امجد اسلام امجد وہ لڑکی

فرحت کیانی

لائبریرین
چمکتی آنکھوں میں شوخ جذبے
گلاب چہرے پہ مسکراہٹ
وہ ساحلوں کی ہوا سی لڑکی
جو راہ چلتی تو ایسا لگتا
کہ جیسے لہروں پہ چل رہی ہو۔
وہ اس تیقن سے بات کرتی
کہ جیسے ساری دنیا
اسی کی آنکھوں سے دیکھتی ہو
جو اپنی رستے میں دل بچھاتی ہوئی نگاہوں سے ہنس کے کہتی
“تمھارے جیسے بہت سے لوگوں سے
میں یہ باتیں بہت سے برسوں سے سن رہی ہوں۔
میں ساحلوں کی ہوا ہوں، نیلے سمندروں کے لئے بنی ہوں۔“

وہ کل ملی تو اُسی طرح تھی
چمکتی آنکھوں میں شوخ جذبے
گلاب چہرے پہ مسکراہٹ
کہ جیسے چاندی پگھل رہی ہو۔
مگر جو بولی تو
اس کے لہجے میں وہ تھکن تھی
کہ جیسے صدیوں سے دشتِ ظلمت میں جل رہی ہو۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
سیدہ شگفتہ نے کہا:
اچھی لگی

فرحت یہ امجد اسلام امجد کے کس مجموعہ سے ہے؟

شکریہ شگفتہ :)
مجھے ٹھیک سے معلوم نہیں ہے کیونکہ یہ نظم میں نے بہت عرصہ پہلے کسی میگزین میں پڑھی تھی۔لیکن یہ طے ہی ہے کہ “اس پار“، “برزخ“ اور “ذرا پھرسے کہنا“ میں نہیں ہے۔۔ان سے پہلے آنے والی کسی کتاب میں ہوگی۔
 
Top