رئیس امروہوی يہ کیسا گيت ہے اے نے نوازِ عالمِ ہُو - رئیس امروہوی

يہ کیسا گيت ہے اے نے نوازِ عالمِ ہُو
کہ نَے سے راگ کے بدلے ٹپک رہا ہے لہو

بہارِِ صبح کے نغمہ گروں کو کيا معلوم
گزر گيا گل و ریحاں پہ کيا عذابِ نمو

اگر نقاب اُلٹ دے تو کيا قيامت ہو
وہ جانِ گل کہ کبھی رنگ ہے کبھی خوشبو

مئے نشاط انڈيلی تھی ميں نے ساغر ميں
کہاں سے آئی يہ زہرِ غمِ حيات کی بُو

ہوائے صبح نہ جانے کہاں سے آئی ہے
مچل رہی ہے فضا ميں اک اجنبی خوشبو

جہاں جو وجد ميں آتا ہے نعرۂ ہُو سے
عجب نہيں کہ جہاں ہو خود ايک نعرۂ ہُو

ميں ايک قطرہ لہو سے اميد کيا رکھوں
يہ کائنات ہے کيا صرف ايک قطرہ لہو

تمہيں شکستہ دلوں کا خيال ہی تو نہيں
خيال ہو تو کرم کے ہزار ہا پہلو

کسی کی بات ميں تيرے سکوت ميں اعجاز
کسی کے لطف ميں تيرے گريز ميں جادو

سزائے ہجر لرزتا ہے جس سے قلبِ حيات
مجھے قبول بشرطيکہ اس کا اجر ہو تُو

متاعِ غم ہے کسی کو بہت عزيز اے دل
بہ احتياطِ محبت ميں صرف کر آنسو

بہت خجل ہوں تری آستينِ لطف سے ميں
کہ جوشِ غم تو وہی ہے مگر کہاں آنسو

شگفتگی کو ٹٹولا فسردگی پائی
مسرتوں کو نچوڑا ٹپک پڑے آنسو

يہ حادثاتِ شب و روز بے سبب تو نہيں
بدل رہا ہے کوئی خوابِ ناز سے پہلو
رئیس امروہوی
 
آخری تدوین:
Top