ٹیپ بال کرکٹ: کراچی کے منچلوں کی ایجاد

جاسم محمد

محفلین
ٹیپ بال کرکٹ: کراچی کے منچلوں کی ایجاد
یہ ایسے بلے باز تھے جنہیں سکوائر کٹ یا کور ڈرائیو کا تو نہیں پتہ تھا لیکن باؤنڈری کا پتہ ہوتا تھا جو کبھی کریم آباد کا مکہ چوک ہوتا اور کبھی لکی سٹار صدر کا بس سٹاپ۔ اصول یہ تھا کہ بس شاٹ ایسے لگانا ہے کہ گیند اُس پار گرے۔
سید حیدر کرکٹ تجزیہ کار، جرمنی SyedHaider512@
منگل 17 مارچ 2020 19:45

75286-1639331285.jpeg

جب کراچی کے کچھ منچلوں نے ٹینس بال پر ٹیپ لپیٹ کر تنگ گلیوں میں کھیلنا شروع کیا تو پھر تو جیسے ایک سیلاب سا آگیا۔ (تصویر: کھیل شیل ڈاٹ کام)

کرکٹ پاکستان کا ہردلعزیز کھیل ہے جسے گلی گلی اپنے انداز میں کھیلا جاتا ہے۔ انگلینڈ سے درآمد ہونے والا یہ کھیل اپنے سازوسامان اور انداز سے امیروں کا کھیل تھا اور متحدہ ہندوستان سے لے کر 70 کی دہائی تک صرف امیر یا اَپر مڈل گھرانے کے نوجوان ہی اسے کھیلا کرتے تھے لیکن جب کراچی کے کچھ منچلوں نے ٹینس بال پر ٹیپ لپیٹ کر تنگ گلیوں میں کھیلنا شروع کیا تو پھر تو جیسے ایک سیلاب سا آگیا۔ سستے سے کرکٹ بیٹ اور ایک ٹینس بال نے کرکٹ کا خرچہ چند روپوں کا کردیا جو اس سے قبل ہزاروں کی بات تھی۔

شروع میں تو یہ تفریح تھی، پھر اس کے مقابلے شروع ہوگئے ۔ رمضان کی راتوں میں کراچی کی ہر گلی نائٹ ٹورنامنٹ کا میدان بن جاتی تھی، جہاں تراویح کے ختم ہوتے ہی بڑے بڑے بلب روشن ہوجاتے، ٹیمیں بنا کسی کرکٹ کے سامان کے سڑکوں کو پچ بنا کر میدان میں اتر آتیں اور فجر کی اذان تک کرکٹ کا شور مچا رہتا۔

یہ ایک ایسی تفریح تھی جس میں نوجوانوں کے ساتھ بڑے بوڑھے بھی شریک ہوتے، جو سڑکوں کے کنارے یا دکانوں کے تھڑوں پر بیٹھ جاتے اور کرکٹ کا مزہ لیتے۔

چائے کے دلدادہ بھگونے بھر بھر کر گھروں سے چائے بنا لاتے اور سستے سے چینی کے کپ میں تھوڑی تھوڑی چائے تقسیم ہوتی ۔کچھ لوگ اپنے گھر سے بچی ہوئی افطاری کے پکوڑے اور سموسے بھی لے آتے۔ ایک طرف گرم گرم چائے اور پکوڑے کے مزے لیے جاتے تو دوسری طرف لنڈے کے ٹریک سوٹ یا صرف پاجامے پہنے گلی کے لڑکے چھکوں کی برسات کر رہے ہوتے۔ جو جتنے اونچے شاٹ کھیلتا اس کا نام بھی اسی مناسبت سے پڑ جاتا کسی کا لمبو، کوئی چھکے ماسٹر تو کسی کو تیز گام کہہ کر بلایا جاتا۔

یہ ایسے بلے باز تھے جنہیں سکوائر کٹ یا کور ڈرائیو کا تو نہیں پتہ تھا لیکن باؤنڈری کا پتہ ہوتا تھا جو کبھی کریم آباد کا مکہ چوک ہوتا اور کہیں لکی سٹار صدر کا بس سٹاپ۔ اصول یہ تھا کہ بس شاٹ ایسے لگانا ہے کہ گیند اُس پار گرے۔

ان نائٹ ٹورنامنٹس کا ایک حسن یہ ہوتا تھا کہ نہاری اور پٹھان کے ہوٹل کے پراٹھے سحری کے لوازمات ہوا کرتے تھے، جسے کھانے کے لیے پورا دن پروگرام بنا کرتے تھے۔ سحری کا انتظام بھی اکثر محلے کے ان دکانداروں کی طرف سے ہوتا جو دن بھر مہنگے داموں اشیا فروخت کرتے اور رات میں سخی بن جاتے ۔ آخر نیکی کمانے کا موقع کیوں جانے دیتے !

تنگ گلیوں میں چونکہ صرف سٹریٹ ڈرائیو کی سہولت تھی اس لیے سیدھے بیٹ سے کھیلنے والے یہ بڑے مہان بلے باز ہوا کرتے۔ فل پچ بال تو خیر جاتی ہی باہر تھی لیکن شارٹ پچ اور فنگر سپن کو بھی کمال کے بولر بیک ڈرائیو کرتے۔

ان نائٹ ٹورنامنٹس کی اتنی شہرت ہوگئی کہ دو نمبر کے کاروباری تو کیری پیکر بن گئے۔ کیری پیکر آسٹریلیا کے چینل 9 کے مالک تھے، جنہوں نے سب سے پہلے انٹرنیشنل کھلاڑیوں کو بکاؤ مال بنا دیا ۔

ان نائٹ ٹورنامنٹس میں کھلاڑی بھی خریدے جانے لگے، میچوں میں فتح حاصل کرنے کے لیے کھلاڑی ڈھونڈے جانے لگے اور بولیاں لگنے لگیں، لوگ ڈھونڈ ڈھونڈ کر کھلاڑی لاتے اور ٹیم اونر کو بیچتے، جس سے کھلاڑیوں کے ساتھ پروموٹرز کا کاروبار بھی چمک گیا۔

جس کے بعد ان نائٹ ٹورنامنٹس میں مقابلے بازی اس قدر بڑھ گئی کہ بڑے بزنس مین بھی شامل ہونے لگے ۔ایک پی ایس ایل فرنچائز کی شروعات تو ہوئی ہی نائٹ کرکٹ ٹورنامنٹ سے تھی۔

اس طرح ٹیپ بال کرکٹ نے نہ صرف تفریح دی بلکہ کھلاڑیوں کی آمدنی کا ذریعہ بھی بن گئی۔

ac17-May-Tape-Ball-Cricket-03.jpg

لاہور کے والٹن روڈ پر نوجوان ٹیپ بال سے کرکٹ کھیلتے ہوئے (تصویر: عثمان یٰسین)

اگرچہ ٹیپ بال کرکٹ پورے ملک میں ہوتی ہے اور خود نمائی کے خواہشمند ٹیم اونرز اچھے کھلاڑیوں کو لاکھوں روپے معاوضہ دیتے ہیں، لیکن کراچی آج بھی سب سے آگے ہے شاید اس کی وجہ نت نئے انداز اور بہتر آرگنائز ہے۔

ٹیپ بال کرکٹ نے قومی ٹیم کو بھی کھلاڑی فراہم کیے ہیں۔ شاہد آفریدی، سرفراز احمد، اسد شفیق، خرم منظور، رومان رئیس، محمد سمیع، امیر حمزہ، انور علی، سہیل خان، شرجیل خان اور متعدد ایسے کھلاڑی ہیں جو کراچی کی ٹیپ بال کرکٹ کی پیداوار ہیں۔

ان کھلاڑیوں نے وسائل نہ ہونے کے باعث کسی اکیڈمی یا ایچی سن کالج سے نہیں بلکہ کراچی میں ناظم آباد، فیڈرل بی ایریا اور صدر کے علاقوں سے اپنی ٹیپ بال کرکٹ شروع کی اور ایک دن اپنی صلاحیتوں کی بنا پر محنت کرکے قومی ٹیم تک پہنچ گئے۔

ٹیپ بال آج بھی ایک انتہائی پرکشش اور مقابلے سے بھرپور کرکٹ ہے اور بہت سے بڑے کرکٹر اب بھی اس میں حصہ لیتے ہیں ۔

پاکستان سپر لیگ میں بڑے بڑے چھکے لگانے والے زیادہ تر کھلاڑی وہی ہیں جنہوں نے اپنی کلائیوں کو ٹیپ بال کرکٹ سے ہی مضبوط بنایا ہے، اسی لیے جب ان کا بلا سفید ہارڈ بال پر گھومتا ہے تو گیند سٹیڈیم میں باؤنڈری کا سفر ایسے ہی طے کرتی ہے جیسے نارتھ ناظم آباد کی کسی سڑک پر۔
 

جاسم محمد

محفلین
بچپن میں ٹیپ بال سے کافی کھیلا ہے۔ اس کا کمال یہ ہے کہ بغیر ہیلمٹ اور دیگر حفاظتی سامان کے بچے کیابڑے سب ہی ایک اچھی کرکٹ گیم انجوائے کر سکتے ہیں۔
افسوس کے ساتھ یہاں مغرب میں پاکستانی ٹیپ بال کی ایجاد کو کوئی نہیں جانتا۔ اس کی جگہ قدرے سخت قسم کی پلاسٹک بال استعمال ہوتی ہے۔
 

یاقوت

محفلین
بچپن میں ٹیپ بال سے کافی کھیلا ہے۔ اس کا کمال یہ ہے کہ بغیر ہیلمٹ اور دیگر حفاظتی سامان کے بچے کیابڑے سب ہی ایک اچھی کرکٹ گیم انجوائے کر سکتے ہیں۔
جی بجا فرمایا آپ نے لیکن اگر رفتار میں یہ بھی لگے تو اپنا آپ منوا کر ہی دم لیتی ہے لیکن اسکی شدت بہت دیگر بالوں کی نسبت کافی کم ہوتی ہے۔
 
جی بجا فرمایا آپ نے لیکن اگر رفتار میں یہ بھی لگے تو اپنا آپ منوا کر ہی دم لیتی ہے لیکن اسکی شدت بہت دیگر بالوں کی نسبت کافی کم ہوتی ہے۔
ایک دفعہ ناک پر بیمر کھا چکا ہوں۔ کچھ دیر تک تو کچھ سمجھ ہی نہیں آ رہا تھا کہ ہو کیا رہا ہے۔
 
Top