وفاقی کابینہ نے جان بچانے والی 94 ادویات کی قیمتیں بڑھانے کی منظوری دے دی

بابا-جی

محفلین
کپتان کو میں نکما کپتان مانتا ہُوں اور بُزدل بھی جو عاصِم باجوہ کو برطرف نہ کر سکا۔ مگر، ابھی میں ایک ڈھیٹ سا یوتھیا بنا ہُوا ہوں۔ شاید بھنگ کا نشہ اُترے۔ جہاں تک ادویات کی قیمت کا تعلُق ہے، اِس میں خانِ اعظم کی غلطی نہیں ہے۔ یہ قیمتیں بڑھ کر ہی رہنا تھیں مگر کچھ کم بڑھتیں تو بہتر تھا۔
 

بابا-جی

محفلین
بلیک میں بِکنے لگ گئی تھیں اور جب باقی سب کچھ مہنگا ہے تو دَوائیں کیسے سستی ہوں گی۔ کُرپشن کا پیسا بھی بازیاب نہ ہُوا اور قیمتوں پر کنٹرول بھی نہیں ہے۔ یہ بھی پِٹیں گے عوام سے پچھلوں کی طرح۔
 

الف نظامی

لائبریرین
بلیک میں بِکنے لگ گئی تھیں تو ؟؟
قیمت بڑہانے کا یہ جواز نہیں ہے

جب باقی سب کچھ مہنگا ہے
تو
دَوائیں کیسے سستی ہوں گی
مسئلے کا حل (پرائس کنٹرول) موجود نہ ہونے کی یہ منطق درست نہیں۔ جو فرض کیا گیا وہ بھی درست نہیں اور اس کا دوا کی پرائس کنٹرول کے آزمودہ حل کے موجود نہ ہونے سے کوئی ربط نہیں بنتا۔ یعنی مفروضے اور نتیجے میں کوئی تعلق ہے ہی نہیں اور یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ مسئلے کا حل (پرائس کنٹرول) موجود ہی نہیں

کُرپشن کا پیسا بھی بازیاب نہ ہُوا
دوا کی قیمت بڑھانے سے کوئی تعلق نہیں بنتا۔
لہذا ؟؟؟
قیمتوں پر کنٹرول بھی نہیں ہے
تو ؟؟ اس سے کیسے ثابت ہوا کہ دوا کی قیمت بڑھائی جائے اور پرائس کنٹرول پر کام نہ کیا جائے۔

مندرجہ بالا منطقی مغالطے پروپگنڈا کے تجزیہ کے طالبعلموں کے لیے ایک مثال سمجھے جا سکتے ہیں۔

۔ یہ بھی پِٹیں گے عوام سے پچھلوں کی طرح۔
یہ آپ کی خواہش کیوں ہے کہ آپ پاکستان کی حکومت کو ناکام دیکھنا چاہتے ہیں؟؟؟
 

بابا-جی

محفلین
قیمت بڑہانے کا یہ جواز نہیں ہے


مسئلے کا حل (پرائس کنٹرول) موجود نہ ہونے کی یہ منطق درست نہیں۔ جو فرض کیا گیا وہ بھی درست نہیں اور اس کا دوا کی پرائس کنٹرول کے آزمودہ حل کے موجود نہ ہونے سے کوئی ربط نہیں بنتا۔ یعنی مفروضے اور نتیجے میں کوئی تعلق ہے ہی نہیں اور یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ مسئلے کا حل (پرائس کنٹرول) موجود ہی نہیں


دوا کی قیمت بڑھانے سے کوئی تعلق نہیں بنتا۔
لہذا ؟؟؟

تو ؟؟ اس سے کیسے ثابت ہوا کہ دوا کی قیمت بڑھائی جائے اور پرائس کنٹرول پر کام نہ کیا جائے۔

مندرجہ بالا منطقی مغالطے پروپگنڈا کے تجزیہ کے طالبعلموں کے لیے ایک مثال سمجھے جا سکتے ہیں۔


یہ آپ کی خواہش کیوں ہے کہ آپ پاکستان کی حکومت کو ناکام دیکھنا چاہتے ہیں؟؟؟
دوا کی قِیمت کیسے نہ بڑھے گی اگر دِیگر خام مال کی قیمت بڑھے گی اور درآمدی نرخ بڑھیں گے۔ کافی عرصہ سے نہ بڑھ پائی تھیں۔ میں کھوسٹ اِس اضافے پر کیوں خُوش ہوں گا مگر اُصول اُصول ہے۔
 

الف نظامی

لائبریرین
دوا کی قِیمت کیسے نہ بڑھے گی اگر دِیگر خام مال کی قیمت بڑھے گی اور درآمدی نرخ بڑھیں گے۔ کافی عرصہ سے نہ بڑھ پائی تھیں۔
خام مال کی قیمت بڑھنے کا کوئی ثبوت موجود ہے؟
عوام کو خام مال کی مختلف انواع کا علم نہیں اور نہ ہی ان کی قیمتوں کا کوئی ریکارڈ مہیا کیا گیا ہے لہذا اس بیان کی تصدیق کا کوئی طریقہ نہیں ہے کہ خام مال کی قیمت بڑھ گئی ہے الا یہ کہ آپ خام مال کی انواع اور ان کی قیمتوں کی تفصیل فراہم کریں۔
 

بابا-جی

محفلین
خام مال کی قیمت بڑھنے کا کوئی ثبوت موجود ہے؟
عوام کو خام مال کی مختلف انواع کا علم نہیں اور نہ ہی ان کی قیمتوں کا کوئی ریکارڈ مہیا کیا گیا ہے لہذا اس بیان کی تصدیق کا کوئی طریقہ نہیں ہے کہ خام مال کی قیمت بڑھ گئی ہے الا یہ کہ آپ خام مال کی انواع اور ان کی قیمتوں کی تفصیل فراہم کریں۔
مُجھے میرے نہایت ایمان دار اور دین دار دوست نے بتایا تھا۔ اُسے جھوٹ بولنے کی عادت نہیں۔ اُس سے پُوچھ کر بتا سکتا ہوں، بشرطِ زندگی۔
 

الف نظامی

لائبریرین

جاسم محمد

محفلین
یہ بھی پِٹیں گے عوام سے پچھلوں کی طرح۔
پاکستان میں مہنگائی کاجن قابو میں نہ آنا حکومت کا نہیں معیشت کا مسئلہ ہے۔ جس دن عوام مستحکم معاشی پالیسیوں کو ووٹ دے گی، بیشک عارضی طور پر ان کو کچھ تکلیف برداشت کرنی پڑے، اس دن کے بعد سے ملک میں مہنگائی نہیں ہوگی۔
 

جاسم محمد

محفلین
مسئلے کا حل (پرائس کنٹرول) موجود نہ ہونے کی یہ منطق درست نہیں۔
شدید غیر متفق۔ گلوبلائزیشن اور عالمی مارکیٹ کے دور میں پرائس کنٹرول مضحکہ خیز اور کبھی نہ نافذ ہو سکنے والا اقدام ہے۔ پاکستانی ابھی تک 70 کی دہائی والی سوشل ازم میں جی رہے ہیں۔ جب تک حکومتیں اشیا کی قیمتیں کو کنٹرول کرنا بند نہیں کریں گی، مہنگائی کا جن قابو میں نہیں آئے گا۔
 
آخری تدوین:

جاسم محمد

محفلین
تو ؟؟ اس سے کیسے ثابت ہوا کہ دوا کی قیمت بڑھائی جائے اور پرائس کنٹرول پر کام نہ کیا جائے۔
نہیں۔ مسئلہ کا حل دواؤں کی قیمت بے وجہ بڑھانا نہیں ہے مگر ان کی قیمتیں کم از کم لاگت سے زیادہ رکھنا ہے تاکہ ضروری ادوایات مارکیٹ سے غائب ہو کر بلیک مارکیٹ میں نہ بکیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
مہنگائی اکنامکس کا ایک بہت ہی اہم ٹاپک ہے۔ اکنامکس کے مطابق مہنگائی بڑھنےکی 4 بنیادی وجوہات ہوتی ہیں۔ جب بھی کوئی ملک اپنی اکنامک پالیسی بناتا ہے تو ان 4 بنیادی وجوہات کو مدنظر رکھ کر ہی اپنی اکنامک پالیسی بناتا ہے۔ اگر ان وجوہات کو اگنور کیا جائے یا پھر سبسڈیز دیکر مصنوعی طریقے سے مہنگائی کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی جائے تو اس کا نتیجہ ہمیں یونہی بھگتنا پڑتا ہے جیسے 2018 کے بعد سے لیکر ابھی تک ہمیں بھگتنا پڑرہا ہے۔ مہنگائی بڑھنے کی وجوہات مندرجہ ذیل ہیں۔
1- اکنامک بوم
2-راء میٹریل کی قیمتوں کا بڑھنا
3-تنخواہیں بڑھنا
4-کرنسی ڈی ویلیو ایشن
1- اکنامک بوم سے مراد جب کسی ملک کی اکنانومی گرو کرتی ہے تو اس ملک میں مہنگائی بڑھنا شروع ہوجاتی ہے۔ اس کی مثال ایسے سمجھیں کہ اکنانومی گرو کرنے سے لوگوں کے پاس پیسہ زیادہ آنا شروع ہوجاتا ہے جس سے وہ پیسہ زیادہ خرچ کرتے ہیں اور یوں چیزوں کی ڈیمانڈ بڑھنا شروع ہوجاتی ہے۔ اور ایکوی لبریم کے مطابق چیزوں کی قیمت بڑھ جاتی ہے۔ یہ یونیورسل لاء ہے جاپان اور دبئی اس کی سب سے بڑی مثالیں ہیں۔ اب اگر 2013 سے 2018 تک اکانومی گرو کررہی تھی تو مہنگائی کو بڑھنا چاہیئے تھا لیکن مہنگائی مارکیٹ ریٹ کے مطابق نہیں تھی مطلب کچھ تو کام خراب تھا۔ کیا کام خراب تھا اس کی سمجھ آپ کو چوتھے فیکٹر میں سمجھ آجائے گی۔
2-تقریبا سارے ممالک راء میٹریلز کے لیئے ایک دوسرے پر انحصار کرتے ہیں لہذا راء میٹریلز کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ آتا رہتا ہے۔ مثلا ہم کروڈ آئل کے لیئے سعودی عرب پر انحصار کرتے ہیں تو جیسے ہی عالمی منڈی میں تیل کی قیمت بڑھتی ہے تو ہمارے ملک میں اس قیمت کے بڑھنے کا ڈائریکٹ اثر ہر چیز پر پڑھتا ہے۔ لہذا مہنگائی ہوجاتی ہے۔
3- تنخواہوں کے بڑھنے سے مہنگائی ہوتی ہے۔ اس کو آسان سی زبان میں سمجھاتا ہوں۔ فرض کریں یونی لیور پاکستان کا ماہانہ پرافٹ 2 کروڑ روپے ہے جس میں سے 50 لاکھ ان کے اخراجات اور 50 لاکھ روپے ملازمین کی تنخواہیں نکال کر نیٹ پرافٹ 1 کروڑ بنتا ہے۔ اب ملازمین کو 1 سال وہاں کام کرتے ہوجاتا ہے۔ 1 سال کے بعد ملازمین کہیں گے کہ ہماری تنخواہیں بڑھاؤ تو کمپنی تنخواہیں بڑھائے گی۔ فرض کریں کمپنی نے اگلے سال 25 لاکھ روپے سیلری کی مد میں بڑھا دیئے تو کمپنی کا پرافٹ 1 کروڑ سے کم ہوکر 75 لاکھ رہ جائے گا۔ لہذا کمپنی اپنے پرافٹ کو بڑھانے کے لیئے اپنی اشیاء کی قیمتیں زیادہ کردے گی تاکہ اس کا پرافٹ مارجن یا پہلے جتنا رہے یا پھر مزید بڑھ جائے۔
4- کرنسی ڈی ویلیو ایشن کا مطلب ہوتا ہے کہ کرنسی کی جو ویلیو فرض کریں 1947 میں تھی وہ ویلیو اس کی اس وقت نہیں ہے بلکہ کم ہوچکی ہے۔ 1947 میں 1 پاکستانی روپے کی ویلیو 2020 میں تقریبا ایک اندازے کے مطابق 600 پاکستانی روپے کے برابر ہے۔ یعنی جتنی چیزیں 1947 میں 1 روپے کی آتی تھی اتنی چیزیں اب 600 روپے میں آئیں گی۔ لہذا کرنسی نے ڈی ویلیو ہونا ہی ہے تو اس فیکٹر کو ذہن میں رکھ کر ہمیشہ اکنامک پالیسی بنائی جاتی ہے۔
کرنسی ڈی ویلیو ایشن کی ایک بڑی وجہ ٹھوک کے حساب سے کرنسی نوٹوں کا چھاپنا ہے۔ 2013 سے لیکر 2018 تک حکومت بینکوں سے قرضے لیتی تھی جس کی وجہ سے بینکوں کو نوٹ زیادہ چھاپنا پڑتے تھے تو یوں کرنسی ڈی ویلیو ایشن ہوتی گئی۔ ہماری پاکستان کی ماضی کی حکومتوں نے اس فیکٹر کو کبھی ذہن میں رکھا ہی نہیں۔ بلکہ ہمیشہ ڈالر کو سٹیبل رکھنے کے چکر میں ایکسچینج ریٹ سے چھیڑ چھاڑ کرکے اس کو ایک جگہ پر قائم رکھتے رہے۔ اس سے وقتی طور پر مہنگائی رک جاتی تھی۔ اور جب اگلی حکومت آکر ڈالر کو مارکیٹ ریٹ پر لاتی تھی تو جو مہنگائی پچھلے 4 سالوں سے ایک ہی جگہ پر رکی ہوئی تھی وہ یک دم اس ڈالر کے ریٹ کے مطابق سیٹ ہوجاتی تھی ۔ عوام گالیاں نکالتی تھی اور وہ حکومت پریشر میں آکر پھر وہی فکسڈ ڈالر ایکسچینج ریٹ پالیسی کو اپنا کر اپنے باقی کے 5 سال نکالتی تھی کہ اگلی حکومت خود ہی بھگت لے گی۔
جس کا نتیجہ یہ ہوتا تھا کہ برآمدات بھی تباہ ہوتی رہی، اکانومی بھی گرو نہیں ہوئی اور ہماری اکانومی امپورٹ بیسڈ بنتی گئی۔ جس کی 5.8 فیصد گروتھ ریٹ دکھا کر ہر جگہ شوخیاں ماری جاتی ہیں۔ یعنی کاغذوں میں دکھانے کے لیئے گروتھ ریٹ اچھا ہے لیکن گراؤنڈ پر 5.8 فیصد کی ویلیو پاکستان کے لئے زہر کی حیثیت رکھتی ہے۔
اکانومی کی الف ب کی سمجھ بوجھ رکھنے والے 2018 سے لیکر 2020 کے درمیان ہونے والی مہنگائی کو آرام سے سمجھ جائیں گے۔ اسی لیئے پی ٹی آئی گورنمنٹ نے شروع میں کہا تھا کہ مشکل حالات سے گزرنا پڑے گا اور انہی مشکل حالات سے ہم گزر رہے ہیں۔
 

الف نظامی

لائبریرین
مہنگائی اکنامکس کا ایک بہت ہی اہم ٹاپک ہے۔ اکنامکس کے مطابق مہنگائی بڑھنےکی 4 بنیادی وجوہات ہوتی ہیں۔ جب بھی کوئی ملک اپنی اکنامک پالیسی بناتا ہے تو ان 4 بنیادی وجوہات کو مدنظر رکھ کر ہی اپنی اکنامک پالیسی بناتا ہے۔ اگر ان وجوہات کو اگنور کیا جائے یا پھر سبسڈیز دیکر مصنوعی طریقے سے مہنگائی کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی جائے تو اس کا نتیجہ ہمیں یونہی بھگتنا پڑتا ہے جیسے 2018 کے بعد سے لیکر ابھی تک ہمیں بھگتنا پڑرہا ہے۔ مہنگائی بڑھنے کی وجوہات مندرجہ ذیل ہیں۔
1- اکنامک بوم
2-راء میٹریل کی قیمتوں کا بڑھنا
3-تنخواہیں بڑھنا
4-کرنسی ڈی ویلیو ایشن
1- اکنامک بوم سے مراد جب کسی ملک کی اکنانومی گرو کرتی ہے تو اس ملک میں مہنگائی بڑھنا شروع ہوجاتی ہے۔ اس کی مثال ایسے سمجھیں کہ اکنانومی گرو کرنے سے لوگوں کے پاس پیسہ زیادہ آنا شروع ہوجاتا ہے جس سے وہ پیسہ زیادہ خرچ کرتے ہیں اور یوں چیزوں کی ڈیمانڈ بڑھنا شروع ہوجاتی ہے۔ اور ایکوی لبریم کے مطابق چیزوں کی قیمت بڑھ جاتی ہے۔ یہ یونیورسل لاء ہے جاپان اور دبئی اس کی سب سے بڑی مثالیں ہیں۔ اب اگر 2013 سے 2018 تک اکانومی گرو کررہی تھی تو مہنگائی کو بڑھنا چاہیئے تھا لیکن مہنگائی مارکیٹ ریٹ کے مطابق نہیں تھی مطلب کچھ تو کام خراب تھا۔ کیا کام خراب تھا اس کی سمجھ آپ کو چوتھے فیکٹر میں سمجھ آجائے گی۔
2-تقریبا سارے ممالک راء میٹریلز کے لیئے ایک دوسرے پر انحصار کرتے ہیں لہذا راء میٹریلز کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ آتا رہتا ہے۔ مثلا ہم کروڈ آئل کے لیئے سعودی عرب پر انحصار کرتے ہیں تو جیسے ہی عالمی منڈی میں تیل کی قیمت بڑھتی ہے تو ہمارے ملک میں اس قیمت کے بڑھنے کا ڈائریکٹ اثر ہر چیز پر پڑھتا ہے۔ لہذا مہنگائی ہوجاتی ہے۔
3- تنخواہوں کے بڑھنے سے مہنگائی ہوتی ہے۔ اس کو آسان سی زبان میں سمجھاتا ہوں۔ فرض کریں یونی لیور پاکستان کا ماہانہ پرافٹ 2 کروڑ روپے ہے جس میں سے 50 لاکھ ان کے اخراجات اور 50 لاکھ روپے ملازمین کی تنخواہیں نکال کر نیٹ پرافٹ 1 کروڑ بنتا ہے۔ اب ملازمین کو 1 سال وہاں کام کرتے ہوجاتا ہے۔ 1 سال کے بعد ملازمین کہیں گے کہ ہماری تنخواہیں بڑھاؤ تو کمپنی تنخواہیں بڑھائے گی۔ فرض کریں کمپنی نے اگلے سال 25 لاکھ روپے سیلری کی مد میں بڑھا دیئے تو کمپنی کا پرافٹ 1 کروڑ سے کم ہوکر 75 لاکھ رہ جائے گا۔ لہذا کمپنی اپنے پرافٹ کو بڑھانے کے لیئے اپنی اشیاء کی قیمتیں زیادہ کردے گی تاکہ اس کا پرافٹ مارجن یا پہلے جتنا رہے یا پھر مزید بڑھ جائے۔
4- کرنسی ڈی ویلیو ایشن کا مطلب ہوتا ہے کہ کرنسی کی جو ویلیو فرض کریں 1947 میں تھی وہ ویلیو اس کی اس وقت نہیں ہے بلکہ کم ہوچکی ہے۔ 1947 میں 1 پاکستانی روپے کی ویلیو 2020 میں تقریبا ایک اندازے کے مطابق 600 پاکستانی روپے کے برابر ہے۔ یعنی جتنی چیزیں 1947 میں 1 روپے کی آتی تھی اتنی چیزیں اب 600 روپے میں آئیں گی۔ لہذا کرنسی نے ڈی ویلیو ہونا ہی ہے تو اس فیکٹر کو ذہن میں رکھ کر ہمیشہ اکنامک پالیسی بنائی جاتی ہے۔
کرنسی ڈی ویلیو ایشن کی ایک بڑی وجہ ٹھوک کے حساب سے کرنسی نوٹوں کا چھاپنا ہے۔ 2013 سے لیکر 2018 تک حکومت بینکوں سے قرضے لیتی تھی جس کی وجہ سے بینکوں کو نوٹ زیادہ چھاپنا پڑتے تھے تو یوں کرنسی ڈی ویلیو ایشن ہوتی گئی۔ ہماری پاکستان کی ماضی کی حکومتوں نے اس فیکٹر کو کبھی ذہن میں رکھا ہی نہیں۔ بلکہ ہمیشہ ڈالر کو سٹیبل رکھنے کے چکر میں ایکسچینج ریٹ سے چھیڑ چھاڑ کرکے اس کو ایک جگہ پر قائم رکھتے رہے۔ اس سے وقتی طور پر مہنگائی رک جاتی تھی۔ اور جب اگلی حکومت آکر ڈالر کو مارکیٹ ریٹ پر لاتی تھی تو جو مہنگائی پچھلے 4 سالوں سے ایک ہی جگہ پر رکی ہوئی تھی وہ یک دم اس ڈالر کے ریٹ کے مطابق سیٹ ہوجاتی تھی ۔ عوام گالیاں نکالتی تھی اور وہ حکومت پریشر میں آکر پھر وہی فکسڈ ڈالر ایکسچینج ریٹ پالیسی کو اپنا کر اپنے باقی کے 5 سال نکالتی تھی کہ اگلی حکومت خود ہی بھگت لے گی۔
جس کا نتیجہ یہ ہوتا تھا کہ برآمدات بھی تباہ ہوتی رہی، اکانومی بھی گرو نہیں ہوئی اور ہماری اکانومی امپورٹ بیسڈ بنتی گئی۔ جس کی 5.8 فیصد گروتھ ریٹ دکھا کر ہر جگہ شوخیاں ماری جاتی ہیں۔ یعنی کاغذوں میں دکھانے کے لیئے گروتھ ریٹ اچھا ہے لیکن گراؤنڈ پر 5.8 فیصد کی ویلیو پاکستان کے لئے زہر کی حیثیت رکھتی ہے۔
اکانومی کی الف ب کی سمجھ بوجھ رکھنے والے 2018 سے لیکر 2020 کے درمیان ہونے والی مہنگائی کو آرام سے سمجھ جائیں گے۔ اسی لیئے پی ٹی آئی گورنمنٹ نے شروع میں کہا تھا کہ مشکل حالات سے گزرنا پڑے گا اور انہی مشکل حالات سے ہم گزر رہے ہیں۔
جب آپ کو ڈومین نالج نہ ہو تو ایسا لیکچر ہی دیا جا سکتا ہے۔ ادویات کی کمپنیوں کے پرافٹ مارجن پر تحقیق کریں تا کہ آنکھیں کھل سکیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
جب آپ کو ڈومین نالج نہ ہو تو ایسا لیکچر ہی دیا جا سکتا ہے۔ ادویات کی کمپنیوں کے پرافٹ مارجن پر تحقیق کریں تا کہ آنکھیں کھل سکیں۔
جب حکومت ادویات کی قیمتیں لاگت سے کم پر مقرر کرے گی تو ادویات بنانے والی کمپنیوں ان کو بنانا چھوڑ دیں گی۔ نتیجتا وہ باہر سے سمگل ہو کر بلیک میں ملیں گی۔ اسی کی روک تھام کیلئے ادویات کی قیمتیں مارکیٹ ریٹ تک بڑھائی گئی ہیں۔ تاکہ ان ادویات کی دستیابی عام مارکیٹ میں ممکن ہو سکے
 
جب حکومت ادویات کی قیمتیں لاگت سے کم پر مقرر کرے گی تو ادویات بنانے والی کمپنیوں ان کو بنانا چھوڑ دیں گی۔ نتیجتا وہ باہر سے سمگل ہو کر بلیک میں ملیں گی۔ اسی کی روک تھام کیلئے ادویات کی قیمتیں مارکیٹ ریٹ تک بڑھائی گئی ہیں۔ تاکہ ان ادویات کی دستیابی عام مارکیٹ میں ممکن ہو سکے
جب سے یوتھیے آئے ہیں مہنگائی کی نئی نئی توجیہی سننے کو ملتی ہیں۔
 

الف نظامی

لائبریرین
جب حکومت ادویات کی قیمتیں لاگت سے کم پر مقرر کرے گی تو ادویات بنانے والی کمپنیوں ان کو بنانا چھوڑ دیں گی۔ نتیجتا وہ باہر سے سمگل ہو کر بلیک میں ملیں گی۔ اسی کی روک تھام کیلئے ادویات کی قیمتیں مارکیٹ ریٹ تک بڑھائی گئی ہیں۔ تاکہ ان ادویات کی دستیابی عام مارکیٹ میں ممکن ہو سکے
اس مفروضے کا کیا ثبوت ہے کہ حکومت نے ادویات کی قیمت لاگت سے کم مقرر کی تھیں؟
نوٹ: جواب میں ریفرینس دینا ضروری ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
جب سے یوتھیے آئے ہیں مہنگائی کی نئی نئی توجیہی سننے کو ملتی ہیں۔
توجیہہ نئی اس لئے لگ رہی ہے کیونکہ ماضی کی حکومتیں مہنگائی کا ذمہ دار ایک دوسرے کو ٹھہراتی تھیں۔ حالانکہ حکومت کا براہ راست اس سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ حکومت چاہے تو ڈالر ریٹ فکس کر کے عارضی طور پر مہنگائی کو کنٹرول کر سکتی ہے۔ جیسا کہ ماضی میں ہوتا رہا ہے۔ مگر یہ کوئی مستقل حل نہیں ہے۔ معیشت کو صرف مستحکم کرنے سے ہی حتمی طور پر مہنگائی پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ جس میں ابھی کافی وقت لگے گا۔
 
Top