نصیر الدین نصیر وہ آئینہ تھا چہرۂ شبیر کہ جس میں

الف نظامی

لائبریرین
تھا مِہر صِفَت ، قافلہ سالار کا چہرا
نیزے پہ دمکتا رہا ، سردار کا چہرا

وہ آئینہ تھا چہرۂ شبیر کہ جس میں
آتا تھا نظر ، حیدرِ کرار کا چہرا

صد حیف وہ خود یوں بھرے بازار سے گُزرے
جس گھر نے نہ دیکھا کبھی ، بازار کا چہرا

ہے پیاس کی شدت ، وہ سکینہ کے لبوں پر
مثلِ عَلَم اُترا ہے ، علمدار کا چہرا

آثار کچھ ایسے تھے، زینب کی نظر سے
دیکھا نہ گیا ، عابدِ بیمار کا چہرا

اشکوں کی طرح تھے جو ستارے شبِ عاشور
تھا چاند بھی اک اُن کے عزادار کا چہرا

وہ خُطبہ زینب کہ علی بول رہے تھے
ہر لفظ پہ فق تھا، بھرے دربار کا چہرا

دیکھو گے جو خورشیدِ قیامت کے مقابل
لَو دے گا نصیر اُن کے پرستار کا چہرا
 
آخری تدوین:

سیما علی

لائبریرین
وہ خُطبہ زینب کہ علی بول رہے تھے
ہر لفظ پہ فق تھا، بھرے دربار کا چہرا
نظامی صاحب
بہت بہت شکریہ
بازگشت کا
سلامت رہیے۔۔
اسلام کا سرمایہ ء تسکین ہے زینب
ایمان کا سلجھا ہوا آئین ہے زینب
حیدر کے خدوخال کی تزئین ہے زینب
شبیر ہے قرآن تو یاسین ہے زینب
یہ گلشنِ عصمت کی وہ معصوم کلی ہے
تطہیر میں زہرا علیہ السلام ہے تو تیور میں علی علیہ السلام ہے
(محسن نقوی)
 

الف نظامی

لائبریرین
زینب کی ہے آواز کہ آوازِ حسین
زینب کا ہر اندازہے اندازِ حسین
عترت کی نگہباں ہوئیں شبیر کے بعد
ہر حال میں زینب رہیں دمسازِ حسین
(پروفیسر فیاض کاوش وارثی)
 
Top