وجے کمار مسلمان ہو گیا

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

مقدس

لائبریرین
۔۔۔ اگر میں آپ کی جگہ ہوتا تو فُٹ نوٹ میں "معذرت" کے احمقانہ لفظ کی بجائے یوں لکھتا ۔۔۔
فاتح بھیا
آپ کی اردو دانی کہاں گئی؟
یہ "فٹ نوٹ" کیا ہوتا ہے؟

آپ کو اتنا بھی نہیں علم کہ اردو میں اس کو "ذیلی حاشیہ" کہتے ہیں!
اس کی تصحیح فرمائیں!!!
 

فاتح

لائبریرین
فاتح بھیا
آپ کی اردو دانی کہاں گئی؟
یہ "فٹ نوٹ" کیا ہوتا ہے؟

آپ کو اتنا بھی نہیں علم کہ اردو میں اس کو "ذیلی حاشیہ" کہتے ہیں!
اس کی تصحیح فرمائیں!!!
مقدس بیٹا! تم نے غور نہیں کیا ہمارے اس جملے پر جس میں ہم نے تصریحاً فرمایا تھا کہ ہم اس دھاگے پر "نظر انداز" کرنے کا آپشن برت چکے ہیں لہٰذا ہمیں تو علم ہی نہیں کہ تم نے کیا اعراض جھاڑا ہے۔
نظر انداز کے آپشن کے بعد تو ہمارے لیے یہ دھاگا وفات پا چکا اور اب تو ہم اس دھاگے کا سوئم بلکہ چہلم بھی منا چکے۔
 
ٹھہرو میں ذرا پتہ کر لوں کہ کہیں یہ "بدعت" تو نہیں :)۔
اس کا تو ہمیں علم نہیں لیکن اساتذہ کو "گرو دکشنا" دینے کا رواج "ہندو تہذیب" میں "مہا بھارت" سے بھی پہلے سے موجود ہے بلکہ بعض لوگوں کا ماننا ہے کہ یونانی رواجوں میں بھی شامل ہے۔ :)
 

ساجد

محفلین
اس کا تو ہمیں علم نہیں لیکن اساتذہ کو "گرو دکشنا" دینے کا رواج "ہندو تہذیب" میں "مہا بھارت" سے بھی پہلے سے موجود ہے بلکہ بعض لوگوں کا ماننا ہے کہ یونانی رواجوں میں بھی شامل ہے۔ :)
یعنی دوہری "بدعت" ۔ نہیں جی ہمیں نہیں کرنی مقدس کی شاگردی۔ ہاں دوپٹے کی شرط نکال دی جائے تو غور کیا جا سکتا ہے :)۔
 

فاتح

لائبریرین
اس کا تو ہمیں علم نہیں لیکن اساتذہ کو "گرو دکشنا" دینے کا رواج "ہندو تہذیب" میں "مہا بھارت" سے بھی پہلے سے موجود ہے بلکہ بعض لوگوں کا ماننا ہے کہ یونانی رواجوں میں بھی شامل ہے۔ :)
اس کا ماخذ ہندو تہذیب ہر گز نہیں بلکہ ان کے ہاں بھی یہ رواج ارسطو کی لائسیم بلکہ اس سے بھی قبل پلاٹو کی اکادمی سے آیا جہاں وہی امیر کبیر بچے داخلہ لینے کے اہل تھے جو بیش بہا تحفے تحائف دینے کی سکت رکھتے تھے۔
 

نایاب

لائبریرین
محترم فاتح بھائی
سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے نام کو بطور دلیل استعمال کرتے
آپ نے باقی تمام اسلامی غیر اسلامی ممالک کے مسلمانوں کو " اک نئے اسلام کا موجد اور پیروکار " ٹھہرایا ہے ۔
بلا شبہ آپ میری نظر میں ماشاءاللہ اک صاحب علم ہستی ہیں اور بدرجہ استاد بھی ۔
مگر آپ کے تبصرے نے جانے کیوں مجھے اک بچگانہ کہانی یاد دلا دی ۔
کہیں دو بلیوںکو جو خوراک کی تلاش میں سرگرداں تھیں ۔ انہیں اک پنیر کا ٹکرا مل گیا ۔ دونوں نے اسے آدھا آدھا کر کے کھانے کی صلاح کی ۔ لیکن اس بات پر دونوں میں جھگڑا ہو گیا ۔ اک دوسرے کو نوچنے کھسوٹنے میں مصروف تھیں کہ اچانک اک بندر وہاں آ گیا ۔ اور بلیوں کو لڑتے دیکھ کر کہنے لگا ۔ اری بہنو شیر کی خالائیں ایسے لڑتے اچھی نہیں لگتیں ۔ مجھے بتاؤ کیا معاملہ ہے تاکہ میں اسے نپٹا تمہاری صلاح کروا دوں ۔ بلیوں نے پنیر کا ٹکڑا سامنے کیا اور کہا کہ اس کی برابر تقسیم پر جھگڑا ہے ۔ بندر نے کہا یہ تو کوئی بات ہی نہیں ۔ اک ترازو پکڑ کو کہنے لگا لاؤ میں اس قضیے کو تمام کروں ۔ ترازو کے دونوں پلڑوں میں پنیر کو آدھا آدھا کر کے ڈالا ۔ اور لگا تولنے ۔جیسے ہی اک پلڑے کا وزن زیادہ ہونے کے باعث نیچے جھکتاتو بندر وہاں سے تھوڑا سا پنیر توڑ کراپنے منہ میں ڈالتا اور کہتا کہ اب وزن برابر ہو جائے گا ۔دونوں حیرانی سے یہ سب دیکھتی رہیں ۔ لیکن برابر تقسیم کے انتظار میں چپ اس عمل کو دیکھتی رہیں ۔ اسی عمل کو دوہراتے دوہراتے بندر سارا پنیر چٹ کرتے اک زقند بھر بلیوں سے دور ہوتے کہنے لگا ، اگر تم دونوں میں اتفاق ہوتا تو مجھے کب پیٹ بھرنے کا موقع ملتا ۔تمہاری نا اتفاقی نے مجھے سیر کر دیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
آپ لوگ دانستہ یا نا دانستہ دوسرے مسلک کے لوگوں کی دل آزاری کر رہے ہیں۔
اگر چہ میں خود اس مسلک سے تعلق نہیں رکھتا ، تاہم محبت باہمی کے اُصول کے تحت اس تھریڈ سے واک آوٹ کر رہا ہوں۔
 
پہلی بات یہ کہ ایک لطیف پیرائے میں کچھ ایسی رسوم و رواج کی بات کی گئی ہے جسے رد کرنا یا نہ کرنا ایک قاری کی اپنی صوابدید پر ہے۔ میں خود میت کو ایصال ثواب کرنے کے حق میں ہوں ۔ لیکن جہاں تک مجھے معلوم ہوا ہے اسلام میں تیجے ۔ چالیسویں کی کوئی پابندی نہیں ہے ۔ البتہ ایصال ثواب کبھی بھی اور کسی کے لیئے بھی کیا جا سکتا ہے ۔ کیا زندوں کے لیئے ایسا کرنا ناجائز ہے ۔۔؟ یا تیسرے دن یا چالیسویں دن کرنا نا جائز ہے ۔۔؟ لیکن ان باتوں کو حجت بنا لینا غالبا درست نہیں ہوگا ۔

احمد کے اس افسانے سے کچھ سیکھنا چاہیں تو ضرور سیکھیں ۔ انکی حوصلہ افزائی کریں کہ ایسے اسکی نظر میں جو مسائل ہمارے معاشرے کے ہیں وہ انہیں کیسے دیکھتے ہیں اور انہیں کیسے اجاگر کرتے ہیں ۔ یہ مت دیکھیں کہ اس کے افسانے سے کس طرح آپ برانگیختہ ہوتے ہیں بلکہ ایسے دیکھیں کہ اس شخص کی تخلیقی صلاحیت کیسے بہتر بنائی جائے ۔ منٹو نے جب ہمارے معاشرے میں پھیلے ہوئے گند کو اپنی نظر سے دیکھ کر اسے بیان کیا تو اسے تلذذ کا ادیب کہا گیا میری نظر میں اس جیسا بیانیہ کسی اور کا نہیں اسکا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ادب کے نام پر گستاخیوں کی عام اجازت ہونی چاہیئے بلکہ ادب کو ادب سمجھ کر ہی دیکھنا چاہیئے۔ اور احمد نے اس افسانے میں جو نقطہ نظر بیان کیا ہے اسے صرف ایک نقطہ نظر سمجھتے ہوئے پڑھا جانا چاہیئے کیونکہ نہ تو تیجے اور چالیسویں کی مخالفت غیر اسلامی رویہ ہے اور نہ ہی ایصال ثواب بشمول تیجے چالیسویں کے کوئی غیر اسلامی عمل ہے ۔ ہاں دنوں کو منسوب کرنا اور ان کو ہی اصل دین سمجھ لینا یقینا غلط ہو سکتا ہے ۔

میری گذارش ہے کہ اس تحریرکو ایک تحریر ہی کی طرح دیکھا جائے اور ادب کے نقطہ نظر سے اس پر اپنی رائے دی جائے
 

فاتح

لائبریرین
بھائی کیا اپ لوگ پیار محبت سے بات نہیں کرسکتے؟
خان صاحب! یہ پیار محبت کس کھیت کی مولی ہیں؟ اگر کسی کھیت کی ہیں بھی تو ان کی اتنی ہمت تو ہر گز نہیں ہو سکتی کہ اس طرف کا رخ کریں۔
ابھی ہم جندہ ہیں۔۔۔ آ کے تو دکھائے اس طرف پیار محبت۔۔۔ ٹانگیں نہ توڑ دیں تو شبن نام نہیں :openmouthed:
 
خان صاحب! یہ پیار محبت کس کھیت کی مولی ہیں؟ اگر کسی کھیت کی ہیں بھی تو ان کی اتنی ہمت تو ہر گز نہیں ہو سکتی کہ اس طرف کا رخ کریں۔
ابھی ہم جندہ ہیں۔۔۔ آ کے تو دکھائے اس طرف پیار محبت۔۔۔ ٹانگیں نہ توڑ دیں تو شبن نام نہیں :openmouthed:

ہمارے کھیت ہی کی مولی ہیں اور باافراط دستیاب ہیں۔ ہم ہر طرف پھیلادیں گے ہمت نام ہے ہمارا۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top