وضو میں کلی کی سنتیں:

فارقلیط رحمانی

لائبریرین
نماز کا وقت شروع ہونے سے پہلے وضو کرنا مستحب ہے
اور
وقت شروع ہونے کے بعد وضو کرنا فرض ہے،
لیکن یہاں پر مستحب کا ثواب فرض سے زیادہ ہے۔

ایک مرتبہ ہمارے ایک دوست تشریف لائے۔
سلام و آداب کے بعد جب ان کی خیریت معلوم کی تو کہنے لگے
آج کل بڑا پریشان ہوں۔
’’آخر بات کیا ہے؟‘‘ ہم نے ازراہِ ہمدردی دریافت کیا۔
کچھ سوچنے کے بعد کہنے لگے، ’’ آج کل ہماری زبان قابو میں نہیں رہتی۔‘‘
’’کیوں کیا ہو گیا آپ کی زبان کو؟‘‘ ہم نے وضاحت طلب کی۔
’’ آج کل ہم کچھ زیادہ ہی گالیاں بولنے لگے ہیں۔‘‘ یہ بات کچھ اس طرح گوش گزار کی گویا اپنے فعل پربے حد شرمندہ ہوں۔
ہماری زبان سے نکلا،’’حضورِ والا! کہیں آپ نے نماز کی طرف سے غفلت تو نہیں برتی؟‘‘
کہنے لگے،’’ارے نہیں! نماز تو ہم بڑی پابندی سے ادا کرتے ہیں۔‘‘
’’ تب پھر ضرور آپ سے وضو میں کلی کرنے میں غفلت ہوتی ہوگی‘‘ ہم نے ایک اور تنبیہہ کی۔
’’اجی نہیں! کلی بھی ہم ٹھیک سے کرتے ہیں۔‘‘ انہوں نے اپنا بچاؤ کیا۔
’’ دیکھیے صاحب ! وُضو میں کلی کرنا نہ صرف یہ کہ سنت ہے بلکہ سنت مؤکدہ ہے۔‘‘(دُرمختار جلد1 صفحہ116)
انہیں مزید شرمندہ کیے بنا ہم کہا۔
اور پھر یہ بھی یاد رکھیے کہ کلی کرنا پانچ سنتوں پر مشتمل ہے:
1۔ تثلیث (یعنی تین مرتبہ کلی کرنا)
2۔ ترتیب(یعنی پہلے کلی کرنا بعد میں ناک میں پانی ڈالنا، اس ترتیب کو ملحوظ رکھنا)
3۔ تجدیدالماء(یعنی کلی کرنے کے لیے ہر مرتبہ نیا پانی لینا)
4۔ دائیں ہاتھ سے (حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ دایاں ہاتھ چہرے کے لیے اور بایاں ہاتھ )
اور
5۔مضمضہ یعنی کلی میں مبالغہ کرنا
(صاحب بحر نے اور شامی نے فتح سے نقل کیا ہے کہ مضمضہ یعنی کلی میں مبالغہ غرغرہ کرنے سے ہوجائے گا۔)
اس کے بعد کچھ دیگر باتیں ہوتی رہیں اوروہ صاحب چلے گئے۔
چند دنوں کے بعد وہ پھر تشریف لائے، بڑے خوش نظر آرہے تھے،
ہم نے حسب معمول خیریت پوچھی تو شکریہ ادا کرنے لگے،
ہم نے حیرت سے پوچھا،’’اجی جناب شکریہ کس بات کا؟‘‘
فرمانے لگے،’’ ارے صاحب ! آپ نے تو کمال کر دیا۔‘‘
ہم نے پوچھا،’’آخر کیا ہوا، پہیلیاں مت بجھائیے۔‘‘
کہنے لگے،’’ آپ کے نسخے سے ہمیں شفاء نصیب ہوئی؟‘‘
ہم تو حیرت سے ان کا منہ تک ہی رہے تھے،
کہنے لگے، ’’ ارے جناب! وضو میں کلی کی سنتوں کی پابندی کرنے سےہماری گالیاں اپنے آپ ختم ہو گئیں۔‘‘
 
Top