خالد محمود چوہدری
محفلین
مستنصر حسین تارڑ کے کالم "وقار ملک سابقہ کرشن چندر اور لاہور" سے اقتباس
محمد اویس قرنی نے اپنی کتاب ’’کرشن چندر کی ذہنی تشکیل‘‘ میں کرشن کے مسلمان ہونے کے بارے میں ٹھوس ثبوت پیش کئے ہیں۔۔۔ اگرچہ اس سے فرق تو پڑتا نہیں کوئی کہ کرشن چندر ہندو تھا یا مسلمان لیکن ایک حقیقت کا اقرار کر لینے میں مضائقہ بھی تو نہیں کوئی۔۔۔
جب کرشن چندر نے وقار ملک کا نام خود تجویز کیا تو سلمیٰ نے جھنجھلا کر کہا۔۔۔ یہ ب...ھی کوئی نام ہے تو کرشن چندر کھڑکی سے باہر دھندلاتی ہوئی پہاڑیوں کو دیکھتے ہوئے بولے، جب میں پونچھ میں چوتھی جماعت میں تھا تو میرے دو دوست تھے۔ ایک کا نام وقار تھا اور دوسرے کا ملک۔۔۔ ہم ایک دوسرے کے گھر آتے جاتے رہتے تھے۔۔۔ میں نے پہلی بار غالب کا شعر اس گھر میں سنا تھا۔۔۔ عید کی پہلی سویاں وہیں چکھی تھیں، شامی کباب اور بریانی کا ذائقہ وہیں جانا تھا، خاصدان سے پان کی گلوری وہیں اٹھائی تھی اور گھر آ کے ماں جی سے خوب جھگڑا کیا تھا کہ ہمارے گھر میں عید کیوں نہیں منائی جاتی۔۔۔
محمد ہاشم کو ایک خط میں سلمیٰ صدیقی لکھتی ہیں ’’ہماری شادی 7 جولائی 1961ء کی شام نینی تال میں ہوئی، اس وقت نینی تال کی مسجد کے مولانا نے نکاح پڑھایا۔۔۔ گواہوں میں رامپور کے دو دوست، مہارانی جہانگیر آباد اور محمد کاظمی تھے۔ کرشن چندر نے اسلامی طریقہ پر نکاح کیا اور مسلمان ہونا قبول کیا، اپنا نام وقار ملک رکھا‘‘۔۔۔ ان کی موت پر اندر کمرے میں بیٹھی ان کی بیوہ سلمیٰ صدیقی کا کہنا تھا کہ انہیں دفن کرنا ہو گا یہ مسلمان تھے ان کا نام وقارالملک تھا مگر کوئی ان کی سننے کو تیار نہ تھا۔۔۔ ’’کرشن چندر کے چہرے پر موت کے آثار نہ تھے، ایک سکون تھا، ایک شانتی تھی جیسے سارے فرض پورے کر چکے ہوں، اب کچھ کرنے کو باقی نہیں تھا۔۔۔ خواجہ احمد عباس، اعجاز صدیقی، ظ۔ انصاری اور سردار جعفری اندر کمرے میں تھے‘‘۔
ظ۔ انصاری کا کہنا ہے کہ جب ان کا جنازہ ہال میں رکھا گیا تو میں نے کسی کے کہنے پر قرآن خوان حافظ جی کو بلوایا اور قرآن خوانی ہوئی کمرے میں سفید چاندنی بچھی تھی، اگربتی کے دھوئیں سے فضا معطر تھی، کچھ عورتیں بیٹھی قرآن پاک کی تلاوت کر رہی تھی، جنازے کی تیاری کا انتظار تھا۔
کرشن چندر بلکہ وقار الملک نے اپنی بیوی کے نام وصیت کی۔۔۔ کہ حالات قابو سے باہر ہو جائیں تو پاکستان چلی جانا وہاں میرے بہت سے دوست احباب ہیں جو سچ مچ مجھ سے پیار کرتے ہیں۔ تم وہاں اکیلی نہ رہو گی۔۔۔ لیکن لگتا ہے اس کی نوبت نہ آئی۔۔۔ سلمیٰ صدیقی کی محبت پر حاوی ہونے والی ان کے دل و دماغ پر راج کرنے والی چاہت اور دیوانگی شہر لاہور تھا جہاں وہ پیدا ہوئے، پنجاب تھا جس کے عشق میں وہ زندگی بھر ڈوبے رہے۔۔۔
ستار طاہر نے لکھا ’’لاہور کرشن چندر کو بہت عزیز تھا، ان کی زندگی کئی شہروں میں بسر ہوئی لیکن لاہور کے ساتھ ان کی محبت کبھی کم نہ ہو سکی۔۔۔ وہ لاہور سے محبت کرتے تھے اور زندگی کے آخری دنوں میں ان کی سب سے بڑی خواہش یہ تھی کہ وہ کسی طرح ایک بار پھر لاہور چلے جائیں‘‘۔ کرشن چندر کو نہ دلّی بھایا اور نہ ہی لکھنؤ نے ان کے پاؤں پکڑے بلکہ وہ ان دونوں شہروں کو لاہور کے مقابلے میں حقیر جانتے رہے۔
اختر جمال نے تذکرہ کیا کہ۔۔۔ لاہور ان کی ایسی محبت تھی جس کے لئے وہ بہت تڑپتے تھے۔۔۔ لاہور میرا لاہور کیسا ہے۔۔۔ جب وہ لاہور اور لاہور کے لوگوں کی تعریف سنتے تو ان کا چہرہ کھل جاتا، آنکھیں چمکنے لگتیں، لاہور کی تعریف ان کی تعریف تھی۔
’’لاہور میری کمزوری ہی نہیں۔۔۔ میں نے تو لاہور میں مرنے کا خواب دیکھا ہے کسی کونے میں، کسی چھوٹے سے گندے سے غلیظ چوک کے کنارے‘‘۔
لاہور سے جدائی کی جو کسک کرشن چندر کو سانس نہ لینے دیتی تھی اس کا سلسلہ ان اہم ادیبوں سے جڑتا ہے جن کے قلوب میں ابھی تک ایک دلّی، ایک لکھنؤ آباد ہے۔۔۔ کہ اپنی جنم بھومی جیسی کیسی بھی ہو ایک جنت گم گشتہ کی صورت میں تمہیں اپنے فریب میں جکڑے رکھتی ہے۔
’’لاہور میں رہ کر کوئی بوڑھا نہیں ہو سکتا، وہ میرا سدابہار جگمگاتا ہوا فانوس بدن شہر۔۔۔ اپنی لافانی جوانی کے لئے مشہور ہے، اس شہر میں رہ کر اگر کوئی بوڑھا ہوتا ہے تو بہتر ہے کہ وہ اس شہر کو چھوڑ دے اور منڈی بہاؤالدین اور چک نمبر چار سو بیس میں جا کر سکونت اختیار کر لے مگر لاہور کے نام کوبٹہ نہ لگائے‘‘۔
’’کرشن چندر ایک ایسا عاشق تھا جس کا واحد محبوب لاہور تھا‘‘۔
’’مجھے بتا دو تم کہاں جانا چاہتے ہو؟ میں تمہیں ٹکٹ لائے دیتا ہوں۔۔۔ میں لاہور میں رہوں گا۔۔۔ لاہور میرا وطن ہے‘‘۔
’’میرا سب کچھ لاہور ہے۔۔۔ کرشن نے رُندھے ہوئے گلے سے کہا۔۔۔ میاں تمہیں معلوم ہے میں لاہور کے بغیر نہیں رہ سکتا، مجھے لاہور سے عشق ہے‘‘۔
مجھے کبھی کبھی یہ خیال آتا ہے کہ اگر منٹو کسی ہندو عورت کے عشق میں مبتلا ہو کر ہندو دھرم اختیار کر لیتا، آگ کے گرد پھیرے لگا کر اسے اپنی گھر والی بنا کر اپنا نام رام بھروسہ رکھ لیتا تو ہم کیسے اسے مطعون کر کے نار جہنم میں جھونک دیتے۔۔۔ لکشمی مینشن کے فلیٹ کو نذرآتش کر دیتے۔
کرشن چندر عرف وقار الملک کا جنازہ ہال میں پڑا ہے اور قرآن خوانی ہو رہی ہے اور اس کے باوجود اسے جلایا گیا۔۔۔ جیسا کہ اگر منٹو ہندو ہو جاتا تو ہم اس کو آگ کے سپرد نہ کرتے۔۔۔ دفن کر دیتے۔۔۔ ایک عظیم ادیب بے شک جلایا جائے یا دفن کیا جائے اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔ کیا ن م راشد کو جلائے جانے پر کچھ فرق پڑا۔
میں محمد اویس قرنی کا شکرگزار اور معترف ہوں کہ اس باریش نوجوان نے مردان کی گمنامی میں ’’کرشن چندر کی ذہنی تشکیل‘‘ ایسی عرق ریز کتاب لکھی اور کسی ستائش اور تمنا کے بغیر تحریر کی۔۔۔ قرنی تمہارا شکریہ!
محمد اویس قرنی نے اپنی کتاب ’’کرشن چندر کی ذہنی تشکیل‘‘ میں کرشن کے مسلمان ہونے کے بارے میں ٹھوس ثبوت پیش کئے ہیں۔۔۔ اگرچہ اس سے فرق تو پڑتا نہیں کوئی کہ کرشن چندر ہندو تھا یا مسلمان لیکن ایک حقیقت کا اقرار کر لینے میں مضائقہ بھی تو نہیں کوئی۔۔۔
جب کرشن چندر نے وقار ملک کا نام خود تجویز کیا تو سلمیٰ نے جھنجھلا کر کہا۔۔۔ یہ ب...ھی کوئی نام ہے تو کرشن چندر کھڑکی سے باہر دھندلاتی ہوئی پہاڑیوں کو دیکھتے ہوئے بولے، جب میں پونچھ میں چوتھی جماعت میں تھا تو میرے دو دوست تھے۔ ایک کا نام وقار تھا اور دوسرے کا ملک۔۔۔ ہم ایک دوسرے کے گھر آتے جاتے رہتے تھے۔۔۔ میں نے پہلی بار غالب کا شعر اس گھر میں سنا تھا۔۔۔ عید کی پہلی سویاں وہیں چکھی تھیں، شامی کباب اور بریانی کا ذائقہ وہیں جانا تھا، خاصدان سے پان کی گلوری وہیں اٹھائی تھی اور گھر آ کے ماں جی سے خوب جھگڑا کیا تھا کہ ہمارے گھر میں عید کیوں نہیں منائی جاتی۔۔۔
محمد ہاشم کو ایک خط میں سلمیٰ صدیقی لکھتی ہیں ’’ہماری شادی 7 جولائی 1961ء کی شام نینی تال میں ہوئی، اس وقت نینی تال کی مسجد کے مولانا نے نکاح پڑھایا۔۔۔ گواہوں میں رامپور کے دو دوست، مہارانی جہانگیر آباد اور محمد کاظمی تھے۔ کرشن چندر نے اسلامی طریقہ پر نکاح کیا اور مسلمان ہونا قبول کیا، اپنا نام وقار ملک رکھا‘‘۔۔۔ ان کی موت پر اندر کمرے میں بیٹھی ان کی بیوہ سلمیٰ صدیقی کا کہنا تھا کہ انہیں دفن کرنا ہو گا یہ مسلمان تھے ان کا نام وقارالملک تھا مگر کوئی ان کی سننے کو تیار نہ تھا۔۔۔ ’’کرشن چندر کے چہرے پر موت کے آثار نہ تھے، ایک سکون تھا، ایک شانتی تھی جیسے سارے فرض پورے کر چکے ہوں، اب کچھ کرنے کو باقی نہیں تھا۔۔۔ خواجہ احمد عباس، اعجاز صدیقی، ظ۔ انصاری اور سردار جعفری اندر کمرے میں تھے‘‘۔
ظ۔ انصاری کا کہنا ہے کہ جب ان کا جنازہ ہال میں رکھا گیا تو میں نے کسی کے کہنے پر قرآن خوان حافظ جی کو بلوایا اور قرآن خوانی ہوئی کمرے میں سفید چاندنی بچھی تھی، اگربتی کے دھوئیں سے فضا معطر تھی، کچھ عورتیں بیٹھی قرآن پاک کی تلاوت کر رہی تھی، جنازے کی تیاری کا انتظار تھا۔
کرشن چندر بلکہ وقار الملک نے اپنی بیوی کے نام وصیت کی۔۔۔ کہ حالات قابو سے باہر ہو جائیں تو پاکستان چلی جانا وہاں میرے بہت سے دوست احباب ہیں جو سچ مچ مجھ سے پیار کرتے ہیں۔ تم وہاں اکیلی نہ رہو گی۔۔۔ لیکن لگتا ہے اس کی نوبت نہ آئی۔۔۔ سلمیٰ صدیقی کی محبت پر حاوی ہونے والی ان کے دل و دماغ پر راج کرنے والی چاہت اور دیوانگی شہر لاہور تھا جہاں وہ پیدا ہوئے، پنجاب تھا جس کے عشق میں وہ زندگی بھر ڈوبے رہے۔۔۔
ستار طاہر نے لکھا ’’لاہور کرشن چندر کو بہت عزیز تھا، ان کی زندگی کئی شہروں میں بسر ہوئی لیکن لاہور کے ساتھ ان کی محبت کبھی کم نہ ہو سکی۔۔۔ وہ لاہور سے محبت کرتے تھے اور زندگی کے آخری دنوں میں ان کی سب سے بڑی خواہش یہ تھی کہ وہ کسی طرح ایک بار پھر لاہور چلے جائیں‘‘۔ کرشن چندر کو نہ دلّی بھایا اور نہ ہی لکھنؤ نے ان کے پاؤں پکڑے بلکہ وہ ان دونوں شہروں کو لاہور کے مقابلے میں حقیر جانتے رہے۔
اختر جمال نے تذکرہ کیا کہ۔۔۔ لاہور ان کی ایسی محبت تھی جس کے لئے وہ بہت تڑپتے تھے۔۔۔ لاہور میرا لاہور کیسا ہے۔۔۔ جب وہ لاہور اور لاہور کے لوگوں کی تعریف سنتے تو ان کا چہرہ کھل جاتا، آنکھیں چمکنے لگتیں، لاہور کی تعریف ان کی تعریف تھی۔
’’لاہور میری کمزوری ہی نہیں۔۔۔ میں نے تو لاہور میں مرنے کا خواب دیکھا ہے کسی کونے میں، کسی چھوٹے سے گندے سے غلیظ چوک کے کنارے‘‘۔
لاہور سے جدائی کی جو کسک کرشن چندر کو سانس نہ لینے دیتی تھی اس کا سلسلہ ان اہم ادیبوں سے جڑتا ہے جن کے قلوب میں ابھی تک ایک دلّی، ایک لکھنؤ آباد ہے۔۔۔ کہ اپنی جنم بھومی جیسی کیسی بھی ہو ایک جنت گم گشتہ کی صورت میں تمہیں اپنے فریب میں جکڑے رکھتی ہے۔
’’لاہور میں رہ کر کوئی بوڑھا نہیں ہو سکتا، وہ میرا سدابہار جگمگاتا ہوا فانوس بدن شہر۔۔۔ اپنی لافانی جوانی کے لئے مشہور ہے، اس شہر میں رہ کر اگر کوئی بوڑھا ہوتا ہے تو بہتر ہے کہ وہ اس شہر کو چھوڑ دے اور منڈی بہاؤالدین اور چک نمبر چار سو بیس میں جا کر سکونت اختیار کر لے مگر لاہور کے نام کوبٹہ نہ لگائے‘‘۔
’’کرشن چندر ایک ایسا عاشق تھا جس کا واحد محبوب لاہور تھا‘‘۔
’’مجھے بتا دو تم کہاں جانا چاہتے ہو؟ میں تمہیں ٹکٹ لائے دیتا ہوں۔۔۔ میں لاہور میں رہوں گا۔۔۔ لاہور میرا وطن ہے‘‘۔
’’میرا سب کچھ لاہور ہے۔۔۔ کرشن نے رُندھے ہوئے گلے سے کہا۔۔۔ میاں تمہیں معلوم ہے میں لاہور کے بغیر نہیں رہ سکتا، مجھے لاہور سے عشق ہے‘‘۔
مجھے کبھی کبھی یہ خیال آتا ہے کہ اگر منٹو کسی ہندو عورت کے عشق میں مبتلا ہو کر ہندو دھرم اختیار کر لیتا، آگ کے گرد پھیرے لگا کر اسے اپنی گھر والی بنا کر اپنا نام رام بھروسہ رکھ لیتا تو ہم کیسے اسے مطعون کر کے نار جہنم میں جھونک دیتے۔۔۔ لکشمی مینشن کے فلیٹ کو نذرآتش کر دیتے۔
کرشن چندر عرف وقار الملک کا جنازہ ہال میں پڑا ہے اور قرآن خوانی ہو رہی ہے اور اس کے باوجود اسے جلایا گیا۔۔۔ جیسا کہ اگر منٹو ہندو ہو جاتا تو ہم اس کو آگ کے سپرد نہ کرتے۔۔۔ دفن کر دیتے۔۔۔ ایک عظیم ادیب بے شک جلایا جائے یا دفن کیا جائے اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔ کیا ن م راشد کو جلائے جانے پر کچھ فرق پڑا۔
میں محمد اویس قرنی کا شکرگزار اور معترف ہوں کہ اس باریش نوجوان نے مردان کی گمنامی میں ’’کرشن چندر کی ذہنی تشکیل‘‘ ایسی عرق ریز کتاب لکھی اور کسی ستائش اور تمنا کے بغیر تحریر کی۔۔۔ قرنی تمہارا شکریہ!