وی آر جسٹ فرینڈز

نوید اکرم

محفلین
(1) وی آر جسٹ فرینڈز

چھیڑ خانی کر رہے ہیں کب سے باہم مرد و زن
سر سے لے کر پاؤں تک کوئی جگہ چھوڑی نہیں

کوئی کچھ کہہ دے تو کہتے ہیں تُو دقیانوس ہے
ہم تو بس ہیں دوست اور اس کے سوا کچھ بھی نہیں

(2)
جنم جس کا ہوا ہے ٹیڑھی پسلی سے وہ ٹیڑھی ہے
دکھائے گی وہ کج خُلقی کرو کتنی ہی فہمائش

یہ کہتے پھر رہے ہیں چند اعلیٰ خُلق کے حامل
ذَکَر کے گندے قطرے سے ہوئی ہے جن کی پیدائش
 

الف عین

لائبریرین
پہلا قطعہ تو درست ہے، اگرچہ اس میں بھی ابتذال ہے، لیکن دوسرے میں کچھ زیادہ ہی ابتذال ہو گیا ہے۔ جسے قبول نہیں کیا جا سکتا۔
 

نوید اکرم

محفلین
پہلا قطعہ تو درست ہے، اگرچہ اس میں بھی ابتذال ہے، لیکن دوسرے میں کچھ زیادہ ہی ابتذال ہو گیا ہے۔ جسے قبول نہیں کیا جا سکتا۔
مرد کی منی سے انسان کی پیدائش ہوتی ہے۔ یہ ایک حقیقت ہےاور اگر میں غلط نہیں ہوں تو قرآن پاک میں بھی انسان کے تخلیقی مراحل کو بیان کیا گیا ہے۔ ایسے میں کسی حد تک ابتذال کا پایا جانا تو سمجھ آتا ہے کہ بعض لوگ ایسی باتوں کا ذکر اچھا نہیں سمجھتے، لیکن نا قابل قبول حد تک ابتذال کا پایا جانامیری سمجھ سےباہر ہے۔
اگر اس حقیقت کو بیان کرنے کیلئے الفاظ کا چناؤ کچھ غلط ہے تو براہ مہربانی اس سلسلے میں تھوڑی رہنمائی فرما دیں کہ میرے ذہن میں اس سے زیادہ شائستہ الفاظ نہیں آ رہے۔
 

الف عین

لائبریرین
ویسے تو قرآن مجید میں بھی انہیں الفاظ سے حقیقت بیان کی گئی ہے، لیکن شاعری میں اس خیال کوشائستہ نہیں سمجھا جاتا۔
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
مرد کی منی سے انسان کی پیدائش ہوتی ہے۔ یہ ایک حقیقت ہےاور اگر میں غلط نہیں ہوں تو قرآن پاک میں بھی انسان کے تخلیقی مراحل کو بیان کیا گیا ہے۔ ایسے میں کسی حد تک ابتذال کا پایا جانا تو سمجھ آتا ہے کہ بعض لوگ ایسی باتوں کا ذکر اچھا نہیں سمجھتے، لیکن نا قابل قبول حد تک ابتذال کا پایا جانامیری سمجھ سےباہر ہے۔
اگر اس حقیقت کو بیان کرنے کیلئے الفاظ کا چناؤ کچھ غلط ہے تو براہ مہربانی اس سلسلے میں تھوڑی رہنمائی فرما دیں کہ میرے ذہن میں اس سے زیادہ شائستہ الفاظ نہیں آ رہے۔
قرآن کا شاعری سے تقابل نہیں کیا جاسکتا۔ وہ اسلامی احکامات اور خدائی فرمودات کی کتاب ہے جس میں زبان و بیان شاعری اور نثر دونوں سے بلند ہے۔ اس میں ہر بات کو کھول کر بیان کرنا اللہ کی مرضی ہے، اس پر تنقید نہیں کی جاسکتی۔
جائز یا ناجائز کا فیصلہ خدا کے حکم کے تحت ہوسکتا ہے۔ جیسے ہم انسان غرور کریں تو ناجائز اور اس کے لیے متکبر کی صفت لازم و ملزوم ہے کیونکہ وہ ایک مکمل ذات اور ہر ایک سے بالاتر ہستی ہے۔ وہ خالق ہے اور ہم مخلوق ہیں۔اس لیے دونوں کا آپس میں تقابل نہیں ہوسکتا۔
سو قرآن کو تو اس بحث سے الگ کردیجئے۔ اب ابتذال کا کسی حد تک یا ناقابل قبول حد تک ہونا رہ جاتا ہے۔ اس پر بحث ممکن ہے۔ الفاظ کا چناؤ نہیں، بلکہ آپ یہ دیکھئے کہ آپ کا مقصد کیا ہے۔ بعض لوگ نہیں بلکہ شاعری کے اعتبار سے دیکھئے تو تقریباً سب ہی لوگ، بلکہ ایسے لوگ بھی جنہیں شاعری کی الف بے تک نہیں معلوم، وہ آپ کی شاعری سے ذہنی طور پر پریشان ہوسکتے ہیں۔
ویسے تو قرآن مجید میں بھی انہیں الفاظ سے حقیقت بیان کی گئی ہے، لیکن شاعری میں اس خیال کوشائستہ نہیں سمجھا جاتا۔
یہاں میں کسی قدر اختلاف رکھتا ہوں۔ شاعری کی بجائے اگر آپ نثر میں بھی یہی الفاظ استعمال کردیں اور کسی اخبار میں اشاعت کے لیے روانہ کریں تو شائع نہ کیا جائے گا۔ اور اگر کسی کتاب میں شائع کریں تو اس پر یہ لکھنا بہتر ہوگا کہ صرف شادی شدہ افراد پڑھیں اور اگر مغرب میں ہے تو "برائے بالغ افراد" کا لیبل لگایا جائے گا۔
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
عورت ٹیڑھی پسلی سے پیدا ہوئی ہے، یہ حدیث بعض لوگوں کے نزدیک ناقابل اعتبار یامن گھڑت ہے۔ (تحقیق طلب)۔
مرد کا عیب بیان کرنا مقصود ہے تو وہاں ٹیڑھی پسلی لکھا ہے، یہاں مزید دس حقائق ہیں جو آپ بیان کرسکتے ہیں۔ ویسے بھی تخلیق کا جو عیب آپ بیان کر رہے ہیں، وہ تو عورت میں بھی پایا جاتا ہے۔ کوئی اور مثال دیجئے۔
مثلا مرد نے خدائی کا دعوی کیا۔ عورت نے کبھی نہ کیا۔
جھوٹی نبیہ تاریخ میں ایک ہی گزری ہے۔ جھوٹے نبی بہت آئے۔
انسانی تاریخ کا سب سے پہلا قتل مرد نے کیا۔
اس کے علاوہ تاریخ اور اسلام میں بہت سی باتیں ہیں جنہیں بطور مثال پیش کیا جاسکتا ہے۔
 

نوید اکرم

محفلین
ہاں میں کسی قدر اختلاف رکھتا ہوں۔ شاعری کی بجائے اگر آپ نثر میں بھی یہی الفاظ استعمال کردیں اور کسی اخبار میں اشاعت کے لیے روانہ کریں تو شائع نہ کیا جائے گا۔ اور اگر کسی کتاب میں شائع کریں تو اس پر یہ لکھنا بہتر ہوگا کہ صرف شادی شدہ افراد پڑھیں اور اگر مغرب میں ہے تو "برائے بالغ افراد" کا لیبل لگایا جائے گا۔
ممتاز مفتی کی کتاب "تلاش" میں بھی تقریبآ اسی قسم کے الفاظ کا استعمال کیا گیا ہے اور اگر میری یادداشت غلط نہیں ہے تو ایک جگہ نہیں بلکہ دو جگہ اس قسم کے الفاظ کا استعمال کیا گیا ہے۔ یہ کتاب ان کے آرٹیکلز ، مضامین پر مشتمل ہے جو کسی رسالے میں چھپتے رہے ہیں۔
اور میری رائے میں اس میں ایسی کوئی بات نہیں ہے کہ اس پر "صرف شادی شدہ افراد" پڑھیں کا لیبل لگانا پڑ جائے۔ وہ لوگ جن کی زبان عربی ہے وہ نو، دس سال کی عمر میں ہی قرآن کو پڑھنا جان جاتے ہیں اور قرآن کی دوسری ہی سورت میں ہمبستری اور حیض وغیرہ سے متعلق احکامات آ جاتے ہیں۔ اس عمر میں ان کی نہ تو شادی ہوئی ہوتی ہے اور نہ ہی وہ بالغ ہوئے ہوتے ہیں۔ اور اگر میں آپ کی بات مان کر قرآن کا حوالہ نہ بھی دوں تو ذرا سائنس کو ہی دیکھ لیں۔ جو لوگ میٹرک اور انٹر میڈیٹ میں بیالوجی پڑھتے ہیں یا جو لوگایم بی بی ایس کرتے ہیں ، کیا وہ لوگ شادی شدہ ہوتے ہیں؟
الفاظ کا چناؤ نہیں، بلکہ آپ یہ دیکھئے کہ آپ کا مقصد کیا ہے۔ بعض لوگ نہیں بلکہ شاعری کے اعتبار سے دیکھئے تو تقریباً سب ہی لوگ، بلکہ ایسے لوگ بھی جنہیں شاعری کی الف بے تک نہیں معلوم، وہ آپ کی شاعری سے ذہنی طور پر پریشان ہوسکتے ہیں۔
عورت ٹیڑھی پسلی سے پیدا ہوئی ہے، یہ حدیث بعض لوگوں کے نزدیک ناقابل اعتبار یامن گھڑت ہے۔ (تحقیق طلب)۔
مرد کا عیب بیان کرنا مقصود ہے تو وہاں ٹیڑھی پسلی لکھا ہے، یہاں مزید دس حقائق ہیں جو آپ بیان کرسکتے ہیں۔ ویسے بھی تخلیق کا جو عیب آپ بیان کر رہے ہیں، وہ تو عورت میں بھی پایا جاتا ہے۔ کوئی اور مثال دیجئے۔
مثلا مرد نے خدائی کا دعوی کیا۔ عورت نے کبھی نہ کیا۔
جھوٹی نبیہ تاریخ میں ایک ہی گزری ہے۔ جھوٹے نبی بہت آئے۔
انسانی تاریخ کا سب سے پہلا قتل مرد نے کیا۔
اس کے علاوہ تاریخ اور اسلام میں بہت سی باتیں ہیں جنہیں بطور مثال پیش کیا جاسکتا ہے۔
عورت ٹیڑھی پسلی سے پیدا ہوئی ہے ۔ اس بات سے قطع نظر کہ یہ بات درست ہے کہ نہیں، کچھ لوگ اس بات کو دلیل بنا کے عورت کی تحقیر کرتے ہیں۔ اور میرا مقصد ایسے لوگوں کو آئینہ دکھانا ہے اور ان لوگو ں کہ یہ بتانا ہے کہ وہ ذرا اپنے آپ کو دیکھیں کہ وہ کس چیز سے پیدا ہوئے ہیں۔ اور ایسے مردوں کا ان کی اوقات یاد دلانے کے لئے اس حقیقت کو بیان کرنا ناگزیر ہے۔ مرد وں کی دیگر خامیاں بیان کرنے سے مقصد پورا نہیں ہو گا۔
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
ممتاز مفتی کی کتاب "تلاش" میں بھی تقریبآ اسی قسم کے الفاظ کا استعمال کیا گیا ہے اور اگر میری یادداشت غلط نہیں ہے تو ایک جگہ نہیں بلکہ دو جگہ اس قسم کے الفاظ کا استعمال کیا گیا ہے۔ یہ کتاب ان کے آرٹیکلز ، مضامین پر مشتمل ہے جو کسی رسالے میں چھپتے رہے ہیں۔
اور میری رائے میں اس میں ایسی کوئی بات نہیں ہے کہ اس پر "صرف شادی شدہ افراد" پڑھیں کا لیبل لگانا پڑ جائے۔ وہ لوگ جن کی زبان عربی ہے وہ نو، دس سال کی عمر میں ہی قرآن کو پڑھنا جان جاتے ہیں اور قرآن کی دوسری ہی سورت میں ہمبستری اور حیض وغیرہ سے متعلق احکامات آ جاتے ہیں۔ اس عمر میں ان کی نہ تو شادی ہوئی ہوتی ہے اور نہ ہی وہ بالغ ہوئے ہوتے ہیں۔ اور اگر میں آپ کی بات مان کر قرآن کا حوالہ نہ بھی دوں تو ذرا سائنس کو ہی دیکھ لیں۔ جو لوگ میٹرک اور انٹر میڈیٹ میں بیالوجی پڑھتے ہیں یا جو لوگایم بی بی ایس کرتے ہیں ، کیا وہ لوگ شادی شدہ ہوتے ہیں؟
عورت ٹیڑھی پسلی سے پیدا ہوئی ہے ۔ اس بات سے قطع نظر کہ یہ بات درست ہے کہ نہیں، کچھ لوگ اس بات کو دلیل بنا کے عورت کی تحقیر کرتے ہیں۔ اور میرا مقصد ایسے لوگوں کو آئینہ دکھانا ہے اور ان لوگو ں کہ یہ بتانا ہے کہ وہ ذرا اپنے آپ کو دیکھیں کہ وہ کس چیز سے پیدا ہوئے ہیں۔ اور ایسے مردوں کا ان کی اوقات یاد دلانے کے لئے اس حقیقت کو بیان کرنا ناگزیر ہے۔ مرد وں کی دیگر خامیاں بیان کرنے سے مقصد پورا نہیں ہو گا۔
ممتاز مفتی ایک معلوماتی ویب سائٹ کے مطابق اپنے آغاز کے دور میں ایک لبرل اور مذہب سے بے گانے دانشور کی حیثیت سے مشہور تھے۔ خیر، ہم اس پر بحث نہیں کرتے۔ عورت کی تحقیر کے لیے آپ نے جو مثال دی، اس پر میں نے یہ بھی عرض کیا تھا کہ عورت بھی تو اسی چیز سے پیدا ہوئی ہے۔ پھر آپ کا مقصد کیسے پورا ہوگا؟ قرآن کو تو ہم نے پہلے ہی اس بحث سے الگ رکھنے کا مشورہ دیا تھا۔ لیکن اب آپ لائے ہیں تو یہ جان لیجئے کہ اس کی فصاحت و بلاغت شعر اور نثر دونوں سے بلند قرار دی جاتی ہے۔ جہاں تک فصاحت و بلاغت کا معاملہ ہے، وہ بڑی اہم بات ہے۔ الفاظ کی بناوٹ اور ساخت ، پھر شعر میں وہ کس ترتیب سے آتے ہیں، یہ بہت اہم ہے۔ آپ اپنے اشعار دیکھئے تو ایک عام آدمی ان کو پڑھ کر ذہنی طور پر منتشر اور برہم ہوسکتا ہے۔ قرآن اس کا الٹ ہے۔ یعنی وہ یہ تمام باتیں بیان کرکے بھی ذہنی سکون اور اطمینان کا ذریعہ ہے۔ اس کی کوئی عقلی توجیہہ ہمارے پاس نہیں ہے۔ اس لیے ہم اس کا مقابلہ کسی چیز سے نہیں کرتے۔ قرآن میں شفا ہے۔ اس کو سننے سے بیمار سے بیمار لوگ بھی قرار حاصل کرتے ہیں۔ رہی حیاتیات اور ایم بی بی ایس کی بات، تو علم کے طور پر ایک بات بیان کرنا کسی رائے کے طور پر نہیں ہوتا۔ اس میں مثبت یا منفی کچھ نہیں ہوتا۔ اس میں یہ نہیں دیکھتے کہ بات شگفتگی سے کہی جائے یا سخت اور درشت انداز میں۔ اس میں حقیقت غیر جانبداری سے بیان کردی جاتی ہے۔ شاعری اس سے الگ میدان ہے۔ اس کی بات کچھ اور ہے۔ اس کے تقاضے آپ دیکھ کر آگے بڑھئے تو ٹھیک، لیکن اگر خاطر میں نہ لاتے ہوئے اپنی راہ الگ چنیں تو ہر شخص اس پر منفی رائے دیتا ہے۔ اسے رائے عامہ کہہ لیجئے اور غور طلب امر یہ ہے کہ وہ آپ کے خلاف ہے۔ شاعری میں بھی ایسے بہت سے لوگ آئے جنہوں نے اپنا راستہ الگ چنا۔ آپ بھی ان میں سے ایک ہوسکتے ہیں۔ ہم آپ کے اشعار پر تنقید کرسکتے ہیں۔ انہیں اچھا یا برا کہہ سکتے ہیں لیکن بدل نہیں سکتے کہ یہ آپ کا اپنا اختیار ہے۔ اب جو آپ چاہیں کیجئے۔ ہم کچھ نہیں کہیں گے۔
دعاؤں میں یاد رکھئے گا۔
 

نوید اکرم

محفلین
ممتاز مفتی ایک معلوماتی ویب سائٹ کے مطابق اپنے آغاز کے دور میں ایک لبرل اور مذہب سے بے گانے دانشور کی حیثیت سے مشہور تھے۔ خیر، ہم اس پر بحث نہیں کرتے۔ عورت کی تحقیر کے لیے آپ نے جو مثال دی، اس پر میں نے یہ بھی عرض کیا تھا کہ عورت بھی تو اسی چیز سے پیدا ہوئی ہے۔ پھر آپ کا مقصد کیسے پورا ہوگا؟ قرآن کو تو ہم نے پہلے ہی اس بحث سے الگ رکھنے کا مشورہ دیا تھا۔ لیکن اب آپ لائے ہیں تو یہ جان لیجئے کہ اس کی فصاحت و بلاغت شعر اور نثر دونوں سے بلند قرار دی جاتی ہے۔ جہاں تک فصاحت و بلاغت کا معاملہ ہے، وہ بڑی اہم بات ہے۔ الفاظ کی بناوٹ اور ساخت ، پھر شعر میں وہ کس ترتیب سے آتے ہیں، یہ بہت اہم ہے۔ آپ اپنے اشعار دیکھئے تو ایک عام آدمی ان کو پڑھ کر ذہنی طور پر منتشر اور برہم ہوسکتا ہے۔ قرآن اس کا الٹ ہے۔ یعنی وہ یہ تمام باتیں بیان کرکے بھی ذہنی سکون اور اطمینان کا ذریعہ ہے۔ اس کی کوئی عقلی توجیہہ ہمارے پاس نہیں ہے۔ اس لیے ہم اس کا مقابلہ کسی چیز سے نہیں کرتے۔ قرآن میں شفا ہے۔ اس کو سننے سے بیمار سے بیمار لوگ بھی قرار حاصل کرتے ہیں۔ رہی حیاتیات اور ایم بی بی ایس کی بات، تو علم کے طور پر ایک بات بیان کرنا کسی رائے کے طور پر نہیں ہوتا۔ اس میں مثبت یا منفی کچھ نہیں ہوتا۔ اس میں یہ نہیں دیکھتے کہ بات شگفتگی سے کہی جائے یا سخت اور درشت انداز میں۔ اس میں حقیقت غیر جانبداری سے بیان کردی جاتی ہے۔ شاعری اس سے الگ میدان ہے۔ اس کی بات کچھ اور ہے۔ اس کے تقاضے آپ دیکھ کر آگے بڑھئے تو ٹھیک، لیکن اگر خاطر میں نہ لاتے ہوئے اپنی راہ الگ چنیں تو ہر شخص اس پر منفی رائے دیتا ہے۔ اسے رائے عامہ کہہ لیجئے اور غور طلب امر یہ ہے کہ وہ آپ کے خلاف ہے۔ شاعری میں بھی ایسے بہت سے لوگ آئے جنہوں نے اپنا راستہ الگ چنا۔ آپ بھی ان میں سے ایک ہوسکتے ہیں۔ ہم آپ کے اشعار پر تنقید کرسکتے ہیں۔ انہیں اچھا یا برا کہہ سکتے ہیں لیکن بدل نہیں سکتے کہ یہ آپ کا اپنا اختیار ہے۔ اب جو آپ چاہیں کیجئے۔ ہم کچھ نہیں کہیں گے۔
دعاؤں میں یاد رکھئے گا۔
میں اس تنقید پر آپ کا بہت شکر گزار ہوں کہ یہ تنقید ہی ہے جس کی وجہ سے انسان ترقی کی منازل طے کرتا ہے ۔ امید کرتا ہوں کہ آئندہ بھی آپ اپنی قیمتی آراء سے نوازتے رہیں گے۔
 
Top