وقار ملک سابقہ کرشن چندر اور لاہور (مستنصر حسین تارڑ )

مستنصر حسین تارڑ کے کالم "وقار ملک سابقہ کرشن چندر اور لاہور" سے اقتباس

محمد اویس قرنی نے اپنی کتاب ’’کرشن چندر کی ذہنی تشکیل‘‘ میں کرشن کے مسلمان ہونے کے بارے میں ٹھوس ثبوت پیش کئے ہیں۔۔۔ اگرچہ اس سے فرق تو پڑتا نہیں کوئی کہ کرشن چندر ہندو تھا یا مسلمان لیکن ایک حقیقت کا اقرار کر لینے میں مضائقہ بھی تو نہیں کوئی۔۔۔

جب کرشن چندر نے وقار ملک کا نام خود تجویز کیا تو سلمیٰ نے جھنجھلا کر کہا۔۔۔ یہ ب...ھی کوئی نام ہے تو کرشن چندر کھڑکی سے باہر دھندلاتی ہوئی پہاڑیوں کو دیکھتے ہوئے بولے، جب میں پونچھ میں چوتھی جماعت میں تھا تو میرے دو دوست تھے۔ ایک کا نام وقار تھا اور دوسرے کا ملک۔۔۔ ہم ایک دوسرے کے گھر آتے جاتے رہتے تھے۔۔۔ میں نے پہلی بار غالب کا شعر اس گھر میں سنا تھا۔۔۔ عید کی پہلی سویاں وہیں چکھی تھیں، شامی کباب اور بریانی کا ذائقہ وہیں جانا تھا، خاصدان سے پان کی گلوری وہیں اٹھائی تھی اور گھر آ کے ماں جی سے خوب جھگڑا کیا تھا کہ ہمارے گھر میں عید کیوں نہیں منائی جاتی۔۔۔

محمد ہاشم کو ایک خط میں سلمیٰ صدیقی لکھتی ہیں ’’ہماری شادی 7 جولائی 1961ء کی شام نینی تال میں ہوئی، اس وقت نینی تال کی مسجد کے مولانا نے نکاح پڑھایا۔۔۔ گواہوں میں رامپور کے دو دوست، مہارانی جہانگیر آباد اور محمد کاظمی تھے۔ کرشن چندر نے اسلامی طریقہ پر نکاح کیا اور مسلمان ہونا قبول کیا، اپنا نام وقار ملک رکھا‘‘۔۔۔ ان کی موت پر اندر کمرے میں بیٹھی ان کی بیوہ سلمیٰ صدیقی کا کہنا تھا کہ انہیں دفن کرنا ہو گا یہ مسلمان تھے ان کا نام وقارالملک تھا مگر کوئی ان کی سننے کو تیار نہ تھا۔۔۔ ’’کرشن چندر کے چہرے پر موت کے آثار نہ تھے، ایک سکون تھا، ایک شانتی تھی جیسے سارے فرض پورے کر چکے ہوں، اب کچھ کرنے کو باقی نہیں تھا۔۔۔ خواجہ احمد عباس، اعجاز صدیقی، ظ۔ انصاری اور سردار جعفری اندر کمرے میں تھے‘‘۔

ظ۔ انصاری کا کہنا ہے کہ جب ان کا جنازہ ہال میں رکھا گیا تو میں نے کسی کے کہنے پر قرآن خوان حافظ جی کو بلوایا اور قرآن خوانی ہوئی کمرے میں سفید چاندنی بچھی تھی، اگربتی کے دھوئیں سے فضا معطر تھی، کچھ عورتیں بیٹھی قرآن پاک کی تلاوت کر رہی تھی، جنازے کی تیاری کا انتظار تھا۔

کرشن چندر بلکہ وقار الملک نے اپنی بیوی کے نام وصیت کی۔۔۔ کہ حالات قابو سے باہر ہو جائیں تو پاکستان چلی جانا وہاں میرے بہت سے دوست احباب ہیں جو سچ مچ مجھ سے پیار کرتے ہیں۔ تم وہاں اکیلی نہ رہو گی۔۔۔ لیکن لگتا ہے اس کی نوبت نہ آئی۔۔۔ سلمیٰ صدیقی کی محبت پر حاوی ہونے والی ان کے دل و دماغ پر راج کرنے والی چاہت اور دیوانگی شہر لاہور تھا جہاں وہ پیدا ہوئے، پنجاب تھا جس کے عشق میں وہ زندگی بھر ڈوبے رہے۔۔۔

ستار طاہر نے لکھا ’’لاہور کرشن چندر کو بہت عزیز تھا، ان کی زندگی کئی شہروں میں بسر ہوئی لیکن لاہور کے ساتھ ان کی محبت کبھی کم نہ ہو سکی۔۔۔ وہ لاہور سے محبت کرتے تھے اور زندگی کے آخری دنوں میں ان کی سب سے بڑی خواہش یہ تھی کہ وہ کسی طرح ایک بار پھر لاہور چلے جائیں‘‘۔ کرشن چندر کو نہ دلّی بھایا اور نہ ہی لکھنؤ نے ان کے پاؤں پکڑے بلکہ وہ ان دونوں شہروں کو لاہور کے مقابلے میں حقیر جانتے رہے۔

اختر جمال نے تذکرہ کیا کہ۔۔۔ لاہور ان کی ایسی محبت تھی جس کے لئے وہ بہت تڑپتے تھے۔۔۔ لاہور میرا لاہور کیسا ہے۔۔۔ جب وہ لاہور اور لاہور کے لوگوں کی تعریف سنتے تو ان کا چہرہ کھل جاتا، آنکھیں چمکنے لگتیں، لاہور کی تعریف ان کی تعریف تھی۔

’’لاہور میری کمزوری ہی نہیں۔۔۔ میں نے تو لاہور میں مرنے کا خواب دیکھا ہے کسی کونے میں، کسی چھوٹے سے گندے سے غلیظ چوک کے کنارے‘‘۔
لاہور سے جدائی کی جو کسک کرشن چندر کو سانس نہ لینے دیتی تھی اس کا سلسلہ ان اہم ادیبوں سے جڑتا ہے جن کے قلوب میں ابھی تک ایک دلّی، ایک لکھنؤ آباد ہے۔۔۔ کہ اپنی جنم بھومی جیسی کیسی بھی ہو ایک جنت گم گشتہ کی صورت میں تمہیں اپنے فریب میں جکڑے رکھتی ہے۔

’’لاہور میں رہ کر کوئی بوڑھا نہیں ہو سکتا، وہ میرا سدابہار جگمگاتا ہوا فانوس بدن شہر۔۔۔ اپنی لافانی جوانی کے لئے مشہور ہے، اس شہر میں رہ کر اگر کوئی بوڑھا ہوتا ہے تو بہتر ہے کہ وہ اس شہر کو چھوڑ دے اور منڈی بہاؤالدین اور چک نمبر چار سو بیس میں جا کر سکونت اختیار کر لے مگر لاہور کے نام کوبٹہ نہ لگائے‘‘۔

’’کرشن چندر ایک ایسا عاشق تھا جس کا واحد محبوب لاہور تھا‘‘۔
’’مجھے بتا دو تم کہاں جانا چاہتے ہو؟ میں تمہیں ٹکٹ لائے دیتا ہوں۔۔۔ میں لاہور میں رہوں گا۔۔۔ لاہور میرا وطن ہے‘‘۔
’’میرا سب کچھ لاہور ہے۔۔۔ کرشن نے رُندھے ہوئے گلے سے کہا۔۔۔ میاں تمہیں معلوم ہے میں لاہور کے بغیر نہیں رہ سکتا، مجھے لاہور سے عشق ہے‘‘۔

مجھے کبھی کبھی یہ خیال آتا ہے کہ اگر منٹو کسی ہندو عورت کے عشق میں مبتلا ہو کر ہندو دھرم اختیار کر لیتا، آگ کے گرد پھیرے لگا کر اسے اپنی گھر والی بنا کر اپنا نام رام بھروسہ رکھ لیتا تو ہم کیسے اسے مطعون کر کے نار جہنم میں جھونک دیتے۔۔۔ لکشمی مینشن کے فلیٹ کو نذرآتش کر دیتے۔

کرشن چندر عرف وقار الملک کا جنازہ ہال میں پڑا ہے اور قرآن خوانی ہو رہی ہے اور اس کے باوجود اسے جلایا گیا۔۔۔ جیسا کہ اگر منٹو ہندو ہو جاتا تو ہم اس کو آگ کے سپرد نہ کرتے۔۔۔ دفن کر دیتے۔۔۔ ایک عظیم ادیب بے شک جلایا جائے یا دفن کیا جائے اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔ کیا ن م راشد کو جلائے جانے پر کچھ فرق پڑا۔

میں محمد اویس قرنی کا شکرگزار اور معترف ہوں کہ اس باریش نوجوان نے مردان کی گمنامی میں ’’کرشن چندر کی ذہنی تشکیل‘‘ ایسی عرق ریز کتاب لکھی اور کسی ستائش اور تمنا کے بغیر تحریر کی۔۔۔ قرنی تمہارا شکریہ!
 
اس موضوع پر کچھ مزید
’کرشن چندر کی ذہنی تشکیل‘ نوجوان محقق اویس قرنی کا ایم فل کا مقالہ ہے جسے انھوں نے کمال محنت سے کتابی شکل میں ہمارے سامنے پیش کردیا ہے۔اویس اردو ادب کے استاد ہیں ، شاعر ہیں اور سٹیج کے بادشاہ ہیں ۔کتاب ۴۶۵ صفحات پر مشتمل ہے اور اسے پڑھنا ’صبر‘ اور’ شکر‘ کا تقاضا کرتا ہے۔اویس سے میری ملاقات ہزارہ یونی ورسٹی کی تین روزہ قومی اردو کانفرنس (اپریل ۲۰۱۴ء ) کے موقع پر ہوئی۔ان کے ہاتھ میں یہ کتاب دیکھ کر اور ان کا یہ دعویٰ سن کر کہ کرشن چندر نے اسلام قبول کر لیا تھا ، مجھے بھی اشتیاق ہوا کہ اس کتاب کا مطالعہ کیا جائے۔ہماری درخواست پر اویس نے کمال محبت سے کتاب ارسال کی اور دو ماہ اسے پڑھنے، اس پر تبصرہ لکھنے اور تبصرے کو کمپوز کرنے میں گزرگئے ۔ مظفرآباد میں بدترین لوڈشیڈنگ کی جا رہی ہے جس کی وجہ سے کمپیوٹر پر کام ممکن ہی نہیں رہا۔کتاب کو آھنگ ادب پشاور نے زیور طبع سے آراستہ کیا ہے۔کتاب کا سرورق اس سوچ کو سامنے لاتا ہے جو کرشن چندر کی تھی یعنی ہندومسلم ایکتا۔ کتاب کے فلیپ پر کرشن چندر اور اس کے فن پر اردو کے ممتاز نقادوں کے تبصرے درج کیے گئے ہیں۔میں یہ سمجھتا ہوں کہ کتاب کے فلیپ پر مصنف کے فن پر تبصرے ہونے چاہیے تھے۔

کتاب کے شروع میں ایک چیزجو آپ کو کتاب پڑھنے پر اکساتی ہے وہ وقار الملک المعروف بہ کرشن چندر ہے۔اویس نے کتاب کو پانچ ابواب میں تقسیم کیا ہے جس میں پانچویں باب کی اس لیے ضرورت نہیں کہ یہ مقالے کے حصے کے طور پر ہی اچھا لگتا ہے۔باقی کے چار ابواب میں ’کرشن چندر کی فکری جہتیں ، کرشن چندر کے سیاسی رجحانات، کرشن چندر کا ذہنی میلان اور کرشن چندر اورتقسیم چند‘ شامل ہیں۔حرف اول میں اویس نے تمام تذکرے کیے ہیں لیکن یہ نہیں لکھا کہ یہ مقالہ ایم فل کا ہے اور اس پر انھیں علامہ اقبال اوپن یونی ورسٹی نے ایم فل کی ڈگری عطا کی ہے۔ جون ایلیا کب سے دانشور اور حضرت ہوگئے۔ہم تو مرحوم کو ایک غیرمتوازن روح ہی سمجھتے ہیں۔ویسے ان کی شخصیت اور شاعری کا درست تجزیہ ڈاکٹر صابر بدر جعفری کے مضمون مشمولہ ’نگارشات‘میں ملتا ہے۔تاہم ’یعنی‘ کا شاعر ایک لایعنی اور ’شاید‘ کا جان بوجھ کر مشکل پسند لگا۔تاہم پسند اپنی اپنی۔

پہلا باب ’کرشن چندر کی فکری جہتیں‘ ۷۸ صفحات پر محیط ہے جس میں دوتہائی حوالہ جات ہیں جن کو کم کیا جا سکتا تھا یا مارجن کم کرکے مزید صفحات میں کمی لائی جا سکتی تھی۔اس سے کتاب کا پیٹ کم ہوجاتا اور یہ سمارٹ اور مزید خوب صورت لگتی۔حوالہ جات مقالے کا انداز ہے عام کتاب کا نہیں۔یہ انفرادیت بھی ہے اور کمی بھی۔حوالہ جات باب کے آخر میں مقالے کے لحاظ سے تو درست ہوسکتے ہیں لیکن قاری کے لیے حوالہ جات و حواشی اگر ہوں بھی تو اسی صفحے پر زیادہ موثر ہوتے ہیں کیونکہ قاری کو بار بار سو دو سو صفحات نہیں پلٹنے پڑتے کہ ایک ایک حوالے کے لیے ورق گردانی کرے۔ اس باب میں بعض طویل جملوں اور رموز و اوقاف کے کم استعمال نے پریشان ضرور کیا۔پٹھانی اردو کا خوب استعمال ہے اور اس میں اویس بے بس بھی ہیں جیسے صفحہ ۵۲ پر’کیا ایک زندہ جسم خود نشوونما پاتی ہے‘۔ تکوین حیات میں ساحر کے اس شعر کا کیا کام کہ ’عورت نے مرد کو جنم دیا‘(ویسے عورت کو مرد نے جنم دیا ہے)۔کرشن چندر کے تصور انسان کو بیان کرتے کرتے آپ خود کچھ زیادہ ہی جذباتی ہوگئے جیسے صفحہ ۷۱ تا ۷۲۔تاہم اویس نے لفاظی میں سب مذاہب اور مشرق و مغرب کے فلاسفروں کے ساتھ ناول نگاروں کو بھی شامل کر لیا جو درست نہیں۔ اویس اس باب میں جو بات ثابت کرنا چاہتے تھے کہ ’کرشن چندر کے اندر ایک اچھی روح موجود تھی‘،تو وہ اس میں کامیاب رہے ہیں۔

دوسرا باب ’کرشن چندر کے سیاسی رجحانات‘ زیادہ موثر ہے ،اگرچہ مختصر ہے لیکن اسے بھی مزید مختصر کیا جا سکتا تھا۔اس باب میں بھی حوالہ جات زیادہ ہیں اور قاری پر گراں گزرتے ہیں۔ایک بڑا مسئلہ ہندی کا استعمال ہے کیونکہ اکثر جگہوں پر اس کی ضرورت ہی نہیں۔اویس کا یہ تجزیہ درست ہے کہ ’تشخص کو تسلیم کیا جانا چاہیے بھلے اس قوم کے معتقدات کیسے ہی کیوں نہ ہوں‘ ۔لیکن ایک ایسے سماج میں جہاں عدم برداشت ہو ایسا ہونا مشکل ہوتا ہے۔اویس کا کمیونزم کے بارے میں یہ تحریر کرنا کہ ’اس کے بارے میں پروپیگنڈا زیادہ ہوا‘ سے میں اتفاق نہیں کرتا۔یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ کمیونزم ایک مذہب بیزار تحریک تھی اور اس کے مخصوص سیاسی مقاصد تھے۔روس کی ریاست کو اس نے انہی مقاصد کے لیے استعمال کیا۔ہمارے سماج میں اس کو پنپنے کا موقع اس لیے کم ملا کہ لوگ دیندار اور روایات پرست تھے۔’دو یا تین فی صد دہریے‘ والی بات البتہ درست لگتی ہے۔لیکن دوسری طرف یہ ایک فکر کا نام بھی تھا کہ مذہب آپ کا ذاتی مسئلہ ہے اور اسی کو کرشن چندر بھی بنیاد بناتا ہے۔ویسے کمیونسٹ روس اور اس سے پہلے کے روس کے تخلیق کاروں کی ایک فہرست بنا لیں تو دلچسپ حقیقت سامنے آتی ہے کہ سوویت یونین نے نعرے زیادہ اور تخلیق کار اور وہ بھی ٹالسٹائی کے معیار کا ،ایک بھی نہیں دیا۔

اویس کی اس بات سے بھی اتفاق نہیں کیا جا سکتا کہ ’جینیوئن ادیبوں نے ہندوستان کی تقسیم کی بات نہیں کی‘۔آزادی کی بات توکی تھی اور اس اصطلاح سے آپ کی کیا مراد ہے ’جینیوئن‘اور اس میں کون کون شامل ہیں۔ان ادیبوں کی اکثریت سیکولر تھی اور ان کو ہندوستان ہی اچھالگتا تھا نہ کہ اس کی تقسیم۔پریم چند نے افسانے ’عیدگاہ‘ کے آخر میں پھر طنز ہی کیا ہے کہ مسلمانوں کی مساوات مسجد تک ہی ہوتی ہے اس کے باہر نہیں۔سلیم راز کے عمرے کے بارے میں جن لوگوں نے پیغامات چلائے ان کے نام لکھ دینے چاہیے تھے آپ کو۔اجمل خٹک کے بارے میں امجد اسلام امجد نے جو کہا وہی تو ایک سیکولر رویہ ہے۔یہ رویے ہم یہاں بھی دیکھتے ہیں اور یہ سیکولر اور کمیونسٹ بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ دیکھو ہم بھی نماز پڑھتے ہیں اور روزے رکھتے ہیں لیکن عجیب بات یہ ہے کہ وہ اسلام کو بھی ایک مذہب ہی سمجھتے ہیں کہ اس کی رسومات و روایات آپ کی ذات تک محدود رہنی چاہیے۔اور ہم ایسا نہیں سمجھتے۔ویسے اجمل خٹک مرحوم سے میں بھی ایک سے زیادہ بار مل چکا ہوں اور ان کے ایک قریبی دوست نواز حسرت خٹک اب تو مظفرآبادی ہی ہوچکے۔ان سے بھی خٹک مرحوم کی شخصیت ،قوم پرستی اور شاعری کے تذکرے ہوتے رہتے ہیں۔حسرت موہانی تو پکے کمیونسٹ تھے اور روسی سرخ سویرے کی بات ببانگ دہل کرتے تھے ،آپ نے ان کو کیسے کمیونسٹوں کی فہرست سے نکال دیا۔

تاہم کرشن چندر کی اس بات سے سب کو اتفاق ہے کہ دنیا کے تمام فلسفے انسانوں کی بہتری اور بھلائی کے لیے تخلیق کیے جاتے ہیں۔یہ فلسفے بوسیدہ اور پرانے ہو جاتے ہیں۔انسان ان کا گودا کھا لیتا ہے۔اور واقعی مارکسزم کے ساتھ یہ ہوچکا ہے۔لیکن یاد رکھیں کہ اسلام فلسفہ نہیں۔کرشن چندر اشتراکیت کا اندھا مقلد نہ تھا اور یہ اس کی عظمت ہے۔ اس کا کمیونزم کے بارے میں یہ کہنا درست تھا کہ ’اس میں روشنیاں ہیں تو سائے بھی ہیں‘۔اس کا یہ تحریر کرنا بھی بجا ہے کہ ادیب کو آزاد ہونا چاہیے۔کرشن چندر نے تمام نظاموں کاعطر لیا ہے اور ہر بڑا فنکار یہی کرتا ہے۔وہ انسانیت کا قائل تھا اور کسی مذہب کو تسلیم نہیں کرتا تھا البتہ اسلام کے قریب تھا۔

اس کتاب کا تیسرا باب ’کرشن چندر کا ذہنی میلان‘ ۱۷۱ صفحات پر مشتمل ایک طویل باب ہے۔تاہم اویس نے اس باب میں بعض مباحث کو خوبصورتی سے یکجا کیا ہے اور نتائج اخذ کرنے کی کوشش کی ہے۔اس باب کے مباحث دل چسپ بھی ہیں لیکن طویل حوالے اور اقتباسات قاری کویہاں بھی اکتاہٹ کا شکار کر دیتے ہیں۔ کرشن چندر کے مسلمان اور ہندو کردار اویس نے کمال خوبی سے زیر بحث لائے ہیں۔اس باب میں بھی انھوں نے ہندی کا خوب استعمال کیا ہے۔’کرشن چندر اور مذہب‘ میں حوالوں کے ساتھ اویس نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ کرشن چندر نے اسلام قبول کر لیا تھا اور ان کا اسلامی نام وقار الملک تھا۔اویس کی یہ بات درست نہیں کہ پونچھ کے پہلے مسلمان گریجویٹ بہادر علی خان تھے۔خان صاحب گریجویٹ تھے ہی نہیں۔کرشن چندر کے مسلمان کردا رمضبوط اور ہندو کردار اخلاق سے گرے ہوئے ہیں اور یہ بات ان کو پریم چند سے جدا کرتی ہے۔ویسے پریم چند کے مسلمان کرداروں اور کرشن چندر کے مسلمان کرداروں کا تقابلی مطالعہ بھی سوچ کے نئے در وا کرسکتا ہے۔

کرشن چندر کی اسلام سے قربت کے اویس نے خوبصورت حوالے رقم کیے ہیں جیسے ’غلام محمد کا غلام کٹ گیا محمدؐ رہ گیا‘۔منٹو کا یہ کہنا درست نہیں کہ ’کشمیر کشمیریوں کا ہے ‘۔اس سوچ کو پاکستانی سول و عسکری بیوروکریسی پروان چڑھاتی رہی ہے اور اب بھی چڑھا رہی ہے۔۱۹۴۷ء میں کشمیر میں قبائلی نہ آتے تو کشمیر کا یہ آزاد حصہ بھی بھارت کا اٹوٹ انگ بن چکا ہوتا۔ان کی قربانیوں کو ہم تو نہیں بھولے ۔اس میں شک نہیں کہ یہاں راجاؤں کا دور ختم ہوگیا لیکن آج کے سیاسی ادوار کو دیکھ کر لوگ ان راجاؤں کے ادوار کو غنیمت سمجھنے لگے ہیں۔اس باب کا سب سے اہم عنوان ’کرشن چندر جیون کے نئے سفر پر‘ہے۔کرشن چندر نے ۱۹۶۱ء میں دوسری شادی ایک مسلمان خاتون سلمیٰ صدیقی سے کی جو ممتاز محقق پروفیسر رشید احمد صدیقی کی بیٹی تھی۔اس وقت کرشن چندر کی عمر ۴۸ سال تھی۔ان کی بیوہ کا یہ کہنا کہ انھوں نے اسلام قبول کر لیا تھا،مشہور نہیں ہوسکا۔اسلام اور شادی دو ایسے افعال ہیں جن کا اعلان کیا جاتا ہے اور اسلام کی پوری تاریخ اس کی گواہ ہے۔اسلام چھپانے والی چیز تو ہے نہیں اور جب یہ کہا جاتا ہے کہ مذہب ذاتی معاملہ ہے تو یہ فر ق ہے سیکولر اور اسلامی سوچ کا۔

آپ نے جو حوالے دیے ہیں ان کی زنجیر بنتی نظر نہیں آتی۔محمدہاشم کون تھا۔مسجد کے مولانا کون تھے۔ان کا نام۔رام پورہ کے گواہ دو دوست۔مہارانی جہانگیر آباداور کرشن چندر کے اعتماد کے آدمی۔محمد کاظمی نے یہ تذکرے بعد میں کیوں نہیں کیے کہ وہ نکاح کے گواہ تھے اور کرشن چندر کے مسلمان ہونے کے بھی۔۱۹۶۱ء اتنے دور کی بات تو نہیں۔یہ ساری باتیں کیسے چھپی رہیں۔سلمیٰ صدیقی کا یہ کہنا کہ نکاح نامے کی ایک کاپی میرے اور دوسری والدہ کے پاس ہے:تو ان کو سامنے نہ لانے کی کیا وجوہات ہیں۔شادی اس وقت ذاتی معاملہ نہیں رہتا جب ایک فرد مسلمان اور دوسرا ہندو ہو۔سردار جعفری کی یہ بات بھی اپنے اندر وزن نہیں رکھتی کہ ’مرنے سے قبل بیوی کو اس بات کی اجازت دی تھی کہ وہ جیسے چاہیں کرشن چندر کی آخری رسومات انجام دیں‘۔کیا یہ اسلام کے ساتھ مذاق نہیں کہ اسے بیوی کے سپرد کردیا جائے۔ویسے سردار جعفری جیسے کمیونسٹ سے یہی توقع تھی۔اس سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ کرشن چندر کو مذہب سے دلچسپی تھی ہی نہیں۔سلمیٰ نے کرشن چندر کے سورگ باشی ہونے کے بعد اس بات کا واشگاف الفاظ میں اعلان نہ کرکے یہ ثابت کیا کہ وہ ایک ہندو کی بیوی تھی ۔کرشن چندر نے اپنے آپ کو اس حد تک پراسرار رکھا کہ اس کے سورگ باش ہونے کے بعد دونوں (ہندو اور مسلمان) خوش ہوگئے کہ وہ ہمارا تھا۔پریم چند نے یہ رویہ اردو کے بارے میں اپنایا تھا۔اب ہندو مسلم دونوں اس کو اپنا ہیرو مانتے ہیں۔تاہم یہ اس کتاب کا سب سے اہم باب ہے۔

کتاب کا چوتھا باب ’کرشن چندر اور تقسیم ہند‘ ۱۰۹ صفحات پر مشتمل ایک اور طویل باب ہے جس کی طوالت کو کم کیا جا سکتا تھا لیکن اویس جانے کیوں کتاب کی ضخامت بڑھاتے رہے۔’مشترکہ تہذیبی سنگم‘ میں اویس کے افکار عجیب سے ہیں جیسے ’پشتونوں کے ہاں بہت ساری اصطلاحات ،بہت سارے لوگوں کے نام ، شہروں کی پہچان، ضرب الامثال ، یہاں تک کہ مہینوں کے مزاج بھی اسی مشترک کلچر کی غمازی کرتے ہیں‘۔’آؤ ہم اس کے بھی ٹکڑے کر لیں۔۔۔ڈھاکہ ،راولپنڈی اور دلی کا چاند‘۔تو اس طرح کی بیشمار چیزیں تو دنیا کے اور خطوں میں بھی مشترک ہیں۔مشترک اقدار نظریے کی بنیاد پر ہونی چاہیے۔’اردو مشترکہ تہذیبی قدروں کی امین‘ میں اویس نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ اردو مشترکہ تہذیبی قدروں کی امین ہے جو جزوی درست ہے کیونکہ اب اردو ملی قدروں کی امین ہے اور ہندوستان میں اس کو بولی بنا دیا گیا ہے۔اردو کے پرانے مراکز میں اردو اور اردو رسم الخط کے ساتھ جو سلوک کیا جا رہا ہے وہ بہت جلد اردو کو ہندی میں ضم کر دے گا(رسم الخط کے معاملے میں)۔

’کیسے مان لوں کہ نام اور مذہب سے قوم اور کلچر بدل جاتے ہیں‘ سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ کرشن چندر کو ہندوستانی کلچر پیارا تھا نہ کہ مذہب۔ ہمارے کلچر کی بنیاد مذہب ہے قومیت نہیں۔۱۹۴۰ء میں قرارداد پاکستان منظور ہوچکی تھی۔ذرا اس کے تناظر میں ’شکست‘ کا مطالعہ کریں تو آپ محسوس کریں گے کہ یہ ناول پاکستان کی مخالفت پر مبنی ہے۔کرشن چندر کی اقتصادی مساوات کا یوٹوپیا کبھی حقیقت کا روپ نہ دھار سکا۔’انگریز نے جاتے جاتے اسے ہندو مسلم فساد میں اس طرح بدلا کہ انگریز بیچ میں سے بڑی چالاکی کے ساتھ نکل گیااور تہذیب کے متوالوں اور مذہب کے نام لیواؤں کو دیر وحرم کے جھگڑوں کے حوالے کردیا‘۔ہم جانے کیوں ہر فساد کے پیچھے گوروں کا ہاتھ تلاش کرتے ہیں۔شیعہ سنی فسادات ہوں یا علاقائی جھگڑے ہر جگہ گوری چمڑی ہی ہمیں نظر آتی ہے۔ہم کیوں یہ تسلیم نہیں کرلیتے کہ اختلافات اور فساد کی جڑ اس مٹی میں موجو دتھی اورہے۔’جو نہ ہندو تھا نہ مسلمان‘ اس سے کیا ثابت ہوتا ہے آپ خود سمجھدار ہیں۔

اویس کے نزدیک برصغیر کے دو مہا لیکھک منٹو اور کرشن چندر معتوب رہے۔منٹو سے جانے کیوں جنس نگاری ہی اخذ کی جاتی ہے۔کیا عورت کی گولائیوں اور گھاٹیوں کے علاوہ موضوعات ختم ہوچکے ہیں۔حسن عسکری اور ممتاز شیریں پختہ کار نقاد ہیں اور ان کے بیانات بچکانہ نہیں۔منٹو نے ویسے طوائف کو بیان کرتے ہوئے کس کی حمایت کی ہے اور کس کی مخالفت کی ہے۔’خدا کی مملکت میں سوختہ جانوں پر‘ صرف وہی نہیں گزری جو شہاب نے ’یا خدا‘ میں تحریر کی ہے۔ عصمت چغتائی کا یہ کہنا درست لگتا ہے کہ’ کرشن چندر نے جو ادب تخلیق کیا وہ مصنوعی ہے۔کرشن چندر مصلح بھی نہیں بن سکا‘۔عصمت چغتائی کو حسن عسکری اور ہم کو عصمت کی چھوڑی قدروں سے کوئی دلچسپی نہیں۔جانے وہ کون سی انمٹ قدریں ہیں جن پر عصمت کی نظر تھی۔ایک سوال یہ بھی ہے کہ اردو کے قدیم مراکز سے کرشن چندر کو بیر کیوں ہے؟فیض کی یہ بات ذو معنی ہے کہ ’یہ جدائی عارضی ہے ، دوست ہم پھر ملیں گے‘۔ذرا ’داغ داغ اجالا‘ اور ’شب گزیدہ سحر‘ کے ساتھ ملا کر اسے دیکھیں۔حوالے اور اقتباسات یہاں بھی اکتا دینے والے ہیں۔

اویس نے ’حرف آخر‘ میں کرشن چندر کے افسانے ’دسواں پل‘ سے حوالہ دیا ہے لیکن میں یہ سمجھتا ہوں کہ دریائے جہلم اور کرشن چندر میں کوئی قدر مشترک نہیں۔جہلم پاکستان کو سیراب کرتا ہے اور کرتا رہے گا لیکن کرشن چندر پاکستان کو چھوڑ گیا۔کیا پاکستان کو اس کی ضرورت نہ تھی اور کیا اسے یہاں نہیں رہنا چاہیے تھا۔وہ پاکستان میں رہتا تو اسے مسلمان ہونے کا اعلان کرنے میں اتنی ہچکچاہٹ بھی نہ ہوتی(اگر وہ مسلمان ہونا چاہتا)۔اور ملک وقار واقعی ہمارے ملک کا وقار ہوتا۔کتاب میں املا کے مسائل موجود ہیں اور تلفظ کے بھی۔تحقیقی انداز سے کتابیات بھی دی گئی ہے اور حوالہ جات بھی جو منفرد انداز ہے۔حروف کے درمیان وقفوں کے مسائل بہت زیادہ ہیں۔یہ منفردانداز سے لکھی گئی کتاب ہے اور اس کا مطالعہ سکالرز کی سوچوں کے درواکرنے میں مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔
 
اس موضوع پر کچھ مزید
’کرشن چندر کی ذہنی تشکیل‘ نوجوان محقق اویس قرنی کا ایم فل کا مقالہ ہے جسے انھوں نے کمال محنت سے کتابی شکل میں ہمارے سامنے پیش کردیا ہے۔اویس اردو ادب کے استاد ہیں ، شاعر ہیں اور سٹیج کے بادشاہ ہیں ۔کتاب ۴۶۵ صفحات پر مشتمل ہے اور اسے پڑھنا ’صبر‘ اور’ شکر‘ کا تقاضا کرتا ہے۔اویس سے میری ملاقات ہزارہ یونی ورسٹی کی تین روزہ قومی اردو کانفرنس (اپریل ۲۰۱۴ء ) کے موقع پر ہوئی۔ان کے ہاتھ میں یہ کتاب دیکھ کر اور ان کا یہ دعویٰ سن کر کہ کرشن چندر نے اسلام قبول کر لیا تھا ، مجھے بھی اشتیاق ہوا کہ اس کتاب کا مطالعہ کیا جائے۔ہماری درخواست پر اویس نے کمال محبت سے کتاب ارسال کی اور دو ماہ اسے پڑھنے، اس پر تبصرہ لکھنے اور تبصرے کو کمپوز کرنے میں گزرگئے ۔ مظفرآباد میں بدترین لوڈشیڈنگ کی جا رہی ہے جس کی وجہ سے کمپیوٹر پر کام ممکن ہی نہیں رہا۔کتاب کو آھنگ ادب پشاور نے زیور طبع سے آراستہ کیا ہے۔کتاب کا سرورق اس سوچ کو سامنے لاتا ہے جو کرشن چندر کی تھی یعنی ہندومسلم ایکتا۔ کتاب کے فلیپ پر کرشن چندر اور اس کے فن پر اردو کے ممتاز نقادوں کے تبصرے درج کیے گئے ہیں۔میں یہ سمجھتا ہوں کہ کتاب کے فلیپ پر مصنف کے فن پر تبصرے ہونے چاہیے تھے۔

کتاب کے شروع میں ایک چیزجو آپ کو کتاب پڑھنے پر اکساتی ہے وہ وقار الملک المعروف بہ کرشن چندر ہے۔اویس نے کتاب کو پانچ ابواب میں تقسیم کیا ہے جس میں پانچویں باب کی اس لیے ضرورت نہیں کہ یہ مقالے کے حصے کے طور پر ہی اچھا لگتا ہے۔باقی کے چار ابواب میں ’کرشن چندر کی فکری جہتیں ، کرشن چندر کے سیاسی رجحانات، کرشن چندر کا ذہنی میلان اور کرشن چندر اورتقسیم چند‘ شامل ہیں۔حرف اول میں اویس نے تمام تذکرے کیے ہیں لیکن یہ نہیں لکھا کہ یہ مقالہ ایم فل کا ہے اور اس پر انھیں علامہ اقبال اوپن یونی ورسٹی نے ایم فل کی ڈگری عطا کی ہے۔ جون ایلیا کب سے دانشور اور حضرت ہوگئے۔ہم تو مرحوم کو ایک غیرمتوازن روح ہی سمجھتے ہیں۔ویسے ان کی شخصیت اور شاعری کا درست تجزیہ ڈاکٹر صابر بدر جعفری کے مضمون مشمولہ ’نگارشات‘میں ملتا ہے۔تاہم ’یعنی‘ کا شاعر ایک لایعنی اور ’شاید‘ کا جان بوجھ کر مشکل پسند لگا۔تاہم پسند اپنی اپنی۔

پہلا باب ’کرشن چندر کی فکری جہتیں‘ ۷۸ صفحات پر محیط ہے جس میں دوتہائی حوالہ جات ہیں جن کو کم کیا جا سکتا تھا یا مارجن کم کرکے مزید صفحات میں کمی لائی جا سکتی تھی۔اس سے کتاب کا پیٹ کم ہوجاتا اور یہ سمارٹ اور مزید خوب صورت لگتی۔حوالہ جات مقالے کا انداز ہے عام کتاب کا نہیں۔یہ انفرادیت بھی ہے اور کمی بھی۔حوالہ جات باب کے آخر میں مقالے کے لحاظ سے تو درست ہوسکتے ہیں لیکن قاری کے لیے حوالہ جات و حواشی اگر ہوں بھی تو اسی صفحے پر زیادہ موثر ہوتے ہیں کیونکہ قاری کو بار بار سو دو سو صفحات نہیں پلٹنے پڑتے کہ ایک ایک حوالے کے لیے ورق گردانی کرے۔ اس باب میں بعض طویل جملوں اور رموز و اوقاف کے کم استعمال نے پریشان ضرور کیا۔پٹھانی اردو کا خوب استعمال ہے اور اس میں اویس بے بس بھی ہیں جیسے صفحہ ۵۲ پر’کیا ایک زندہ جسم خود نشوونما پاتی ہے‘۔ تکوین حیات میں ساحر کے اس شعر کا کیا کام کہ ’عورت نے مرد کو جنم دیا‘(ویسے عورت کو مرد نے جنم دیا ہے)۔کرشن چندر کے تصور انسان کو بیان کرتے کرتے آپ خود کچھ زیادہ ہی جذباتی ہوگئے جیسے صفحہ ۷۱ تا ۷۲۔تاہم اویس نے لفاظی میں سب مذاہب اور مشرق و مغرب کے فلاسفروں کے ساتھ ناول نگاروں کو بھی شامل کر لیا جو درست نہیں۔ اویس اس باب میں جو بات ثابت کرنا چاہتے تھے کہ ’کرشن چندر کے اندر ایک اچھی روح موجود تھی‘،تو وہ اس میں کامیاب رہے ہیں۔

دوسرا باب ’کرشن چندر کے سیاسی رجحانات‘ زیادہ موثر ہے ،اگرچہ مختصر ہے لیکن اسے بھی مزید مختصر کیا جا سکتا تھا۔اس باب میں بھی حوالہ جات زیادہ ہیں اور قاری پر گراں گزرتے ہیں۔ایک بڑا مسئلہ ہندی کا استعمال ہے کیونکہ اکثر جگہوں پر اس کی ضرورت ہی نہیں۔اویس کا یہ تجزیہ درست ہے کہ ’تشخص کو تسلیم کیا جانا چاہیے بھلے اس قوم کے معتقدات کیسے ہی کیوں نہ ہوں‘ ۔لیکن ایک ایسے سماج میں جہاں عدم برداشت ہو ایسا ہونا مشکل ہوتا ہے۔اویس کا کمیونزم کے بارے میں یہ تحریر کرنا کہ ’اس کے بارے میں پروپیگنڈا زیادہ ہوا‘ سے میں اتفاق نہیں کرتا۔یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ کمیونزم ایک مذہب بیزار تحریک تھی اور اس کے مخصوص سیاسی مقاصد تھے۔روس کی ریاست کو اس نے انہی مقاصد کے لیے استعمال کیا۔ہمارے سماج میں اس کو پنپنے کا موقع اس لیے کم ملا کہ لوگ دیندار اور روایات پرست تھے۔’دو یا تین فی صد دہریے‘ والی بات البتہ درست لگتی ہے۔لیکن دوسری طرف یہ ایک فکر کا نام بھی تھا کہ مذہب آپ کا ذاتی مسئلہ ہے اور اسی کو کرشن چندر بھی بنیاد بناتا ہے۔ویسے کمیونسٹ روس اور اس سے پہلے کے روس کے تخلیق کاروں کی ایک فہرست بنا لیں تو دلچسپ حقیقت سامنے آتی ہے کہ سوویت یونین نے نعرے زیادہ اور تخلیق کار اور وہ بھی ٹالسٹائی کے معیار کا ،ایک بھی نہیں دیا۔

اویس کی اس بات سے بھی اتفاق نہیں کیا جا سکتا کہ ’جینیوئن ادیبوں نے ہندوستان کی تقسیم کی بات نہیں کی‘۔آزادی کی بات توکی تھی اور اس اصطلاح سے آپ کی کیا مراد ہے ’جینیوئن‘اور اس میں کون کون شامل ہیں۔ان ادیبوں کی اکثریت سیکولر تھی اور ان کو ہندوستان ہی اچھالگتا تھا نہ کہ اس کی تقسیم۔پریم چند نے افسانے ’عیدگاہ‘ کے آخر میں پھر طنز ہی کیا ہے کہ مسلمانوں کی مساوات مسجد تک ہی ہوتی ہے اس کے باہر نہیں۔سلیم راز کے عمرے کے بارے میں جن لوگوں نے پیغامات چلائے ان کے نام لکھ دینے چاہیے تھے آپ کو۔اجمل خٹک کے بارے میں امجد اسلام امجد نے جو کہا وہی تو ایک سیکولر رویہ ہے۔یہ رویے ہم یہاں بھی دیکھتے ہیں اور یہ سیکولر اور کمیونسٹ بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ دیکھو ہم بھی نماز پڑھتے ہیں اور روزے رکھتے ہیں لیکن عجیب بات یہ ہے کہ وہ اسلام کو بھی ایک مذہب ہی سمجھتے ہیں کہ اس کی رسومات و روایات آپ کی ذات تک محدود رہنی چاہیے۔اور ہم ایسا نہیں سمجھتے۔ویسے اجمل خٹک مرحوم سے میں بھی ایک سے زیادہ بار مل چکا ہوں اور ان کے ایک قریبی دوست نواز حسرت خٹک اب تو مظفرآبادی ہی ہوچکے۔ان سے بھی خٹک مرحوم کی شخصیت ،قوم پرستی اور شاعری کے تذکرے ہوتے رہتے ہیں۔حسرت موہانی تو پکے کمیونسٹ تھے اور روسی سرخ سویرے کی بات ببانگ دہل کرتے تھے ،آپ نے ان کو کیسے کمیونسٹوں کی فہرست سے نکال دیا۔

تاہم کرشن چندر کی اس بات سے سب کو اتفاق ہے کہ دنیا کے تمام فلسفے انسانوں کی بہتری اور بھلائی کے لیے تخلیق کیے جاتے ہیں۔یہ فلسفے بوسیدہ اور پرانے ہو جاتے ہیں۔انسان ان کا گودا کھا لیتا ہے۔اور واقعی مارکسزم کے ساتھ یہ ہوچکا ہے۔لیکن یاد رکھیں کہ اسلام فلسفہ نہیں۔کرشن چندر اشتراکیت کا اندھا مقلد نہ تھا اور یہ اس کی عظمت ہے۔ اس کا کمیونزم کے بارے میں یہ کہنا درست تھا کہ ’اس میں روشنیاں ہیں تو سائے بھی ہیں‘۔اس کا یہ تحریر کرنا بھی بجا ہے کہ ادیب کو آزاد ہونا چاہیے۔کرشن چندر نے تمام نظاموں کاعطر لیا ہے اور ہر بڑا فنکار یہی کرتا ہے۔وہ انسانیت کا قائل تھا اور کسی مذہب کو تسلیم نہیں کرتا تھا البتہ اسلام کے قریب تھا۔

اس کتاب کا تیسرا باب ’کرشن چندر کا ذہنی میلان‘ ۱۷۱ صفحات پر مشتمل ایک طویل باب ہے۔تاہم اویس نے اس باب میں بعض مباحث کو خوبصورتی سے یکجا کیا ہے اور نتائج اخذ کرنے کی کوشش کی ہے۔اس باب کے مباحث دل چسپ بھی ہیں لیکن طویل حوالے اور اقتباسات قاری کویہاں بھی اکتاہٹ کا شکار کر دیتے ہیں۔ کرشن چندر کے مسلمان اور ہندو کردار اویس نے کمال خوبی سے زیر بحث لائے ہیں۔اس باب میں بھی انھوں نے ہندی کا خوب استعمال کیا ہے۔’کرشن چندر اور مذہب‘ میں حوالوں کے ساتھ اویس نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ کرشن چندر نے اسلام قبول کر لیا تھا اور ان کا اسلامی نام وقار الملک تھا۔اویس کی یہ بات درست نہیں کہ پونچھ کے پہلے مسلمان گریجویٹ بہادر علی خان تھے۔خان صاحب گریجویٹ تھے ہی نہیں۔کرشن چندر کے مسلمان کردا رمضبوط اور ہندو کردار اخلاق سے گرے ہوئے ہیں اور یہ بات ان کو پریم چند سے جدا کرتی ہے۔ویسے پریم چند کے مسلمان کرداروں اور کرشن چندر کے مسلمان کرداروں کا تقابلی مطالعہ بھی سوچ کے نئے در وا کرسکتا ہے۔

کرشن چندر کی اسلام سے قربت کے اویس نے خوبصورت حوالے رقم کیے ہیں جیسے ’غلام محمد کا غلام کٹ گیا محمدؐ رہ گیا‘۔منٹو کا یہ کہنا درست نہیں کہ ’کشمیر کشمیریوں کا ہے ‘۔اس سوچ کو پاکستانی سول و عسکری بیوروکریسی پروان چڑھاتی رہی ہے اور اب بھی چڑھا رہی ہے۔۱۹۴۷ء میں کشمیر میں قبائلی نہ آتے تو کشمیر کا یہ آزاد حصہ بھی بھارت کا اٹوٹ انگ بن چکا ہوتا۔ان کی قربانیوں کو ہم تو نہیں بھولے ۔اس میں شک نہیں کہ یہاں راجاؤں کا دور ختم ہوگیا لیکن آج کے سیاسی ادوار کو دیکھ کر لوگ ان راجاؤں کے ادوار کو غنیمت سمجھنے لگے ہیں۔اس باب کا سب سے اہم عنوان ’کرشن چندر جیون کے نئے سفر پر‘ہے۔کرشن چندر نے ۱۹۶۱ء میں دوسری شادی ایک مسلمان خاتون سلمیٰ صدیقی سے کی جو ممتاز محقق پروفیسر رشید احمد صدیقی کی بیٹی تھی۔اس وقت کرشن چندر کی عمر ۴۸ سال تھی۔ان کی بیوہ کا یہ کہنا کہ انھوں نے اسلام قبول کر لیا تھا،مشہور نہیں ہوسکا۔اسلام اور شادی دو ایسے افعال ہیں جن کا اعلان کیا جاتا ہے اور اسلام کی پوری تاریخ اس کی گواہ ہے۔اسلام چھپانے والی چیز تو ہے نہیں اور جب یہ کہا جاتا ہے کہ مذہب ذاتی معاملہ ہے تو یہ فر ق ہے سیکولر اور اسلامی سوچ کا۔

آپ نے جو حوالے دیے ہیں ان کی زنجیر بنتی نظر نہیں آتی۔محمدہاشم کون تھا۔مسجد کے مولانا کون تھے۔ان کا نام۔رام پورہ کے گواہ دو دوست۔مہارانی جہانگیر آباداور کرشن چندر کے اعتماد کے آدمی۔محمد کاظمی نے یہ تذکرے بعد میں کیوں نہیں کیے کہ وہ نکاح کے گواہ تھے اور کرشن چندر کے مسلمان ہونے کے بھی۔۱۹۶۱ء اتنے دور کی بات تو نہیں۔یہ ساری باتیں کیسے چھپی رہیں۔سلمیٰ صدیقی کا یہ کہنا کہ نکاح نامے کی ایک کاپی میرے اور دوسری والدہ کے پاس ہے:تو ان کو سامنے نہ لانے کی کیا وجوہات ہیں۔شادی اس وقت ذاتی معاملہ نہیں رہتا جب ایک فرد مسلمان اور دوسرا ہندو ہو۔سردار جعفری کی یہ بات بھی اپنے اندر وزن نہیں رکھتی کہ ’مرنے سے قبل بیوی کو اس بات کی اجازت دی تھی کہ وہ جیسے چاہیں کرشن چندر کی آخری رسومات انجام دیں‘۔کیا یہ اسلام کے ساتھ مذاق نہیں کہ اسے بیوی کے سپرد کردیا جائے۔ویسے سردار جعفری جیسے کمیونسٹ سے یہی توقع تھی۔اس سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ کرشن چندر کو مذہب سے دلچسپی تھی ہی نہیں۔سلمیٰ نے کرشن چندر کے سورگ باشی ہونے کے بعد اس بات کا واشگاف الفاظ میں اعلان نہ کرکے یہ ثابت کیا کہ وہ ایک ہندو کی بیوی تھی ۔کرشن چندر نے اپنے آپ کو اس حد تک پراسرار رکھا کہ اس کے سورگ باش ہونے کے بعد دونوں (ہندو اور مسلمان) خوش ہوگئے کہ وہ ہمارا تھا۔پریم چند نے یہ رویہ اردو کے بارے میں اپنایا تھا۔اب ہندو مسلم دونوں اس کو اپنا ہیرو مانتے ہیں۔تاہم یہ اس کتاب کا سب سے اہم باب ہے۔

کتاب کا چوتھا باب ’کرشن چندر اور تقسیم ہند‘ ۱۰۹ صفحات پر مشتمل ایک اور طویل باب ہے جس کی طوالت کو کم کیا جا سکتا تھا لیکن اویس جانے کیوں کتاب کی ضخامت بڑھاتے رہے۔’مشترکہ تہذیبی سنگم‘ میں اویس کے افکار عجیب سے ہیں جیسے ’پشتونوں کے ہاں بہت ساری اصطلاحات ،بہت سارے لوگوں کے نام ، شہروں کی پہچان، ضرب الامثال ، یہاں تک کہ مہینوں کے مزاج بھی اسی مشترک کلچر کی غمازی کرتے ہیں‘۔’آؤ ہم اس کے بھی ٹکڑے کر لیں۔۔۔ڈھاکہ ،راولپنڈی اور دلی کا چاند‘۔تو اس طرح کی بیشمار چیزیں تو دنیا کے اور خطوں میں بھی مشترک ہیں۔مشترک اقدار نظریے کی بنیاد پر ہونی چاہیے۔’اردو مشترکہ تہذیبی قدروں کی امین‘ میں اویس نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ اردو مشترکہ تہذیبی قدروں کی امین ہے جو جزوی درست ہے کیونکہ اب اردو ملی قدروں کی امین ہے اور ہندوستان میں اس کو بولی بنا دیا گیا ہے۔اردو کے پرانے مراکز میں اردو اور اردو رسم الخط کے ساتھ جو سلوک کیا جا رہا ہے وہ بہت جلد اردو کو ہندی میں ضم کر دے گا(رسم الخط کے معاملے میں)۔

’کیسے مان لوں کہ نام اور مذہب سے قوم اور کلچر بدل جاتے ہیں‘ سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ کرشن چندر کو ہندوستانی کلچر پیارا تھا نہ کہ مذہب۔ ہمارے کلچر کی بنیاد مذہب ہے قومیت نہیں۔۱۹۴۰ء میں قرارداد پاکستان منظور ہوچکی تھی۔ذرا اس کے تناظر میں ’شکست‘ کا مطالعہ کریں تو آپ محسوس کریں گے کہ یہ ناول پاکستان کی مخالفت پر مبنی ہے۔کرشن چندر کی اقتصادی مساوات کا یوٹوپیا کبھی حقیقت کا روپ نہ دھار سکا۔’انگریز نے جاتے جاتے اسے ہندو مسلم فساد میں اس طرح بدلا کہ انگریز بیچ میں سے بڑی چالاکی کے ساتھ نکل گیااور تہذیب کے متوالوں اور مذہب کے نام لیواؤں کو دیر وحرم کے جھگڑوں کے حوالے کردیا‘۔ہم جانے کیوں ہر فساد کے پیچھے گوروں کا ہاتھ تلاش کرتے ہیں۔شیعہ سنی فسادات ہوں یا علاقائی جھگڑے ہر جگہ گوری چمڑی ہی ہمیں نظر آتی ہے۔ہم کیوں یہ تسلیم نہیں کرلیتے کہ اختلافات اور فساد کی جڑ اس مٹی میں موجو دتھی اورہے۔’جو نہ ہندو تھا نہ مسلمان‘ اس سے کیا ثابت ہوتا ہے آپ خود سمجھدار ہیں۔

اویس کے نزدیک برصغیر کے دو مہا لیکھک منٹو اور کرشن چندر معتوب رہے۔منٹو سے جانے کیوں جنس نگاری ہی اخذ کی جاتی ہے۔کیا عورت کی گولائیوں اور گھاٹیوں کے علاوہ موضوعات ختم ہوچکے ہیں۔حسن عسکری اور ممتاز شیریں پختہ کار نقاد ہیں اور ان کے بیانات بچکانہ نہیں۔منٹو نے ویسے طوائف کو بیان کرتے ہوئے کس کی حمایت کی ہے اور کس کی مخالفت کی ہے۔’خدا کی مملکت میں سوختہ جانوں پر‘ صرف وہی نہیں گزری جو شہاب نے ’یا خدا‘ میں تحریر کی ہے۔ عصمت چغتائی کا یہ کہنا درست لگتا ہے کہ’ کرشن چندر نے جو ادب تخلیق کیا وہ مصنوعی ہے۔کرشن چندر مصلح بھی نہیں بن سکا‘۔عصمت چغتائی کو حسن عسکری اور ہم کو عصمت کی چھوڑی قدروں سے کوئی دلچسپی نہیں۔جانے وہ کون سی انمٹ قدریں ہیں جن پر عصمت کی نظر تھی۔ایک سوال یہ بھی ہے کہ اردو کے قدیم مراکز سے کرشن چندر کو بیر کیوں ہے؟فیض کی یہ بات ذو معنی ہے کہ ’یہ جدائی عارضی ہے ، دوست ہم پھر ملیں گے‘۔ذرا ’داغ داغ اجالا‘ اور ’شب گزیدہ سحر‘ کے ساتھ ملا کر اسے دیکھیں۔حوالے اور اقتباسات یہاں بھی اکتا دینے والے ہیں۔

اویس نے ’حرف آخر‘ میں کرشن چندر کے افسانے ’دسواں پل‘ سے حوالہ دیا ہے لیکن میں یہ سمجھتا ہوں کہ دریائے جہلم اور کرشن چندر میں کوئی قدر مشترک نہیں۔جہلم پاکستان کو سیراب کرتا ہے اور کرتا رہے گا لیکن کرشن چندر پاکستان کو چھوڑ گیا۔کیا پاکستان کو اس کی ضرورت نہ تھی اور کیا اسے یہاں نہیں رہنا چاہیے تھا۔وہ پاکستان میں رہتا تو اسے مسلمان ہونے کا اعلان کرنے میں اتنی ہچکچاہٹ بھی نہ ہوتی(اگر وہ مسلمان ہونا چاہتا)۔اور ملک وقار واقعی ہمارے ملک کا وقار ہوتا۔کتاب میں املا کے مسائل موجود ہیں اور تلفظ کے بھی۔تحقیقی انداز سے کتابیات بھی دی گئی ہے اور حوالہ جات بھی جو منفرد انداز ہے۔حروف کے درمیان وقفوں کے مسائل بہت زیادہ ہیں۔یہ منفردانداز سے لکھی گئی کتاب ہے اور اس کا مطالعہ سکالرز کی سوچوں کے درواکرنے میں مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔


بہت شکریہ محترم سید شہزاد ناصر
 

x boy

محفلین
BRKrs2BCYAEelVx.jpg:large
 
مستنصر حسین تارڑ کی اس بات سے میں اتفاق نہیں کرتا کہ " حالانکہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کرشن چندر مسلمان تھا یا ہندو۔ "
جناب اس سے فرق پڑتا ہے ۔ اگر وہ ہندو تھا تو یہ شادی گناہ کے علاوہ کچھ نہ تھی۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمان عورت کا نکاح مشرک یا کافر سے کرنے کی اجازت نہیں دی بلکہ قرآن میں اس سے منع فرمایا ہے - اگر کرشن چندر مسلمان ہوا تھا تو رشید احمد صدیقی نے کیوں ساری زندگی سلمیٰ صدیقی سے بات نہیں کی۔ وہ جب اپنے میکے جاتی تھیں تو صرف اپنی والدہ سے ملاقات کرکے واپس آ جاتی تھیں۔ رشید احمد صدیقی اُن سے ملتے بھی نہیں تھے۔
 
Top