وحدت الوجود ایک غیر اسلامی نظریہ ( تجزیہ اور تبصرہ )

محب ، کیا ہر معاملے میں‌اپنی ٹانگ پھنسا رکھی ہے ،،، ویسے یہ تم کو فلسفہ وحدت الوجود کی سوجھی کہاں‌سے ،، یہ آج کے دور کے مسائل نہیں ‌میرے بھائی ،، کیوں‌ گڑے مردے اکھاڑتے ہو ۔۔۔۔۔
 
آج کا مسئلہ کیسے نہیں ہے بھائی، آج بھی شعراء کی اکثریت وجودیت کی قائل ہے ۔ اور تو اور ہمارے ایک نئے ممبر منصور حلاج کے نام سے آئے ہیں ، کیا یہ ظاہر نہیں کرتا کہ آج بھی یہ زندہ موضوع ہے۔
 
محب ہمارے لوگ بہت سادے ہیں‌۔۔اکثر ان کو کسی بات کی گہرائی و گیرائی کا علم نہیں‌ہوتا صرف سنی سنائی کی بنا پر سنی سنائی کو علم سمجھ کر آگے بڑھانے میں لگ جاتے ہیں‌۔۔ منصور حلاج کی مثال سامنے کی بات ہے ۔۔ اس کو پتا ہی نہیں‌ انا الحق کا مطلب کیا ہے ۔۔ اور اسی نادانی کی بنیاد پر وہ اور دوست منصور حلاج کو ہیرو قرار دے رہے ہیں‌۔۔۔ اللہ ہمارے حالوں‌پر رحم کرے ۔۔ آمین
 

سپینوزا

محفلین
شاہد آپ خود سے فرض تو نہ کریں کہ میں سادہ ہوں یا نہیں اور مجھے “انا الحق“ یا منصور حلاج کی تاریخ کا علم نہیں۔

شکریہ۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
السلام علیکم

شاہد احمد خان صاحب ، اگر آپ وحدت الوجود کے موضوع پر گفتگو میں دلچسپی رکھتے ہیں تو اپنے پیغامات یہاں ارسال کیجئے۔


شکریہ

۔
 

رضا

معطل
شاہد احمد خان نے کہا:
محب ہمارے لوگ بہت سادے ہیں‌۔۔اکثر ان کو کسی بات کی گہرائی و گیرائی کا علم نہیں‌ہوتا صرف سنی سنائی کی بنا پر سنی سنائی کو علم سمجھ کر آگے بڑھانے میں لگ جاتے ہیں‌۔۔ منصور حلاج کی مثال سامنے کی بات ہے ۔۔ اس کو پتا ہی نہیں‌ انا الحق کا مطلب کیا ہے ۔۔ اور اسی نادانی کی بنیاد پر وہ اور دوست منصور حلاج کو ہیرو قرار دے رہے ہیں‌۔۔۔ اللہ ہمارے حالوں‌پر رحم کرے ۔۔ آمین
p112.gif

p113.gif
 

آبی ٹوکول

محفلین
۔۔۔۔۔وحدۃ الوجود کی حقیقت کو سمجھنے سے پہلے یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ کسی بھی تصور یا نظریہ کے بارے میں حقیقی مؤقف جاننے کے لیے دو طریقے ہوتے ہیں ایک یہ کہ مذکورہ نظریہ کو ماننے والوں کی اس کے بارے میں کیا رائے ہے یا کیا تعبیرات اور تشریحات و توضیحات ہیں اور دوسرا یہ کہ اس نظریہ پر مخالفین کی کیا رائے ہے اور وہ کیا الزام تراشی کرتے ہیں؟ اس کی مثال میں عموما یوں دیا کرتا ہوں کہ اسلام دشمن اکثر اسلام کو دہشت اور بربریت کا مذہب قرار دیتے ہیں (اورایسا وہ ہمارے اندر ہی موجود بعض کج فہم عناصر کی وجہ سے کرتے ہیں ) جبکہ مسلمان مسلسل اپنی صفائیاں پیش کرتے نہیں تھکتے ۔ ہر بالغ نظر اور عقلمند شخص جب صحیح نتیجے تک پہنچنے کے لیے غیر جانبداری سے حقائق کا تجزیہ کرنے کی کوشش کرے گا تو اس کے لیے ضروری ہوگا کہ وہ اسلام دشمن منفی پروپگینڈہ کرنے والے عناصر کی باتوں پر کان دھرنے کی بجائے صحیح اسلامی تعلیمات سے سے آگاہی حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہوئے اصل اسلامی ماخذات کا مطالعہ کرئے ۔ کیونکہ ایسا نہیں ہوسکتا کہ کوئی شخص افغانستان میں موجود کسی نام نہاد جہادی تنظیم کے کارکنوں سے ملنے کے بعد ان ہی کے خیالات کو اصل اسلامی تعلیمات کی روح قرار دے ۔جب بھی ہم کسی مکتبہ فکر کے نظریات کا جائزہ لیتے ہیں تو اس کے لیے ضروری ہے کہ اس مکتبہ فکر مسلمہ پیشواؤں کے مستند بیانات کو سامنے رکھیں لیکن بدقسمتی سے بریلوی مکتبہ فکر کے ساتھ عام طور پر یہ زیادتی کی جاتی ہے کہ عموما صاحب مزار کی مرقد پر ہونے والی تمام خرافات کو بریلوی مسلک کے اکابرین کے کھاتے میں ڈال دیا جاتا ہے (حالانکہ حقیقت میں اس مسلک کے اکابرین نے سختی سے اس قسم کی تمام بدعات کی تردید کی ہے)اور ایسا کرنا کسی بھی مکتبہ فکر کے ساتھ ظلم ہے ۔
خیر اتنی لمبی تمہید باندھنے کا مقصد یہ تھا کہ ہم پہلے بھی واضح کرچکے ہیں کہ مسئلہ وحدۃ الوجود بڑا ہی دقیق اور فلسفیانہ بحث کا متقاضی ہے اور ہمارا علم ہر گز اتنا نہیں ہے کہ ہم اس مسئلہ کی وضاحت یہاں مکمل طور پر پیش کرسکیں مگر ہرچند ہم اپنی سی کوشش ضرور کریں گے کہ اس مسئلہ کی غلط توضیحات پیش کرکے جس طریقے سے حقیقی تصوف سے لوگوں کے ذھنوں کو پرانگندہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے ہم اپنے ناقص علم پر مبنی توضیحات کے زریعے لوگوں کے زہنوں پر پڑھنے والی اس گرد کا کسی نہ کسی حد تک ازالہ کرسکیں ۔باقی ہمیں اپنی علمی بے بضاعتی کا حقیقی ادراک ہے لہذا ہم علماء کرام ہی کی کتب کو سامنے رکھتے ہوئے ان سب ی اس مسئلہ پر گفتگو کو اپنے الفاظ میں پیش کرنے کی کوشش کریں گے ۔

وحدۃ الوجود( ماخوذ از جمال السنہ از جہانگیر)
اللہ پاک کی زات پر ایمان رکھنا تمام انبیاء کی بنیادی تعلیمات کا جز رہا ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کا مرکزی موضوع بھی یہی تھا جب اسلامی سلطنت نے عجمی خطوں کو اپنے زیر نگیں کیا تو وہاں کے سابقہ افکار و نظریات نو مسلم معاشروں پر اثر انداز ہوئے جس کے نتیجے میں نت نئے فرقوں نے جنم لینا شروع کیا اور یوں پھر اسلامی تعلیمات کی نت نئی تعبریات اور تشریحات پیش کی جانے لگیں اوراس میں سب سے زیادہ ہاتھ یونانی فلسفہ کا تھا اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اسلامی مفکرین نے ان نت نئی تعبریات کا جواب دینے کے لیے ایک باقاعدہ فن ایجاد کیا جس کا نام علم الکلام رکھا گیا ۔اس فن میں بطور خاص الٰہیات اور عمومی طور پر تمام اسلامی عقائد کے بارے میں جزوی نکات کو فلسفہ اور عقل و منطق کی بنیادوں پر موضوع بحث بنایا گیا تاکہ یونانی فلسفہ و فکر کے حاملین لوگوں کے تمام قسم کے شکوک وشبہات کا عقلی دلائل اور خود اسلامی فلسفہ کی روح قلع قمع کیا جاسکےآج بھی اگر آپ علم الکلام کی مستند کتابوں کا مطالعہ کریں تو اس میں آپکو بہت سے ایسے زیلی مباحث ملین گے کہ جو ہماری اور آپکی سمجھ کے اوپر سے گذر جائیں گے
(جیسے علم الکلام کی امھات کتب شرح مواقف، شرح مقاصد ،شرح عقائد مع خیالی وغیرہ) اسی طرح اگر آپ علم فقہ کی کسی کتاب کا مطالعہ کریں تو اس میں بھی آپ کو بہت سے ایسے ذیلی مباحث ملیں گے جو کہ صراحت کے ساتھ قرآن سنت میں مذکور نہ ہونگے اسی طرح علم حدیث اور علم اصول حدیث کے بارے میں بھی بہت سے ایسے ذیلی مباحث ہیں جو کہ بعد کے زمانوں میں ضبط تحریر میں لائے گئے اور انکا ابتدائی دو صدیوں میں کوئی وجود نہیں ملتا ۔
دوسری صدی ہجری کے آغاز میں ہی فلسفہ اسلامی علوم وفنون میں شامل ہوچکا تھا اور اس کا موضوع بحث کیا تھا ؟ اور کن صدیوں میں یہ کون سے مراحل سے گزرتا رہا یہ ایک طویل بحث ہے لیکن سردست ہمارا موضوع سخن چھٹی صدی ہجری کے مشہور صوفی اور فلسفی شیخ اکبر ابن عربی کا پیش کردہ فلسفہ وحدۃ الوجود ہے کیونکہ آجکل اکثر جہلاء اس فلسفے کے حقیقی فہم کا ادراک نہ ہونے کے باعث اپنی کج فہمی سے اسی وحدۃ الوجود کی آڑ میں نفس تصوف پر زبان طعن دراز کرتے ہیں ۔
برصغیر پاک و ہند میں چار بڑے مکاتب فکر موجود ہیں دیو بند ، بریلوی ، اہل حدیث اور شیعہ ان میں سے دیو بند اور بریلوی ابن عربی کو کامل صوفی اور عارف تسلیم کرتے ہیں دیوبند کے مشھور عالم دین علامہ اشرف علی تھانوی صاحب نے ابن عربی کی حمایت میں دو مستقل کتابیں بھی تصنیف کی ہیں (جنکا نام سردست ہمارے ذہن سے اتر گیا ہے)جبکہ صرف اہل حدیث یعنی غیر مقلدین فرقے سے تعلق رکھنے والے حضرات ابن عربی کے بارے میں مختلف شکوک و شبہات پیش کرتے رہتے ہیں ۔( جیسا کہ یہاں بھی ایک صاحب نے انتہائی بد زوقی کا مظاہرہ کرتے ہوئے انھی لوگوں کی ایک ویب سے چلے ہوئے اور سڑے ہوئے کارتوس استعمال کیے ہیں۔ خیر) اور ان کے علاوہ بعض جدت پسند مفکرین جیسے امین اصلاحی اور ان جیسے دیگر نے بھی تصوف اور ابن عربی دونوں کو مورود الزام ٹھرایا ہے ۔یہ وہ مہربان ہیں جو کہ خود کو توحید کا ٹھیکدار سمجھتے ہیں اور انکے فہموں میں توحید بس وہی ہے جو انکو اور انکی جماعت کے بڑوں کی سمجھ میں آئی ہے۔
انیسویں صدی کے ممتاز محقق، علم منطق و حکمت کے امام علامہ فضل حق خیر آبادی نے نظریہ وحدۃ الوجود کے اثبات میں ایک مختصر رسالہ تصنیف کیا
(یاد رہے کہ مشھور شاعر مرزا غالب کو بھی علامہ سے خصوصی شغف تھا)جو کہ اپنی مثال آپ ہے ان سے پہلے ہندوستان کی غیر متنازعہ شخصیت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی علیہ رحمہ نے بھی اپنی کتابوں میں شیخ اکبر ابن عربی کی توصیف کی ہے اور ان سے بھی پہلے حضرت مجدد الف ثانی علیہ رحمہ
(کہ جن سے علامہ اقبال کو خصوصی انس تھا اقبال کے بیٹے جاوید اقبال اپنی سوانح عمری میں لکھتے ہیں کہ میرے والد میری پیدائش سے پہلے سرہند گئے اور حضرت مجدد کے مزار پر فاتحہ خوانی کے بعد دعا کی کہ اگر اللہ پاک نے مجھے فرزند عطا کیا تو اس کو ساتھ لیکر آپ کی بارگاہ میں حاضری دوں گا اور جب پھر میں پیدا ہوا اور میری عمر گیارہ برس ہوئی تو ابا جان مجھے شیخ مجدد کے مزار پر حاضری کے لیے لے گئے ) نے بھی ابن عربی کو مقبولان بارگاہ الٰہی میں سے قرار دیا ہے ۔ لیکن سلفی کہلانے والے حضرات ہمارے یہ مہربان لاشعوری طور پر یہی سمجھتے ہیں کہ توحید کے بارے میں حرف آخر وہی ہے جو کہ یہ سمجھتے ہیں ۔اور ہمارے برصغیر میں پائے جانے والے اس طبقے کی علم کم مائگی کا یہ عالم ہے کہ سابقہ پچاس یا سو برس کے دوران لکھی جانے والی اردو کتابوں پر اعتماد کرکے یہ سمجھتے ہیں کہ انھوں نے توحید کا علم حاصل کرلیا اور مزے کی بات یہ ہے کہ انھوں نے جن مصنفین کی تحریرات پر اعتماد کرتے ہوئے توحید کا علم حاصل کیا اگر آپ کبھی انکے شخصی احوال کا جائزہ لیں تو یہ حقیقت آپ پر منکشف ہوگی کہ انھوں نے بھی کبھی تحقیق کی زحمت گوارہ نہیں کی بلکہ اپنے ہی بڑوں کے خیالات کو الفاظ کی تقدیم و تاخیر کے ساتھ نقل کردیا ہے ۔
شیخ اکبر وحدۃ الوجود سے کیا معنٰی و مفھوم لیتے ہیں اس کا ایک عکس تو ہم اپنی پچھلی رپلائی میں پیش کر چکے ہیں رہ گیا یہ تصور کہ شیخ کے نزدیک اس تصور کے کیا کیا خدوخال ہیں اور اسکا حقیقی معنی و مفھوم شیخ کے نزدیک کیا ہے تو اس کا حقیق ادراک کرنے سے ہم قاصر ہیں کیونکہ ہمارا مبلغ علمی اتنا زیادہ نہیں ہے مگر تاہم ایک تیسرے درجے کے طالب علم ہونے کی حیثیت سے ہم اس نظریہ کے امکانی پہلوؤں کا جائزہ پیش کرسکتے ہیں ۔
اور وہ یہ ہے ہے کہ اللہ پاک نے کائنات کو پیدا کیا اور یہ ایک طے شدہ حقیقت ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اس کائنات کو کہاں پیدا کیا گیا ؟ اس کی ایک امکانی صورت بالفرض محال یہ ہوسکتی ہے کہ اللہ پاک کا وجود (نعوذ باللہ ) محدود تھا کہ جس کہ پرے کچھ خلاء موجود تھا اور وہاں اس کائنات کو پیدا کیا گیا ۔ کیا ایسا ہوسکتا ہے؟یقینی طور پر نہیں کیونکہ محدود ہونا مخلوق کی خصوصیت ہے اور اللہ کی زات اس سے پاک ہے ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ جب آپ کائنات کو محدود قرار دیتے ہیں اور اللہ پاک اور کائنات دونوں کو مستقل طور پر موجود مانتے ہیں تو تو اس کا بالواسطہ مطلب یہ ہوگا کہ ایک مقام ایسا ہے کہ جہاں آکر کائنات ختم ہوجاتی ہے اور وہاں سے پھر اللہ پاک کا وجود شروع ہوجاتا ہے (معاذاللہ)۔
دوسرا امکان بالفرض محال یہ ہے کہ‌آپ اس کائنات کو ایک دائرہ فرض کرلیں پھر سوال یہ پیدا ہوگا کہ کیا اس کے چاروں طرف اللہ پاک موجود ہے یعنی اس کا وجود ہے اگر آپ کا جواب اثبات میں ہے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ خود اللہ پاک کے وجود کے اندر ایک خلاء موجود ہے (نعوذباللہ)
اور اس خلاء کے ہی اندر کائنات کو پیدا کردیا گیا جس طرح ہمارے وجود میں بہت سے خلاء ہیں اور ان میں پیدا ہونے والی ممکنہ شئے ہمارے ہی وجود کا حصہ ہوگی کیونکہ وہ ہمارے وجود کے حصے یعنی ایک خلاء میں پیدا ہوئی اور وہ خلاء ہمارے وجود کے اندر ہونے کی وجہ سے ہمارے ہی وجود کا ایک حصہ قرار پایا بالکل اسی طرح ممکنہ خلاء اللہ پاک کا وجودی حصہ قرار پایا اور اس میں پیدا ہونے والی کائنات اس خلاء کا اللہ پاک کے وجود کا حصہ ہونے کی وجہ سے خود زات باری تعالٰی کا وجودی حصہ قرار پائی(نعوذباللہ من ذالک)۔
اوپر بیان کی جانے والی دونوں امکانی صورتیں کیا کسی بھی طریقہ سے اسلام کے نظرہہ توحید سے مطابقت رکھتی ہیں ؟ آپ کا جواب یقینا نہ میں ہوگا تو پھر کائنات اور خدا دونوں کے وجود کی امکانی صورت کیا پیش کی جاسکتی ہے؟ یہی وہ بنیادی سوال ہے کہ جس کہ جواب میں شیخ اکبر نے نظریہ وحدۃ الوجود پیش کیا کیونکہ انھوں نے اپنی عقل اور مشاہدے کے زریعے باآسانی یہ نتیجہ اخذ کرلیا کہ خدا اور کائنات دونوں کو بیک وقت مستقل طور پر موجود تسلیم کرنا ممکن نہیں ہے ۔ اس لیے ہمین یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ درحقیقت موجود صرف اللہ پاک کی ذات ہے اور اس کے علاوہ سب کچھ معدوم ہے اور اسی معدوم میں وجود عدم ایک دوسرے کے ساتھ نسبت کے اعتبار سے موجود و معدوم ہیں وگرنہ حقیقت یعنی زات باری کے اعتبار سے یہ دونوں ہی معدوم ہیں اور رہیں معدوم رہیں گے ۔
اللہ پاک کی عظمت توحید کی شان کے اظہار کے لیے ابن عربی نے جو نظریہ پیش کیا اسکی روشنی میں اسلامی نظریہ توحید پر کسی قسم کا کوئی اشکال حقیقت میں وارد ہی نہیں ہوتا ۔
ہم یہ حقیقت بھی تسلیم کرتے ہیں کہ نظریہ وحدۃ الوجود کی بعض لوگوں نے غلط تعبیر پیش کی اور اس کی آڑ میں حلال و حرام کی تمیز ختم کرنے کی کوشش کی گئی اور وحدت ادیان کی طرف مائل کرنے کی کوشش کی گئی جس کے نتیجے میں بہت سی خرابیوں نے جنم لیا لیکن کیا ان سب اسباب کی وجہ سے وحدۃ الوجود یا نفس تصوف کو ہی مسترد کردیا جائے گا؟عام فہم سی بات ہے کہ اگر کوئی شخص کسی صحیح بات کی غلط تعبیر پیش کرتا ہے تو اس تعبیر کا انکار کیا جائے نہ کہ اس کے نتیجے میں صحیح بات کو رد کیا جائے گا۔
یہاں ایک اور حقیقت کی طرف بھی آپ لوگوں کی توجہ مبذول کروانا بھی نہایت ضروری سمجھتا ہوں کہ مسئلہ وحدۃ الوجود کے دو پہلو ہیں ایک اس کا عقلی اور فلسفیانہ پہلو ہے کہ جس کے اعتبار سے اس کے بنیادی نکات کی نشاندہی ہم نے کردی اور دوسرا اسکا روحانی اور کشفی پہلو ہے اور ابن عربی اور شیخ مجدد الف ثانی کا اس مسئلہ میں جو اختلاف وحدۃ الوجود اور وحدۃ الشہود کے نام سے مشھور ہے اس کا تعلق اس کے روحانی اور کشفی پہلو سے ہے نہ کہ اس کہ فلسفیانہ پہلو سے بلکہ اس کے فلسفیانہ پہلو پر دونوں شیخ متفق ہیں ۔ اور کشفی پہلو پر اختلاف کی بنیاد یہ ہے کہ جب کوئی سالک ریاضت اور مجاہدے کی بنیاد پر سلوک کی منازل طے کرنا شروع کرتا ہے تو تب وہ ایک خاص مقام پر پہنچ کر ہر شئے میں اللہ پاک انوار و تجلیات کو دیکھتا ہے تو تب سالک کو اللہ پاک کی زات کے علاوہ اور کچھ دکھائی نہیں دیتا سوال یہ ہے کہ کیا یہ کیفیت راہ سلوک کا اختتام ہے ؟شیخ اکبر یعنی ابن عربی کے نزدیک سلوک کی انتہاء یہی ہے جبکہ حضرت مجدد کے نزدیک اس کیفیت کے آگے ایک اور کیفیت بھی ہے کہ جہاں پہنچ کر سالک کو اللہ پاک کی زات اور کائنات دونوں علیحدہ علیحدہ محسوس ہوتے ہیں ۔ ہم ان دونوں نظریات کی اس حقیقت سے واقف نہیں کیونکہ یہ حقیقت ان دونوں نطریات میں مکمل طور پر کشف اور شھود کا مسئلہ ہے ۔ لیکن ہم اتنا ضرور جانتے ہیں کہ صوفیاء کی اکثریت کی تائید اس مسئلہ مین شیخ اکبر کو حاصل ہے ۔
اب اس موڑ پر ہم یہ مناسب سمجھتے ہیں کہ مختصر طور پر نطریہ حلول کی بھی وضاحت کردیں کیونکہ اس نظریہ کو بھی تروڑ مروڑ کر صوفیائ پر غلط طریقے سے چسپاں کیا جاتا ہے ۔

اتحاد کی تعریف​
اتحاد کا مطلب یہ ہے کہ مستقل وجود الگ سے موجود ہوں اور پھر یوں دونوں آپس میں باہم مل جائیں کہ ایک ہی وجود کی شکل اختیار کر جائیں اگر چہ دونوں کا مستقل وجود اپنی جگہ قائم رہے ۔اس طرح کی بہت سی مثالیں ہم اپنے معاشرہ میں دیکھتے ہیں جیسے مختلف سیاسی پارٹیوں کا اپنا اپنا انفرادی وجود برقرار رکھ کر ایک دوسرے سے اتحاد کرنا ۔

حلول کی تعریف​
حلول کا مطلب یہ ہے کہ ایک چیز دوسری چیز کے اندر اس طرح داخل ہوجائے کہ پھر اس کے اپنے وجود کو دوسری سے الگ کرنا ممکن نہ رہے جیسے پانی میں نمک اور چینی دونوں کا باہم ملکر پانی بن جانا اللہ پاک کے لیے اتحاد اور حلول دونوں عقیدے رکھنا جائز نہیں کیونکہ ہم پہلے ہی وضاحت کرچکے کہ اللہ پاک کمیت اور کیفیت سے پاک ذات ہے جسم کا کوئی بھی عارضہ اسے لاحق ہی نہیں کیونکہ جسم کے لیے شرط ہے لمبائی چوڑائی ، گہرائی ، اونچائی اور ان تمام حوالوں سے اسکی ایک مخصوص حد ہوتی ہے جب کہ اللہ پاک تمام حدود سے پاک و منزہ ہے ۔اسی طرح اتحاد یا حلول اس وقت پایا جائے گا جب ایک جسم کے اجزاء کے اندر خلاء موجود ہو تو اور دوسرا جسم اس خلاء میں سما کر اس پہلے جسم کا حصہ بن جائے ۔اور ایسا ہونا ممکن الوجود کی خصوصیات میں سے ہے جب کہ اللہ پاک ممکن الوجود نہیں بلکہ واجب الوجود ہے ۔
اللہ پاک کی ذات سے حلول و اتحاد کی نفی سے اہل ظاہر کے ان نظریات کی تردید ہوتی ہے جو کہ یہ نظریہ رکھتے ہیں کہ اللہ پاک عرش کے عین اوپر ہے اور ہر رات آسمان دنیا پر نزول کرتا ہے لہذا اس اعتبار سے پہلے اس کے وجود کا اتصال عرش کے وجود کے ساتھ مانا گیا اور بعد میں آسمان دنیا کے وجود کے ساتھ یاد رکھیں کہ خود کو صوفی یا پھر اہل توحید کہلانے والے جاہل کی طرح خود عرش بھی اللہ ہی کی مخلوق ہے اور جس طرح اللہ پاک کی زات کا اتصال (یعنی اتحاد یا پھر حلول) کسی بھی جاہل صوفی یا اہل توحید کے کی زات کے ساتھ ناممکن ہے اسی طرح عرش اور آسمان دنیا کے ساتھ اللہ پاک کی زات کا اتحاد یا اتصال اتنا ہی ناممکن ہے کیونکہ بنیادی نقطعہ یہ ہے کہ واجب الوجود کو ممکن الوجود جو کہ حادث ہوتا ہے کی کسی بھی خصوصیت کے ساتھ متصل نہیں کیا جاسکتا ۔
لہذا اسی لیے تمام امت اس قسم کی آیات کہ جن میں بظاہر اللہ پاک کے جسم ہونے کا امکان نظر آتا ہے میں تاویل کی قائل ہے اور قرآن وسنت میں بیان ہونے والی اس قسم کی تمام نشانیاں متشابہات کی قبیل سے ہیں کہ جن میں تاویل واجب ہے اور وہ تاویل اللہ ہی جانتا ہے ہمارے لیے بس اتنا ہی کافی ہے کہ ہم اسے اللہ کی شان کہ لائق کہہ کر حقیقت حال کو اللہ ہی پر چھوڑدیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔
 
عابد اچھا معلوماتی مضمون آپ نے شریک کیا ہے اور شاکر القادری صاحب نے جس کتاب کا ذکر کیا تھا اگر وہ بھی دستیاب ہو جاتی تو خوب تھا۔
 
Top