ٹھیکیدار

موٹر وے پر پچھلے کئی گھنٹوں سے ٹریفک جام تھا، کسی کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ آخر آگے کیا ہو رہا ہے، کچھ لوگ کہ رہے تھے کہ آگے احتجاج ہو رہا ہے ، وہ بھی بیزاری کے عالم میں اپنی گاڑی میں بیٹھا ہوا تھا، اسلام آباد سے واپس گھر کو جا رہا تھا لاہور، اچانک کسی جانب سے بہت سے لوگ منہ پر ماسک لگائے اور ہاتھوں میں ڈنڈے پکڑے نمودار ہوئے، اور گاڑیوں پر ڈنڈے برسانے شروع کر دیئے ، ہر طرف چیخ و پکار شروع ہو گئی ، کسی کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ یہ کون ہیں اور یہ سب کیوں کر رہے ہیں کوئی انکو روکنے والا نہ تھا ، وہ ڈنڈے برسا رہے تھے اور ساتھ میں نعرے لگا رہے تھے ، چند ڈنڈا بردار اسکی گاڑی کی جانب بھی بڑھے اور ڈنڈے مارنے شروع کر دئے ، گاڑی کا کانچ ٹوٹا اور شیشے اسکے چہرے کو چیرتے ہوئے نکل گئے، اسنے بمشکل تمام خود کو سنبھالا اور گاڑی سے باہر نکلا ، اسے کچھ سمجھ نہ آیا کہ آخر یہ کیوں ہو رہا ہے، لوگ گاڑیوں کو توڑ رہے تھے نعرے لگا رہے تھے ، کئی گاڑیوں کو آگ لگائی جا رہی تھی، اچانک کسی نے پیچھے سے آکر اسکے سر پر ایک ڈنڈا رسید کر دیا ، وہ چکرا کر زمین پر گرا اور پھر اسے ہوش نہ رہی.

قاری ذاکر ، آج تین دن بعد گھر کو لوٹا تھا، پچھلے تین دن سے وہ اسلام آباد کی سڑکوں پر پولیس کے ساتھ آنکھ مچولی کھیل رہا تھا، اس دوران اس نے کئی گاڑیوں کو توڑا اور جلایا تھا، خود بھی مار کھائی تھی اور کئی لوگوں کو خود بھی مارا تھا ، لیکن اسے کوئی افسوس نہ تھا بلکہ وہ خوش تھا آخر کو یہ دین کا معاملہ تھا، اسنے جو کچھ کیا تھا رب کی خوشنودی کے لئے کیا تھا ، وہ جیسے ہے گھر میں داخل ہوا بیوی نے دروازے پر ہی سوالات کی بوچھاڑ کردی ، اسنے تنگ آکر کہا، ابھی آیا ہوں سانس تو لینے دے ، جا جا کر کچھ کھا نے کو لے کے آ، میں تب تک نہا کے آتا ہوں، اسکی بیوی نے تڑخ کے کہا، کہاں سے لے کر آؤں، کچھ چھوڑ کر گئے تھے کیا کچھ نہیں ہے کھا نے کو ، بچوں کی سکول کی فیس دینی ہے ، اور ہاں آسیہ (اسکی بڑی بیٹی ) کے سسرال والے آئے تھے ، جہیز کا مطالبہ کر رہے تھے ، اگر پورا نہ کیا تو رشتہ توڑ دیں گے، باہر ڈنڈے برسانے والا قاری گھر میں بیوی کے آگے بھیکی بلی بنا ہوا تھا ، اسنے تنگ آکر کہا اچھا کچھ کرتا ہوں ، چائے تو پلادے . اتنے میں دروازہ بجا اور کسی نے اسکا نام پکارا، قاری نے بھی موقع غنیمت جانا اور جواب دینے باہر نکل گیا ، کچھ دیر میں وہ واپس آیا تو جوش اور خوشی سے اسکا چہرہ تمتما رہا تھا ، اسنے اپنی بیوی سے کہا نیک بخت الله نے سن لی ہماری، سمجھ لے پیسوں کا انتظام ہو گیا ہے، اپنے شیخ صاحب کے بیٹے کو کسی نے قتل کردیا ہے ، اسکو غسل دینے کے لئے مجھے بلایا ہے، اب میں شیخ صاحب سے بات کروں گا وہ ضرور میری مدد کریں گے.

جوان بیٹے کو دفنانے کے بعد شیخ صاحب قبرستان میں پھوٹ پھوٹ کر رو دئے تھے، لوگ انکو تسلی دے رہی تھے مگر انکا دکھ اتنا بڑا تھا کہ تسلی کے لفظ اسکو نہیں کم کرسکتے تھے ، کسی نے پوچھا آخر ہوا کیا تھا، تو بتایا کہ احتجاج کرنے والوں میں سے کسی نے سر پر ڈنڈا دے مارا تھا، کسی نے تاسف سے کہا جوان بیٹے کی موت کا صدمہ ہے شیخ صاحب کی تو کمر ہی ٹوٹ گئی ، ادھر قاری ذاکر موقع دیکھ کر شیخ صاحب کے نزدیک آ پہنچا اور نہایت ہمدردی سے انکے کندھے پر ہاتھ رکھ کر بولا، شیخ صاحب الله پاک مرحوم کو جوار رحمت میں جگہ دے اور آپ کو صبر جمیل عطا کرے ، شیخ صاحب ہچکوں سے روتے ہوئے بولے ، بس جی قاری صاحب آپ نیک آدمی ہیں آپ دعا کریں ، میری تو کل پونجی ہی لٹ گئی، الله غارت کرے ان لوگوں کو جو دوسروں کے جان مال کو بے دریغ روندتے ہیں ، اللہ برباد کرے انکو، قاری صاحب کے چہرے پر ندامت کا ہلکا سا تاثر ابھرا مگر پرانے کھلاڑی تھے اسلئے خود کو سنبھال کر بولے ، الله پاک سب کو عقل عطا فرمائے، وہ آپسے ایک گزارش تھی، کہ آجکل ہاتھ بڑا تنگ ہے، بچی کی شادی سر پر ہے ، اگر آپ ہم غریبوں کی کچھ امداد کردیں تو اللہ آپ کو اجر دے گا ، ہم دعا کریں گے تو اللہ مرحوم کے ساتھ آسانی فرمائے گا .شیخ صاحب نے آنسو پونچھ کر کہا ،

شکل ویکھی ہے اپنی ، امداد کردو ، شیخوں سے پیسے مانگتا ہے تجھے شرم نہیں آتی ، ایک تو میرا بیٹا مر گیا اوپر سے تجھے پیسے بھی دوں، آدھے محلے سے پیسے لے کر کھا گیا ہے تو، منہ دیکھ اپنا قرضے مانگ مانگ کے نواز شریف جیسا ہو گیا ہے، بڑا آیا پیسے دے دو چل نکل یہاں س
 

فرقان احمد

محفلین
قریب قریب ہر دوسرے تیسرے مراسلے میں نواز شریف صاحب کو لانا ثابت کرتا ہے کہ انصافیوں کے سر پر میاں صاحب بے طرح سوار ہیں۔ شریف برادران کو اسی طرح کے قدردانوں نے ہی قصہء پارینہ نہیں بننے دیا ہے اور شاید بننے بھی نہ دیں گے۔ کہانی آخر میں آ کر پھڑپھڑائی اور اپنے فطری انجام کا شکار ہوئی۔
 
قریب قریب ہر دوسرے تیسرے مراسلے میں نواز شریف صاحب کو لانا ثابت کرتا ہے کہ انصافیوں کے سر پر میاں صاحب بے طرح سوار ہیں۔ شریف برادران کو اسی طرح کے قدردانوں نے ہی قصہء پارینہ نہیں بننے دیا ہے اور شاید بننے بھی نہ دیں گے۔ کہانی آخر میں آ کر پھڑپھڑائی اور اپنے فطری انجام کا شکار ہوئی۔

شاہد صاحب کے پاس اردو کی بورڈ کی کمی ہے ، اس لیے انہوں نے کچھ لڑیوں کے جواب رومن اردو میں لکھے ہیں
 
آپ حضرات کی آرا کا شکریہ، امید ہے آیندہ بھی رہنمائی اور حوصلہ افزائی کریں گے، کوشش کروں گا کہ تحریر میں جو کمی بیشی ہے اسے مزید بہتر کر سکوں، اور جی ہاں یہ کاپی پیسٹ ہے میرے فیس بک پیج سے جہاں میں عموما لکھتا ہوں، کی بورڈ بھی مفتود ہے، اس سلسلے میں کوئی رہنمائی فرما دیں ، شکریہ.
 
Top