جاسمن

لائبریرین
وطن کی مٹی گواہ رہنا۔

یہ وطن ہمارا ہے ، گواہ رہنا
اسے ہم نے سنوارا ہے، گواہ رہنا
اقبال کا جو خواب تھااور جناح کی تعبیر
سرسید نے بھی اسکی دیکھی تھی اک تصویر
کئی گردنیں کٹی تجھ پر کئی عصمتیں لٹی تجھ پر
کئی گھر اجاڑے گئے کئی بے موت مارے گئے
رکھنی ہے تجھ کو لاج اس خون کی
دیتا ہے جو گواہی ہمارے جنون کی
گواہ رہنا ان مائوں کی اجڑی ہے جن کی گود
نکلے ہیں جن کا آنسو
صرف تیرے لیے،بس تیرے لہے ہاں تیرے لہے
گواہ رہنا بس تو گواہ رہنا
گواہ رہنا کہ تیرے اک اک ذرے میں خون ہے
ان جوانوں کا جو تھے کسی کے گھر کا آسرا
کسی کے سر کا آسرا
لڑے ہیں وہ جی جان سے
بچایا تجھ کو ہر نقصان سے
اے میری پاک سر زمین گواہ رہنا
 

جاسمن

لائبریرین
وطن کے لئے ایک دعا
خدا کرے کہ مری ارض پاک پر اترے
وہ فصل گل، جسے اندیشۂ زوال نہ ہو
یہاں جو پھول کھلے، وہ کھلا رہے صدیوں
یہاں خزاں کو گزرنے کی بھی مجال نہ ہو
یہاں جو سبزہ اُگے، وہ ہمیشہ سبز رہے
اور ایسا سبز، کہ جس کی کوئی مثال نہ ہو
گھنی گھٹائیں یہاں ایسی بارشیں برسائیں
کہ پتھروں سے بھی، روئیدگی محال نہ ہو
خدا کرے۔۔۔ کہ نہ خم ہو سر وقار وطن
اور اس کے حسن کو تشویش ماہ و سال نہ ہو
ہر ایک فرد ہو تہذیب و فن کا اوج کمال
کوئی ملول نہ ہو، کوئی خستہ حال نہ ہو
خدا کرے۔۔۔ کہ مرے ایک بھی ہم وطن کے لیے
حیات جرم نہ ہو، زندگی وبال نہ ہو
خدا کرے۔۔۔ کہ مری ارض پاک پر اترے
وہ فصلِ گل جسے اندیشۂ زوال نہ ہو
(احمد ندیم قاسمی)
 

جاسمن

لائبریرین
تیری بنیاد میں قاسم کا لہو شامل ہے

تیری تعمیر میںاسلام کی خُو شامل ہے

تیری مٹی میں میرے خون کی بُو شامل ہے

اس میں شامل ہوں میں جس لفظ میں تو شامل ہے

اے وطن ہے تو حزیں حال مگر زندہ ہوں

تجھ سے شرمندہ ہوں ، شرمندہ ہوں ، شرمندہ ہوں
 

جاسمن

لائبریرین
اے وطن روٹھ گئے تجھ کو بنانے والے

اب نظر آتے ہیں بس دیس کو کھانے والے

چار پیسوں کے لیے ظرف لٹا نے والے

اور اغیار کو اس ملک میں لانے والے

رہبرِ قوم کے منشور سے توبہ ہے میری

ہے یہ جمہور تو جمہور سے توبہ ہے میری
 

جاسمن

لائبریرین
وطن سے مہر ووفا ،جسم و جاں کا رشتہ ہے
وطن ہے باغ تو پھر باغباں کا رشتہ ہے
وطن سے دور رہیں یا وطن میں بس جائیں
یہ مہرباں سے کسی مہر باں کا رشتہ ہے
 
بنائے پاک وطن لا الٰہ الّا اللہ
نگاہِ قوم پہ روشن ہے اس کی منزل و راہ
خدا گواہ فرشتے گواہ قوم گواہ
ترا ضمیر ہے زندہ دمک رہی ہے جبیں
ترے وجود پہ نازاں ہیں آسمان و زمیں

نظرؔ لکھنوی
 
ہے عرضِ نظرؔ احساسِ زیاں خدامِ شہِ لولاک کریں
جو دیں کے تقاضے ہیں ان کا للہ ذرا ادراک کریں
ظلمت کا گریباں تار کریں الحاد کا پردہ چاک کریں
فی الاصل بنا دیں پاکستاں یوں خاکِ وطن کو پاک کریں
نظرؔ لکھنوی
 

جاسمن

لائبریرین
صبیحہ صبا
ہماری آنکھ میں جو خواب ہیں وہ سب وطن کے ہیں
یہاں جو گوہر نایاب ہیں وہ سب وطن کے ہیں
وطن کی آن قربان کرتے ہیں دل وجاں بھی
ہمارے پاس جو اسباب ہیں وہ سب وطن کے ہیں
کہیں امید کی کرنیں دلوں میں روشنی کردیں
کئی جذبے بہت نایاب ہیں وہ سب وطن کے ہیں
 
کتنی تلخی اس نشاط و کیف میں روپوش ہے
بادۂ عشرت کی سر مستی میں کس کو ہوش ہے

کس لیے چاہا گیا تھا اک وطن اندر وطن
اس کا پس منظر بھی دیکھیں نوجوانانِ چمن

نظرؔ لکھنوی
 

شکیب

محفلین
اتنی محبتوں میں کشش چاہتے ہیں ہم
غم ہو ادھر تو کوئی ادھر بھی تڑپ اٹھے
کاش اتنا پیار دونوں طرف کی فضا میں ہو
دلی کا دل دکھے تو کراچی تڑپ اٹھے
(جوہر کانپوری)
 

فہد اشرف

محفلین
انیکتا میں ایکتا میرے وطن کی شان ہے
میری زمیں وِشال میرا وطن مہان ہے
شاعر کا نام بھول رہا ہوں۔ "شاعر بمبئی" کے قومی یکجہتی نمبر (شاید 1965 کا شمارہ تھا) میں پڑھا تھا۔
 

سیما علی

لائبریرین
سلامتی ہی سلامتی کی دُعائیں خلقِ خدا کی خاطر
ہماری مٹی پہ حرف آیا تو عہدِ فتحِ مبیں لکھیں گے

(افتخار عارف)
🇵🇰🇵🇰🇵🇰🇵🇰🇵🇰
 

سیما علی

لائبریرین
🇵🇰🇵🇰
🇵🇰🇵🇰🇵🇰
فقط اِس جرم میں کہلائے گنہ گار کہ ہم
بہر ناموسِ وطن، جامہ تن مانگتے ہیں
لمحہ بھر کو تو لبھا جاتے ہیں نعرے، لیکن
ہم تو اے اہلِ وطن، دردِ وطن مانگتے ہیں
(احمد ندیم قاسمی)
 
Top