مکتوب ویلنٹائن ڈے اور ہم

رانا

محفلین
میری طرف سے سب کو ویلنٹائن ڈے ۔۔۔۔۔ اوہ سوری توبہ توبہ استغفار ۔۔۔ابھی یاد آیا میں تو شریف آدمی ہوں۔:LOL:
 

جاسم محمد

محفلین
نوجوانی کا دور اور جوانی بھی وہ جس میں غفلت عروج پر ہو
کیا دور ہوتا ہے۔۔۔ بندہ ہر فکر سے آزاد۔۔۔ اپنی الگ دنیا میں مگن۔۔۔ ہر لمحے کو جینے والا
کل سے بے خبر۔۔۔
پھر آہستہ آہستہ ذمہ داریاں آنے لگتی ہیں۔۔ سمجھ آنے لگتی ہے
وہ زندگی جو ایک سہانہ خواب لگتی ہے آہستہ آہستہ جہدمسلسل بن جاتی ہے۔۔ پھر پتہ چلتا ہے خواب کا زمانہ سہانہ تو ضرور تھا لیکن حقیقی زندگی بہت تلخ اور محنت کا تقاضہ کرتی ہے۔۔۔
میں اپنے والدین کا اکلوتا بیٹا ہوں۔۔۔ کالج کا زمانہ غلط فہمیوں میں گزارا۔۔۔ ہر سال عشق کئے۔۔۔ جو سال کے اختتام پر آ نسوؤں کی صورت میں ختم ہوئے۔۔۔
ہیرو بننے کے چکر میں پہلے ایف ایس سی پارٹ ون میں ‘‘سپلی’’ آئی۔۔۔ پھر ایف ایس سی پارٹ ٹو میں بھی ‘‘سپلی’’ لی۔۔۔
دوست بھی ایسے ہی تھے۔۔۔ جو خوابوں میں رہتے اور رکھتے۔۔۔
ایف ایس سی کے زمانے میں سارا کالج دوست تھا۔۔۔ جوکرناچاہتا۔۔۔کر گزرتا۔۔۔ والد صاحب نے موٹر سائیکل لے کر دی۔۔۔توعیاشی کی انتہا اور بے فکری کی نئی زندگی شروع ہی ہو گئی۔۔۔ سارا سارا دن کلاس رومز سے باہر۔۔۔ یاری دوستی اور آوارہ گردی میں وقت کا ضیاع معمول۔۔۔
اس دور میں شاعری کی۔۔ تقریرین جیتیں۔۔ گانے کے مقابلے جیتے۔۔۔ ہاراتوتعلیم میں مار کھائی۔۔۔ فرسٹ ائیر کی ‘‘سپلی’’۔۔سیکنڈ ائیر کی ‘‘سپلی’’ نہ روک سکی۔۔۔ بالآخر ایک سال ضائع کیا۔۔۔
سال اول میں جس سے عشق کیا۔۔۔ اس نے تعلیم اور زندگی میں ‘‘نان سیریس’’ ہونے کی وجہ سے ٹھکرادیا۔۔۔ سال دوم میں بھی ایسا ہی ہوا۔۔۔ کوئی کیونکر کسی غیر سنجیدہ انسان کے لئے سوچے اور مستقبل کے خواب آنکھوں میں پروئے۔۔۔ ویسے بھی انسان خاص طور پر لڑکے، نو جوانی میں محبت اورہوس کے درمیان کم ہی فرق کر پاتے ہیں۔۔ جبکہ لڑکیاں جلد نظروں اور سماج کے ہیر پھیر پر دھیان کرنیکے قابل ہو جاتی ہیں۔۔۔
سال ضائع کرنے کے بعد فوج میں ٹرائی کیا۔۔۔ دو مرتبہ آئی ایس ایس بی سے ‘‘ریجیکٹ’’ ہوا۔۔۔ آرمی کے علاوہ کچھ سوچا ہی نہیں تھا۔۔۔ اس وجہ سے لوگوں کے کہنے پر بی ایس سی میں داخلہ لے لیا۔۔۔ ایف ایس سی چونکہ پری میڈیکل تھی۔۔۔ جبکہ بی ایس سی میں میتھس ،سٹیٹس اور اکنامکس رکھا تھا۔۔۔اس وجہ سے دو سال یہاں بھی ضائع کئے اور پھر پرائیویٹ بی اے کیا۔۔۔
جب ہوش آیا تو دوستیاں یک دم ختم ہو گئیں۔۔۔ آج میں کہہ سکتا ہوں کہ ایک دو دوستوں کے علاوہ میرا کوئی دوست نہیں۔۔۔ وہ سینکروں دوست یک دم پتہ نہیں کہاں چلے گئے۔۔۔ جن کے لئے میں نے خود کو اور اپنے گھر والوں کو خراب کیا۔۔۔
ایف ایس سی کا ہیرو آج اپنے کو نہایت حقیر انسان محسوس کرتا ہے۔۔۔ نوجوانی کی حرکتوں کی یاد۔۔ شرمندہ کر دیتی ہے۔۔اتنی مار پر چکی ہے کہ آج کابلال کل کے بلال سے ہر لحاظ سے سو فیصد مختلف ہے۔۔۔
اب سمجھ آ رہی ہے کہ زندگی کا حسن۔۔زندگی کی خوبصورتی۔۔انسانیت کے درمیان۔۔۔رشتوں کے درمیان باہمی احترام اور رکھ رکھاؤ سے ہے۔۔۔ معاشرے ایک معاشرتی معاہدے کے تحت وجود میں آتے ہیں۔۔۔ جہاں ہر کوئی حقوق کے ساتھ ساتھ ذمہ داریاں بھی رکھتا ہے۔۔۔
اللہ کی رحمت سے اب سمجھ آئی ہے کہ
گناہ کیا ہے؟
نیکی کیا ہے؟
گناہ کم ظرفی ہے اور نیکی اعلٰیٰ ظرفی
ظلم کیا ہے؟
چیزوں کا اپنے مقام پر نہ ہونا ظلم ہے
ماں ماں ہے
اور باپ باپ
بھائی بھائی ہے
بہن بہن
اور بیٹی بیٹی ہے
اسی طرح بیوی بیوی ہے
سب کا اپنا اپنا مقام ہے
سو ! اگر ان سب کا مقام ان کو نہ دیا جائے تو یہ کم ظرفی ہے۔
اور گناہ گار ظالم اور کم ظرف ہوتا ہے
زندگی کی خوبصورتی توازن میں ہے
مختلف رشتوں کے درمیان توازن میں۔
توازن احترام سے پیدا ہوتا ہے نہ کہ من مانی اور نفس پرستی سے۔۔۔
نفس پرست رشتوں کی حرمت پامال کرتا ہے۔۔۔دنیا جائے عمل ہے۔۔۔ ہم جو کرتے ہیں اس کا پھل کا ٹتے ہیں۔۔۔
سا ئنس کی ترقی نے جہاں انسان کے لئے بہت سی سہولیات پیدا کی ہیں۔۔۔وہاں نظریات اور اخلاقیات میں بھی بدلاؤ لائی ہے۔۔۔
سائنس حواس خمسہ میں آنے والی چیزوں کو مانتی ہے۔۔۔ جو چیزیں ان حواس کی پہنچ سے دور ہوں ان کا انکار کر دیتی ہے۔۔اسی ‘‘سائنٹفک اپروچ ’’ کا نتیجہ ‘‘ڈارون ازم ’’ہے۔۔۔ جسے آسان لفظوں میں ‘‘طاقتور کی بقا کا نظریہ بھی کہا جا سکتا ہے’’۔۔۔حالا نکہ سائنس یہ دعویٰ نہیں کرتی کہ وہ سب کچھ جان چکی ہے۔۔۔ لیکن جو نہیں جانتی اس پر سوال ضرور اٹھاتی ہے۔۔۔
گزشتہ کچھ صدیوں کی سائنسی ترقی کے ساتھ ساتھ ترقی یافتہ مملک سے دنیا کو سرمایہ دارانہ نظام ملا ہے۔۔ سائنس کی طرح یہ معاشی نظام بھی انسانی ذہنی ارتکا کا حاصل ہے۔۔ سرمایہ دارانہ نظام کی بنیاد بھی وہی ڈارون ازم ہے۔۔۔یعنی طاقتور کی بقا۔۔۔۔۔ سرمایہ دارانہ نظام کا پھل مادہ پرستی ہے۔۔۔جس کی انتہا لذت پرستی ہے۔۔ سرمایہ دارانہ نظام ہمیں سیاسی طور پر جمہوری نظام دیتا ہے۔۔اس میں بھی ڈارون ازم کا نظریہ ہی کار فرما نظر آتا ہے۔۔۔
سرمایہ دارانہ نظام کے مطابق تجارت اور معیشت میں حکومت کا کنٹرول نہیں ہونا چاہئے۔۔۔ ریاستی حکومت کا کام صرف لاء4 اینڈ آرڈر اور سرمایہ دار کے مفاد کا تحفظ ہے۔۔۔ مارکیٹ فورسسز اپنے مسائل خود حل کرتی ہیں۔۔۔ سرمایہ دارنہ نظام میں سیاسی حکومت بھی سرمایا دار کے ہی ہاتھ میں ہوتی ہے۔۔ سرمایہ دار۔۔۔یا جس کے پاس سرمایہ یا دولت ہو۔۔۔ وہ اخلاقیات ، طاقت اور سیاست کو اپنے مفاد میں استعمال کرتا ہے۔۔۔
اسی لئے ایک زمانے میں مانی جانے والی اخلاقی اقدار ۔۔۔ کچھ عرصے بعد بدل جاتی ہیں۔۔۔ جیسے انیس سو میں خود امریکہ میں اگر کوئی عورت ٹخنے سے اوپر تک سکرٹ پہنتی تو۔۔ بے حیا خیال کی جاتی۔۔ پھر زمانے کے ساتھ ساتھ شرم و حیا کا پیمانہ بدلتا گیا۔۔اور آج جہان پر آ گیا ہے وہ ہم سب جانتے ہیں۔۔۔
سرمایا دارانہ نظام آج مختلف لیولز پر دنیا کوکنٹرول کر رہا ہے۔۔ ایک عالمی سرمایا دار ہے۔۔جو جنگیں کرواتا ہے۔۔ ضرورت کے مطابق نظریات کو فروغ دیتا ہے اور پھر انہی نظریات کو۔۔۔مطلب نکلے کے بعد ۔۔۔ غیر انسانی قرار دے کر دنیا کو ان کے خاتمے کی طرف لگا دیتا ہے۔۔۔
پھر علاقائی سرمایا دار ہے۔۔ جو اپنے خطے میں عالمی سرمایا دار کے مفادات بڑھاتا ہے۔۔ اور اس عمل سے اپنے سرمائے میں اضافہ کرتا ہے۔۔۔۔۔
سرمایا دارانہ نظام انسانیت کے نام پر انسانیت کو ختم کرنے میں لگا رہتا ہے۔۔۔ اگر پچھلے بیس سال کو ہی دیکھیں تو آپ کو نظر آئے گا کہ ان دو دہائیوں میں لڑی گئی جنگوں میں۔۔۔ وہی لوگ متحرک نظر آئین گے جنہوں نے کروڑوں کو مروا کر کھربوں کمائے اور اپنے معاشی مقاصد حاصل کئے۔۔۔
سرمایہ دارانہ نظام جہان انسانیت کی بات کرتا ہے وہان قابل غور چیز ہے کہ اس نظام نے انسان کو بھی ایک جنس یا کموڈٹی بنا کر رکھ دیا ہے۔۔۔
آج ہر اشتہار میں آپ کو عورت نظر آئے گی۔۔۔ جو عجیب اور غریب ملبوسات اور خطرناک اداؤں سے چیز کی تشہیر کرتی ہے۔۔۔ چینلزمیں وہ ڈرامے اور شوز آپ کو مقبول نظر آئیں گے جن میں خوبصورت عورتیں ہوں۔۔۔
عورت کو بھی اس نظام نے ایسا بے وقوف بنا دیا ہے کہ عورت ماڈرینیٹی کے نام پر کسی بھی حد سے گزرجاتی ہے۔۔۔عورت کا جتنا استحصال اس نظام نے کیا ہے۔۔۔ اتنا عورت کا استحصال کبھی نہیں ہوا۔۔۔
محفلوں میں یہ ماڈرن خواتیں لذت پرستی کا سامان مہیا کرتی نظر آتی ہیں۔۔۔ جبکہ عورت کی عزت و احترام کی۔۔۔۔ جگہ اس سے لالچ۔۔۔۔ اور نئی تحزیب کے مقر میعار ہی اس کی پاپولیریٹی کا سبب بنتے ہیں۔۔۔ اور ماڈرن عورت یہ جانتے ہوئے بھی۔۔۔انجان بنی رہتی ہے۔۔
دوسری جانب اسلام عورت کو ایک عظیم رتبہ دیتا ہے۔۔
عورت ماں ہے۔۔تو اس کے قدموں تلے جنت۔۔
بیٹی ہے تو والدین کے لئے جنت کی بشارت
بہن ہے تو بھائی کی غم خوار
بیوی ہے تو نور نظراولاد کی جنت اس کے قدموں تلے ، غم خوار اور دوست۔۔امانت دار اور نگران
بہو ہے تو بیٹی کی ماند
ہر روپ میں قابل عزت اور قابل احترام۔۔۔
لیکن اس انسان کو کیا کہیں۔۔جسے اس کے رب نے ناشکرا قرار دیا۔۔
آگ کی چمک دیکھ کر اس کی طرف پروانون کی طرح ٹوٹتا ہے۔۔ مگر خیر کی ٹھنڈک کو چھوڑ دیتا ہے۔۔ کماڈٹی یا جنس بننا پسند کرتا ہے لیکن اشرف المخلوقات بننے کو برا سمجھتا ہے۔۔۔
آج ویلنٹائین ڈے ہے۔۔ جس میں کئی بہن بھائی اپنے مقامات سے گرنے کو ترجیح دیں گے۔۔۔ مادہ پرست ،لذت پرستی میں خود کو رسوا کریں گے۔۔۔ محبت کے نام پر ہوس راج کرے گی۔۔۔خود کو غیرت مند جاننے والے۔۔دوسرے کی غیرت کو چیلنج کر کے۔۔اپنی غیرت کا پول کھولیں گے۔۔۔
سرمایہ دار ٹی وی چینلز پر اشتہارات اور پروگراموں کے ذریعے۔۔ اس دن کی تشہیر کرے گا۔۔ عورت اپنی مرضی سے لذت پرستی کا سامان بنے گی۔۔۔ ہوس کی منڈی میں دوسری اشیاء کے ساتھ ساتھ عورت بھی بکے گی۔۔۔
شیطان آج اپنی طاقت کے عروج پر ہے۔۔ اسے سرمایا دارانہ نظام کی صورت میں اسے سینکروں اتحادی میسر آ گئے ہیں۔۔۔ لیکن دوستویاد رکھنا تم اللہ کے بندے ہو۔۔۔اور یہ بھی ضرور یاد رکھنا کہ تمھارے ابا حضرت آدم علیہ سلام پر اللہ رب العزت نے فرشتوں کے سامنے فخر کیا تھا۔۔۔
آج کہیں تم ادب و آداب گنوا نہ دینا۔۔۔معاشرے کا حسن توازن اور احترام میں ہے۔۔۔ اور یہ ہی چیز معاشرے کو طاقتور بناتی ہے۔۔۔ بس اس بات کو یاد رکھنا۔۔۔ اعلٰیٰ ظرف بننا۔۔۔ اور کم ظرفی سے اللہ کی پناہ مانگنا۔۔۔
اللہ ہمیں عدل پر چلنے والا بنائے۔۔۔ آمین!
BTV: ویلنٹائن ڈے اور ہم

ویلنٹائن.. مردار تہذیب کی دستک

تحریر: ابن علی

وہ دن گئے جب ہم مغرب سے کہتے تھے: ’تمہاری تہذیب آپ اپنے خنجر سے خودکشی کرے گی۔‘
وہ ہمیں ساتھ لیے بغیر مرنے کا ارادہ نہیں رکھتے، اور ہم ان کے بغیر جینے کے روادار نہیں!
یہ موت کب سے ہمارے دروازوں پر دستک دے رہی ہے۔ ’کلچرل گلوبلائزیشن‘ کی حالیہ رفتار سے اگر آپ واقف ہیں، تو ہرگز بعید مت جانیے کہ ہم جنس پرست، سوؤر اور بجو کل آپ کی اِن گلیوں میں پھٹی ہوئی جینوں کے ساتھ جلوس نکالتے پھریں، اور بدفعلی پہ ناک چڑھانے پر آپ کو اور آپ کے آباؤ اجداد کو بدتہذیبی کے طعنے دیں، بلکہ ’تہذیب‘ کا یہ آخری گھونٹ بھی زبردستی آپ کے حلق سے اتارنے کی کوشش کریں!

باؤلا جس کو کاٹ لے، باؤلا کر دے۔ ایک نہایت کالی، باؤلی آندھی اب ہر ملک کے دروازے کھٹکھٹا رہی ہے۔ لبرلسٹ، سیکولر، ماڈرنسٹ سب اپنا اپنا کام کریں گے اور تاریخ کے اِس فسادِ عظیم کا راستہ صاف کرکے رخصت ہوں گے۔

پیچھے، پیکیج ایک ہے؛ اور ہر کسی کو یہ پورے کا پورا لینا ہوگا؛ اِس پیکیج کے حصے کرنا ممکن نہیں!
’سرخ سویرا‘ بیت چکا، اب وہ سب بھاڑے کے لکھاری، ادیب، دانشور، اینکر، گویے، بھانڈ، ڈھولچی اِس ’کالے سویرے‘ کے بگل بردار ہیں۔

اِس جدید بدبودار مخلوق کی ’ذات‘ کیا ہے؟ سید قطب کے الفاظ میں....: دن کے وقت مشین، رات کے وقت حیوان، اور حیوان بھی ایسا ویسا نہیں!
آج ہم ایک سماجی جنگ کے گھمسان میں ہیں؛ جبکہ ہمارے ’صالحین‘ اپنی نیکی کے نشے میں مست۔

آپ کی شریف زادیوں کے سر کی چادر تو کب کی فسانہ ہوئی، اور خدا بخشے وہ اپنے ساتھ نہ جانے اور کیا کچھ لےگئی.. بس یہ دیکھیے کہ اتنا سا لباس بھی آپ کی اِس آبرو کے تن پر کب تک سلامت رہتا ہے۔ ’تعلیم‘ کا عفریت اور ’ابلاغ‘ کا بھیڑیا کس فنکاری اور مشاقی کے ساتھ ہم نمازیوں، روزہ داروں، حاجیوں اور عبادت گزاروں کے زیرِتماشا ہماری بچی کا لبادہ نوچتا چلا جارہا ہے۔ کیا ہوا، ہماری بیٹی سربازار ہر سال ’’لباس‘‘ اور ’’روایات‘‘ کے بوجھ سے مسلسل ہلکی ہی تو کی جا رہی ہے.! ہرسال اس فیبرک کے کچھ ہی تَند نکالے جاتے ہیں! ہوتے ہوتے بہت اترا، پھر بھی ’مغرب جتنا‘ نہیں! آپ خوامخواہ پریشان ہوتے ہیں؛ وہاں تو آپ کو پتہ ہے...!

خاطر جمع رکھیے؛ سب اُدھر ہی کو جا رہے ہیں۔ ایک دم برہنہ تو نہیں ہوئی ہماری لختِ جگر؛ جتنا ہمیں ہضم ہوا، اتنا ہوئی! ہاں اب ہمارا ’ہاضمہ‘ تیز کرنے کی وہ زود اثر خوراکیں جو ’انفرمیشن ریوولیوشن‘ کی پڑیوں میں ڈال کر ہمیں بیچی جارہی ہیں، اپنا جادو دکھانے لگی ہیں ... نہ جانے فری میسن اِس بار اتنی مطمئن کیوں ہے... اپنی شریف زادیوں کی ایک برہنگی ہی کیا، اب تو ویلنٹائن، شوقیہ قحبہ گری، ’فریڈم آف چوائس‘، لِزبینز اینڈ گیز، ناجائز اولاد، کنواری ماؤں کو ’قبول‘ کروانے کی انسانی ہمدردی کی تحریکیں اور نہ جانے کیا کیا ہمیں ’ہضم‘ ہوجانے والا ہے۔ فکر مت کیجیے؛ پیکیج ایک ہے۔ بس یہ تھوڑے دنوں کی بات ہے صاحب! یہ سب متلی جو ’کنواری ماؤں‘ کا لفظ سن کر فوراً آپ کے حلق کو آپہنچتی ہے، ’پُڑی‘ کے اثر سے زائل ہوجانے والی ہے! آپ کوئی پہلے ’مریض‘ تھوڑی ہیں، اس سے پہلے بڑی بڑی قوموں کا کامیاب علاج کیا جاچکا ہے؛ معالج کی مہارت پر شک کرنے والا کوئی احمق جاہل ہی ہوسکتا ہے اور اس پر پردہ ڈالنے والا زندیق منافق... بلکہ ابلیس۔

حضرات خاموشی کب تک؟
اٹھیے،
بولیے،
چیخیے،
یہ 14 فروری آپ کی تہذیب کا لٹمس ٹیسٹ ہے۔

رونا اس بدکار میڈیا کا نہیں، رونا اس بات کا ہے کہ آج ہماری محفلوں، بیٹھکوں ،مسجدوں، منبروں اور محرابوں کو سانپ سونگھ گیا ہے!

بھائی مان لین کے ہم احساس کمتری کا شکار ہیں۔
مان لین مسٹر گورا کے بعد ہمیں جو آزادی ملی وہ صرف گورے سے آزادی تھی جس نے اقتدار مسٹر برائون کو سونپ دیا۔۔۔
ہمسایہ ملک چین ، ایران، بنگلہ دیش ۔۔۔۔ تمام مالک اپنی تہذیب اپنی زبان پر فخر کرتے ہیں لیکن ہم جیسے خود سے شرمندہ ہیں۔۔۔ یہان سوشل انجینئرنگ کی ضرورت ہے۔۔۔ ری ایکٹیو سوچ سے نکل کر خود مثال بن کر اپنی اعلٰی اقدار کا لوہا منوانے کی ضرورت ہے۔۔۔ سمجھنے کی ضررت ہے کہ مور نے جو کوے کے پر لگا لئے ہیں اس نے اُس کی عزت نہیں بڑھائی بلکہ رسوا ہی کیا ہے۔۔۔۔

گلوبلائزیشن کی بنیاد مغرب کی ایجادات اور ویلیو سسٹم پر ہے۔۔۔ اس نظام کو پریکٹیکلی ہم چیلنج نہیں کر سکے کیونکہ ہم تنگ نظری اور خود پسندی کا شکار رہے۔۔۔ امام حسن رضی اللہ تعالٰی عنہ کا قول ہے دنیا کو تبدیل کرنا چاہتے ہو تو تحزیب نفس کا آغاز خود سے کرو ،دنیا بدل جائے گی۔۔۔
لیکن یہاں حالت یہ ہے کہ میری بُکل دے وچ چور
ویلانٹائن بلا شبہ مغربی تہوار ہے۔ پاکستان یا دیگر مسلم ممالک اسے سرکاری سطح پر تو نہیں مناتے۔ البتہ عام لوگ جو اسے مناتے ہیں ان کو شوق سے منانے دیں۔
صحت مند معاشرے جیو اور جینے دو کے اصول پر چلتے ہیں۔ مثال کے طور پر ناروے میں 31 اکتوبر کو ہالوین کا تہوار منانے کا کوئی عام رواج نہیں گو کہ یہ امریکہ کا مشہور ترین تہوار ہے۔ البتہ جو لوگ اسے مناتے ہیں ان کو کالمز میں ذلیل و رسوا بھی نہیں کیا جاتا۔ کیونکہ عوام میں کم از کم اتنا شعور ہے کہ اس غیرملکی تہوار کو منانے سے ناروے کی نظریاتی بقا کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔
 
Top