وکیلوں نے ہسپتال پر دھاوا بولا تو کیا منظر تھا؟

عبدالصمدچیمہ

لائبریرین
انتہائی افسوسناک واقعہ ہے۔ ہسپتال پر باقاعدہ حملہ تو پہلی دفعہ ہوا ہے لیکن اس سے قبل بھی وکیلوں کا غنڈہ نما رویہ دیکھنے کو ملتا رہتا ہے۔
 

الف نظامی

لائبریرین

بدھ کے روز پی آئی سی میں کوریج کے دوران وکیلوں کا ایک جتھا میری گاڑی کے پاس آیا اور غصے میں پوچھا کہ یہاں جی این این کی ٹیم کو کون ہیڈ کررہا ہے؟ ساتھ ہی ایک وکیل بولا کہ رپورٹر کون ہے ادھر؟ اس سے پہلے کہ کوئی دوسرا شخص بول پڑتا میں نے جواب دیا بھائی ہمیں تو معلوم نہیں معاملے کا، رپورٹر پی آئی سی کے اندر ہے ڈی آئی جی کے ساتھ۔ دوسرے وکیل نے یوٹیوب سے جی این این کی لائیو سٹریمنگ نکالی تو غالبا ذوالقرنین رانا (ہیلتھ رپورٹر) کا بیپر (ٹیلی فونک بیان) چل رہا تھا۔ ساتھی وکیل نے شاید کانوں میں اسے سمجھایا کہ یہ وہ بندہ نہیں ہے… ۔ میں نے شکر ادا کیا کہ اس دوران سی این آر (سینٹرل نیوز روم) نے مجھے لائن پر نہیں لیا تھا۔

اگلا فیصلہ میں نے یہ کیا کہ اپنی ڈی ایس این جی (ڈیجیٹل سیٹلائٹ نیوز گیدرنگ) گاڑی کو وہاں سے دور ریس کورس پارک کے عقب میں ذرا چھپا کر لگوا دیا۔ معاملے کی سسنگینی دیکھتے ہوئے میں مائیک پہلے ہی چھوڑ چکا تھا۔ نیوز روم سے بارہا ہدایت ملی کہ آپ کیمرہ اور مائیک کیساتھ ساٹس (لوگوں کے تاثرات) ریکارڈ کرکے بھجوائیں مگر میں نے موبائل سے کام کرنے میں ہی عافیت جانی۔

خیر اسی اثنا میں پولیس کی بھاری نفری پی آئی سی کے اندر وکلا پر ٹوٹ پڑی تھی۔ پہلے وکلا ڈاکٹروں کی پٹائی میں مصروف تھے تو اب دھلائی کی باری وکلا کی تھی جو بھاگ رہے تھے۔ اسی بھاگم بھاگ میں کئی بار ایسا ہوا کہ آنسو گیس کی شیلنگ بھی ہوئی اور پتھراؤ بھی ہوا۔ کئی بظاہر مہذب وکلا بشمول خواتین وکلا کو اینٹیں اور پتھر ہسپتال کے اندر مارتے ہوئے بھی دیکھا۔ کئی دفعہ تو اینٹ اور سر کا فاصلہ بس بال برابر ہی رہا۔ دو تین دفعہ ایسا بھی ہوا جب ویڈیو بناتے ہوئے وکلا کی نظر مجھ پر پڑی اور موبائل کھینچ لیا گیا۔ خوش قسمتی سے ہر بار منت سماجت کر کے واپس لینے میں کامیاب رہا۔

جب پولیس وین کو آگ لگائی جا رہی تھی تو اس وقت وکلا کے چہروں پر درندوں جیسی وحشت دیکھ کر یقین نہیں ہو رہا تھا کہ یہ لوگ اس حد تک جائیں گے۔ اس منظر کی ویڈیو بناتے وقت بھی ہم صحافیوں کو زد و کوب کیا گیا۔ کئی مریضوں کے لواحقین سے ملا۔۔۔ مجموعی طور پر یہی تاثر ملا کہ وکلا نے اندر داخل ہو کر نہ صرف ڈاکٹروں پر تشدد کیا بلکہ، پی آئی سی کے در و دیوار کو بھی نہ بخشا۔ اس دوران لواحقین نے اگر دہائیاں دیں تو انہیں بھی پٹخا گیا۔ سڑک پر راہگیروں کو وکلا نے اپنی پینٹ کے بیلٹس سے پیٹا۔ ہماری ایک خاتون رپورٹر عنبر قریشی پر مرد وکلا نے نہ صرف تشدد کیا بلکہ ان کا موبائل فون بھی چھینا گیا جو ابھی تک واپس نہیں کیا گیا۔ ہمارے کیمرہ مین فرید ملک سے کیمرہ چھین کر انہیں تشدد کا شکار بنایا گیا۔

یہ سب مناظر ہم نے کسی کمرے میں بیٹھ کر کور نہیں کئے بلکہ ہجوم کے درمیان رہ کر نہ صرف چوری چھپے ویڈیوز بنائیں بلکہ آڈیو بیپرز کے ذریعے پبلک تک بھی انفارمیشن پہنچاتے رہے۔ کئی بار ایسا بھی ہوا کہ اینکر کے سوال پر کچھ تلخ حقائق بول دیے ہوں اور کسی وکیل نے سن لئے ہوں، بس پھر کیا تھا۔۔؟

صحافی عموما جہاں بھی جاتے ہیں اکٹھے ہوتے ہیں، گپ شپ لگاتے ہیں۔ لیکن اس لمحے جیسے کہرام مچ چکا تھا۔ میں کئی بار ایسے صحافی دوستوں کے آمنے سامنے بھی آیا جن سے ہفتوں ملاقات نہ تھی۔ مگر یقین جانئیے سلام دعا تک کرنے سے رہے۔۔۔ کوئی شخص ایسا نہ تھا جو تسلسل کیساتھ دس سیکنڈ ایک جگہ پر کھڑا ہو سکے۔ اس لمحے اگر کوئی مرکزی دروازے پر تھا تو اگلے ہی لمحے وہ ہسپتال کے کسی کمرے میں نظر آتا۔ اس دوران سر کے اوپر سے اینٹوں کا تبادلہ برابر جاری رہا۔

پولیس، وکلا اور ڈاکٹروں کی آپس میں آنکھ مچولی، پکڑ دھکڑ دو سے تین گھنٹے جاری رہی۔ اس سب کے بیچ صحافیوں کی اڑان الگ تھی۔ جبکہ ساری کہانی میں ایک طبقہ ایسا تھا جو صرف جان کی امان مانگتا ادھر ادھر بھاگ رہا تھا۔ کئی ایسی خواتین کو فون پر گفتگو کرتے سنا جو گھر والوں کو اطلاع دے رہی تھیں کہ ہسپتال پر وکیلوں کا حملہ ہو گیا ہے رشید کو ڈرپ لگی ہےاسے بیڈ پر چھوڑ کر ہی باہر آئی ہوں، یہاں کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔۔۔جلدی آئیے۔۔۔ ہمیں بچائیے۔۔۔ایسے ہی ایک معمر شخص جنہوں ڈرپ لگی تھی انہیں اپنے پاؤں پر ایمرجنسی سے چل کر باہر نکلتے جان بچاتے بھی دیکھا۔ ایک بزرگ بولے ‘بچیا کی پچھناں ایں دیکھدا نیں پیا’۔ (بیٹا کیا پوچھ رہے ہو؟ کیا دیکھ نہیں رہے؟)

پی آئی سی میں معاملہ ٹھنڈا پڑا تو شام مجھے ہائی کورٹ کے سامنے وکلا احتجاج کور کرنے کی ہدایت دی گئی۔ 6 بجے وہاں پہنچا توصورتحال یہ تھی کہ درجن بھر نوجوان وکلا نے مال روڈ کے جی پی او چوک کو چاروں اطراف سے بند رکھا تھا اور اعلان ہو رہا تھا کہ اب وکلا کورٹس میں پیش نہیں ہوں گے جب تک غنڈہ گرد پنجاب پولیس کے اہلکاروں کو گرفتار نہیں کیا جاتا اور ان کے بے قصور ساتھیوں کو رہا نہیں کیا جاتا۔ ساتھ ہی میڈیا کو گالیاں بکی جارہی تھیں۔ میں اپنی گاڑی ریگل چوک لگا کر خود پیدل جی پی او میں احتجاجی وکلا کے درمیان موجود تھا۔ ایک نوجوان بولا آج میڈیا والوں نے بالکل غلط رپورٹنگ کی ہے۔ اب اگر وہ یہاں آئے تو ان کی خوب خبر لیں گے۔ میں نے اندھیرے میں موبائل سے چوری چھپے دو چار ویڈیوز بنائیں اور بھاگنے میں ہی عافیت جانی۔
 

الف نظامی

لائبریرین
پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی (پی آئی سی) میں وکیلوں نے ڈاکٹرز سے تصادم کے بعد ہنگامہ آرائی کر کے ہسپتال کے اندر اور باہر ہر جگہ شدید توڑ پھوڑ کی۔ اس سانحے کے دوران طبی امداد نہ ملنے سے دو مریض جاں بحق اور متعدد افراد زخمی ہوگئے۔ حکومتی سطح پر وزیراعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب نے اس واقعے کا نوٹس لے کر تحقیقات کا حکم دے دیا ہے۔ پولیس ذرائع کے مطابق تاحال 27 مرد اور 4 خواتین وکلا گرفتار کیے جا چکے ہیں۔

ذرائع کے مطابق یہ واقعہ اس وقت ہوا جب وکلا نے ینگ ڈاکٹرز پر الزام عائد کیا کہ وائرل ہونے والی ایک ویڈیو میں وہ ان سب کا مذاق اڑا رہے تھے جس کے بعد انہوں نے سوشل میڈیا پر مہم بھی چلائی۔

بعد ازاں آج وکیلوں کی ایک بڑی تعداد مذکورہ ویڈیو کے خلاف مظاہرہ کرنے کے لیے پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی کے باہر اکٹھی ہوئی، جس کے بعد یہ احتجاج پرتشدد ہوگیا اور مظاہرین نے ہسپتال کے داخلی و خارجی راستے بند کردیے۔

وکلا کی جانب سے ہسپتال میں گھس کر توڑ پھوڑ اور ڈاکٹروں کو تشدد کا نشانہ بنانے کی ویڈیو بھی منظر عام پر آئی ہے جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی کے باہر احتجاج کرنے والے کئی وکیل ہسپتال کا گیٹ کھلوا کر اندر داخل ہوتے ہیں اور ایمرجنسی وارڈز کے شیشے توڑ دیتے ہیں۔ بعد ازاں وکلا نے ہسپتال کے احاطے میں کھڑی گاڑیوں کے شیشے بھی توڑ دیے۔



WhatsApp%20Image%202019-12-11%20at%205.16.55%20PM%20%281%29.jpeg

ہنگامہ آرائی کی وجہ سے کئی مریض ہسپتال نہیں پہنچ سکے جب کہ ہسپتال میں زیر علاج مریضوں کے ساتھ ڈاکٹروں کو دکھانے کے لیے آنے والے مریضوں اور ان کے اہلِ خانہ کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ جاں بحق ہونے والے مریضوں میں محمد انور اور گلشن بی بی شامل ہیں۔

وکلا کی جانب سے ہسپتال کے آئی سی یو، سی سی یو اور آپریشن تھیٹر کی جانب بھی پیش قدمی کی گئی جبکہ ہسپتال کے کچھ عملے کی جانب سے بھی وکلا پر تشدد کیا گیا۔

پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں تشدد کے واقعے کے بعد ڈاکٹر بھی وکیلوں کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے اور ان کے خلاف نعرے بازی بھی کی۔ دونوں متصادم گروہوں نے ایک دوسرے پر پتھراؤ کیا جب کہ پولیس کی جانب سے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کا استعمال بھی کیا گیا۔

ہنگامے کے بعد پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی کے آس پاس جیل روڈ پر موجود مارکیٹ کو بند کروا دیا گیا اور رینجرز کی نفری بھی جائے وقوعہ پر طلب کر لی گئی۔

مذکورہ واقعے کے بعد لاہور ہائی کورٹ بار کے صدر اور سیکریٹری پی آئی سی ہسپتال پہنچے اور وکلا کے ساتھ مذاکرات کرنے کی کوشش کی۔

صوبائی وزیراطلاعات فیاض الحسن چوہان پر بھی تشدد

اس موقے پر پنجاب کے وزیراطلاعات فیاض الحسن چوہان جب ہسپتال پہنچے تو ان پر بھی مشتعل افراد نے تشدد کیا۔ سوشل میڈیا پر موجود ایک ویڈیو سامنے میں فیاض الحسن چوہان پر تشدد اور انہیں بالوں سے پکڑتے ہوئے دیکھا گیا۔

اس حوالے سے صوبائی وزیر اطلاعات فیاض الحسن چوہان کا بیان تھا کہ ’وکلا نے انہیں اغوا کرنے کی کوشش کی۔‘ نیز انہوں نے وزیراعلیٰ پنجاب کا پیغام دیتے ہوئے کہا کہ جنہوں نے ظلم کیا ہے انہیں ہرگز معاف نہیں کیا جائے گا اور ان کے خلاف سخت کارروائی ہوگی، وہ نشان عبرت بنائے جائیں گے۔ صوبائی وزیر صحت یاسمین راشد کو بھی وکلا کے دھکوں اور بدتمیزی کا سامنا کرنا پڑا۔

پولیس نے بیس سے زائد وکیلوں کو حراست میں لے کر قانونی کاروائی شروع کر دی ہے۔ واقعے پر کابینہ کمیٹی برائے امن وامان کا اجلاس طلب کر لیا گیا جب کہ ڈاکٹروں نے ہسپتال میں کام چھوڑ دیا جس کے باعث ایمرجنسی بھی بند کر دی گئی ڈاکٹروں نے ہڑتال کا بھی اعلان کردیا ہے۔

واقعہ کیسے پیش آیا:
پی آئی سی میں موجود عینی شاہد لاہور کے صحافی اور نجی ٹی وی کے بیورو چیف سلیم شیخ نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ پی آئی سی میں موجود تھے جب اچانک ڈھائی تین سو وکلا گیٹ سے داخل ہوئے۔ ان کے ہاتھوں میں پتھر اور ڈنڈے تھے۔ کوریج کے لیے موبائل نکالا تو انہوں نے وہ چھین لیا اور پولیس کو بھی دھکے دیے۔ بعد میں انہوں نے پتھراؤ شروع کردیا۔



WhatsApp%20Image%202019-12-11%20at%205.16.53%20PM.jpeg

وارڈز کے شیشے ٹوٹنے سے اندر موجود مریض زخمی ہوئے اور چیخ وپکار شروع ہوگئی۔ مشتعل وکلا نے ایمرجنسی کے گیٹ توڑے اور اندر داخل ہوگئے۔ آئی سی یو میں خاتون کا آپریشن تھا، وکلا کے خوف سے ڈاکٹر وہاں سے ہٹے تو خاتون بھی دم توڑ گئیں۔

وکلا نے آپریشن تھیٹر میں بھی تباہی مچائی اور آلات توڑ ڈالے۔ دندناتے ہجوم کو کوئی نہیں روک پایا۔ کچھ دیر بعد پولیس آئی تو ان پر بھی پتھراؤ کیا گیا۔ بعض ڈاکٹروں نے ڈنڈے اٹھائے اور مقابلہ کرنے کی کوشش کی مگر انہیں بھی مار کھانا پڑی۔

سلیم شیخ نے بتایا کہ مشتعل وکلا نے پولیس وین کو آگ لگا دی اور درجنوں گاڑیاں توڑ ڈالیں۔ کئی ڈاکٹر اور مریضوں سمیت لواحقین بھی شدید زخمی ہوگئے۔ ڈی آئی جی لاہور رائے بابرنے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وکلا کے ایک گروہ نے پنجاب انسٹیوٹ اف کارڈیالوجی پر حملہ کیا، شیشے توڑے اور جلاؤ گھیراؤ بھی کیا۔ پولیس نے موقعے پر پہنچ کر حالات پر قابو پایا اور بیس سے زائد وکلا کو حراست میں لے لیا گیا۔



WhatsApp%20Image%202019-12-11%20at%205.16.53%20PM%20%281%29.jpeg

ہسپتال انتظامیہ کی درخواست پر قانونی کارروائی کا آغاز بھی کر دیا گیا ہے۔ انہوں نے بتایاکہ مشتعل وکلا نے مریضوں اور ان کے لواحقین کا بھی خیال نہیں کیا۔ ان سے پوچھا گیا کہ وکلا اور ڈاکٹروں کے درمیان کچھ عرصے پہلے ہونے والے تنازعے کے باعث کیا یہ واقعہ پیش آیا؟ تو انہوں نے بتایا کہ پہلے والے جھگڑے میں دونوں فریقین کے درمیان صلح ہوچکی تھی، اب اچانک حملہ کردیا گیا ہے۔
ہسپتال انتظامیہ کا موقف:
چیف ایگزیکٹو پی آئی سی پروفیسر ثاقب شفیع کا موقف تھا کہ بہت تکلیف کے ساتھ کہتا ہوں کہ یہ ملک جمہوریت کے قابل نہیں، احتجاج کے حق کو اس طرح استعمال کرنا دہشت گردی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ کون سا پڑھا لکھا طبقہ ہے جسے انسانیت کا بھی خیال نہیں؟ اس ہنگامہ آرائی سے ایمرجنسی خالی ہوچکی ہے، توڑ پھوڑ کے باعث آپریشن تھیٹرز میں کام روک دیا گیا ہے جس کا نقصان مریضوں کو ہی ہوگا۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ سینئر وکلا اور جج صاحبان اس واقعے کا نوٹس لیں نیز وکلا کو مہذب شہری بننے کے لیے کوشش کرنی چاہئیے۔‘
پی آئی سی کی لیڈی ڈاکٹر مریم احمد نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹروں کی طرح وکیل بھی پڑھے لکھے لوگ ہیں لیکن آج ان کا یہ رویہ دیکھ کر دکھ ہوا۔ انہوں نے کہا کہ بطور ڈاکٹر وہ خود کو غیر محفوظ سمجھتی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ہماری ایک ساتھی ڈاکٹر جو ڈیوٹی پر تھیں اور جو حاملہ ہیں ان پر بھی وکلا نے تشدد کیا جس سے ان کی طبیعت خراب ہوگئی۔‘ انہوں نے کہا کہ حکومت کو ہستپال کی سکیورٹی یقینی بنایا چاہیے۔ ہم غیر محفوظ ہیں۔ ایسے حالات میں کون خواتین ڈاکٹروں کو ہسپتال میں ڈیوٹی پر بھیجے گا۔ انہوں نے کہا کہ ہسپتالوں میں سیکیورٹی کا موثر پلان بنایا جائے اور اس واقعہ میں ملوث وکیلوں کے خلاف سخت سے سخت کارروائی کی جائے تاکہ آئندہ کوئی ایسی جرات نہ کر سکے۔
 

عرفان سعید

محفلین
اس وکیل کی سچ گوئی پر تمام بار کونسلز کے خاموش صدور قربان کیے جا سکتے ہیں۔

وکیل کم فنکار زیادہ لگ رہا ہے :)

تمام باتیں ٹھیک کی ہیں۔ انداز سے فنکار لگ رہا ہے جیسے نعیم بخاری
فنکار ہی ہیں۔ ٹی وی پر ہوسٹنگ کے فرائض انجام دیتے ہیں۔
اویس ربانی
 

الف نظامی

لائبریرین
آصف محمود لکھتے ہیں:
کیا قانون دانوںمیں سے ڈیڑھ دو درجن بزرگ بھی ایسے نہ تھے جو کہہ اٹھتے وکلاء نے ظلم کیا ہے اور کیا ڈاکٹرز میں سے نصف درجن پروفیسرزبھی ایسے نہیں جونوجوان ڈاکٹرز کو سمجھاتے کہ اپنے اخلاقی وجود کو تھامو ، تم مسیحائی کے منصب سے گرتے جا رہے ہو؟فریقین کو تو چھوڑیے سماج کا رد عمل دیکھ لیجیے ، غیض و غضب میں بھری آوازیں ، اتنی ہی نامعقول ، اتنی ہی غیر متوازن ، اتنی ہی ناشائستہ۔پورے طبقے کو گالی، سارے شعبے کو دشنام۔اس معاشرے کو ہوکیا گیا ہے؟ کیا اسے کسی شیطان نے چھو لیا ہے کہ گلی کوچوں میں ہی نہیں ہمارے وجود میں بھی وحشتیں ناچ رہی ہیں۔ ایک جانب بار کونسل صف آراء ہے اور دوسری طرف ڈاکٹرز ایسوسی ایشن صف بنائے کھڑی ہے۔ ہر گروہ کا اصرار ہے حق کا علم تو صرف اسی نے تھام رکھا ہے اور اب وہ دامن نچوڑ دے تو فرشتے وضو کریں۔ آج صبح دم بوندیں برسیں تو مٹی کی سوندھی خوشبو محسوس کرنے کے فرحت افزاء لمحوں میں خیال آیا:
کاش ہر دو گروہ سورۃ مائدہ کی پانچویں آیت کا مطالعہ کر لیں:
’’ اور کسی قوم کی دشمنی تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم نا انصافی کرو۔انصاف سے کام لو۔یہی تقوی سے قریب تر ہے‘‘ ۔
حادثہ اور اس حادثے پر ہمارا اجتماعی رد عمل بتاتا ہے کہ بطور قوم ہم ایک ہیجان کا شکار ہیں۔ نفرت ، عدم توازن ، تعصب اور متلون مزاجی۔ عصبیت کے عنوان کے تحت یہاں دیوان لکھے جاتے ہیں ، سماجی مطالعہ کسی نے نہیں کیا۔ یہ بھاری پتھر کوئی اٹھائے تو اسے معلوم ہو خرابی کہاں ہے۔ حادثہ یہ ہوا کہ ہمارے معاشرے میں تربیت کا کوئی ادارہ باقی نہیں رہا۔ تربیت کے تین بنیادی ستون تھے ، گھر ، مسجد اور تعلیمی ادارہ۔گھر کی ترجیح اب اخلاقیات نہیں مالیات ہے۔مساجد کی شناخت اب اپنے اپنے مکتب فکر سے کی جاتی ہے ،،تعلیم کاروبار بن گئی اور استاد اس کاروبار کا ایک کردار۔تربیت کا بھاری پتھر اب کون اٹھائے۔اخلاقی انحطاط میں کوئی کمی رہ گئی تھی تو وہ اہل سیاست اور اہل صحافت نے مل کر پوری کر دی ہے۔ سیاسی رہنمائوںکی گفتگو ہویا ٹاک شوز میں ان کا مناظرہ ، احساس زیاں کی تلخی کے سوا کچھ نہیں۔ مکالمے کا کلچر تباہ کر دیا گیا، عدم برداشت کو فروغ دیا گیا اور وہی معتبر ٹھہرا جس کی زباں سے کسی کا دامن محفوظ ہو نہ دستار۔جو اپنی اور دوسرے کی عزت کے بارے میں جتنا بے نیاز ہو گا ، اس کی مانگ اتنی ہی زیادہ ہو گی۔ پارلیمان کا احترام بہت ہے لیکن اس پارلیمان میں جو خطابات فرمائے جاتے ہیں کیا آپ کے خیال میں وہ توازن ، اعتدال اور شائستگی پر مبنی مکالمے کو فروغ دیتے ہیں؟خود وزیر اعظم کے خطابات اٹھا کر دیکھ لیجیے ،ان کی کابینہ کا انداز بیان دیکھ لیجیے ، حزب اختلاف کا لب و لہجہ دیکھ لیجیے ، اپنے اہل دانش کی گفتگو سن لیجیے ہر آدمی آتش فشاں بنا پھرتا ہے۔خطیب کا شعلہ بیاں ہونا یہاں آج بھی باعث عز و شرف سمجھا جاتا ہے۔ دھیمے لہجے میں کوئی بات ہی نہیں ۔ہر سو ایک ہیجان ہے۔ یہ ہیجان مختلف اوقات میں مختلف طبقات کے رویوں میں ظہور کرتا ہے اور ہم کمال سادگی سے حیرت کا اظہار کرنے لگ جاتے ہیں کہ یہ فلاں طبقے کو کیا ہو گیا ہے۔کسی طبقے کو کچھ نہیں ہوا، اس سماج نے پراڈکٹ ہی یہی تیار کیا ہے۔ پیشہ اب کوئی سا بھی ہو وہ تلاش روزگار کا ایک حوالہ ہے ، رویے سب کے ہی شدت اور ہیجان میں لپٹے ہیں۔حقیقت سے ہم فرار اختیار کر رہے ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ ہم اچھے انسان پیدا کر ہی نہیں رہے۔ ہمیں اپنے نصاب تعلیم میں ’ سماجیات‘ کا ایک مضمون متعارف کرانا چاہیے۔یہ مضمون ہر شعبہ زندگی کا طالب علم پڑھے۔ اس میں بتایا جائے کہ سماجی رویے کیا ہوتے ہیں ، اختلاف رائے کے آداب کیا ہیں، تہذیب اور شائستگی کسے کہتے ہیں ، الجھاو سے کیسے بچا جاتا ہے، احترام باہمی اور حفظ مراتب کیا ہوتے ہیں۔آپ گلی محلے میں نکل کر دیکھ لیجیے ہمارا سماج بنیادی سماجی آداب کے باب میں بالکل بے نیاز ہے۔ان قدروں کے بارے میں حساسیت پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارا دوسرا مسئلہ یہاں قانون کی حکمرانی کا مسلمہ طور پر موجود نہ ہونا ہے۔اقوال زریں بھلے آپ ساری عمر سناتے رہیں حقیقت سے ہم سب آ گاہ ہیں کہ انصاف کا حصول اس ملک میں کتنا مشکل ہے۔جب کسی سماج سے یقین اٹھ جائے کہ ریاست اس کے جملہ حقوق کا تحفظ کرے گی تو پھر خوف اور بے یقینی کا عالم پیدا ہوتا ہے۔ اس عالم میں جتھے بنتے ہیں اور دھڑے بندی فروغ پاتی ہے۔ یہ عمل چونکہ غیر یقینی کے ماحول میں بقاء کے لیے کیا جاتا ہے اس لیے انصاف ، قانون اور اخلاقیات پیچھے رہ جاتی ہیں اور وابستگی کے تقاضے ترجیح بن جاتے ہیں کیونکہ یہ دھڑا اورجتھہ ان لوگوں کے لیے شعوری طورپر ایک فصیل کا کام دیتا ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ کبھی کوئی مشکل وقت آیا تو قانون اور انصاف نے نہیں بلکہ اسی دھڑے اور جتھے نے ان کی داد رسی کرنی ہے۔یہاں سے پھر ایک کارٹل کا کلچر فروغ پاتا ہے۔اس کلچر میں وہی ہوتا ہے جو ہم دیکھ رہے ہیں۔پاکستان کے تمام ڈاکٹرز اس بات پر متفق ہیں کہ ڈاکٹرز حق پر ہیں اور پاکستان کی تمام بار ایسوسی ایشنز کو پورا یقین ہے وکلاء حق پر ہیں۔سب کو معلوم ہے اپنا گروہ ہی بقاء کی واحد ضمانت ہے ، باقی سب کہانیاں ہیں۔دھڑے اور گروہ بندی کے اس آزار کا ایک منطقی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ نجیب ، نفیس اور شائستہ لوگ دھیرے دھیرے سماج میں غیر اہم اور غیر متعلق ہوتے چلے جاتے ہیں اور معاملات زندگی ان طفلانِ خود معاملہ کے ہاتھ میں آ جاتے ہیں جن کی واحد خوبی یہ ہوتی کہ وہ دھڑے اور گروہ بندی کے تقاضے اور مفادات کو خوب سمجھتے ہیں اور ان کا دفاع کرتے ہیں۔ ہم زوال مسلسل سے دوچار ہیں اور اس زوال نے ہر شعبے کو لپیٹ میں لے رکھا ہے۔قانون کو اپنا راستہ لازمی طور پر اختیار کرنا چاہیے لیکن یاد رکھیے یہ مسئلہ محض قانون کے نفاذ کا نہیں ، یہ ایک سنگین سماجی بحران ہے۔آج اس نے ایک شکل میں ظہور کیا ہے کل یہ کسی اور روپ میں سامنے آئے گا۔ یہ فیصلہ اب ہمیں کرنا ہے کہ ہم المیے کی روح کو مخاطب بنا کر سماج کی تہذیب کرنا چاہتے ہیں یا کسی ایک طبقے کے خلاف اپنا زہر نکال کراپنے حصے کی وحشتوں کا زہر سر بازار رکھ کر ماحول کو مزید تلخ کرنا چاہتے ہیں۔
 

الف نظامی

لائبریرین
محترم جناب چیف جسٹس صاحب توجہ فرمائیے!

یار یہ تم کیا چیز ہو ’کل وکیلوں کو مار پڑی تب بھی خوش تھے اور آج ڈاکٹرز کو پڑی پھر بھی خوش۔ وہ کہنے لگا بھائی اصل میں خوشی یہ ہے کہ ”چوروں کو مور پڑ گئے“۔ میں نے کہا وہ کیسے‘ وہ بولا بھائی اصل میں یہ دونوں گروپ اس سسٹم اور ریاست میں سب سے بڑے بلیک میلر ہیں ’آپ ڈاکٹرز کو دیکھیں‘ وہ آئے روز سڑکوں پہ نکل آتے ہیں اور مریض بے چارے سسک سسک کر مر رہے ہوتے ہیں لیکن انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا ’یہ او پی ڈیز اور ایمرجنسی کو تالے لگا کر خود احتجاج کے لیے نکل پڑتے ہیں‘ انہیں لگتا ہے کہ ریاست ان کے باپ کی جاگیر ہے اور یہ جب چاہیں اور جیسا چاہیں کروا سکتے ہیں۔
ایسا کیوں ہے بھائی ’کیا یہ ملک صرف ڈاکٹرز کے لیے ہی بنا ہے؟ آپ وکیلوں کو دیکھ لیں‘ کوئی مہینہ ایسا نہیں گزرتا جب ان کے خلاف کوئی نہ کوئی مقدمہ درج نہ ہو۔ ایک نجی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق ایک ماہ میں صرف لاہور میں وکیل گردی کے خلاف ایک سو آٹھ مقدمات درج ہوئے لیکن ظلم کی انتہا دیکھیں کہ کسی پر کوئی فیصلہ سنا یاگیا اور نہ کسی وکیل کو سزا ہوئی۔ میرا خیال ہے کل کے واقعے میں جو مریض اس غنڈہ گردی کا شکار ہوئے یا جو املاک کو نقصان پہنچا ’اس کا مقدمہ دونوں گروپوں پر ہونا چاہیے اور ریاست کو آج فیصلہ کرنا چاہیے کہ یہ ملک ڈاکٹرز اور وکیلوں کے رحم و کرم پر چھوڑنا ہے یا اس میں عام آدمی کی بھی زندگی آسان ہو گی
 

عدنان عمر

محفلین
اس میں عام آدمی کی بھی زندگی آسان ہو گی
میری نظر میں، یہ اس مراسلے کی سب سے قیمتی بات ہے۔ دیکھا جائے تو حکمرانوں کی پالیسیوں اور سیاسی جماعتوں کے منشور کا محور عام آدمی کی زندگی ہونا چاہیے۔ اور بادی النظر میں ہوتا بھی ہے، لیکن ہاتھی کے دانت کھانے کے اور، دکھانے کے اور۔
 
Top