ٹیکسٹ بک کا استبداد ۔ ڈاکٹر ساجد علی

فرخ منظور

لائبریرین
فرق ہونا بھی چاہیئے دونوں کا میدان عمل مختلف ہے۔

مگر یار لوگ اس بات کو کہاں سمجھتے ہیں۔ ہر نئے سائنسی انکشاف کی مذہب سے سند لا کر دکھاتے ہیں کہ دیکھیے یہ تو اتنے سو سال پہلے بتا دیا گیا تھا اور یہ رویہ تقریباً ہر مذہب کے ان لوگوں میں پایا جاتا ہے جو مذہب کی سائنسی تعبیرات ڈھونڈتے رہتے ہیں جبکہ یہ بات سمجھ لینا چاہیے کہ سائنس اور مذہب دونوں کا میدانِ عمل یکسر مختلف ہے۔
 

arifkarim

معطل
مگر یار لوگ اس بات کو کہاں سمجھتے ہیں۔ ہر نئے سائنسی انکشاف کی مذہب سے سند لا کر دکھاتے ہیں کہ دیکھیے یہ تو اتنے سو سال پہلے بتا دیا گیا تھا اور یہ رویہ تقریباً ہر مذہب کے ان لوگوں میں پایا جاتا ہے جو مذہب کی سائنسی تعبیرات ڈھونڈتے رہتے ہیں جبکہ یہ بات سمجھ لینا چاہیے کہ سائنس اور مذہب دونوں کا میدانِ عمل یکسر مختلف ہے۔
جی اصل نکتہ یہی ہے کہ مذہب منجمد عقائد جبکہ سائنس مسلسل بدلتے حقائق کا نام ہے۔ یوں مذہبی کتب کی ریویژن جبکہ سائنسی کتب کی ریویژن نہ ہونا کافی عجیب بات ہے
 

سید عاطف علی

لائبریرین
تو کیا ہم صاحب مضمون سے متفق ہیں کہ مذہبی علوم کے برعکس غیر مذہبی علوم میں ٹیکسٹ پر شدت ضروری نہیں۔ :)
کوئی ہو نہ ہو میں تو ہوں یقیناَ۔ البتہ ٹیکسٹ کے تعین کا تعلق تعلیمی سطح اور درجے سے بہت گہرا ہے۔
گریجویٹ اور اعلی سطح میں موضوعات کو کسی متعین ٹیکسٹ میں قید کر نا مستحسن نہیں ۔
 

محمد وارث

لائبریرین
سائنسی تحقیقات ہوتی رہتی ہیں، نئے نئے نظریے آئے روز متعارف ہوتے رہتے ہیں اور بہت تیزی سے متعارف ہوتے رہتے ہیں لہذا یہ ممکن نہیں ہے کہ ہر نئی تحقیق کو درسی کتابوں میں جگہ دی جائے، نہ تو یہ عملی طور پر ممکن ہے اور نہ ہی معاشی طور پر۔ درسی کتابیں کافی مہنگی بھی ہوتی ہیں، اور طالب علم ان کو ایک سے زیادہ سال استعمال کرتے ہیں اور ایک سے زیادہ طالب علم بھی ایک ہی کتاب کو استعمال کرتے ہیں، سو ہر درسی کتاب کی ہر روز نئی ترتیب و تدوین ممکن نہیں۔ مزید یہ کہ
ایک بارڈر لائن ایک احاطے کی طالب علموں کو بہرحال ضرورت رہتی ہے جو کہ درسی کتابیں مہیا کرتی ہیں۔

مضمون نگار کا سارا زور جس نکتے پر تھا اس کا سارا وزن درسی کتابوں پر ڈالنا مناسب نہیں، اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہمارا اساتذہ جامد ہیں، وہ گُل محمد ہیں، وہ لکیر کے فقیر ہیں، درسی کتاب سے آگے نہ وہ کچھ اپنے طالب علموں کو بتاتے ہیں نہ اُن میں جاننے کی خواہش پیدا کرتے ہیں۔ اگر ایک استاد اپنے اور متعلقہ مضمون یا مضامین میں نئی تحقیق سے واقف ہو تو درسی کتاب کا درس دیتے ہوئے وہ جہاں مناسب سمجھے اپنے طالب علموں کا بتا سکتا ہے کہ چند یا کئی سال پہلے یہ صورتحال تھی جو درسی کتاب میں ہے اور اب یہ صورتحال ہے وغیرہ۔ ایک استاد نہ صرف اس طرح بچوں کی فکر کو وسیع کر سکتا ہے بلکہ ان کو مجبور بھی کر سکتا ہے کہ وہ نئی بات پر بھی معلومات حاصل کریں، لیکن افسوس کم از کم یہاں، جس جگہ سے مضمون نگار کا تعلق ہے، ایسا نہیں ہے۔

ایک کتاب، اور خاص طور پر درسی کتاب، رہنما کے بغیر ادھوری ہے۔ اگر کتاب میں کوئی کمی، کوئی خامی ہے بھی، جو کہ اتنی محال اور دُور از قیاس بات نہیں، تو اس کمی کو استاد کو پورا کرنا چاہیے نہ کہ کتاب ہی کو جلا دینا چاہیے۔ اللہ اللہ :)
 

arifkarim

معطل
سائنسی تحقیقات ہوتی رہتی ہیں، نئے نئے نظریے آئے روز متعارف ہوتے رہتے ہیں اور بہت تیزی سے متعارف ہوتے رہتے ہیں لہذا یہ ممکن نہیں ہے کہ ہر نئی تحقیق کو درسی کتابوں میں جگہ دی جائے، نہ تو یہ عملی طور پر ممکن ہے اور نہ ہی معاشی طور پر۔
جنوبی کوریا اور کچھ دیگر ممالک نے اس مسئلہ کے حل کیلئے ای بکس پر کام شروع کر رکھا ہے۔ اس پائلٹ پراجیکٹ کے نتائج کچھ سال تک ہی معلوم ہوں گے۔
 

ربیع م

محفلین
میرے خیال میں مذہبی ٹیکسٹ میں نہ کوئی غلطی نکال سکتا ہے اور نہ ہی اس ٹیکسٹ کو علی الاعلان چیلنج کرنے کی ہمت کر سکتا ہے۔ مذہبی ٹیکسٹ میں اختلاف اس کی تعبیرات یا تفہیمات میں ہیں۔
مذہبی ٹیکسٹ سے یہاں آپ کیا مراد لیتے ہیں؟
 

ربیع م

محفلین
اگر تو یہاں مذہبی ٹیکسٹ سے قرآن اور حدیث مراد لیا جا رہا ہے، تو میرے خیال میں جو شخص قرآن کو انسانوں کے خالق کے احکامات اور حدیث کو خالق کائنات کے پیغمبر کی زبانی وحی تسلیم کرنے کا عقیدہ رکھتا ہے تو وہ اس کے متن میں کسی قسم کی غلطی برداشت نہیں کرے گا اور عقلی طور پر یہ بات قابل فہم بھی ہے۔
باقی تشریحات وتعبیرات میں بےشمار اختلافات اور آراء پائی جاتی ہیں اور اس پر کوئی خاص گرفت بھی نہیں کرتا!!!
 

arifkarim

معطل
اگر تو یہاں مذہبی ٹیکسٹ سے قرآن اور حدیث مراد لیا جا رہا ہے، تو میرے خیال میں جو شخص قرآن کو انسانوں کے خالق کے احکامات اور حدیث کو خالق کائنات کے پیغمبر کی زبانی وحی تسلیم کرنے کا عقیدہ رکھتا ہے
مغرب کی مذہبی تعلیم میں یہی فرق ہے کہ یہاں دین کی تعلیم عقائد کی بجائے علوم کی بنیاد پر دی جاتی ہے۔ میں نے ناروے کے پبلک سکولوں میں کالج تک مذہب کی مینڈیٹری تعلیم حاصل کی تھی۔مذہب کی درسی کتب میں تمام عالمی مذاہب کو یکساں مقام دیا گیا ہے۔ ان مذاہب کے مختلف فرقوں کو بھی عقائد کی بجائے انکے مابین بنیادی فرق سے متعلق پڑھایا جاتا ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے آپ کسی ملحد یا لادین کو مذہبی انسائیکلوپیڈیا پڑھا رہے ہوں۔ اس طرز تعلیم کا فائدہ یہ ہے کہ مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے بچے یا کسی بھی مذہب سے نہ تعلق رکھنے والے بھی بغیر کسی تنازع کے تمام عالمی مذاہب سے متعلق اچھی اور غیرجانبدارنہ جانکاری حاصل کر لیتے ہیں۔ نیز غیر ضروری مذہبی تبلیغ جسکا تعلق عقائد سے ہوتا سے بچ جاتے ہیں۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
اگر مذہب کی درسی کتب کا مقصد طلبا کو مذہب کی تبلیغ کرنا ہے تو اسکا کوئی فائدہ نہیں۔ ہاں مذہب کے بارہ میں عام معلومات فراہم کرنا ہے تو درست ہے۔
اگر گہری نظر سے دیکھا جائے تو تبلیغ کا اصلی معنی اور مقصد ہی در اصل معلومات فراہم کر نا ہی ہوتا ہے ۔ قبول کرنا نہ کرنا طالب علم یا مخاطب ہی کا کام ہے۔ زبردستی کے عنصر کی مذہب میں تائید نہیں،جب تک کہ ظلم و زیادتی نہ ہو۔
تبلیغ کا مسلم اصول ہے کہ ۔ وما علینا الا بلغ المبین۔اس کا مطلب ہے کہ "ہم پر محض واضح طور پر پہنچانا ہے"۔کاش ان باتوں کا خیال ہم سب رکھنا سیکھ جائیں۔
 

arifkarim

معطل
اگر گہری نظر سے دیکھا جائے تو تبلیغ کا اصلی معنی اور مقصد ہی در اصل معلومات فراہم کر نا ہی ہوتا ہے ۔ قبول کرنا نہ کرنا طالب علم یا مخاطب ہی کا کام ہے۔ زبردستی کے عنصر کی مذہب میں تائید نہیں،جب تک کہ ظلم و زیادتی نہ ہو۔
تبلیغ کا مسلم اصول ہے کہ ۔ وما علینا الا بلغ المبین۔اس کا مطلب ہے کہ "ہم پر محض واضح طور پر پہنچانا ہے"۔کاش ان باتوں کا خیال ہم سب رکھنا سیکھ جائیں۔
جی مگر تبلیغ کا ایک بڑا عنصر مذہبی پراپگنڈہ پر منحصر ہوتا ہے جس میں تنقید کا پہلو شامل حال نہیں ہوتا۔ ہم جب یہاں اسکولوں میں مذہب پڑھتے ہیں تو اسلامی چیپٹر میں تاریخ اسلام، اسلامی فرقے، مسلمانوں کی آبادی و کلچر وغیرہ پر زور ہوتا تھا۔ تاکہ طالب علموں کو مجموعی طور پر اسلام و مسلم کی سمجھ بوجھ ہو سکے۔ اسی طرح مسیحیت، یہودیت اور دیگر عالمی مذاہب کیساتھ یہ فارمولہ دہرایا جاتا ہے۔
کالج کے آخری سال کلاس میں اتفاقاً روس کا ایک تارکین وطن یہودی اورپولینڈ کی ایک تارکین وطن کیتھولک مسیحی بھی موجود تھی۔ یوں جب ان مذاہب کی تعلیم کلاس میں دی جاتی تو بعض مقامات پر یہ دونوں شور مچاتے جس پر کلاس میں ٹیچر کی اجازت سے تھوڑی بہت مذہبی ڈبیٹ بھی ہو جاتی۔ مگر اسکا مقصد کسی ایک مذہب کو نیچا یا بڑا دکھانا نہیں بلکہ اسکی معلومات سے متعلق ابہام کو دور کرنا ہوتا تھا۔ میرے خیال میں اگر مذہب کی درسی کتب کو ایک سیکولر یا لادین کے زاویے سے ترتیب دیا جائے تو تبلیغ کے بغیر مذہب سے متعلق معلومات کا ایک خزانہ جمع کیا جا سکتا ہے۔ جسے مختلف مذاہب یا کوئی بھی مذہب نہ رکھنے والے بغیر کسی اعتراض کے پڑھ سکیں گے۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
اگر تو یہاں مذہبی ٹیکسٹ سے قرآن اور حدیث مراد لیا جا رہا ہے، تو میرے خیال میں جو شخص قرآن کو انسانوں کے خالق کے احکامات اور حدیث کو خالق کائنات کے پیغمبر کی زبانی وحی تسلیم کرنے کا عقیدہ رکھتا ہے تو وہ اس کے متن میں کسی قسم کی غلطی برداشت نہیں کرے گا اور عقلی طور پر یہ بات قابل فہم بھی ہے۔
باقی تشریحات وتعبیرات میں بےشمار اختلافات اور آراء پائی جاتی ہیں اور اس پر کوئی خاص گرفت بھی نہیں کرتا!!!

اگر کوئی خاص گرفت نہیں کرتا تو ایک دوسرے کو کافر کیسے قرار دیتے ہیں؟
 

ربیع م

محفلین
اگر کوئی خاص گرفت نہیں کرتا تو ایک دوسرے کو کافر کیسے قرار دیتے ہیں؟
تکفیر کے مسئلہ کی بہت سی مبادیات سے شاید آپ واقف نہیں ہیں!!
بہرحال یہ ایک الگ اور تفصیلی موضوع ہے اور یہ۔جگہ اس کی متحمل نہیں ہو سکتی۔
بات اختلاف رائے کی ہو رہی ہے اور اس پر ایک مسئلہ پر علماء کی۔مختلف آراء ہیں جن کا احترام کیا جاتا ہے۔
 

ربیع م

محفلین
میں یہاں آپ کو ایک ہزار مسائل دکھا سکتا ہوں جس میں مختلف کبار علماء کی آراء مختلف ہیں لیکن اس کو قبول کیا جاتا ہے ۔
جبکہ آپ مجھے ایسے 100 مسائل دکھا دیجئے جن میں اختلاف کی بناء پر کبار علماء نے تکفیر کی ہو؟
 

arifkarim

معطل
بات اختلاف رائے کی ہو رہی ہے اور اس پر ایک مسئلہ پر علماء کی۔مختلف آراء ہیں جن کا احترام کیا جاتا ہے۔
علما کی مذہب سے متعلق مختلف آرا کو مذہبی نصاب یا درسی کتب کا حصہ نہیں بنایا جا سکتا ہے۔ یہ اختلافی مسائل ہیں اور انکا مذہب کی تعلیم سے کوئی تعلق نہیں۔ اگر کسی مذہب کے اندر مختلف فرقوں یا مکاتب الفکر سے متعلق تعلیم دینا مقصود ہے تو وہ اختلافی مسائل کو شامل کئے بغیر دینی چاہئے۔ یاد رہے کہ تعلیم کا مقصد حصول علم ، حصول تنازعات نہیں۔
 

ربیع م

محفلین
علما کی مذہب سے متعلق مختلف آرا کو مذہبی نصاب یا درسی کتب کا حصہ نہیں بنایا جا سکتا ہے۔ یہ اختلافی مسائل ہیں اور انکا مذہب کی تعلیم سے کوئی تعلق نہیں۔ اگر کسی مذہب کے اندر مختلف فرقوں یا مکاتب الفکر سے متعلق تعلیم دینا مقصود ہے تو وہ اختلافی مسائل کو شامل کئے بغیر دینی چاہئے۔ یاد رہے کہ تعلیم کا مقصد حصول علم ، حصول تنازعات نہیں۔
مطلب آپ ایسی ٹیکسٹ بک کی تائید کر رہے ہیں جو اختلافی آراء سے خالی ہو؟
 

فرخ منظور

لائبریرین
تکفیر کے مسئلہ کی بہت سی مبادیات سے شاید آپ واقف نہیں ہیں!!
بہرحال یہ ایک الگ اور تفصیلی موضوع ہے اور یہ۔جگہ اس کی متحمل نہیں ہو سکتی۔
بات اختلاف رائے کی ہو رہی ہے اور اس پر ایک مسئلہ پر علماء کی۔مختلف آراء ہیں جن کا احترام کیا جاتا ہے۔

ہو سکے تو تکفیر کی مبادیات پر ایک لڑی شروع کیجیے تاکہ ہم جیسے جہلا کو بھی پتا چل سکے۔
 
Top