وقت آگیا ہے کہ ریاست سے سرکاری مذہب کا تصور ختم کیا جائے

جاسم محمد

محفلین
وقت آگیا ہے کہ ریاست سے سرکاری مذہب کا تصور ختم کیا جائے
28/03/2020 سعدیہ نذیر

مذہب میں بہت کچھ ایسا ہے جس کی تعریف میں بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے۔ لیکن جب بات غریب اور امیر کی آتی ہے تو مذہب غریب کے لئے تو ایک فلسفہ ہے۔ ایمان ہے۔ یقین کی بات ہے۔ اس کا جینا بھی ہے اور مرنا بھی۔ لیکن جب یہ امرإ جاگیردار حکومتی اداروں ملٹری اور ملاّ الائنس کے ہتھّے چڑھتا ہے تو صرف اور صرف عوام الناس کو کنٹرول میں رکھنے ان کی چیختی آوازوں کا گلا دبانے اور ان کی مزاحمت کو گستاخی سے تعبیر کرنے کے کام آتا ہے۔ پھر مذہب صوفیانہ نظامِ زندگی نہیں بلکہ ایسی حکمتِ عملی بن کر رہ جاتا ہے جس سے لوگوں کا منہ حسبِ ضرورت بند کیا جا سکتا ہے۔

اسٹیٹ اپنے آپ کو خدا کا نمائندہ اور ایسا دیوتا بنا دیتی ہے جس پر سوال اٹھانا نا ممکن ہے۔ جان لیں آپ سوال اٹھائیں گے تو مرتد کہلائیں گے بھلے آپ کے سوال کا مذہب سے کوئی تعلق بھی نہ ہو۔ بھلے آپ بھوکے ہوں روٹی مانگتے ہوں یا پھر مظلوم ہوں اور انصاف کے طلبگار ہوں۔ مذہب کے نام پر ہم نے کیسا معاشرہ قائم کیا ہے جس میں نہ عدل ہے نہ انصاف۔ جابر حاکم جب حکم دے سرکش کو گستاخ بنا کر اس کا سر تن سے جدا کردے۔ یہ مذہبی انتہا پسندی کی ایسی آگ ہے جو معاشرے کو نگل گئی ہے۔ سیاستدان بھی مذہب کے کندھے پر بندوق رکھ کر چلاتا ہے۔ کہیں نظامِ مصطفیٰ کی باتیں ہوتی ہیں تو کہیں ریاستِ مدینہ کی۔

جرنلسٹ کمیونٹی نے جب عمران خان سے سوال کیا کہ کرونا سے کون لڑے گا؟ تو انہوں نے کہا۔ اللّہ۔ اپنی نا اہلی کو مذہب کی آڑ میں چھپا لیں، لوگ اظہار کی آزادی مانگیں تو انہیں سخت سزاٶں کی دھمکی لگا دیں۔ یعنی کہ مان لیں کہ حکمران پر سوال اٹھانا جرم ہے۔ وہ خود کو زمین پر اللّہ کا نائب قرار دے تو کون کمبخت سوال اٹھا کر اپنی کم بختی لائے۔ ہر لیول پہ مذہب لوگوں کو کنٹرول کرنے کا ایسا آزمودہ نسخہ ہے جس میں اب شک کی گنجائش نہیں بچی۔ گدی نشین اپنی پیرخانے کی سیاست سے لوگوں کو کنٹرول کرتا ہے۔ عام انسان کے لئے فقیری کا درس ہے اور اپنے لئے طاقت کا جنون اور دولت کا نشہ۔ ریاستی ادارے مزاحمتی قوتوں کو کچلیں تو مذہب کے نام پر۔

آپ نے اکثریتی اور سرکاری مذہب کا چولا اوڑھ رکھا ہے تو آپ پاکستانی بھی ہیں اور وفادار بھی۔ غیر مسلموں کے ساتھ سلوک اور جبری مذہب کی تبدیلی توایک طرف، سرکاری مذہب میں بھی آپ کسی اقلیتی فرقے سے ہیں تو آپ کے پاس جینے کا حق نہیں ہے۔ آپ جس دھرتی پر رہتے ہیں۔ وہ مذہب سے متصادم کیوں بتائی جاتی ہے۔ آپ کی لسانی اور علاقائی شناخت آپ کی پہچان ہے اس کا مذہب کے ساتھ موازنہ بے بنیاد ہے۔ سوال یہ ہے کہ لوگوں کی ثقافتی شناخت زیادہ پائیدار ہے یا وہ نظریاتی تشخص جو ریاستی طاقت کے ذریعے ان پہ مسلط کیا گیا ہے۔

کیا یہ نظریات ایک دوسرے سے متصادم ہیں۔ جی نہیں۔ مسئلہ تو صرف امیر اور غریب کا ہے۔ غریب کو روٹی کی بجائے فلسفہ دیجئیے۔ نظریے سے اس کی آنکھیں ٹھنڈی رہیں۔ لفاظی سے اس کا پیٹ بھرا جائے۔ تاکہ وہ اپنے جائز حق کے لئے بھی نہ لڑ سکے۔ صبر اور شکر اچھی عادتیں ہیں۔ لیکن کسی کا حق صبر کی تعلیم کے دم پر سلب نہیں کیا جا سکتا۔ غریب کو کیا چاہیے؟ روٹی مذہب یا فلسفہ؟

مذہب سے ہم معاشرے کو کتنا سنوار سکے ہیں؟ سوال مذہب پر اعتراض کا نہیں۔ مذہبی کارڈ کے غلط استعمال کا ہے۔ اب وہ وقت آگیا ہے کہ یورپ کی طرح ریاست کے سرکاری مذہب سے پیچھا چھڑا لیا جائے۔ کیونکہ مذہب کے نام پر سیاست سے کوئی بڑا جرم بھی نہیں ہے اور یہ ایسا جرم ہے جس کے لئے کوئی عدالت بھی نہیں ہے۔ مذہب کا کارڈ ایک ایسا کارڈ ہے جس کے آگے ریاست بھی گھٹنے ٹیک دیتی ہے۔ بلکہ اس کو اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لئے استعمال بھی کرتی ہے۔ پاکستان اگر کسی پارسا شخص کا خواب ہے تو اس خواب کے عذاب جھیلنے کو کوئی مسیحا سامنے کیوں نہیں آتا؟
 
secret-clipart-quite-time-1.png
 
وقت آگیا ہے کہ ریاست سے سرکاری مذہب کا تصور ختم کیا جائے
28/03/2020 سعدیہ نذیر

مذہب میں بہت کچھ ایسا ہے جس کی تعریف میں بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے۔ لیکن جب بات غریب اور امیر کی آتی ہے تو مذہب غریب کے لئے تو ایک فلسفہ ہے۔ ایمان ہے۔ یقین کی بات ہے۔ اس کا جینا بھی ہے اور مرنا بھی۔ لیکن جب یہ امرإ جاگیردار حکومتی اداروں ملٹری اور ملاّ الائنس کے ہتھّے چڑھتا ہے تو صرف اور صرف عوام الناس کو کنٹرول میں رکھنے ان کی چیختی آوازوں کا گلا دبانے اور ان کی مزاحمت کو گستاخی سے تعبیر کرنے کے کام آتا ہے۔ پھر مذہب صوفیانہ نظامِ زندگی نہیں بلکہ ایسی حکمتِ عملی بن کر رہ جاتا ہے جس سے لوگوں کا منہ حسبِ ضرورت بند کیا جا سکتا ہے۔

اسٹیٹ اپنے آپ کو خدا کا نمائندہ اور ایسا دیوتا بنا دیتی ہے جس پر سوال اٹھانا نا ممکن ہے۔ جان لیں آپ سوال اٹھائیں گے تو مرتد کہلائیں گے بھلے آپ کے سوال کا مذہب سے کوئی تعلق بھی نہ ہو۔ بھلے آپ بھوکے ہوں روٹی مانگتے ہوں یا پھر مظلوم ہوں اور انصاف کے طلبگار ہوں۔ مذہب کے نام پر ہم نے کیسا معاشرہ قائم کیا ہے جس میں نہ عدل ہے نہ انصاف۔ جابر حاکم جب حکم دے سرکش کو گستاخ بنا کر اس کا سر تن سے جدا کردے۔ یہ مذہبی انتہا پسندی کی ایسی آگ ہے جو معاشرے کو نگل گئی ہے۔ سیاستدان بھی مذہب کے کندھے پر بندوق رکھ کر چلاتا ہے۔ کہیں نظامِ مصطفیٰ کی باتیں ہوتی ہیں تو کہیں ریاستِ مدینہ کی۔

جرنلسٹ کمیونٹی نے جب عمران خان سے سوال کیا کہ کرونا سے کون لڑے گا؟ تو انہوں نے کہا۔ اللّہ۔ اپنی نا اہلی کو مذہب کی آڑ میں چھپا لیں، لوگ اظہار کی آزادی مانگیں تو انہیں سخت سزاٶں کی دھمکی لگا دیں۔ یعنی کہ مان لیں کہ حکمران پر سوال اٹھانا جرم ہے۔ وہ خود کو زمین پر اللّہ کا نائب قرار دے تو کون کمبخت سوال اٹھا کر اپنی کم بختی لائے۔ ہر لیول پہ مذہب لوگوں کو کنٹرول کرنے کا ایسا آزمودہ نسخہ ہے جس میں اب شک کی گنجائش نہیں بچی۔ گدی نشین اپنی پیرخانے کی سیاست سے لوگوں کو کنٹرول کرتا ہے۔ عام انسان کے لئے فقیری کا درس ہے اور اپنے لئے طاقت کا جنون اور دولت کا نشہ۔ ریاستی ادارے مزاحمتی قوتوں کو کچلیں تو مذہب کے نام پر۔

آپ نے اکثریتی اور سرکاری مذہب کا چولا اوڑھ رکھا ہے تو آپ پاکستانی بھی ہیں اور وفادار بھی۔ غیر مسلموں کے ساتھ سلوک اور جبری مذہب کی تبدیلی توایک طرف، سرکاری مذہب میں بھی آپ کسی اقلیتی فرقے سے ہیں تو آپ کے پاس جینے کا حق نہیں ہے۔ آپ جس دھرتی پر رہتے ہیں۔ وہ مذہب سے متصادم کیوں بتائی جاتی ہے۔ آپ کی لسانی اور علاقائی شناخت آپ کی پہچان ہے اس کا مذہب کے ساتھ موازنہ بے بنیاد ہے۔ سوال یہ ہے کہ لوگوں کی ثقافتی شناخت زیادہ پائیدار ہے یا وہ نظریاتی تشخص جو ریاستی طاقت کے ذریعے ان پہ مسلط کیا گیا ہے۔

کیا یہ نظریات ایک دوسرے سے متصادم ہیں۔ جی نہیں۔ مسئلہ تو صرف امیر اور غریب کا ہے۔ غریب کو روٹی کی بجائے فلسفہ دیجئیے۔ نظریے سے اس کی آنکھیں ٹھنڈی رہیں۔ لفاظی سے اس کا پیٹ بھرا جائے۔ تاکہ وہ اپنے جائز حق کے لئے بھی نہ لڑ سکے۔ صبر اور شکر اچھی عادتیں ہیں۔ لیکن کسی کا حق صبر کی تعلیم کے دم پر سلب نہیں کیا جا سکتا۔ غریب کو کیا چاہیے؟ روٹی مذہب یا فلسفہ؟

مذہب سے ہم معاشرے کو کتنا سنوار سکے ہیں؟ سوال مذہب پر اعتراض کا نہیں۔ مذہبی کارڈ کے غلط استعمال کا ہے۔ اب وہ وقت آگیا ہے کہ یورپ کی طرح ریاست کے سرکاری مذہب سے پیچھا چھڑا لیا جائے۔ کیونکہ مذہب کے نام پر سیاست سے کوئی بڑا جرم بھی نہیں ہے اور یہ ایسا جرم ہے جس کے لئے کوئی عدالت بھی نہیں ہے۔ مذہب کا کارڈ ایک ایسا کارڈ ہے جس کے آگے ریاست بھی گھٹنے ٹیک دیتی ہے۔ بلکہ اس کو اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لئے استعمال بھی کرتی ہے۔ پاکستان اگر کسی پارسا شخص کا خواب ہے تو اس خواب کے عذاب جھیلنے کو کوئی مسیحا سامنے کیوں نہیں آتا؟
 
اپ نے جس وجہ کو جواز بنا کر مزہب سے ریاست کو علیحدہ کرنے کی بات کی ہے وہ ایجنڈا پہلے بھی پیش ہوتا رہا اور پھیلایا بھی جاتا رہا ہے۔ کم از کم میں اس کے حق میں بلکل نہیں ہوں ۔ کیا اس کی بجائے ہمیں اپنے موجودہ سسٹم کو اسلامی اصولوں پر مشتمل اصلاحات اور قوانین بنانے کے لئے مجبور کرنے کیلئے اجتمائ کاوش کرنا ہوگی
 
زمِستانی ہوا میں گرچہ تھی شمشیر کی تیزی
نہ چھُوٹے مجھ سے لندن میں بھی آدابِ سحَرخیزی
کہیں سرمایۂ محفل تھی میری گرم گُفتاری
کہیں سب کو پریشاں کر گئی میری کم آمیزی
زمامِ کار اگر مزدور کے ہاتھوں میں ہو پھر کیا!
طریقِ کوہکن میں بھی وہی حیلے ہیں پرویزی
جلالِ پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو
جُدا ہو دِیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
سوادِ رومۃُ الکبریٰ میں دلّی یاد آتی ہے
وہی عبرت، وہی عظمت، وہی شانِ دل آویزی
 

آورکزئی

محفلین
موصوفہ کا خیال ہے کہ سیاست اگر مذہب سے دور ہو تو ہی ریاست پروان چڑھتا ہے۔۔ لگتا ہے ان کی تاریخ بہت کمزور ہے
 
Top