وہم کی علامات، وجوہات اور علاج

آج کے دور میں ہمارے معاشرے کا اگر کوئی مسئلہ ایسا دیکھنا ہو جو بہت عام ہو تو وہم بھی ایک ایسا مسئلہ ہے جس کے اثر سے کم لوگ ہی محفوظ ہیں۔ وہم کا دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ کوئی اسے تسلیم بھی نہیں کرتا ، تسلیم نہ کرنا زیادہ بڑا مسئلہ ہےکہ تب اِس سے چھٹکارے کی طلب ہی نہیں اُٹھتی ۔
وہم سے توہم بنتا ہے ، وہم سے ہی شک جنم لیتا ہے ، وہم ہی یقین کی دیمک ہے ، وہم سدا بہار شبہ ہوتا ہے ، وہم گمان کی راہ سے بدگمانی کی پستیوں کی سیڑھی ہے ، وہم جب عروج لے تو اوہام بن جاتے ہیں اور اوہام پرست کی راہ شرک پرستی کی طرف ہی جاتی ہے ۔
وہم عام بھی ہے ، ہاتھ دھو لیے لیکن کچھ لمحوں میں ہی باربار ہاتھوں کو دیکھ کر یہ شک ہونا کہ ٹھیک نہیں دھلے ، تالا لگا کر بھی بار بار تالا چیک کرنا ، عین نماز میں کپڑوں کی پاکی نا پاکی کو سوچنا ، ایسی ہزاروں مثالیں جہاں زندگی اذیت بن جاتی ہے اور روز شب اس شک و وہم میں گزرتے چلے جاتے ہیں اور انسان اپنی ہی ذات کی کشمکش میں الجھا رہتا ہے۔
وہم خاص بھی ہوتے ہیں۔ دوستوں و عزیزوں میں گمان پر وہم پال لینا ، ان وہموں پر رشتوں کو تولتے رہنا ، اس تول مول میں اپنے برتاؤ کو اپنے اس تول مول سے جوڑ لینا ، کسی بیماری کا ذکر سُن لے تو اپنی ذات میں شک کی دوربین سے ڈھونڈنا ، شک ہو جائے تو وہم کی خوردبینی مشاہدے میں اس پر یقین کر لینا اور اس یقین پر بیمار بن جانا۔
وہم ہماری رسموں میں در آیا ہے ، وہم ہماری معاشرت میں جگہ بنا کر بیٹھ چکا ہے ۔ کبھی نئے گھر پر پرانے جوتے لٹکا دیتا ہے ، کبھی گاڑی پر کالے کپڑے ، کبھی شادی میں دلہن سے بھانت بھانت کی رسمیں کرادیتا ہے ، تو کبھی نومولود بچے کے پاس چھری رکھوا دیتا ہے اور چھوٹے بچوں کا تو پل پل والدین و بزرگوں کے اسی وہم کے زیر سایہ بسر ہوتا ہے ، یہی وہ وہمی تربیت جو کل وہم کو ان کی جینیٹکس کا حصہ بنا دیتی ہے.
اس وہم نے آستانے بھی آباد کرائے تو معالجوں سے زیادہ لیبارٹریز بنوا دی ہیں۔ ہمارا روز و شب بھانت بھانت کے کولیسٹرول ناپتے ، شوگر لیول چیک کرتے ، قسم قسم کی وٹامن کے ناپ تول میں بسر ہوتے ہیں اور اس ناپ تول پر ہم بیماری و صحت کے سرٹیفکیٹ لیتے ہیں۔ ورنہ بات تو بہت سیدھی ہے۔ جب ہم بیمار ہوں تو علاج کرائیں اور اس نیت و یقین کے ساتھ کہ شفا علاج میں نہیں، اللہ کے پاس اور علاج سنت سمجھ کر کریں ، شفا اللہ سے مانگیں ۔
وہم بلا شبہ ایک بیماری ہے ، وہم جسے طب کی زبان میں آبسیسو کمپلسو ڈس آرڈر کہتے ہیں۔ یہ ابتدائی عمر کی بیماری ہے ، جہاں پہلے خیالات بنتے ہیں ، اُن خیالات کی وجوہات نہیں ہوتی لیکن اس تواتر سے بنتے ہیں کہ ایک خوف و ڈر پیدا کر دیتے ہیں۔ اس خوف سے چھٹکارے کے لیے ہم اس وہمی خیال کے مطابق وہ حرکت کر گزرتے ہیں۔ وقتی آرام مل جاتا ہے لیکن بیماری جڑ پکڑ لیتی ہے ۔
وہم کے اس ڈر سے چھٹکارا لینے کےلیے انسان کو ذات سے باہر نکلنا پڑھتا ہے ، ہم اس کرہ ارض میں سانس کے لیے رب العالمین کے محتاج ہیں۔ ہماری ہر اگلی ساعت کی گارنٹی صرف اللہ کے پاس ہے۔ ہم زندگی اس اگلی ساعت کی اُمید کے ساتھ جیتے ہیں۔ یہ وہ حقیقت ہے جس کی اپنے آپ کو بار بار تلقین کرنی پڑتی ہے۔ اس تلقین کےلیے بندگی کے آداب برتنے پڑتے ہیں ، یہ چاہے نماز ہو کہ روزہ یا حج ، حقوق العباد، انسان اپنے فرائض ادا کرتا ہے. ان فرائض کے بعد ہر ڈر پیدا کرنے والے خیال کو رد کرنا سیکھے اور جن کی عادات پختہ ہو چکیں ، جو درجہ معذور میں داخل ہو چکے، وہ اسے بیماری سمجھ کر علاج کرائیں اور اس یقین کے ساتھ کہ شفا رب دیتا ہے ، علاج سنت سمجھ کرا رہے ہیں ۔
ریاض علی خٹک
 

سید رافع

محفلین
آج کے دور میں ہمارے معاشرے کا اگر کوئی مسئلہ ایسا دیکھنا ہو جو بہت عام ہو تو وہم بھی ایک ایسا مسئلہ ہے جس کے اثر سے کم لوگ ہی محفوظ ہیں۔ وہم کا دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ کوئی اسے تسلیم بھی نہیں کرتا ، تسلیم نہ کرنا زیادہ بڑا مسئلہ ہےکہ تب اِس سے چھٹکارے کی طلب ہی نہیں اُٹھتی ۔
وہم سے توہم بنتا ہے ، وہم سے ہی شک جنم لیتا ہے ، وہم ہی یقین کی دیمک ہے ، وہم سدا بہار شبہ ہوتا ہے ، وہم گمان کی راہ سے بدگمانی کی پستیوں کی سیڑھی ہے ، وہم جب عروج لے تو اوہام بن جاتے ہیں اور اوہام پرست کی راہ شرک پرستی کی طرف ہی جاتی ہے ۔
وہم عام بھی ہے ، ہاتھ دھو لیے لیکن کچھ لمحوں میں ہی باربار ہاتھوں کو دیکھ کر یہ شک ہونا کہ ٹھیک نہیں دھلے ، تالا لگا کر بھی بار بار تالا چیک کرنا ، عین نماز میں کپڑوں کی پاکی نا پاکی کو سوچنا ، ایسی ہزاروں مثالیں جہاں زندگی اذیت بن جاتی ہے اور روز شب اس شک و وہم میں گزرتے چلے جاتے ہیں اور انسان اپنی ہی ذات کی کشمکش میں الجھا رہتا ہے۔
وہم خاص بھی ہوتے ہیں۔ دوستوں و عزیزوں میں گمان پر وہم پال لینا ، ان وہموں پر رشتوں کو تولتے رہنا ، اس تول مول میں اپنے برتاؤ کو اپنے اس تول مول سے جوڑ لینا ، کسی بیماری کا ذکر سُن لے تو اپنی ذات میں شک کی دوربین سے ڈھونڈنا ، شک ہو جائے تو وہم کی خوردبینی مشاہدے میں اس پر یقین کر لینا اور اس یقین پر بیمار بن جانا۔
وہم ہماری رسموں میں در آیا ہے ، وہم ہماری معاشرت میں جگہ بنا کر بیٹھ چکا ہے ۔ کبھی نئے گھر پر پرانے جوتے لٹکا دیتا ہے ، کبھی گاڑی پر کالے کپڑے ، کبھی شادی میں دلہن سے بھانت بھانت کی رسمیں کرادیتا ہے ، تو کبھی نومولود بچے کے پاس چھری رکھوا دیتا ہے اور چھوٹے بچوں کا تو پل پل والدین و بزرگوں کے اسی وہم کے زیر سایہ بسر ہوتا ہے ، یہی وہ وہمی تربیت جو کل وہم کو ان کی جینیٹکس کا حصہ بنا دیتی ہے.
اس وہم نے آستانے بھی آباد کرائے تو معالجوں سے زیادہ لیبارٹریز بنوا دی ہیں۔ ہمارا روز و شب بھانت بھانت کے کولیسٹرول ناپتے ، شوگر لیول چیک کرتے ، قسم قسم کی وٹامن کے ناپ تول میں بسر ہوتے ہیں اور اس ناپ تول پر ہم بیماری و صحت کے سرٹیفکیٹ لیتے ہیں۔ ورنہ بات تو بہت سیدھی ہے۔ جب ہم بیمار ہوں تو علاج کرائیں اور اس نیت و یقین کے ساتھ کہ شفا علاج میں نہیں، اللہ کے پاس اور علاج سنت سمجھ کر کریں ، شفا اللہ سے مانگیں ۔
وہم بلا شبہ ایک بیماری ہے ، وہم جسے طب کی زبان میں آبسیسو کمپلسو ڈس آرڈر کہتے ہیں۔ یہ ابتدائی عمر کی بیماری ہے ، جہاں پہلے خیالات بنتے ہیں ، اُن خیالات کی وجوہات نہیں ہوتی لیکن اس تواتر سے بنتے ہیں کہ ایک خوف و ڈر پیدا کر دیتے ہیں۔ اس خوف سے چھٹکارے کے لیے ہم اس وہمی خیال کے مطابق وہ حرکت کر گزرتے ہیں۔ وقتی آرام مل جاتا ہے لیکن بیماری جڑ پکڑ لیتی ہے ۔
وہم کے اس ڈر سے چھٹکارا لینے کےلیے انسان کو ذات سے باہر نکلنا پڑھتا ہے ، ہم اس کرہ ارض میں سانس کے لیے رب العالمین کے محتاج ہیں۔ ہماری ہر اگلی ساعت کی گارنٹی صرف اللہ کے پاس ہے۔ ہم زندگی اس اگلی ساعت کی اُمید کے ساتھ جیتے ہیں۔ یہ وہ حقیقت ہے جس کی اپنے آپ کو بار بار تلقین کرنی پڑتی ہے۔ اس تلقین کےلیے بندگی کے آداب برتنے پڑتے ہیں ، یہ چاہے نماز ہو کہ روزہ یا حج ، حقوق العباد، انسان اپنے فرائض ادا کرتا ہے. ان فرائض کے بعد ہر ڈر پیدا کرنے والے خیال کو رد کرنا سیکھے اور جن کی عادات پختہ ہو چکیں ، جو درجہ معذور میں داخل ہو چکے، وہ اسے بیماری سمجھ کر علاج کرائیں اور اس یقین کے ساتھ کہ شفا رب دیتا ہے ، علاج سنت سمجھ کرا رہے ہیں ۔
ریاض علی خٹک

موصوف مصنف خود وہم کا شکار لگتے ہیں۔ :)
 

سید رافع

محفلین
وہم جھوٹوں کے ساتھ بیٹھنے کا نتیجہ ہے۔ اور جھوٹوں کے ساتھ وہی دوستی رکھے گا جو خود جھوٹا ہو۔ جھوٹے لوگ شیطان کے اغوا کا شکار ہوتے ہیں اور طرح طرح سے ڈرتے ہیں اور طرح طرح سے ڈراتے ہیں۔
 

سید رافع

محفلین
اگر وہم کا علاج چاہتے ہیں تو جھوٹ کو ایک ٹھوکر مار کر اٹھ جائیں چاہے شیخ طریقت ہو، چاہے رشتے دار ہو یا دوست و پڑوسی ہو۔
 

سین خے

محفلین
او سی ڈی جسم میں کیمیاٸی تبدیلی یا برین فنکشنز میں رد و بدل کی بدولت ہوتی ہے۔ یہ ایک بیماری ہے اور اس کا علاج موجود ہے اور مریض علاج سے صحتیاب ہو جاتا ہے۔ دماغی امراض کا تمسخر اڑا کر کوٸی مریض صحتیاب نہیں ہوتا ہے۔ یہ بیماری کسی کو بھی ہو سکتی ہے۔

Obsessive-compulsive disorder (OCD) - Symptoms and causes
 
Top