ابھی اُنکی تیاری پوری نہیں ہوئی تھی۔ اور اِس بات کا بھی انتظار کر رہا تھا کہ پاکستانی ٹیم کی جانب سے ٹیسٹ میچ کے ختم ہونے تک کسی طرح سے بہت بُری کارکردگی کا مظاہرہ ہو تاکہ جھوٹے ثبوت دنیا کے سامنے پیش کیے جائیں اور اُسکے پاکستانی ٹیم کے خلاف میچ فکسنگ ، جان بوجھ کر ہارنے یا خراب کارکردگی دیکھانے کے الزامات کو سہارا ملے سکے۔

3- اگر کوئی بھی غور سے یہ ویڈیو دیکھے تو جب برطانوی اخبار “نیوز آف دی ورلڈ“ کا رپورٹر میچ فکسنگ کے مرکزی کردار مظہر مجید کو 140,000 پونڈ پچاس پچاس کے کرنسی نوٹوں کی صورت میں دے رہا ہے۔ اور پھر اُسے پیسے گننے کو کہتا ہے تو بعد میں مظہر مجید پیسے سامنے رکھی ہوئی میز پر سجاتا ہے کہ جیسے وہ اِس تمام رقم کی نمائش کرنا چاہ رہا ہو۔ یا پھر وہ جان بوجھ کر یہ چاہتا ہو کہ یہ ساری رقم کیمرے کی آنکھ سے ریکارڈ ہو جائے۔ تاکہ ویڈیو دیکھنے والا یہ تاثر لے کہ یہ سارے پیسے وہ پاکستانی بالرز محمد عامر اور محمد آصف کے نو بالز کرارنا کے لئے لے رہا ہے۔

4- جب اِس طرح کی ڈی لنگز کی جاتی ہیں تو پیسے گن کر نہیں لئے جاتے جیسے مظہر مجید گن رہا ہے۔ یہ 2010 کا زمانہ ہے اور آج کل کے دور میں ہونے والی میچ فکسنگ میں نوٹوں کی ٹرانزکشن اس طرح سے نہیں ہوتی جیسے فوٹیج میں دکھائی گئی ہے، بلکہ اب تو کریدٹ کارڈز سکریچ ہوتے ہیں یا پھر بینک چیک کا استعمال کیا جاتا ہے، اور فکس کی گئی رقم ایک اکاؤنٹ سے دوسر ے اکاؤنٹ میں منتقل ہو جاتی ہے۔ یاپھر میچ فکسر کو پراپرٹی کی نشاندہی کر دی جاتی ہے جو فکسر خرید کر بعد میں کرکٹرز کے نام لگا دیتا ہے۔ یوں کبھی بھی کوئی میچ فکسر پیسے مظہر مجید کی طرح ٹیبل پرسجاتا نہیں ہے۔

5- مظہر مجید، جو کہ سٹے بازی میں سات سال کا تجربہ کار ہونے کا دعویٰ دار ہے کس طرح ایک ناجانے شخص پر محض چار دن ملاقات کرکے مکمل بھروسا کرسکتا ہے نیز اس سے ایک لاکھ چالیس ہزار پونڈ اتنی ساری گڈیوں میں وصول کرسکتا ہے؟ اب اس کا جواب یا تو اس کے اناڑی ہونے کی صورت میں ہے یا پھر کچھ اور چکر ہے- جبکہ ویڈیو میں وہ نہ صرف گڈیاں وصول کررہا ہے بلکہ خاص پوز دے دے کر کیمرہ میں ان کی تعداد بھی ریکارڈ کروارہا ہے۔ یہ چیز بھی اس ویڈیو کی صحت پر شک پیدا کرتی ہے۔

6- اِس ویڈیو کی ریکارڈنگ کرنے والا کس طرح کا خفیہ کیمرہ ہے کہ جس سے اتنی اچھی کوالٹی کی فلم بنائی گئی ہے۔ اور آواز کی کوالٹی بھی بہت عمدہ ہے کہ جیسے رپورٹر اور مظہر مجید مائیک کو پاس رکھ کر اپنی ساری گفتگو کر رہئے ہوں۔

جھوٹی ویڈیو نمبر دو
اب آتے ہیں دوسری ویڈیو کے طرف جو ایک کار میں فلمائی گئی ہے اور جس کے بارے میں برطانوی اخبار “ نیوز آف دی ورلڈ“ کا کہنا ہے کہ یہ فوٹیج 19 اگست کو ریکارڈ کی گئی۔

1- اِس فوٹیج میں مظہر مجید کو رپورٹر نے دس ہزار پونڈ دیئے جو کہ اُسے نے اپنی جیکٹ (کوٹ) کی جیب میں ڈال لئے اور پھر وہ کار سے نکلنے کے بعد، باہر کچھ دور موجود نئے پاکستانی کرکٹرز عمر امین اور وہاب ریاض کے پاس چلا گیا۔ اور چند لمحے دونوں سے باتیں کرنے کے بعد اُس نے اپنی جیکٹ ایک طرف سے کھول کر دونوں کرکٹرز کو دیکھانے کہ بعد وہاب ریاض کو پہننے کو دے دی۔ چونکہ مظہر مجید، وہاب ریاض کو پیسے نہیں بلکہ جیکٹ دے رہا ہے اور ویڈیو سے یہ بات بالکل بھی واضح نہیں کہ آیا جیکٹ میں پیسے ہیں یا انہیں نکال کر الگ رکھ لیا گیا ہے۔

2- اِس فوٹیج میں بھی ریکارڈنگ کی کوئی تاریخ اور وقت موجود نہیں ہے۔ اور مظہر مجید بار بار کار میں بیٹھے ہوئے، کیمرے کی جانب دیکھ کر باتیں کر رہا ہے۔ حیران کن طور پر اِس بار رپورٹر ، مظہر مجید کو رقم کار کے اندر بیٹھے ہوئے ہی ادا کر دیتا ہے۔ جس کو وہ بغیر گنے اپنی جیکٹ کی جیب میں ڈال لیتا ہے۔ جبکہ کار کے آس پاس سے لوگ بھی گزر رہے ہیں۔

3- کار کے اندر مظہر مجید نے ہلکے نیلے رنگ کی قمیض پہنی ہوتی ہے اور جب وہ کار سے باہر اپنی جیکٹ اُتار کر وہاب ریاض کو دیتا ہے تو مظہر مجید کالے رنگ کی قمیض پہنے دیکھائی دیتا ہے۔ اِتنی جلدی اور ایک دم سے انسان کے جسم پر موجود قمیض اپنا رنگ کیسے تبدیل کر سکتی ہے؟؟؟

4- اگر یہ بات مان بھی لی جائے کہ مظہر مجید نے عمرامین اور وہاب ریاض کو جیکٹ میں پیسے ڈال کر دئیے تھے تو پولیس نے اِن دونوں نئے پاکستانی کرکٹرز کو کیوں شاملِ تفتیش نہیں کیا؟؟؟ کیوں نہیں اِن دونوں کے نام سلمان بٹ، کامران اکمل ، محمد آصف اور محمد عامر کے ساتھ ملزمان کی لسٹ میں آئے۔ کیوں نہیں اِن دونوں کو باقی پاکستانی ٹیم سے الگ کیا گیا؟؟؟

سلمان بٹ کے ساتھ مظہر مجید اور خفیہ رپورٹر کی گروپ فوٹو:-

“نیوز آف دی ورلڈ“ کی اس بریکنگ نیوز کے صفحہ پر موجود تمام تصاویر کے ساتھ مختلف کیپشن دیے گئے ہیں۔ لیکن ایک تصویر جس میں پاکستان کی موجودہ ٹیسٹ ٹیم کے کپتان سلمان بٹ اور مظہر مجید کے ہمراہ "اپنے آدمی" (خفیہ رپورٹر) کو دکھایا گیا ہے جبکہ نیچے کسی قسم کا کوئی کیپشن موجود نہیں۔ اور نہ ہی پورے صفحہ پر اس سے متعلق کوئی تفصیل موجود ہے۔ لہٰذا اس دعویٰ کی تصدیق بھی درکار ہے کہ آیا یہ تصویر اصلی ہے کہ نقلی۔ آج کل جدید ٹیکنالوجی اور کمپیوٹر کے استعمال سے یہ کام بالکل آسان ہوگیا ہے کہ آپ کسی کھڑے کو بٹھا سکیں اور بیٹھے ہوئے کو کھڑا کرسکیں۔ لہٰذا اس تصویر کی اصل جاننے کے لیے یہ معلوم کرنا ضروری ہے کہ تصویر کہاں اور کب لی گئی نیز الزامات سے اس کا تعلق کس طرح بنتا ہے؟

میچ فکسر مظہر مجید:-
میچ فکسنگ اسکینڈل کے مرکزی کردار مظہر مجید کو “ نیوز آف دی ورلڈ“ کی بنائی ہوئی خفیہ فلم کے نشر ہونے کے بعد برطانوی پولیس نے گرفتار تو کیا مگر اگلے ہی دن ضمانت پر رہا بھی کردیا۔ جبکہ مظہر مجید کو ہفتے کے روز برطانوی پولیس نے لارڈز ٹیسٹ فِکس کرنے کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔ اور اسکاٹ لینڈ یارڈ کے ترجمان نے میڈیا کو بتایا تھا کہ پینتیس سالہ مظہرکو بغیر کوئی الزام عاید کیے ضمانت پر رہا کردیا گیاہے۔ اس کی ضمانت کب تک موثر ہے اور ضمانت کن شرائط کے تحت دی گئی ہے۔ اس بارے میں فی الحال کچھ نہیں بتایا گیا۔

یہ کیسی گرفتاری تھی اور کیسی تفتیش تھی کے اِتنے بڑے اسکینڈل جس نے کرکٹ کی دنیا کو ہلا کر رکھ دیا اور پاکستانی ٹیم کی عزت کو داغدار کر ڈالا اُس کا مرکزی کردار آرام سے رہا بھی ہوگیا۔ پولیس نے اتنی جلدی اور آسانی سے ضمانت کیوں لے لی؟؟؟

اِس کا جواب برطانوی اینٹی کرپشن کمیشن کے چیف رک پیر ی نے دیا ہے اور وہ کہتے ہیں کہ اسپاٹ فکسنگ میں ملوث مظہر مجید کے خلاف شواہد کے بغیر کیس ڈس مس ہوسکتا ہے جبکہ برطانوی ماہرین قانون کا کہناہے کہ فکسنگ اسکینڈل میں شرط نہ لگانے پر جرم ثابت کرنا مشکل ہوگا۔ رک پیری نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ پاکستان کھلاڑیوں کے خلاف مقامی اخبار کی ویڈیو کو ثبوت کے طور پر پیش تو کیا جاسکتا ہے تاہم صرف اس کی بنیاد پر مظہر مجید کو سزا نہیں دی جاسکتی اور نہ ہی پاکستانی کھلاڑیوں کے خلاف کیس بن سکتا ہے،ویڈیو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ ٹھوس شواہد موجود ہیں لیکن ایسا ہے نہیں، جب تک غیر قانونی طور پر بکی پر شرط لگا کر دھوکا دینے کا جرم ثابت نہیں ہوگا اس وقت تک پولیس کامیابی سے پراسیکیوشن نہیں کرسکے گی۔ رک پیری نے سوالیہ انداز اختیار کرتے ہوئے کہا کہ کیا مذکورہ اخبار کے نمائندے مظہر محمود نے یا کسی اور نے شرط لگا کر ناجائز فائدہ حاصل کیا؟ اگر ایسا نہیں ہے تو کیس بھی نہیں بن سکتا کیونکہ جب تک شرط نہ لگائی جائے اس وقت تک کوئی کام غیر قانونی ثابت نہیں ہوگا۔ رک پیری کا یہ بھی کہنا تھاکہ اگر پاکستان کھلاڑیوں پر کیس نہیں بن سکا تو پھر آئی سی سی اسکینڈل میں ملوث کھلاڑیوں کو معاف بھی کرسکتا ہے۔

“نیوز آف دی ورلڈ“ اخبار کے بارے میں:-
برطانیہ کا یہ ہفت روزہ دنیا بھر میں سب سے زیادہ پڑھے جانے والے انگریزی اخبارات میں دوسرے نمبر پر آتا ہے۔ شاید اسکی وجہ یہ ہے کہ اس میں اسکینڈلز اور بریکننگ نیوز سے بھرمار ہوتی ہے۔ یہ اخبار مختلف غلط اور صحیح مصالحہ دار خبروں کا مجمع بنا کر انسان کے فطری تجسس کو کچھ وقت کے لیے لطف فراہم کردیتا ہے لیکن بعد ازاں اپنے کیے کی سزا بھی خوب پاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں سب سے زیادہ پڑھے جانے کے اخبارات کی فہرست میں ہونے کے باوجود نیوز آف دی ورلڈ دیگر برطانوی اخبارات کے مقابلہ میں نہ تو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے نہ اسے قابلِ اعتبار سمجھا جاتا ہے۔ اخبار کے ماضیٴ قریب میں کی جانے والی انویسٹیگیٹو رپورٹس اور ان کے نتائج کی چند مثالیں درج ذیل ہیں :-

2005ء میں مشہور انگلش فٹ بالر ڈیوڈ بیکھم اور ان کی اہلیہ نے اس ہفت روزہ جریدہ میں ایک مضمون کی اشاعت پر ہتک عزت کا کیس کردیا جس پر اس اخبار کو سخت خفت اٹھانی پڑی۔

2006ء میں ایک اور انگلش فٹ بالر وائن رونی نے اخبار پر اس وقت کیس کردیا جب اس نے ان کے اپنی منگیتر سے خراب تعلقات پر غلط رپورٹ شائع کی جس کا خمیازہ اخبار کو ایک ایک لاکھ پونڈ کی صورت میں بھگتنا پڑا۔

2006ء ہی میں اخبار کو اس وقت اپنی غیر صحافتی سرگرمیوں کی سزا بھگتنا پڑی جب انگلش فٹ بالر ایشلے کول کے جنسی اسکینڈل کے متعلق رپورٹ کو درست ثابت نہ کرسکا اور اخبار انتظامیہ کو ایک لاکھ پونڈ کے عوض معاملہ طے کرنا پڑے۔

2006ء میں اسکاٹ لینڈ سے تعلق رکھنے والے سیاستدان ٹومی شریڈن کے جنسی اسکینڈل کی اشاعت کے بعد اخبار کو ایک بار پھر تادیبی عدالتی کاروائی کا سامنا کرنا پڑا جہاں اسے دو لاکھ پونڈ جرمانہ اور تاریخی شکست ہوئی۔

2008ء میں fia کے سابق سربراہ میکس موسلی کی نجی زندگی کی فلم بنانے اور اسے نیوز آف دی ورلڈ کی ویب سائٹ پر شائع کرنے کی سزا کے طور پر 5 لاکھ پونڈ سے زائد جرمانہ بھرنا پڑا۔

اس اخبار کو رواں سال کے اوائل میں مشہور ہالی وڈ اداکار جوڑی بریڈپٹ اور انجلینا جولی کی علیحدگی کی پیشن گوئی پر بھی سخت قانونی چارہ جوئی کے بعد گھٹنے ٹیکنے پڑے یوں معاملہ معذرت کی اشاعت اور ایک بڑی رقم بطور ہرجانہ کے طور پر ادا کرنے پر ختم ہوا۔

کسی عالمی اخبار کا غلطیوں، اعتراف اور جرمانہ سے بھرپور ماضیٔ قریب کی یہ چند مثالیں نیوز آف دی ورلڈ کو کسی حد ناقابل اعتبار تسلیم کرنے کے لیے کافی ہیں۔ ماضی کی طرح نیوز آف دی ورلڈ کے پاکستانی کرکٹ ٹیم کے خلاف حالیہ الزامات بھی دیگر رپورٹس کی طرح بوگس ہیں -

کامران اکمل کا تمام الزامات سے بری ہو جانا:-
پاکستانی وکٹ کیپر کامران اکمل کو میچ فکسنگ کے الزامات سے سکاٹ لینڈ یارڈ نے دو دن کے بعد ہی بری کردیا تھا۔ کامران اکمل پر اِس لئے الزامات لگانے آسان تھے کیونکہ اُسکی خراب وکٹ کیپنگ کی وجہ سے پہلے ہی وہ اِس طرح کے کیس کا سامنا کر چکا تھا۔ کیونکہ جب پاکستان اِس سال کے شروع میں آسٹریلیا سے سڈنی ٹیسٹ ہارا تھا تو اُس شکست کی ساری ذمہ داری کامران اکمل پر ڈال دی گئی تھی۔ تو اِیک طرح سے وہ آسان شکار تھا۔ مگر لارڈز ٹیسٹ کہ اِس سارے ڈرامے میں نہ تو کامران اکمل کی کوئی ویڈیو بنائی گئی اور نہ ہی کوئی تصویر شائع کی گئ جس سے وہ ملزم ثابت کیا جاسکے۔

مظہر محمود عرف نقلی شیخ (خفیہ رپورٹر):-
اب بات کرتے ہیں خفیہ رپورٹر مظہر محمود کی جو کہ نقلی شیخ کے طور پر جانے جاتے ہیں اور اِس اسکینڈل کو منظرِ عام پر لانے کے ذمہ دار بھی ہیں۔ یہ رپورٹر برطانیہ میں سٹِنگ رپورٹنگ (خفیہ طریقوں سے خبریں نکالنا) کے ماسٹر جانے جاتے ہیں-

پاکستانی نژاد مظہر محمود کے والدین پیشہ ور صحافی تھے اور ساٹھ کی دہائی میں برطانیہ گئے۔ لیکن مظہر محمود کی شناخت برطانوی عوام کے لیے ہمیشہ ایک معمہ ہی رہی ہے۔ نیوز آف دی ورلڈ نے ان کے کنٹریکٹ میں ایک شق رکھی ہوئی ہے جس کے تحت ان کے معرکوں کے ساتھ محض ان کا نام شائع کیا جاتا ہے اور ان کی واضح شکل کی بجائے دھندلی تصویر ہی منظرِ عام پر لائی جاتی ہے۔

انیس سو ننانوے کے برطانوی پریس ایوارڈز میں مظہر محمود نے سال کے بہترین رپورٹر کا ایوارڈ جیتا لیکن انہوں نے یہ ایوارڈ بھی عربی روپ دھار کر اپنا چہرہ چھپاتے ہوئے وصول کیا۔ سن دو ہزار چھ میں برطانیہ کی ریسپیکٹ پارٹی نے پہلی مرتبہ اپنی ویب سائٹ پر مظہر محمود کی تصویر شائع کی کیونکہ پارٹی کے سربراہ جارج گیلووے نے دعویٰ کیا تھا کہ انہیں بھی نقلی شیخ نے جھانسہ دینے کی کوشش کی۔

مظہر محمود کے خفیہ طریقوں کو برطانیہ کے صحافتی حلقے اخلاقیات اور بعض دفعہ قانون کی خلاف ورزی قرار دیتے ہیں۔ ان کی طرف سے چند ایک سکوپ ایسے بھی تھے جن کی بنیاد پر شروع ہونے والے مقدمات کو برطانوی عدالتوں نے یہ کہتے ہوئے مسترد کر دیا کہ انہیں، معلومات کے حصول کے لیے گواہ کے طور پر پیش ہونے والے مخبروں کو دیے گئے پیسوں پر اعتراض تھا۔

دو سال قبل ایک نادر انٹرویو کے دوران، کیمرے کی طرف پیٹھ کر کے اپنے اصل حلیے میں بیٹھے ہوئے مظہر محمود عرف نقلی شیخ سے بی بی سی کی میزبان ایمِلی میٹلِس نے پوچھا کہ آپ پر الزام ہے کہ آپ بہلا پھسلا کر لوگوں کو غلط کام کرنے پر قائل کرتے ہیں؟

جواب میں نقلی شیخ نے سوال کیا: ’ایمِلی آپ ٹی وی کی سرِ فہرست میزبانوں میں سے ہو۔ کیا میں آپ کو قائل کر سکتا ہوں کہ آپ مجھے کوکین بیچیں یا مجھ سے خریدیں۔ اس کی وجہ کوئی بھی ہو، چاہے میں ایک عرب شیخ ہی کیوں نہ ہوں؟‘

یہ کیسا عجیب اتفاق ہے کہ میچ فکسر مظہر مجید اور برطانوی اخبار “ نیوز آف دی ورلڈ“ کے رپورٹر مظہر محمود دونوں کا پہلا نام ایک ہی ہے اور دونوں ہی پاکستانی نژاد بھی ہیں۔ لوگ اگر اِن دونوں کو نک نیم بھی دینا چاہیں تو وہ “ایم ایم“ ہی بنے گا۔

(نوٹ) میں نے یہ مضمون لکھنے کے لئے، بی بی سی اُردو اور روزنامہ جنگ میں شائع ہونے والی خبروں سے بھی مدد لی ہے۔ میں کوشش کرونگا کہ اپنے آئندہ کے مضمون میں اِس سارے ڈرامے کی وجوہات پر کچھ روشنی ڈال سکوں۔

قمراحمد
 

Fari

محفلین
شکر ہے کسی نے اس پہلو پہ بھی توجہ دی---ورنہ اب تک تو سب نے جی بھر کے دل کی بھڑاس نکالی ہے----
 

طالوت

محفلین
شکریہ قمر ، یہ اعتراضات تو اسی اخبار کے منہ پر اور خصوصا بھارتی میڈیا کے منہ پر دے مارنے کو جی چاہتا ہے ۔
بہرحال خبر سچی کہ جھوٹی ، کرکٹ کے بارے میں ، میں اپنی رائے پر قائم ہوں۔
وسلام
 

دوست

محفلین
دیکھیں جی بات جو بھی ہو۔ ادارے مضبوط ہونے چاہئیں ہم نے ہمیشہ یہی کہا ہے۔ اگر کوئی قصور وار ہے تو اسے قرار واقعی سزا ملنی چاہیے۔ اگر قصور وار ہےتو ورنہ یہ بکواسن نامہ بند ہونا چاہیے۔
 

شمشاد

لائبریرین
کاش کے قمر بھائی اٹھائے گئے نکات ہماری ٹیم کے بڑوں کے دماغ میں بھی آ جائیں۔
 
Top