یوسف سلطان
محفلین
جس کا نام لے لیا، پہیلیوں کی اوٹ میں
نظر پڑی تو چُھپ گئی، سہیلیوں کی اوٹ میں
نظر پڑی تو چُھپ گئی، سہیلیوں کی اوٹ میں
رُکے گی شرم سے کہاں، یہ خال و خد کی روشنی
چُھپے گا آفتاب کیا، ہتھیلیوں کی اوٹ میں
چُھپے گا آفتاب کیا، ہتھیلیوں کی اوٹ میں
ترے مرے ملاپ پر، وہ دشمنوں کی سازشیں
وہ سانپ رینگتے ہوئے، چمبیلیوں کی اوٹ میں
وہ سانپ رینگتے ہوئے، چمبیلیوں کی اوٹ میں
وہ تیرے اشتیاق کی، ہزار حیلہ سازیاں
وہ میرا اضطراب، یار، بیلیوں کی اوٹ میں
وہ میرا اضطراب، یار، بیلیوں کی اوٹ میں
چلو کہ ہم بُجھے بُجھے سے گھر کا مرثیہ کہیں
وہ چاند تو اتر گیا، حویلیوں کی اوٹ میں
وہ چاند تو اتر گیا، حویلیوں کی اوٹ میں
آخری تدوین: