وہی اپنا ہے آڑے وقت پر جو کام آجائے

استاد قمر جلالوی کی غزل کا ایک شعر ایسا برجستہ لگا گویا شعر نہ ہو کوئی آپس کی باچیت ہو رہی ہو ۔
نہ آئیں وہ تو کوئی موت کا پیغام آجائے
وہی اپنا ہے آڑے وقت پر جو کام آجائے


کچھ نا چیز نے بھی جسارت کی ، اساتذہ کرام سے اصلاح اور تبصرے کی درخواست ہے ۔ دیگر احباب بھی اپنی قیمتی آراء سے مستفید فرمائیں۔

اگر ناکامیِ دل پر کوئی الزام آجائے
میری خوئے ملامت کو ذرا آرام آجائے

جنوں زادوں کا صحرا سے اگر پیغام آجائے
لبِ دریا سے بھی واپس یہ تشنہ کام آجائے

سبھی کردار بوجھل ہو گئے میری کہانی کے
الہٰی جتنی جلدی ہو سکے انجام آجائے

مگر تم دیکھ لو ! حالت ہمارے جیسی ہوتی ہے
جب اپنی آئی پر یہ گردشِ ایام آجائے

کہ پھر تو داد دینی چائیے محرومیِ دل کی
اگر مقتل سے بھی ، عاشق کوئی ناکام آجائے

گواہی آخری ہچکی پہ دے دوں ؟ تم نہیں قاتل
یہ جاں ویسے بھی جانی ہے ، کسی کے کام آجائے
 
ہمیں بھی ایسی شاعری سکھائی جائے ورنہ آپ کی شاعری پہ نہ الزام آجائے

میں تو خود ابھی سیکھنے کے مرحلے میں ہوں ، یہاں اساتذہ موجود ہیں جو آپ کی رہنمائی کر سکتے ہیں ۔ ویسے امید ہے آپ اچھی خاصی شاعرہ ہیں اور بہت کچھ کہہ رکھا ہے ، کبھی محفل میں شامل کیجیئے ۔
آپ نے پسند فرمایا ، بہت بہت شکریہ
 

loneliness4ever

محفلین
ادب دوست بھائی
محفل لوٹ لی آپ نے تو ، بے حد عمدہ اور شاہکار تخلیق پر ڈھیروں داد مجھ فقیر کی جانب سے وصول فرمائیں

اللہ حاسدوں کی نظر سے محفوظ رکھے ۔۔۔۔۔۔ آمین
 
گواہی آخری ہچکی پہ دے دوں ؟ تم نہیں قاتل
یہ جاں ویسے بھی جانی ہے ، کسی کے کام آجائے
سبھی کردار بوجھل ہو گئے میری کہانی کے
الہٰی جتنی جلدی ہو سکے انجام آجائے
یہ شعر مجھے بہت پسند آئے۔
اور چوں کہ اصلاح سخن میں کلام شائع کیا گیا ہے لہٰذا ایک سرسری تنقیدی جملہ یہ کہ:
مگر تم دیکھ لو ! حالت ہمارے جیسی ہوتی ہے
جب اپنی آئی پر یہ گردشِ ایام آجائے
اس شعر کا دوسرا مصرع کمال کا ہے، اگر پہلا مصرع بھی اسی طرح جان دار ہو جائے، اور تعقید لفظی و معنوی سے نکل آئے تو غضب کا شعر ہو جائے گا۔
ویسے کلاسیکی شعر کہتے ہیں آپ :)
 
Top