وقت کا چکر

ابن جمال

محفلین
وقت کا چکر

عبیداختر رحمانی(ابن جمال)​

وقت کیاہے؟اس کی تشریح میں فلسفیوں نےبہت دماغ کھپایا ،سائنسدانوں نے بہت عقل لڑائی ،لیکن پلے کیاپڑا، وقت کو سمجھنے کی ہم نے جتنی کوشش کی ، ہم اس کا سمجھنا اور مشکل کرتے گئے، بالکل دیوان غالب جیسا،شارحین نے تشریح کرکرکے اسے اورمشکل بنادیاہے،ورنہ اسے بغیرشرح کے پڑھاجائے تو بقول یوسفی ’’زیادہ سمجھ میں آتاہے‘‘۔خیر فلسفیوں اور سائنسدانوں سے ہمیں کیاغرض، ہم تو شعر وادب کے مارے ہیں، آج وقت کے بارے میں شاعروں کاخیال جان لیں کہ وہ کیا کہتے ہیں :

آج کل دنیا میں ہرطرف ’’اپنا ٹائم آئے گا‘‘کے سلوگن کا زور ہے، جدھردیکھو،یہی نعرہ ہے،جس طرف نظرکرو ،یہی پکار ہے، اچھے دن کا وعدہ کرکے تو کچھ مسند اقتدار پر بھی پہنچ گئے اورجنہوں نے پہنچایا ، وہ ابھی بھی اچھے دن کا انتظار کررہے ہیں، اچھے دن یااچھا وقت جو بھی کہہ لیں ،اس وقت نہیں آتا جب آپ اچھے دن کا انتظار کررہے ہوتے ہیں، وہ اس وقت آتاہے جب آپ کو اچھے دن کی ضرورت نہیں ہوتی، شاعر کو بھی یہی شکوہ ہے کہ اچھا وقت اچھے وقت پر نہیں آتا:

وقت اچھا ضرور آتا ہے
پر کبھی وقت پر نہیں آتا​

مطلب یہی ہے کہ جب دانت ہوتےہیں تو چنانہیں ہوتا اورجب چناہوتاہے تو دانت کی نعمت رخصت ہوجاتی ہے، شاعربے چارہ بھی اسی کیفیت کا شکار ہے کہ اس کو جام وسبواس وقت ملا جب وہ جام وسبو کے لائق نہیں رہ گیاتھا:

اس وقت مجھ کو دعوت جام و سبو ملی
جس وقت میں گناہ کے قابل نہیں رہا
(ساغرخیامی)​

آپ چاہیں تواس وقت شاعر کے وصل کی حسرت پر بھی منطبق کرسکتے ہیں کہ بے چارے کو جب دعوت وصل ملی تو خود اس کی زندگی فراق کے دہانے پر تھی ،ہمارے شاعر جون ایلیا صاحب جن کی زندگی بھی دیگر شعرا ء کی طرح ناکام گزری، وہ بھی اوقات وصل کے رائیگاں جانے کے قائل ہیں لیکن اس بربادی میںبھی خوب کا لاحقہ لگاتے ہیں کہ وقت برباد ہو الیکن بہت اچھا برباد ہوا۔
رائیگاں وصل میں بھی وقت ہوا
پر ہوا خوب رائیگاں جاناں
(جون ایلیا)​

وقت کا ہی چکر ہے کہ آدمی بچہ سے جوان ہوتاہے اورجوانی کی امنگوں کا تقاضاہوتاہے کہ جی کھول کر حسرت گناہ کیاجائے،اورایسے میں اگرکوئی زہد وعبادت کی بات کرے تو بڑی ناگواربلکہ لطافت میں کثافت معلوم ہوتی ہے:

اس جوانی میں زہد کی باتیں
بات اچھی تو ہے لطیف نہیں​

لیکن جب یہی جوانی گزرجاتی ہے اوربڑھاپااپنا سایہ ڈال دیتاہے اور تیر کی طرح سیدھی کمر کمان جیسے جھک جاتی ہے، جن گالوں پر کبھی شباب کی سرخی تھی، اس پر بڑھاپے کی جھڑیاں پڑجاتی ہیں اورایسے میں کوئی دور شباب کے عہد رنگیں کا کوئی فسانہ چھیڑدے تو یہ باتیں خواب وخیال کی معلوم ہونے لگتی ہیں:

وقت پیری شباب کی باتیں
ایسی ہیں جیسے خواب کی باتیں​

بڑھاپے میں اکثر بوڑھوں کو شکایت ہوتی ہے کہ اعزااقرباء ان کا خیال نہیں رکھتے، دوست احباب ان کی خبر نہیں لیتے ،فراق گورکھ پوری نے ایک نہایت لطیف نکتہ نکالاہے کہ جیسے گرنے والی دیوار سےلوگ بچ کر ہٹ کر چلتے ہیں کہ کہیں زد میں نہ آجائیں ،ویسے ہی بڑھاپا زیست کی گرتی دیوار ہے، جوآج گری یا کل، اور یہی وجہ ہے دوست احباب کی بے اعتنائی کا۔

وقت پیری دوستوں کی بے رخی کا کیا گلا
بچ کے چلتے ہیں سبھی گرتی ہوئی دیوار سے
فراق گورکھپوری​

جوانی اوربڑھاپا تو اپنی جگہ ہے شاعروں نے اپنے ممدوح کی شان میں یاہجر وصل کے بارے میں اتنے مبالغہ سے کام لیاہے کہ ریاضی دانوں کو چکر میں ڈال دیاہے ، وہ بھی حیران ہیں کہ اس مبالغہ آرائی کا حساب کیسے لگائیں ،اکبرالہ آبادی نے تو ریاضی دانوں کو چیلنج کرتے ہوئے لکھاہے کہ اگر آپ کو علم ریاضی میں مہارت ہے تو طول شب فراق ذرا ناپ دیجئے!

دعویٰ بہت ہے علم ریاضی میں آپ کو
طول شب فراق ذرا ناپ دیجئے​

طول شب فراق تو پھر بھی رات بھر کا قصہ ہے ،غالب نے اپنے ممدوح تجمل حسین خان کی شان میں مبالغہ آرائی کی ہے، کیا اس بزم علم وادب کے کوئی ماہر ریاضی اس کا صحیح جواب دے سکتے ہیں کہ کہ اگر کسی کی عمر ہزار سال فرض کی جائے اورایسا ہزار برس جس کا ہربرس تین سو پینسٹھ دن کے بجائے پچاس ہزار دن کا ہوتو پورے کتنے دن ہوئے اور عام طورسے یہ کتنے سال وماہ ہوئے؟۔

تم سلامت رہو ہزار برس
ہربرس کے دن ہوں پچاس ہزار​

غالب کی مبالغہ آرائی کی تان تو اتنے پر ٹوٹ گئی لیکن فوق کل ذی علم علیم کے تحت یہاں ان سے بھی بڑےموجود ہیں جنہوں نے مبالغہ آرائی کے زور سے ایسا حساب کتاب بناہے جس کی تپش سے علم ریاضی ہی جل جائے،شاعر اپنے ممدوح کی شان میں کہتاہے:

شاہا بقائے عمر تو بادا ہزار سال
لیکن بایں حساب بصد حشمت وجمال
سالے ہزار ماہ ومہے صد ہزار روز
روزے ہزار ساعت وساعت ہزار سال


ترجمہ اور ترجمانی دونوں یہ ہے کہ ممدوح کی عمر ہزار سال ہو اورہزار سال بھی ایسی نہیں جو یوں ہی کسی طرح لشتم پشتم گزرجائے بلکہ بصدحشمت وجمال گزرے ،یہ ہزار سال ایسا ہو کہ ایک سال تین سو پینسٹھ دن کا نہ ہو بلکہ ہزار مہینوں کا ہو، اب بارہ مہینے کے تین سو پینسٹھ دن ہوتے ہیں تو جوڑ لیجئے کہ ہزار مہینوں کے کتنے دن ہوں گے،پھر یہ مہینے بھی تیس دن کے نہ ہوں بلکہ ہزار دنوں کے ہوں اور یہ دن بھی چوبیس گھنٹوں کا نہ ہو بلکہ ہزار گھنٹوں کا ہواورپھر یہ گھنٹہ بھی ساٹھ منٹ کا نہ ہو بلکہ ہزار سال کا ہو۔
ہاں تو اے ماہرین علم ریاضی! جناب شاعر کے تخیل کے مطابق ذرا حساب کتاب تو کیجئے کہ بادشاہ ممدوح کی عمر کتنی ہوئی اورکتنے ماہ وسال تک بصد حشمت وجمال سلامت رہنے کی دعامانگی گئی ہے؟

اب تک تو جوکچھ بھی تھا وہ شعر کی صورت میں تھا لیکن ظاہر سی بات ہے کہ شاعری تو نثرمیں بھی ہوتی ہے اور حسرت موہانی جیسے شاعر بوالکلام کی نثر دیکھ کر اپنی شاعری بھول گئے تھے،ہمارے برادران وطن کو بھی اللہ نے مبالغہ آرائی کی بڑی عجیب وغریب صفت دی ہے، ایسا اوراس طرح کا مبالغہ کرتے ہیں کہ آدمی بھول جاتاہے کہ سرپیٹے یا نوحہ کرے، مثلا ان کےیہاں زمانہ کی چار اکائی میں تقسیم کی گئی ہے:

پہلا زمانہ ست یگ ہے یہ ایک ہزار سات سو اٹھائیس ملین سال کاہے(ملین دس لاکھ کو کہتے ہیں)اس کے بعد تریتا یگ آتاہے جس کا دورانیہ ایک ہزار دو سو چھیانوے ملین سال کا ہے،تیسرا دُواپرا یگ ہے اس کا دورانیہ آٹھ سو چھیاسی ملین سال ہے،اور چوتھا کل یگ ہے، اس کی مدت چارسو تئیس ملین سال ہے اور ابھی ہم لوگ کل یگ میں ہی جی رہے ہیں،ان چاروں زمانہ کا مجموعہ چار ہزار بتیس ملین سال ہوتاہے،یہ زمانہ کی ایک گردش ہوئی ، زمانہ جب اس طرح ہزارگردشیں پوری کرتاہے تو یہ برہما کی عمر کا ایک دن ہوتاہے، برہما کی عمر سو سال کی ہوتی ہے اورہرسال تین سو ساٹھ دن کاہوتاہے۔

بتائیے کچھ ہوش ٹھکانے آئے ، یاہندودیومالائی قصوں کی مزید سنگ باری کی جائے،چلئے آپ کو شوق ہے تو ہم اس کیلئے بھی تیار ہیں

کہاجاتاہے برہما کی اتنی طویل عمر بھی ہندوئوں کے دیوتا وشنو کا محض ایک لمحہ ہے(اصل عبارت ایک سانس کی ہے)وشنو جب ایک مرتبہ سانس باہر نکالتاہے تو ہزاروں عالم وجود میں آتے ہیںاورہرعالم میں ایک برہما بھی وجود میں آتاہے۔

ہندو دیومالائی روایات اتنے پر ہی بس نہیں کرتا، اس کے بعد بھی وقت کا چکر چلتارہتاہے، لیکن اتنے میں ہی میرے ہوش ٹھکانے نہیں رہے، آپ کے بھی نہیں ہوں گے اور ہمارے ریاضی کے ماہرین کے بھی نہیں ہوں گے،بلکہ ان پر تو غشی طاری ہوگی، لہذا اللہ بس باقی ہوس،یارزندہ صحبت باقی۔
 
Top