واقعہ شق القمراور جدید سائنس

محمود بھائی آپ نے لکھا کہ قرآن پاک کی کافی آیات سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام اللہ کے نبی تھے، تو برادر ان کافی آیات میں سے چند ایک کا حوالہ عنایت فرمائیں۔​

اور یہ کہ جو عجیب بات میں نے کی ہے اس کی وضاحت فرما دیں۔​

والسلام​
یہ دعویٰ چونکہ آپ نے کیا ہے کہ
اور یہ بات کہیں سے بھی ثابت نہیں کہ حضرت آدم علیہ السلام پر بھی وحی آتی تھی۔
چنانچہ پہلے اسکا ثبوت آپ دیجئے کہ حضرت آدم علیہ السلام پر وحی نہیں آتی تھی۔ یہ بات آپ نے کہاں سے سنی، پڑھی یا اخذ کی؟۔۔۔اسکے بعد کوئی بات کریں گے۔
 
نیز یہ کہ "میں نے سُنا ہے ۔۔۔ ۔" اور "غالباً ۔۔۔ ۔۔" سے کام نہیں چلتا۔ مستند حوالے کی ضرورت ہوتی ہے۔

والسلام
یہ بات آپ کی بالک درست ہے کہ "میں نے سنا" اور "غالبا" والی بات سے کام نہیں چلتا ،
مستند حوالا ضروری ہوتا ہے ، یہی ہونا چاہیئے ۔۔۔
غلطی پر معذرت۔۔۔

میں کوشش کرتا ہوں کہ مجھے حوالے جات مل جائے ، جونہی ملا ، آپ کو پوسٹ کردونگا ۔۔
 
اللہ تعالیٰ نے قرآن میں سورہ البقرہ میں حضرت آدم علیہ السلام کا قصہ بیان کیا ہے
جب انکو جنت سے زمین کی طرف جانے کا حکم ہوا تو حضرت آدم علیہ السلام سے مخاطب ہوکر یوں فرمایا
تم یہاں سے اتر کر نیچے چلے جاؤ اب تمہیں کچھ عرصے کے لئے زمین پر رہنا ہے اور وہیں فائدہ اٹھانا ہے۔ (بقرۃ: ۳۶)
مستند حوالہ خود قرآن ہے
اسکو وحی نہیں تو اور کیا کہینگے ؟

اور وحی کی کئی قسام ہوتی ہے ، مثلا فرشتے کا انسان کی صورت میں نبیون پر وحی لانا ،انبیاء کا خواب ، دل میں بات کا آجانا
وغیرہ وغیرہ

قرآن میں ہے
اور ہر بشر کی (یہ) مجال نہیں کہ اللہ اس سے (براہِ راست) کلام کرے مگر یہ کہ وحی کے ذریعے (کسی کو شانِ نبوت سے سرفراز فرما دے) یا پردے کے پیچھے سے یا کسی فرشتے کو فرستادہ بنا کر بھیجے اور وہ اُس کے اِذن سے جو اللہ چاہے وحی کرے (الغرض عالمِ بشریت کے لئے خطابِ اِلٰہی کا واسطہ اور وسیلہ صرف نبی اور رسول ہی ہوگا)،
بیشک وہ بلند مرتبہ بڑی حکمت والا ہے —
القرآن سورۃ الشوریٰ:

امید ہے کہ معاملہ صاف ہوگیا ہوگا
 
سورۃ النساء، آیۃ 163

إِنَّا أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ كَمَا أَوْحَيْنَا إِلَىٰ نُوحٍ وَالنَّبِيِّينَ مِن بَعْدِهِ ۚ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔﴿١٦٣
ترجمہ : یقیناً ہم نے آپ کی طرف اسی طرح وحی کی ہے جیسے کہ نوح اور ان کے بعد والے نبیوں کی طرف کی۔

صحیح بخاری میں حضرت اُنس بن مالک سے حدیث شفاعت کے بارے میں روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ذکر فرمایا :

"ان الناس یاتون الی آدم لیشغع لھم فیعتذر الیھم و یقول : ائتوا نوحاً اول رسول بعثہ اللہ" و ذکر تمام الحدیث
ترجمہ : لوگ بروز قیامت حضرت آدم علیہ السلام کے پاس آئیں گے تاکہ وہ اللہ تعالٰی سے ان کے لیے شفاعت طلب کریں، تو وہ ان لوگوں سے معذرت پیش کریں گے اور کہیں گے کہ تم لوگ جاؤ حضرت نوح علیہ السلام کے پاس جو کہ سب سے پہلے رسول ہیں، جنہیں اللہ نے مبعوث فرمایا تھا (یعنی لوگوں کی ہدایت کے لیے دنیا میں بھیجا تھا)۔
جی بھائی یہاں تو پہلے رسول کی بات ہے ۔ آپ پہلے نبی کہہ رہے تھے ۔
قرآن پاک میں اللہ تعالٰی کا فرمان ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام پہلے نبی تھے۔
کوئی بھی تقریر کرتا رہے، کوئی بھی کتاب لکھتا رہے اس سے کوئی فرق نہیں پڑنے والا۔
 

شمشاد

لائبریرین
میری محترم بہنا رسول نبی بھی تو ہوتا ہے۔
قرآن پاک کی آیت اور حدیث نبوی آپ کے سامنے ہے۔ مزید کچھ کہنے کی گنجائش ہی نہیں۔

والسلام
 
پہلا نبی اور پہلا رسول کہنے میں فرق ہے ۔
نبی ہر وہ شخص ہے جس پر وحی ہو۔
رسول وہ ہے جس پر وحی ہو اور ساتھ میں تبلیغ کا حکم بھی ہو ۔
یعنی ہر نبی رسول نہیں ہوتا
لیکن
ہر رسول ضرور نبی ہوتا ہے ۔
حدیث کے الفاظ میں حضرت نوح علیہ السلام کو پہلا رسول کہنا ثابت ہے پہلا نبی نہیں ۔ اگر ہم ان کو پہلا نبی کہیں گے تو اس کا مطلب ہے کہ ہم ان سے پہلے ہر شخص کی نبوت کا انکار کر رہے ہیں ۔ جب کہ ہمیں معلوم ہے آدم علیہ السلام بھی نبی ہیں۔ جو زمانی اعتبار سے حضرت نوح علیہ السلام سے پہلے گزرے ہیں ۔ دیکھیے سورۃ آل عمران آیت ۳۳۔
بھائی قرآن کی آیت سے آپ کا استدلال ثابت نہیں ہوتا اور حدیث آپ کے استدلال کے برعکس ہے ۔
 
پہلا نبی اور پہلا رسول کہنے میں فرق ہے ۔
نبی ہر وہ شخص ہے جس پر وحی ہو۔
رسول وہ ہے جس پر وحی ہو اور ساتھ میں تبلیغ کا حکم بھی ہو ۔
یعنی ہر نبی رسول نہیں ہوتا
لیکن
ہر رسول ضرور نبی ہوتا ہے ۔
حدیث کے الفاظ میں حضرت نوح علیہ السلام کو پہلا رسول کہنا ثابت ہے پہلا نبی نہیں ۔ اگر ہم ان کو پہلا نبی کہیں گے تو اس کا مطلب ہے کہ ہم ان سے پہلے ہر شخص کی نبوت کا انکار کر رہے ہیں ۔ جب کہ ہمیں معلوم ہے آدم علیہ السلام بھی نبی ہیں۔ جو زمانی اعتبار سے حضرت نوح علیہ السلام سے پہلے گزرے ہیں ۔ دیکھیے سورۃ آل عمران آیت ۳۳۔
بھائی قرآن کی آیت سے آپ کا استدلال ثابت نہیں ہوتا اور حدیث آپ کے استدلال کے برعکس ہے ۔
سو فیصد متفق ۔۔۔۔
 
Top