محمد وارث

لائبریرین
فہرست


شکوہ و شکایت

معصوم بچّہ

بدنصیب ماں

شانتی

روشنی

مالکن

نئی بیوی

گلی ڈنڈا

سوانگ

انصاف کی پولیس

غم نداری بُز بخر

مفت کرم داشتن

قاتل کی ماں


۔
 

محمد وارث

لائبریرین
شکوہ و شکایت


زندگی کا بڑا حصہ تو اسی گھر میں گزر گیا۔ مگر کبھی آرام نصیب نہ ہوا، میرے شوہر دنیا کی نگاہ میں بڑے نیک اور خوش اخلاق اور بیدار مغز ہونگے، لیکن جس پر گزرتی ہے، وہی جانتا ہے۔ دنیا کو تو ان لوگوں کی تعریف میں مزا آتا ہے، جو اپنے گھر کو جہنم میں ڈال رہے ہوں اور غیروں کے پیچھے اپنے آپ کو تباہ کیے جاتے ہوں، جو گھر والوں کیلیے مرتا ہے، اسکی تعریف دنیا والے نہیں کرتے۔ وہ تو انکی نگاہ میں خود غرض ہے، بخیل ہے، تنگ دل ہے، مغرور، کور باطن ہے۔ اسی طرح جو لوگ باہر والوں کیلیے مرتے ہیں، انکی تعریف گھر والے کیوں کرنے لگے۔ اب انہی کو دیکھو، صبح سے شام تک مجھے پریشان کیا کرتے ہیں۔ باہر سے کوئی چیز منگواؤ تو ایسی دکان سے لائیں گے، جہاں سے کوئی گاہک بھول کر بھی نہ لاتا ہو۔ ایسی دکانوں پر نہ چیز اچھی ملتی ہے، نہ وزن ٹھیک ہوتا ہے، نہ دام ہی مناسب۔ یہ نقائص نہ ہوتے تو وہ دکان ہی کیوں ہوتی۔ انہیں ایسی ہی دکانوں سے سودا سلف خریدنے کا مرض ہے۔ بارہا کہا کہ کسی چلتی ہوئی دکان سے چیزیں لایا کرو۔ وہاں مال زیادہ کھپتا ہے۔ اسلیے تازہ مال آتا رہتا ہے۔ مگر نہیں، ٹپٹونجیوں سے انکی ہمدردی ہے۔ وہ انہیں الٹے استرے سے مونڈتے ہیں۔ گیہوں لائیں گے، تو سارے بازار سے خراب، گھنا ہوا چاول ایسا موٹا کہ بیل بھی نہ پوچھے۔ دال میں کنکر بھرے ہوئے، منوں لکڑی جلا ڈالو، کیا مجال کہ گلے، گھی لائیں گے تو آدھوں آدھ تیل اور نرخ اصلی گھی کے ایک چھٹانک کم، تیل لائیں گے تو ملاوٹ کا، بالوں میں ڈالو تو چکٹ جائیں۔ مگر دام دے آئیں گے اعلٰی درجے کے چمبیلی کے تیل کے۔ چلتی ہوئی دکان پر جاتے تو جیسے انہیں ڈر لگتا ہے۔ شاید اونچی دکان اور پھیکے پکوان کے قائل ہیں۔ میرا تجربہ کہتا ہے کہ نیچی دکان پر سڑے پکوان ہی ملتے ہیں۔

ایک دن کی بات ہو تو برداشت کرلی جائے۔ روز روز کی یہ مصیبت نہیں برداشت ہوتی۔ میں کہتی ہوں آخر ٹپٹونجیوں کی دکان پر جاتے ہی کیوں ہیں۔ کیا انکی پرورش کا ٹھیکہ تمھیں نے لے لیا ہے۔ آپ فرماتے ہیں مجھے دیکھ کر بلانے لگتے ہیں۔ خوب، ذرا انہیں بلا لیا اور خوشامد کے دو چار الفاظ سنا دیئے۔ بس آپ کا مزاج آسمان جا پہنچا۔ پھر انہیں سدھ نہیں رہتی کہ وہ کوڑا کرکٹ باندھ رہا ہے۔ یا کیا پوچھتی ہوں، تم اس راستے سے جاتے ہی کیوں ہو۔ کیوں کسی دوسرے راستے سے نہیں جاتے؟ ایسے اٹھائی گیروں کو منہ ہی کیوں لگاتے ہو؟ اسکا کوئی جواب نہیں۔ ایک خموشی سو بلاؤں کو ٹالتی ہے۔

ایک باریک زیور بنوانا تھا، میں تو حضرت کو جانتی تھی، ان سے کچھ پوچھنے کی ضرورت نہ سمجھی۔ ایک پہچان کے سنار کو بلا رہی تھی، اتفاق سے آپ بھی موجود تھے۔ بولے یہ فرقہ بالکل اعتبار کے قابل نہیں، دھوکا کھاؤ گی۔ میں ایک سنار کو جانتا ہوں، میرے ساتھ کا پڑھا ہوا ہے۔ برسوں ساتھ ساتھ کھیلے ہیں، میرے ساتھ چال بازی نہیں کرسکتا۔ میں نے سمجھا جب انکا دوست ہے اور وہ بھی بچپن کا، تو کہاں تک دوستی کا حق نہ نبھائے گا۔ سونے کا ایک زیور اور پچاس روپے انکے حوالے کیے اور اس بھلے آدمی نے وہ چیز اور روپے نہ جانے کس بے ایمان کو دے دیئے کہ برسوں کے پیہم تقاضوں کے بعد جب چیز بن کر آئی تو روپے میں آٹھ آنے تانبا، اور اتنی بدنما کہ دیکھ کر گھن آتی تھی۔ برسوں کا ارمان خاک میں مل گیا۔ روپٹ کر بیٹھ رہی۔ ایسے ایسے دغا دار تو انکے دوست ہیں، جنہیں دوست کی گردن پر چھری پھیرنے میں بھی عار نہیں، انکی دوستی تھی۔ اور انہیں لوگوں سے ہے جو زمانہ بھر کے فاقہ مست، قلانچ، بے سروسامان ہیں، جنکا پیشہ ہی ان جیسے آنکھ کے اندھوں سے دوستی کرنا ہے۔ روز ایک نہ ایک صاحب مانگنے کیلیے سر پر سوار رہتے ہیں اور بلا لئے گلا نہیں چھوڑتے۔ مگر ایسا کبھی نہیں ہوا کہ کسی نے روپے ادا کیے ہوں۔ آدمی ایک بار کھو کر سیکھتا ہے، دو بار کھو کر سیکھتا ہے، یہ بھلے مانس ہزار بار کھو کر بھی نہیں سیکھتے۔ جب کہتی ہوں روپے تو دے آئے، اب مانگ کیوں نہیں لاتے، کیا مر گئے تمھارے وہ دوست تو بغلیں جھانک کر رہ جاتے ہیں۔ آپ سے دوستوں کو سوکھا جواب نہیں دیا جاتا۔ خیر سوکھا جواب نہ دو، میں یہ بھی نہیں کہتی کہ دوستوں سے بے مروتی کرو، مگر ٹال تو سکتے ہو۔ کیا بہانے نہیں بنا سکتے ہو۔ مگر آپ انکار نہیں کر سکتے۔ کسی دوست نے کچھ طلب کیا اور آپ کے سر پر بوجھ پڑا، بیچارے کیسے انکار کریں، آخر لوگ جان جائیں گے کہ حضرت بھی فاقہ مست ہیں۔ دنیا انہیں امیر سمجھتی رہے۔۔۔۔۔چاہے میرے زیور ہی کیوں نہ گروی رکھنے پڑیں۔ سچ کہتی ہوں۔ بعض اوقات ایک ایک پیسے کی تنگی ہوجاتی ہے اور اس بھلے آدمی کو روپے جیسے گھر میں کاٹتے ہیں، جب تک روپیوں کے وارے نیارے نہ کرے اسے کسی پہلو قرار نہیں۔


(جاری ہے)

۔
 

محمد وارث

لائبریرین
ان کے کرتوت کہاں تک کہوں۔ میرا تو ناک میں دم آگیا۔ ایک نہ ایک مہمان روز بلائے بے درماں کی طرح سر پر سوار۔ نہ جانے کہاں کے بے فکرے ان کے دوست ہیں۔ کوئی کہیں سے آکر مرتا ہے، کوئی کہیں سے۔ گھر کیا ہے اپاہجوں کو اڈہ ہے۔ ذرا سا گھر، مشکل سے دو تو چارپائیاں۔ اوڑھنا بچھونا بھی بافراط نہیں مگر آپ ہیں کہ دوستوں کو دعوت دینے کے لیے تیار۔ آپ تو مہمان کے ساتھ لیٹیں گے۔ اس لیے انہیں چارپائی بھی چاہیے۔ اوڑھنا بچھونا بھی چاہیے ورنہ گھر کا پردہ کھل جائے، جاتی ہے تو میرے اور بچوں کے سر۔ زمین پر پڑے سکڑ کر رات کاٹتے ہیں، گرمیوں میں تو خیر مضائقہ نہیں لیکن جاڑوں میں تو بس قیامت ہی آجاتی ہے۔ گرمیوں میں بھی کھلی چھت پر تو مہمان کا قبضہ ہو جاتا ہے۔ اب میں بچوں کو لیے قفس میں پڑی تڑپا کروں۔ اتنی سمجھ بھی نہیں کہ جب گھر کی یہ حالت ہے تو کیوں ایسوں کو مہمان بنائیں جن کے پاس کپڑے تک نہیں۔ خدا کے فضل سے ان کے سبھی دوست ایسے ہی ہیں۔ ایک بھی خدا کا بندہ ایسا نہیں، جو ضرورت کے وقت ان کی دھیلے سے بھی مدد کر سکے۔ دو ایک بار حضرت کو اس کا تجربہ اور بے حد تلخ تجربہ ہو چکا ہے۔ مگر اس مردِ خدا نے تو آنکھیں نہ کھولنے کی قسم کھا لی ہے۔ ایسے ہی ناداروں سے ان کی پٹتی ہے، ایسے ایسے لوگوں سے آپ کی دوستی ہے کہ کہتے شرم آتی ہے۔ جسے کوئی اپنے دروازے پر کھڑا بھی نہ ہونے دے، وہ آپ کا دوست ہے۔ شہر میں اتنے امیر کبیر ہیں، آپ کا کسی سے ربط ضبط نہیں، کسی کے پاس نہیں جاتے۔ امرا مغرور ہیں، بدمغز ہیں، خوشامد پسند ہیں، ان کے پاس کیسے جائیں، دوستی گانٹھیں گے ایسوں سے جن کے گھر میں کھانے کو بھی نہیں۔

ایک بار ہمارا خدمت گار چلا گیا اور کئی دن دوسرا خدمت گار نہ ملا۔ میں کسی ہوشیار اور سلیقہ مند نوکر کی تلاش میں تھی مگر بابو صاحب کو جلد سے جلد کوئی آدمی رکھ لینے کی فکر سوار ہوئی۔ گھر کے سارے کام بدستور چل رہے تھے مگر آپ کو معلوم ہو رہا تھا کہ گاڑی رکی ہوئی ہے۔ ایک دن جانے کہاں سے ایک بانگڑو کو پکڑ لائے۔ اس کی صورت کہے دیتی تھی کہ کوئی جانگلو ہے مگر آپ نے اس کی ایسی ایسی تعریفیں کیں کہ کیا کہوں، بڑا فرماں بردار ہے، پرلے سرے کا ایمان دار، بلا کا محنتی، غضب کا سلیقہ شعار اور انتہا درجے کا با تمیز ہے۔ خیر میں نے رکھ لیا۔ میں بار بار کیوں کر ان کی باتوں میں آ جاتی ہوں، مجھے خود تعجب ہے۔ یہ آدمی صرف شکل سے آدمی تھا، آدمیت کی کوئی علامت اس میں نہ تھی۔ کسی کام کی تمیز نہیں تھی۔ بے ایمان نہ تھا مگر احمق اوّل نمبر کا۔ بے ایمان ہوتا تو کم سے کم اتنی تسکین تو ہوتی کہ خود کھاتا ہے۔ کم بخت دُکان داروں کی فطرتوں کا شکار ہو جاتا تھا۔ اسے دس تک گنتی بھی نہ آتی تھی۔ ایک روپیہ دے کر بازار بھیجوں تو شام تک حساب نہ سمجھا سکے۔ غصہ پی پی کر رہ جاتی تھی۔ خون جوش کھانے لگتا تھا کہ سور کے کان اکھاڑ لوں۔ مگر ان حضرت کو کبھی اسے کچھ کہتے نہیں دیکھا۔ آپ نہا کر دھوتی چھانٹ رہے ہیں اور و ہ دور بیٹھا تماشہ دیکھ رہا ہے۔ میرا خون کھولنے لگتا، لیکن انہیں ذرا بھی احساس نہیں ہوتا۔ جب میرے ڈانٹنے پر دھوتی چھانٹنے جاتا بھی تو آپ اسے قریب نہ آنے دیتے۔ اس کے عیبوں کو ہنر بنا کر دکھایا کرتے تھے اور اس کوشش میں کامیاب نہ ہوتے تو ان عیوب پر پردہ ڈال دیتے تھے۔ کم بخت کو جھاڑو دینے کی بھی تمیز نہ تھی۔ مردانہ کمرہ ہی تو سارے گھر میں ڈھنگ کا ایک کمرہ ہے، اس میں جھاڑو دیتا تو ادھر کی چیز اُدھر، اوپر کی نیچے گویا سارے کمرے میں زلزلہ آ گیا ہو۔ اور گرد کا یہ عالم کہ سانس لینی مشکل مگر آپ کمرے میں اطمینان سے بیٹھے رہتے۔ گویا کوئی بات ہی نہیں۔ ایک دن میں نے اسے خوب ڈانٹا اور کہہ دیا، اگر کل سے تو نے سلیقے سے جھاڑو نہ دی تو کھڑے کھڑے نکال دوں گی۔ سویرے سو کر اٹھتی تو دیکھتی ہوں کمرے میں جھاڑو دی ہوئی ہے۔ ہر ایک چیز قرینے سے رکھی ہے۔ گرد و غبار کا کہیں نام نہیں۔ آپ نے فوراً ہنس کر کہا، ”دیکھتی کیا ہو، آج گھورے نے بڑے سویرے جھاڑو دی ہے۔ میں نے سمجھا دیا، تم طریقہ تو بتلاتی نہیں ہو، الٹی ڈانٹنے لگتی ہو۔“ لیجیے صاحب یہ بھی میری ہی خطا تھی۔ خیر، میں نے سمجھا اس نالائق نے کم سے کم ایک کام تو سلیقے کے ساتھ کیا۔ اب روز کمرہ صاف ستھرا ملتا اور میری نگاہوں میں گھورے کی کچھ وقعت ہونے لگی۔ اتفاق کی بات ایک دن میں ذرا معمول سے سویرے اٹھ بیٹھی اور کمرے میں آئی تو کیا دیکھتی ہوں کہ گھورے دروازے پر کھڑا ہے اور خود مابدولت بڑی تن دہی سے جھاڑو دے رہے ہیں۔ مجھ سے ضبط نہ ہو سکا۔ ان کے ہاتھ سے جھاڑو چھین لی اور گھورے کے سر پر پٹک دی۔ حرام خور کو اسی وقت دھتکار بتائی۔ آپ فرمانے لگے، اس کی تنخواہ تو بیباق کر دو۔ خوب ایک تو کام نہ کرے، دوسرے آنکھیں دکھائے، اس پر تنخواہ بھی دے دوں۔ میں نے ایک کوڑی بھی نہ دی۔ ایک کرتا دیا تھا وہ بھی چھین لیا۔ اس پر حضرت کئی دن مجھ سے روٹھے رہے۔ گھر چھوڑ کر بھاگے جا رہے تھے، بڑی مشکلوں سے رکے۔

ایک دن مہتر نے اتارے کپڑوں کا سوال کیا۔ اس بے کاری کے زمانے میں فالتو کپڑے کس کے گھر میں ہیں۔ شاید رئیسوں کے گھر میں ہوں۔ میرے یہاں تو ضروری کپڑے بھی نہیں۔ حضرت ہی کا توشہ خانہ ایک بقچی میں آجائے گا جو ڈاک کے پارسل سے کہیں بھیجا جا سکتا ہے۔ پھر اس سال سردی کے موسم میں نئے کپڑے بنوانے کی نوبت بھی نہ آئی تھی۔ میں نے مہتر کو صاف جواب دے دیا۔ سردی کی شدت تھی اس کا مجھے خود احساس تھا۔ غریبوں پر کیا گزرتی ہے، اس کا بھی علم تھا لیکن میرے یا آپ کے پاس افسوس کے سوا اور کیا علاج ہے۔ جب رؤسا اور امرا کے پاس ایک ایک مال گاڑی کپڑوں سے بھری ہوئی ہے تو پھر غربا کیوں نہ برہنگی کا عذاب جھیلیں۔ خیر میں نے تو اسے جواب دے دیا۔ آپ نے کیا کیا، اپنا کوٹ اُتار کر اس کے حوالے کر دیا۔ میری آنکھوں میں خون اتر آیا۔ حضرت کے پاس یہی ایک کوٹ تھا۔ یہ خیال نہ ہوا کہ پہنیں گے کیا۔ مہتر نے سلام کیا، دعائیں دیں اور اپنی راہ لی۔ آخر کئی دن سردی کھاتے رہے، صبح کو گھومنے جایا کرتے تھے، وہ سلسلہ بھی بند ہوگیا۔ مگر دل بھی قدرت نے انہیں ایک عجیب قسم کا دیا ہے۔ پھٹے پرانے کپڑے پہنتے آپ کو شرم نہیں آتی۔ میں تو کٹ جاتی ہوں، آپ کو مطلق احساس نہیں۔ کوئی ہنستا ہے تو ہنسے۔ آپ کی بلا سے۔ آخر مجھ سے دیکھا نہ گیا تو ایک کوٹ بنوا دیا۔ جی تو جلتا تھا کہ خوب سردی کھانے دوں مگر ڈری کہ کہیں بیمار پڑ جائیں تو اور بھی آفت آ جائے۔ آخر کام تو انہیں کو کرنا ہے۔

یہ اپنے دل میں سمجھتے ہوں گے کہ میں کتنا نیک نفس اور منکسر المزاج ہوں۔ شاید انہیں ان اوصاف پر ناز ہو۔ میں انہیں نیک نفس نہیں سمجھتی ہوں۔ یہ سادہ لوحی ہے۔سیدھی سادی حماقت۔ جس مہتر کو آپ نے اپنا کوٹ دیا اسی کو میں نے کئی بار رات کو شراب کے نشے میں بد مست جھومتے دیکھا ہے اور آپ کو دکھا بھی دیا ہے، تو پھر دوسروں کی کجروی کا تاوان ہم کیوں دیں؟ اگر آپ نیک نفس اور فیاض ہوتے تو گھر والوں سے بھی تو فیاضانہ برتاؤ کرتے یا ساری فیاضی باہر والوں کے لئے ہی مخصوص ہے۔ گھر والوں کو اس کا عشرِ عشیر بھی نہ ملنا چاہئے؟ اتنی عمر گزر گئی مگر اس شخص نے کبھی اپنے دل سے میرے لیے ایک سوغات بھی نہ خریدی۔ بے شک جو چیز طلب کروں اسے بازار سے لانے میں انہیں کلام نہیں، مطلق عذر نہیں مگر روپیہ بھی دے دوں یہ شرط ہے۔ انہیں خود کبھی توفیق نہیں ہوتی۔ یہ میں مانتی ہوں کہ بچارے اپنے لیے بھی کچھ نہیں لاتے۔ میں جو کچھ منگوا دوں اسی پر قناعت کر لیتے ہیں۔ مگر انسان کبھی کبھی شوق کی چیزیں چاہتا ہے اور مردوں کو دیکھتی ہوں، گھر میں عورت کے لیے طرح طرح کے زیور، کپڑے، شوق سنگھار کے لوازمات لاتے رہتے ہیں۔ یہاں یہ رسم ممنوع ہے۔ بچوں کے لیے مٹھائی، کھلونے، باجے، بگل شاید اپنی زندگی میں ایک بار بھی نہ لائے ہوں، قسم سی کھا لی ہے۔ اس لیے میں تو انہیں بخیل کہوں گی، بد ذوق کہوں گی، مردہ دل کہوں گی۔ فیاض نہیں کہہ سکتی۔ دوسروں کے ساتھ ان کا جو فیاضانہ سلوک ہے اسے بھی حرص و نمود اور سادہ لوحی پر محمول کرتی ہوں۔ آپ کی منکسر المزاجی کا یہ حال ہے کہ جس دفتر میں آپ ملازم ہیں اس کے کسی عہدیدار سے آپ کا میل جول نہیں۔ افسروں کو سلام کرنا تو آپ کے آئین کے خلاف ہے۔ نذر یا ڈالی تو دور کی بات ہے اول تو کبھی کسی افسر کے گھر جاتے ہی نہیںں۔ اس کا خمیازہ آپ نہ اُٹھائیں تو کون اُٹھائے اوروں کو رعایتی چھٹیاں ملتی ہیں، آپ کی تنخواہ کٹتی ہے اوروں کی ترقیاں ہوتی ہیں آپ کو کوئی پوچھتا بھی نہیں۔ حاضری میں پانچ منٹ بھی دیر ہوجائے تو جواب طلب ہو جاتا ہے۔ بچارے جی توڑ کر کام کرتے ہیں۔ کوئی پیچیدہ، مشکل کام آجائے تو انہیں کے سر منڈھا جاتا ہے۔ انہیں مطلق عذر نہیں، دفتر میں انہیں گھسو اور پسو وغیرہ خطابات ملے ہوئے ہیں۔ مگر منزل کتنی ہی دشوار طے کریں ان کی تقدیر میں وہی سوکھی گھاس لکھی ہوئی ہے۔ یہ انکسار نہیں ہے۔ میں تو اسے زمانہ شناسی کا فقدان کہتی ہوں۔ آخر کیوں کوئی شخص آپ سے خوش ہو۔ دُنیا میں مروت اور رواداری سے کام چلتا ہے، اگر ہم کسی سے کھنچے رہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ ہم سے نہ کھنچا رہے، پھر جب دل میں کبیدگی ہوتی ہے تو وہ دفتری تعلقات میں ظاہر ہو جاتی ہے۔ جو ماتحت افسر کو خوش رکھنے کی کوشش کرتا ہے، جس کی ذات سے افسر کو کوئی فائدہ پہنچتا ہے، جس پر اعتبار ہوتا ہے، اس کا لحاظ وہ لازمی طور پر کرتا ہے۔ ایسے بے غرضوں سے کیوں کسی کو ہمدردی ہونے لگی۔ افسر بھی انسان ہیں۔ ان کے دل میں جو اعزاز و امتیار کی ہوس ہوتی ہے وہ کہاں پوری ہو۔ جب اس کے ماتحت ہی فرنٹ رہیں۔ آپ نے جہاں ملازمت کی وہاں سے نکالے گئے۔ کبھی کسی دفتر میں سال دو سال سے زیادہ نہ چلے۔ یا تو افسروں سے لڑ گئے یا کام کی کثرت کی شکایت کر بیٹھے۔

آپ کو کنبہ پروری کا دعویٰ ہے۔ آپ کے کئی بھائی بھتیجے ہیں۔ وہ کبھی آپ کی بات بھی نہیں پوچھتے۔ مگر آپ برابر ان کا منہ تاکتے رہتے ہیں۔ ان کے ایک بھائی صاحب آج کل تحصیلدار ہیں۔ گھر کی جائیداد انہی کی نگرانی میں ہے۔ وہ شان سے رہتے ہیں، موٹر خرید لی ہے۔ کئی نوکر ہیں، مگر یہاں بھولے سے بھی خط نہیں لکھتے۔ ایک بار ہمیں روپے کی سخت ضرورت ہوئی، میں نے کہا اپنے برادر مکرم سے کیوں نہیں مانگتے؟ کہنے لگے کیوں انہیں پریشان کروں۔ آخر انہیں بھی تو اپنا خرچ کرنا ہے۔ کون سی ایسی بچت ہو جاتی ہو گی۔ میں نے بہت مجبور کیا، تو آ پ نے خط لکھا۔ معلوم نہیں خط میں کیا لکھا، لیکن روپے نہ آنے تھے نہ آئے۔ کئی دنوں کے بعد میں نے پوچھا، ”کچھ جواب آیا حضور کے بھائی صاحب کے دربار سے؟“ آپ نے ترش ہو ہو کر کہا، ”ابھی ایک ہفتہ تو خط پہنچے ہوا ہے۔ ابھی کیا جواب آ سکتا ہے؟ ایک ہفتہ اور گزرا۔ اب آپ کا یہ حال ہے کہ مجھے کوئی بات کرنے کا موقع ہی نہیں عطا فرماتے۔ اتنے بشاش نظر آتے ہیں کہ کیا کہوں۔ باہر سے آتے ہیں تو خوش خوش۔ کوئی نہ کوئی شگوفہ لیے ہوئے۔ میری خوشامد بھی خوب ہو رہی ہے۔ میرے میکے والوں کی بھی تعریف ہو رہی ہے۔ میں حضرت کی چال سمجھ رہی تھی۔ یہ ساری دلجوئیاں محض اس لیے تھیں کہ آپ کے برادرم مکرم کے متعلق کچھ پوچھ نہ بیٹھوں۔ سارے، ملکی، مالی، اخلاقی تمدنی مسائل میرے سامنے بیان کیے جاتے ہیں، اتنی تفصیل اور شرح کے ساتھ کہ پروفیسر بھی دنگ رہ جائے۔ محض اس لیے کہ مجھے اس امر کی بابت کچھ پوچھنے کا موقع نہ ملے لیکن میں کب چُوکنے والی تھی، جب پورے دو ہفتے گزر گئے اور بیمہ کمپنی کے روپے روانہ کرنے کی تاریخ موت کی طرح سر پر آ پہنچی تو میں نے پوچھا کیا ہوا؟ تمہارے بھائی صاحب نے دہن مبارک سے کچھ فرمایا یا ابھی تک خط ہی نہیں پہنچا۔ آخر ہمارا حصہ بھی گھر کی جائیداد میں کچھ ہے یا نہیں یا ہم کسی لونڈی باندی کی اولاد ہیں؟ پانچ سو روپے سال کا نفع نو دس سال قبل تھا، اب ایک ہزار سے کم نہ ہوگا۔ کبھی ایک جھنجی کوڑی بھی ہمیں نہ ملی۔ موٹے حساب سے ہمیں دو ہزار ملنا چاہیے۔ دو ہزار نہ ہو، ایک ہزار ہو، پانچ سو ہو، ڈھائی سو ہو، کچھ نہ ہو تو بیمہ کمپنی کے پریمیم بھرنے کو تو ہو۔ تحصیل دار کی آمدنی ہماری آمدنی کی چوگنی ہے رشوتیں بھی لیتے ہیں۔ تو پھر ہمارے روپے کیوں نہیں دیتے۔ آپ میں میں، ہاں ہاں کرنے لگے۔ بچارے گھر کی مرمت کراتے ہیں۔ عزیز و اقارب کی مہمان داری کا بار بھی تو انہیں پر ہے۔ خوب! گویا جائیداد کا منشا محض یہ ہے کہ اس کی کمائی اسی میں صرف ہو جائے۔ اس بھلے آدمی کو بہانے بھی گھڑنے نہیں آتے۔ مجھ سے پوچھتے، میں ایک نہیں تو ہزار بتا دیتی۔ کہہ دیتے گھر میں آگ لگ گئی۔ سارا اثاثہ جل کر خاک ہوگیا۔ یا چوری ہو گئی۔ چور نے گھر میں تنکا تک نہ چھوڑا۔ یا دس ہزار کا غلّہ خریدا تھا۔ اس میں خسارہ ہو گیا۔ گھاٹے سے بیچنا پڑا۔ یا کسی سے مقدمہ بازی ہوگئی اس میں دیوالیہ پٹ گیا۔ آپ کو سوجھی بھی تو لچر سی بات۔ اس جولانیٔ طبع پر آپ مصنف اور شاعر بھی بنتے ہیں۔ تقدیر ٹھونک کر بیٹھی رہی۔ پڑوس کی بی بی سے قرض لیے تب جا کر کہیں کام چلا۔ پھر بھی آپ بھائی بھتیجوں کی تعریف کے پل باندھتے ہیں تو میرے جسم میں آگ لگ جاتی ہے۔ ایسے برادرانِ یوسف سے خدا بچائے۔

خدا کے فضل سے آپ کے دو بچے ہیں، اور دو بچیاں بھی ہیں۔ خدا کا فضل کہوں یا خدا کا قہر کہوں، سب کے سب اتنے شریر ہو گئے کہ معاذ اللہ۔ مگر کیا مجال کہ یہ بھلے مانس کسی بچے کو تیز نگاہ سے بھی دیکھیں۔ رات کے آٹھ بج گئے ہیں، بڑے صاحبزادے ابھی گھوم کر نہیں آئے۔ میں گھبرا رہی ہوں۔ آپ اطمینان سے بیٹھے اخبار پڑھ رہے ہیں۔ جھلائی ہوئی آتی ہوں اور اخبار چھین کر کہتی ہوں، ”جا کر ذرا دیکھتے کیوں نہیں، لونڈا کہاں رہ گیا۔ نہ جانے تمہارے دل میں کچھ قلق ہے بھی یا نہیں۔ تمہیں تو خدا نے اولاد ہی ناحق دی۔ آج آئے تو خوب ڈانٹنا“۔ تب آپ بھی گرم ہو جاتے ہیں۔ ”ابھی تک نہیں آیا۔ بڑا شیطان ہے۔ آج بچوُ آتے ہیں تو کان اکھاڑ لیتا ہوں، مارے تھپڑوں کے کھال ادھیڑ کر رکھ دوں گا۔ یوں بگڑ کر طیش کے عالم میں آپ اس کو تلاش کرنے نکلتے ہیں۔ اتفاق سے آپ ادھر جاتے ہیں، ادھر لڑکا آجاتا ہے۔ میں کہتی ہوں تو کدھر سے آ گیا۔ وہ بچارے تجھے ڈھونڈنے گئے ہوئے ہیں۔ دیکھنا آج کیسی مرمت ہوتی ہے۔ یہ عادت ہی چھوٹ جائے گی۔ دانت پیس رہے تھے آتے ہی ہوں گے۔ چھڑی بھی ہاتھ مں ہے۔ تم اتنے شریر ہو گئے ہو کہ بات نہیں سنتے۔ آج قدر و عافیت معلوم ہوگی۔ لڑکا سہم جاتا ہے اور لیمپ جلا کر پڑھنے لگتا ہے۔ آپ ڈیڑھ دو گھنٹے میں لوٹتے ہیں۔ حیران و پریشان اور بدحواس، گھر میں قدم رکھتے ہی پوچھتے ہیں، ”آیا کہ نہیں؟“

میں ان کا غصہ بھڑکانے کے ارادے سے کہتی ہوں، ”آ کر بیٹھا تو ہے جا کر پوچھتے کیوں نہیں، پوچھ کر ہار گئی کہاں گیا تھا۔ کچھ بولتا ہی نہیں۔

“آپ گرج پڑتے ہیں، ”منو! یہاں آؤ“

لڑکا تھر تھر کانپتا ہوا آ کر آنگن میں کھڑا ہو جاتا ہے۔ دونوں بچیاں گھر میں چھپ جاتی ہیں کہ خدا جانے کیا آفت نازل ہونے والی ہے۔ چھوٹا بچہ کھڑکی سے چوہے کی طرح جھانک رہا ہے۔ آپ جامے سے باہر ہیں۔ ہاتھ میں چھڑی ہے۔ میں بھی وہ غضب ناک چہرہ دیکھ کر پچھتانے لگتی ہوں کہ کیوں ان سے شکایت کی۔ آپ لڑکے کے پاس جاتے ہیں مگر بجائے اس کے کہ چھڑی سے اس کی مرمت کریں۔ آہستہ سے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر بناوٹی غصے سے کہتے ہیں۔ ”تم کہاں گئے تھے جی! منع کیا جاتا ہے۔ مانتے نہیں ہو۔ خبردار جو اب اتنی دیر کی۔ آدمی شام کو گھر چلا آتا ہے یا ادھر ادھر گھومتا ہے؟“

میں سمجھ رہی ہوں یہ تمہید ہے۔ قصیدہ اب شروع ہوگا، گریز تو بری نہیں لیکن یہاں تمہید ہی پر خاتمہ ہو جاتا ہے۔ بس آپ کا غصہ فرو ہو گیا۔ لڑکا اپنے کمرے میں چلا جاتا ہے اور غالباً خوشی سے اچھلنے لگتا ہے۔

میں احتجاج کی صدا بلند کرتی ہوں۔ ”تم تو جیسے ڈر گئے، بھلا دو چار طمانچے تو لگائے ہوتے۔ اس طرح تو لڑکے شیر ہو جاتے ہیں۔ آج آٹھ بجے آیا ہے۔ کل نو بجے کی خبر لائے گا۔ اس نے بھی دل میں کیا سمجھا ہوگا۔“

آپ فرماتے ہیں، ”تم نے سنا نہیں میں نے کتنی زور سے ڈانٹا۔ بچے کی روح ہی فنا ہو گئی ہوگی۔ دیکھ لینا جو پھر کبھی دیر میں آئے“۔
تم نے ڈانٹا تو نہیں ہاں آنسو پونچھ دیئے۔

آپ نے ایک نئی اپج نکالی ہے کہ لڑکے تادیب سے خراب ہو جاتے ہیں۔ آپ کے خیال میں لڑکوں کو آزاد رہنا چاہیے۔ ان پر کسی قسم کی بندش یا دباؤ نہ ہونا چاہیے۔ بندش سے آپ کے خیال میں لڑکے کی دماغی نشو و نمامیں رکاوٹ پیدا ہو جاتی ہے۔ اس کا یہ نتیجہ ہے کہ لڑکے شتر بے مہار بنے ہوئے ہیں۔ کوئی ایک منٹ بھی کتاب کھول کر نہیں بیٹھتا۔ کبھی گلی ڈنڈا ہے، کبھی گولیاں، کبھی کنکوے۔ حضرت بھی انہیں کے ساتھ کھیلتے ہیں۔ چالیس سال سے تو متجاوز آپ کی عمر ہے مگر لڑکپن دل سے نہیں گیا۔ میرے باپ کے سامنے مجال کیا تھی کہ کوئی لڑکا کنکوا اڑا لے یا گلی ڈنڈا کھیل سکے۔ خون پی جاتے۔ صبح سے لڑکوں کو پڑھانے بیٹھ جاتے۔ اسکول سے جوں ہی لڑکے واپس آتے پھر لے بیٹھتے۔ بس شام کو آدھ گھنٹے کی چھٹی دیتے۔ رات کو پھر کام میں جوت دیتے۔ یہ نہیں کہ آپ تو اخبار پڑھیں اور لڑکے گلی گلی کی خاک چھانتے پھریں۔ کبھی آپ بھی سینگ کٹا کر بچھڑے بن جاتے ہیں، لڑکوں کے ساتھ تاش کھیلنے بیٹھ جاتے ہیں۔ ایسے باپ کا لڑکوں پر کیا رعب ہو سکتا ہے۔ اباجان کے سامنے میرے بھائی سیدھے آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھ سکتے تھے۔ ان کی آواز سنتے ہی قیامت آ جاتی تھی۔ انہوں نے گھر میں قدم رکھا اور خموشی طاری ہوئی۔ ان کے رو برو جاتے ہوئے لڑکوں کی جان نکلتی تھی اور اسی تعلیم کی یہ برکت ہے کہ سبھی اچھے عہدوں پر پہنچ گئے۔ صحت البتہ کسی کی بہت اچھی نہیں ہے۔ تو ابا جان کی صحت ہی کون سی بہت اچھی تھی۔ بچارے ہمیشہ کسی نہ کسی بیماری میں مبتلا رہتے۔ پھر لڑکوں کی صحت کہاں سے اچھی ہو جاتی لیکن کچھ بھی ہو تعلیم و تادیب میں انہوں نے کسی کے ساتھ رعایت نہیں کی۔

ایک روز میں نے حضرت کو بڑے صاحبزادے کو کنکوے کی تعلیم دیتے دیکھا۔ یوں گھماؤ، یوں غوطہ دو، یوں کھینچو، یوں ڈھیل دو۔ ایسا دل و جان سے سیکھا رہے تھے، گویا گرو منتر دے رہے ہوں۔ اس دن میں نے بھی ان کی ایسی خبر لی کہ یاد کرتے ہوں گے۔ میں نے صاف کہہ دیا تم کون ہوتے ہو میرے بچوں کو بگاڑنے والے۔ تمہیں گھر سے کوئی مطلب نہیں ہے، نہ ہو، لیکن میرے بچوں کو خراب مت کیجیے، برے برے شوق نہ پیدا کیجیے۔ اگر آپ انہیں سدھار نہیں سکتے تو کم سے کم بگاڑییے تو مت۔ لگے باتیں بنانے، ابا جان کسی لڑکے کو میلے تماشے نہ لے جاتے تھے۔ لڑکا سر پٹک پٹک کر مر جائے مگر ذرا بھی نہ پسیجتے تھے اور ان بھلے آدمی کا یہ حال ہے کہ ایک ایک سے پوچھ کر میلے لے جاتے ہیں۔ چلو چلو، وہاں بڑی بہار ہے، خوب آتش بازیاں چھوٹیں گی، غبارے اڑیں گے۔ ولایتی چرخیاں بھی ہیں، ان میں مزے سے بیٹھنا اور تو اور آپ لڑکوں کو ہاکی کھیلنے سے بھی نہیں روکتے۔ یہ انگریزی کھیل بھی کتنے خوف ناک ہوتے ہیں۔ کرکٹ، فٹ بال، ہاکی ایک سے ایک مہلک۔ گیند لگ جائے تو جان ہی لے کر چھوڑے۔ مگر آپ کو ان کھیلوں سے بڑی رغبت ہے۔ کوئی لڑکا میچ جیت کر آتا ہے تو کتنے خوش ہوتے ہیں، جیسے کوئی قلعہ فتح کر آیا ہو۔ حضرت کو ذرا بھی اندیشہ نہیں کہ کسی لڑکے کے چوٹ لگ گئی تو کیا ہوگا۔ ہاتھ پاؤں ٹوٹ گیا تو بچاروں کی زندگی کیسے پار لگے گی۔

پچھلے سال لڑکی کی شادی تھی۔ آپ کو یہ ضد تھی کہ جہیز کے نام کانی کوڑی بھی نہ دیں گے۔ چاہے لڑکی ساری عمر کنواری بیٹھی رہے۔ آپ اہل دُنیا کی خبیث النفسی آئے دن دیکھتے رہتے ہیں۔ پھر بھی چشم بصیرت نہیں کھلتی۔ جب تک سماج کا یہ نظام قائم ہے اور لڑکی کا بلوغ کے بعد کنواری رہنا انگشت نمائی کا باعث ہے اس وقت تک یہ رسم فنا نہیں ہو سکتی۔ دو چار افراد بھلے ہی ایسے بیدار مغز نکل آئیں جو جہیز لینے سے انکار کریں لیکن اس کا اثر عام حالات پر کم ہوتا ہے اور برائی بدستور قائم رہتی ہے۔ جب لڑکوں کی طرح لڑکیوں کے لیے بھی بیس پچیس برس کی عمر تک کنواری رہنا بدنامی کا باعث نہ سمجھا جائے گا۔ اس وقت آپ ہی آپ یہ رسم رخصت ہو جائے گی۔ میں نے جہاں جہاں پیغام دیئے، جہیز کا مسئلہ پیدا ہوا اور آپ نے ہر موقع پر ٹانگ اڑا دی۔ جب اس طرح ایک سال پورا گزر گیا اور لڑکی کا سترھواں سال شروع ہو گیا تو میں نے ایک جگہ بات پکی کر لی۔ حضرت بھی راضی ہو گئے کیوں کہ ان لوگوں نے قرارداد نہیں کی۔ حالانکہ دل میں انہیں پورا یقین تھا کہ ایک اچھی رقم ملے گی اور میں نے بھی طے کر لیا تھا کہ اپنے مقدور بھر کوئی بات اُٹھا نہ رکھوں گی۔ شادی کے بخیر و عافیت انجام پانے میں کوئی شبہ نہ تھا، لیکن ان مہاشے کے آگے میری ایک نہ چلتی تھی۔ یہ رسم بے ہودہ ہے۔ یہ رسم بے معنی ہے۔ یہاں روپے کی کیا ضرورت؟۔ یہاں گیتوں کی کیا ضرورت؟ ناک میں دم تھا۔ یہ کیوں وہ کیوں؟ یہ تو صاف جہیز ہے۔ تم نے میرے منہ میں کالک لگا دی۔ میری آبرو مٹا دی۔ ذرا خیال کیجیے، بارات دروازے پر پڑی ہوئی ہے اور یہاں بات بات پر رد و قدح ہو رہی ہے۔ شادی کی ساعت رات کے بارہ بجے تھی۔ اس دن لڑکی کے ماں باپ برت رکھتے ہیں۔ میں نے بھی برت رکھا لیکن آپ کو ضد تھی۔ کہ برت کی کوئی ضرورت نہیں۔ جب لڑکے کے والدین برت نہیں رکھتے تو لڑکی کے والدین کیوں رکھیں۔ میں اور سارا خاندان ہر چند منع کرتا رہا لیکن آپ نے حسب معمول ناشتہ کیا، کھانا کھایا۔ خیر رات کو شادی کے وقت کنیا دان کی رسم آئی۔ آپ کو کنیا دان کی رسم پر ہیشہ سے اعتراض ہے۔ اسے آپ مہمل سمجھتے ہیں۔ لڑکی دان کی چیز نہیں۔ دان روپے پیسے کا ہوتا ہے جانور بھی دان دیئے جاسکتے ہیں لیکن لڑکی کا دان ایک لچر سی بات ہے۔ کتنا سمجھاتی ہوں۔ ”صاحب پرانا رواج ہے، شاستروں میں صاف اس کا حکم ہے۔ عزیز و اقارب سمجھا رہے ہیں مگر آپ ہیں کہ کان پر جوں نہیں رینگتی۔ کہتی ہوں دُنیا کیا کہے گی؟ یہ لوگ کیا بالکل لا مذہب ہو گئے مگر آپ کان ہی نہیں دھرتے۔ پیروں پڑی، یہاں تک کہا کہ بابا تم کچھ نہ کرنا جو کچھ کرنا ہوگا میں کرلوں گی۔ تم صرف چل کر منڈپ میں لڑکی کے پاس بیٹھ جاؤ اور اسے دُعا دو۔ مگر اس مرد خدا نے مطلق سماعت نہ کی۔ آخر مجھے رونا آگیا۔ باپ کے ہوتے میری لڑکی کا کنیا دان چچا یا ماموں کرے، یہ مجھے منظور نہ تھا۔ میں نے تنہا کنیا دان کی رسم ادا کی۔ آپ گھر جھانکے تک نہیں اور لطف یہ ہے کہ آپ ہی مجھ سے روٹھ بھی گئے۔ بارات کی رخصتی کے بعد مجھ سے مہینوں بولے نہیں۔ جھک مار کر مجھی کو منانا پڑا۔

مگر کچھ عجیب دل لگی ہے کہ ان ساری برائیوں کے باوجود میں ان سے ایک دن کے لیے بھی جدا نہیں رہ سکتی۔ ان سارے عیوب کے باوجود میں انہیں پیار کرتی ہوں۔ ان میں وہ کون سی خوبی ہے جس پر میں فریفتہ ہوں۔ مجھے خود نہیں معلوم۔ مگر کوئی چیز ہے ضرور جو مجھے ان کا غلام بنائے ہوئے ہے۔ وہ ذرا معمول سے دیر میں گھر آتے ہیں تو میں بے صبر ہو جاتی ہوں۔ ان کا سر بھی درد کرے تو میری جان نکل جاتی ہے۔ آج اگر تقدیر ان کے عوض مجھے کوئی علم اور عقل کا پتلا، حسن اور دولت کا دیوتا بھی دے تو میں اس کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی نہ دیکھوں۔ یہ فرض کی بیڑی نہیں ہے۔ ہرگز نہیں۔ یہ رواجی وفاداری بھی نہیں ہے بلکہ ہم دونوں کی فطرتوں میں کچھ ایسی رواداریاں کچھ ایسی صلاحیتیں پیدا ہو گئی ہیں گویا کسی مشین کے کل پرزے گھس گھسا کر فٹ ہو گئے ہوں۔ ا ور ایک پرزے کی جگہ دوسرا پرزہ کام نہ دے سکے چاہے وہ پہلے سے کتنا ہی سڈول، نیا اور خوشنما کیوں نہ ہو۔ جانے ہوئے رستے ہم بے خوف، آنکھیں بند کیے چلے جاتے ہیں، اس کے نشیب و فراز، موڑ اور گھماؤ اب ہماری آنکھوں میں سمائے ہوئے ہیں۔ اس کے برعکس کسی انجان رستے پر چلنا کتنی زحمت کا باعث ہو سکتا ہے۔ قدم قدم پر گمراہ ہوجانے کے اندیشے، ہر لمحہ چور اور رہزن کا خوف، بلکہ شاید آج میں ان کی برائیوں کو خوبیوں سے تبدیل کرنے پر بھی تیار نہیں۔

(ختم شد)

۔
 

محمد وارث

لائبریرین
معصوم بچّہ


( 1 )


گنگو کو لوگ برہمن کہتے ہیں اور وہ اپنے کو برہمن سمجھتا بھی ہے۔ میرے سائیس اور خدمتگار مجھے زور سے سلام کرتے ہیں، گنگو مجھے کبھی سلام نہیں کرتا۔ وہ شاید مجھ سے پالا گن کی توقع رکھتا ہے۔ میرا جھوٹا گلاس کبھی ہاتھ سے نہیں چھوتا اور نہ کبھی میری اتنی ہمت ہوئی کہ اس سے پنکھا جھلنے کو کہوں۔ جب میں پسینے میں تر ہوتا ہوں اور وہاں کوئی دوسرا آدمی نہیں ہوتا تو گنگو آپ ہی آپ پنکھا اٹھا لیتا ہے۔ لیکن اس کے چہرے سے صاف عیاں ہوتا ہے کہ وہ مجھ پر کوئی احسان کر رہا ہے اور میں بھی نہ جانے کیوں فوراً ہی اسکے ہاتھ سے پنکھا چھین لیتا ہوں۔ تیز مزاج آدمی ہے، بات کی مطلق برداشت نہیں۔ ایسے بہت کم آدمی ہیں جن سے اس کی دوستی ہو۔ سائیس اور خدمتگار کے ساتھ بیٹھنا شاید وہ کسر شان سمجھتا ہے۔ میں نے اسے کسی سے بے تکلف ہوتے نہیں دیکھا۔ نہ میلے تماشے میں جاتے دیکھا۔ حیرت یہ ہے کہ اسے بھنگ بوٹی سے بھی شوق نہیں جو اس طبقے سے آدمیوں میں ایک غیر معمولی وصف ہے۔ وہ کبھی پوجا پاٹ نہیں کرتا اور نہ اسے ندی میں اشنان کرنے کا خبط ہے۔ بالکل ناحرف شناس آدمی ہے لیکن پھر بھی وہ برہمن ہے اور چاہتا ہے کہ دنیا اسکی تعظیم اور خدمت کرے اور کیوں نہ چاہے؟ جب اجداد کی پیدا کی ہوئی ملکیتوں پر آج بھی لوگ قابض ہیں اور اسی شان سے قابض ہیں گویا انہوں نے خود پیدا کی ہو تو وہ کیوں اس تقدس اور امتیاز کو ترک کردے جو اسکے بزرگوں نے پیدا کیا تھا۔ یہی اسکا ترکہ ہے۔

میری طبیعت اس قسم کی واقع ہوئی ہے کہ اپنے ملازموں سے بہت کم بولتا ہوں۔ میں چاہتا ہوں کہ جب تک میں نہ بلاؤں کوئی میرے پاس نہ آئے۔ مجھے یہ اچھا نہیں لگتا کہ ذرا ذرا سے باتوں کیلیے آدمیوں کو آواز دیتا پھروں۔ مجھے اپنے ہاتھ سے صراحی سے پانی انڈیلنا یا اپنا لیمپ جلانا یا اپنے جوتے پہن لینا یا الماری سے کوئی کتاب نکال لینا اس سے کہیں زیادہ آرام دہ معلوم ہوتا ہے کہ ہینگن اور میکو کو پکاروں۔ اس سے مجھے اپنی آزادی اور خود اعتباری کا احساس ہوتا ہے۔ نوکر بھی میرے پاس بہت کم آتے ہیں۔ اسلیے ایک دن علٰی الصبح جب گنگو میرے سامنے آکر کھڑا ہوگیا تو مجھے کچھ ناگوار گزرا۔ یہ لوگ جب آتے ہیں تو یا تو پیشگی حساب میں کچھ مانگنے کیلیے یا کسی دوسرے ملازم کی شکایت کرنے کیلیے اور مجھے یہ دونوں حرکتیں حد درجہ ناپسند ہیں۔ میں پہلی کو ہر ایک کی تنخواہ بیباق کر دیتا ہوں اور بیچ میں جب کوئی کچھ مانگتا ہے تو مجھے غصہ آتا ہے۔ کون دو دو چار چار روپے کا حساب رکھتا پھرے۔ پھر جب کسی کو منہ بھری مزدوری مل گئی تو اسے کیا حق ہے کہ اسے پندرہ دن میں خرچ کردے اور قرض یا پیشگی کی ذات اختیار کرے۔ اور شکایتوں سے مجھے نفرت ہے، میں شکایت کو کمزوری کی دلیل سمجھتا ہوں یا خوشامد پرستی اور امداد پرستی کی کمینی کوشش۔

میں نے چیں بچیں ہو کر کہا۔ "کیا معاملہ ہے، میں نے تمھیں بلایا نہیں۔"

گنگو کے تیکھے، بے نیاز چہرے پر آج کچھ ایسی لجاجت، کچھ ایسی التجا، کچھ ایسا حجاب تھا کہ مجھے تعجب ہوا۔ ایسا معلوم ہوا کہ وہ کچھ جواب دینا چاہتا ہے مگر الفاظ نہیں مل رہے ہیں۔

میں نے ذرا اور تیز ہو کر کہا۔ "آخر بات کیا ہے؟ کہتے کیوں نہیں۔ تم جانتے ہو یہ میری ہوا خوری کا وقت ہے، مجھے دیر ہو رہی ہے۔"

گنگو نے مایوسانہ لہجے میں کہا۔ "تو آپ ہوا کھانے جائیں، میں پھر آ جاؤں گا۔"

یہ صورت اور بھی پریشان کرنے والی تھی۔ اس رواداری میں ایک منٹ میں وہ اپنی سرگزشت کہہ سنائے گا۔ وہ اتنا جانتا ہے کہ مجھے زیادہ فرصت نہیں ہے۔ دوسرے موقع پر تو کمبخت گھنٹوں روئے گا۔ میرے کچھ لکھنے پڑھنے کو تو شاید کام سمجھتا ہو لیکن غور و خوض کہ میرے لیے انتہائی مصروفیت ہے، وہ میرے آرام کا وقت سمجھتا ہے یقیناً یہ اسی وقت آکر میرے سر پر سوار ہو جائے گا۔ میں نے تلخی کے ساتھ کہا۔ "کچھ پیشگی مانگنے آئے ہو، میں پیشگی نہیں دیتا۔"

"جی نہیں سرکار، میں نے تو کبھی پیشگی نہیں مانگی۔"

"تو کیا کسی کی شکایت کرنا چاہتے ہو؟ مجھے شکایتوں سے نفرت ہے۔"

"جی نہیں سرکار، میں نے تو کبھی کسی کی شکایت نہیں کی۔"

"تو پھر خواہ مخواہ کیوں سر پر سوار ہوگئے۔"

گنگو نے اپنے دل کو مضبوط کیا۔ اسکے بشرے سے معلوم ہو رہا تھا کہ وہ جست لگانے کیلیے اپنی ساری قوتوں کو مجتمع کر رہا ہے۔ آخر اس نے کہا۔ "مجھے اب آپ چھٹی دے دیں۔ میں اب آپ کی نوکری نہ کرسکوں گا۔" یہ اس قسم کی پہلی استدعا تھی جو میرے کانوں میں پڑی۔ میری خودداری کو چوٹ لگی۔ میں جو اپنے آپ کو انسانیت کا پتلا سمجھتا ہوں، اپنے ملازموں سے سخت کلامی نہیں کرتا۔ اپنی آقائیت کو حتی الامکان نیام میں رکھنے کی کوشش کرتا ہوں، اس درخواست پر کیوں نہ حیرت میں آجاتا۔ تحکم کے لہجے میں پوچھا۔ "کیوں، کیا شکایت ہے۔؟"

آپ نے تو ہجور جیسی نیک طبیعت پائی ہے ویسی کیا کوئی پائے گا۔ لیکن بات ایسی آپڑی ہے کہ اب میں آپ کے یہاں نہیں رہ سکتا۔ ایسا نہ ہو پیچھے سے کوئی بات ہو جائے تو آپ کی بدنامی ہو۔ میں نہیں چاہتا میرے ڈیل سے آپ کی آبرو میں بٹہ لگے۔

میرے دل میں الجھن پیدا ہوئی۔ دریافتِ حال کا اشتیاق پیدا ہوا۔ ہوا خوری کا نشہ کا اتر گیا۔ توکل کے انداز سے برآمدے میں پڑی ہوئی کرسی پر بیٹھ کر بولا۔ "تم پہیلیاں بجھوا رہے ہو۔ صاف صاف کیوں نہیں کہتے، کیا معاملہ ہے؟"

گنگو نے مجسم معذرت بن کر کہا۔ "بات یہ ہے کہ وہ عورت جو ابھی بدھوا آشرم سے نکال دی گئی ہے۔ وہی گومتی دیو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

وہ خاموش ہوگیا۔ میں نے بے صبر ہو کر کہا۔ "ہاں نکال دی گئی تو پھر؟ تمہاری نوکری کا اس سے کیا تعلق؟"

"میں اسے سے بیاہ کرنا چاہتا ہوں، ہجور"

میں حیرت سے اسکا منہ تکنے لگا۔ یہ پرانے خیال کا بونگا برہمن جسے نئی تہذیب کی ہوا تک نہیں لگی، اس عورت سے شادی کرے گا، جسے کوئی بھلا آدمی اپنے گھر میں قدم بھی نہیں رکھنے دے گا۔ گومتی نے محلے کی پرسکون فضا میں تھوڑی سی حرکت پیدا کردی تھی۔ کئی سال قبل وہ بدھوا آشرم میں داخل ہوئی تھی۔ تین بار آشرم کے منتظموں نے اسکی شادی کردی مگر ہر بار وہ ہفتہ عشرہ کے بعد بھاگ آئی۔ یہاں تک کہ آشرم کے سیکرٹری نے اب کی بار اس آشرم سے نکال دیا تھا۔ وہ اسی محلے میں ایک کوٹھری لیکر رہتی تھی اور سارے محلے کے شہدوں کیلیے دلچسپیوں کا مرکز بنی ہوئی تھی۔

مجھے گنگو کی سادہ لوحی پر غصہ بھی آیا اور رحم بھی۔ اس بیوقوف کو ساری دنیا میں کوئی عورت ہی نہ ملتی تھی جو اس سے شادی کرنے جا رہا ہے۔ جب وہ تین بار شوہروں کے پاس سے بھاگ آئی تو اس کے پاس کتنے دن رہے گی۔ کوئہ گانٹھ کا پورا آدمی ہوتا تو ایک بات بھی تھی شاید چھ مہینے ٹک جاتی۔ یہ تو محض آنکھ کا اندھا ہے، ایک ہفتہ بھی تو نباہ نہ ہوگا۔

میں نے تنبیہہ آمیز لہجے میں پوچھا۔ "تم اس عورت کے حالات سے واقف ہو؟"

گنگو نے عین الیقین کے انداز سے کہا۔ "سب جھوٹ ہے سرکار، لوگوں نے اسکو ناحق بدنام کیا ہے۔"

"کیا معنی؟ کیا وہ تین بار اپنے شوہروں کے پاس سے نہیں بھاگ آئی؟"

"ان لوگوں نے اسے نکال دیا تو کیا کرتی؟"

"کیسے احمق آدمی ہو، کوئی اتنی دور سے آکر شادی کرکے لے جاتا ہے۔ ہزاروں روپے خرچ کرتا ہے، اسلیے کہ عورت نکال دے؟"

گنگو نے شاعرانہ جوش کے ساتھ کہا۔ "جہاں محبت نہیں ہے ہجور وہاں کوئی عورت نہیں رہ سکتی۔ عورت کھالی روٹی کپڑا تو نہیں چاہتی ہے، کچھ محبت بھی تو چاہتی ہے۔ وہ لوگ سمجھتے ہونگے کہ ہم نے بدھوا سے بیاہ کرکے اسکے اوپر کوئی بہت بڑا احسان کیا ہے۔ چاہتے تھے کہ وہ دل و جان سے اسکی ہو جائے لیکن دوسرے کو اپنا بنانے کیلیے پہلے آپ اسکا بن جانا پڑتا ہے ہجور۔ یہ بات ہے پھر اسے ایک بیماری بھی ہے اسے کوئی بھوت لگا ہوا ہے، وہ کبھی ہک جھک کرنے لگتی ہے اور بیہوش ہوجاتی ہے۔"

"اور تم ایسی عورت سے شادی کروگے؟" میں نے شبہ کے انداز سے سر ہلا کر کہا۔ "سمجھ لو زندگی تلخ ہو جائے گی۔"

گنگو نے شہیدانہ سرگرمی سے کہا۔ "میں تو سمجھتا ہوں، میری جندگی بن جائے گی۔ آگے بھگوان کی مرجی۔"

میں نے زور دے کر کہا۔ "تو تم نے طے کر لیا ہے؟"

"ہاں ہجور۔"

"تو تمھارا استعفٰی منظور کرتا ہوں۔"

میں بے معنی رسوم اور مہمل بندشوں کا غلام نہیں ہوں۔ لیکن جو ایک فاحشہ سے شادی کرے، اسے اپنے یہاں رکھنا اندیشے سے خالی نہ تھا۔ آئے دن قضیے ہونگے، نئی نئی الجھنیں پیدا ہونگی۔ کبھی پولیس تحقیقات کرنے آئے گی۔ کبھی مقدمے کھڑے ہونگے۔ کیا عجب ہے چوری کی وارداتیں بھی ہوں۔ گنگو بھوکے آدمی کی طرح روٹی کا ٹکڑا دیکھ کر اسکی طرف لپک رہا ہے۔ روٹی خشک ہے، بدمزہ ہے، اسکی اسے پرواہ نہیں۔ اسکا عقلِ سلیم سے کام لینا محال تھا۔ میں نے اسکو علیحدہ کردینے ہی میں اپنی عافیت سمجھی۔


(جاری ہے)


۔
 

محمد وارث

لائبریرین
معصوم بچّہ

(گزشتہ سے پیوستہ)


( 2 )


پانچ مہینے گزر گئے۔ گنگو نے گومتی سے شادی کر لی تھی اور اسی محلے میں ایک کھپریل کا مکان لیکر رہتا تھا۔ وہ اب چاٹ کا خوانچہ لگا کر گزر بسر کرتا تھا۔ مجھے جب کبھی بازار میں مل جاتا میں اس سے استفسارِ حال کرتا، مجھے اسکے حالات سے ایک خاص دلچسپی ہوگئی تھی۔ یہ ایک معاشرتی مسئلے کی آزمائش تھی، معاشرتی ہی نہیں بلکہ نفسیاتی بھی۔ میں دیکھنا چاہتا تھا کہ اسکا انجام کیا ہوتا ہے۔ میں گنگو کو ہمیشہ خوش و خرم دیکھتا۔۔۔۔۔فراغت اور بے فکری سے چہرے پر جو ایک نفاست اور مزاج میں ایک خود مختاری پیدا ہو جاتی ہے وہ مجھے صریحاً نظر آتی تھی۔ روپے، بیس آنے کی روزانہ بکری ہو جاتی تھی، اس میں لاگت نکال کر آٹھ دس آنے بچ جاتے تھے، یہی اسکی معاش تھی، مگر اس میں کوئی خاص برکت تھی۔ کیونکہ اس طبقے کے آدمیوں میں جو بے سر و سامانی، جو بے غیرتی نظر آتی ہے ان سے وہ پاک تھا۔ اسکے چہرے پر خود اعتمادی اور مسرت کی جھلک تھی جو سکونِ قلب ہی سے پیدا ہو سکتی ہے۔

ایک دن میں نے سنا کہ گومتی گنگو کے گھر سے بھاگ گئی ہے۔

کہہ نہیں سکتا کیوں مجھے اس خبر سے ایک خاص خوشی ہوئی۔ مجھے گنگو کے اطمینان اور پر عافیت زندگی پر ایک طرح کا رشک آتا تھا۔ میں اسکے بارے میں کسی رسوا کن سانحے، کسی دل فگار اور تباہ کن تغیر کا منتظر تھا۔ آخر اسے اپنی سہل اعتقادی کا تاوان دینا پڑا۔ اب دیکھیں وہ کسطرح منہ دکھاتا ہے۔ اب آنکھیں کھلیں گی۔ اور معلوم ہوگا کہ لوگ جو اسے شادی سے باز رکھنے کی کوشش کر رہے تھے، نیک نیت تھے۔ اس وقت تو ایسا معلوم ہوتا تھا گویا حضرت کو ایک نایاب چیز ملی جارہی ہے، گویا نجات کا دروازہ کھل گیا ہے۔ لوگوں نے کتنا سمجھایا، کتنا کہا کہ یہ عورت اعتبار کے قابل نہیں، کتنوں کو دغا دے چکی ہے۔ تمھارے ساتھ بھی دغا کرے گی مگر اس پر مطلق اثر نہ ہوا۔ اب اس ابلہانہ ضد کا خمیازہ اٹھاؤ۔ اب میں تو ذرا مزاج پرسی کروں۔ کہوں، کیوں مہراج، دیوی جی کا یہ بردان پا کر خوش ہوئے یا نہیں۔ تم تو کہتے تھے وہ ایسی ہے اور ویسی ہے۔ لوگ اسے محض بدخواہی کے باعث تہمت لگاتے ہیں۔ اب بتلاؤ کون غلطی پر تھا۔ اب آگیا خیال شریف میں کہ حسن فروش عورتوں سے لوگ کیوں احتراز کرتے ہیں۔

اسی دن اتفاق سے بازار میں گنگو سے میری ملاقات ہوگئی، بدحواس تھا، بالکل کھویا ہوا، گم گشتہ۔ مجھے دیکھتے ہی اسکی آنکھوں میں آنسو بھر آئے، ندامت سے نہیں درد سے۔ میرے پاس آکر بولا۔ "بابو جی، گومتی نے میرے ساتھ بھی دغا کیا۔"

میں نے حاسدانہ مسرت سے لیکن بظاہر ہمدردی کا اظہار کرکے کہا۔ "تم سے تو میں نے پہلے ہی کہا تھا، لیکن تم مانے ہی نہیں۔ اب صبر کرو۔ اسکے سوا اور کیا چارہ ہے۔ روپے پیسے صاف کر لے گئی یا کچھ چھوڑ گئی؟"

گنگو نے سینہ پر ہاتھ رکھا۔ ایسا معلوم ہوا گویا میرے اس سوال نے اسکے جگر کے ٹکڑے کر دیئے۔

"ارے بابو جی ایسا نہ کہیے۔ اس نے دھیلے کی چیز بھی نہیں چھوئی۔ اپنا جو کچھ تھا وہ بھی چھوڑ گئی۔ نہ جانے مجھ میں کیا برائی دیکھی۔ میں اسکے لائق نہ تھا۔ بس اور کیا کہوں۔ وہ پڑھی لکھی، میں کریا اچھر بھینس برابر۔ میرے ساتھ اتنے دن رہی، یہی بہت تھا۔ کچھ دن اور اسکے ساتھ رہ جاتا تو آدمی بن جاتا۔ اسکا آپ سے کہاں تک بکھلان کروں۔ بابو جی اوروں کیلیے وہ چاہے کچھ رہی ہو، وہ میرے لیے کسی دیوتا کا اشیر باد تھی۔ کیا جانے مجھ سے ایسی کیا خطا ہوگئی ہو۔ مگر کسم لے لیجیے جو اسنے بھول کر بھی شکایت کی ہو۔ میری اوکات ہی کیا ہے۔ بابو جی دس بارہ آنے روز کا مجور ہوں، مگر اسکے ہاتھوں میں اتنی برکت تھی کہ کبھی کوئی تکلیف نہیں ہوئی۔ کبھی میں نے اسکے چہرے پر میل نہیں دیکھا۔"

مجھے ان الفاظ سے سخت مایوسی ہوئی۔ میں نے سمجھا تھا وہ اسکی بیوفائی کی داستان کہے گا اور میں اسکی حماقت پر حاسدانہ ہمدردی کروں گا مگر اس احمق کی آنکھیں اب تک نہیں کھلیں۔ اب بھی اسی کا کلمہ پڑھ رہا ہے، ضرور اسکے دماغ میں کچھ خلل ہے۔

میں نے شماتت آمیز ظرافت شروع کی۔ "تو وہ تمھارے گھر سے کچھ نہیں لے گئی؟"

"کچھ نہیں بابو جی، دھیلے کی چیز بھی نہیں۔"

"اور تم سے محبت بھی کرتی تھی؟"

"اب آپ سے کیا کہوں بابو جی، وہ محبت تو مرتے دم تک یاد رہے گی۔"

"پھر بھی تمھیں چھوڑ کر چلی گئی۔"

"یہی تو تعجب ہے بابو جی۔"

"تریا چرتر کا نام کبھی سنا ہے؟"

"ارے بابو جی، ایسا نہ کہیے، میری گردن پر کوئی چھری بھی رکھ دے تو بھی میں اسکا جس ہی گائے جاؤں گا۔"

"تو پھر ڈھونڈ نکالو۔"

"ہاں الگ؟ جب تک اسے ڈھونڈ نہ لاؤں، مجھے چین نہ آئے گا۔ مجھے اتنا معلوم ہوجائے کہ وہ کہاں ہے پھر تو میں اسے لے ہی آؤں گا۔ اور بابو جی میرا دل کہتا ہے کہ وہ آئے گی جرور، دیکھ لیجیے گا۔ وہ مجھ سے خفا نہیں تھی۔ لیکن دل نہیں مانتا۔ جاتا ہوں، مہینے دو مہینے، جنگل پہاڑ کی خاک چھانوں گا، جیتا رہا تو آپ کے درشن کروں گا۔" یہ کہہ کر وہ مجنونانہ رفتار سے ایک طرف چل دیا۔


(جاری ہے)


۔
 

محمد وارث

لائبریرین
معصوم بچّہ

(گزشتہ سے پیوستہ)


( 3 )


اسکے بعد مجھے ایک ضرورت سے نینی تال جانا پڑا، تفریح کیلیے۔ ایک مہینے کے بعد لوٹا اور ابھی کپڑے بھی اتارنے نہ پایا تھا کہ دیکھتا ہوں، گنگو ایک نوزائیدہ کو گود میں لیے کھڑا ہے۔ شاید کرشن کو پاکر نند بھی اتنے باغ باغ نہ ہوئے ہونگے۔ معلوم ہوتا تھا مسرت اسکے جسم سے باہر نکلی پڑی ہے۔ چہرے اور آنکھوں سے تشکر اور نیاز کے نغمے سے نکل رہے تھے۔ کچھ وہی کیفیت تھی جو کسی فاقہ کش سائل کے چہرے پر شکم سیر ہوجانے کے بعد نظر آتی ہے۔

میں نے پوچھا۔ "کیوں مہراج، گومتی دیوی کا کچھ سراغ ملا؟ تم تو باہر گئے تھے۔"

گنگو نے جامے میں پھولے نہ سماتے ہوئے جواب دیا۔ "ہاں، بابو جی، آپکی دعا سے ڈھونڈ لایا۔ لکھنؤ کے زنانہ ہسپتال میں ملی۔ یہاں ایک سہیلی سے کہہ گئی تھی کہ اگر وہ بہت بے قرار ہوں تو بتلا دینا۔ میں سنتے ہی لکھنؤ بھاگا اور نہیں لے آیا۔ گھاتے میں یہ بچہ بھی مل گیا۔"

اسنے بچے کو گود میں اٹھا کر میری طرف بڑھایا۔ گویا کوئی کھلاڑی تمغہ پاکر اسے دکھا رہا ہو۔

میری حیرت کی انتہا نہ رہی۔ ابھی اسکی شادی کو ہوئے کل چھ مہینے ہوئے ہیں، پھر بھی یہ بچے کو کتنی بے حیائی سے دکھا رہا ہے۔ میں نے تمسخر کے انداز سے پوچھا۔

"یہ لڑکا بھی مل گیا۔ شاید اسلیے وہ یہاں سے بھاگی تھی۔ ہے تو تمھارا لڑکا ہی نا؟"

"میرا کاہے کو ہے بابو جی، آپ کا ہے، بھگوان کا ہے۔"

"تو لکھنؤ میں پیدا ہوا؟"

"ہاں بابو جی، ابھی تو کل ایک مہینے کا ہے۔"

"تمھاری شادی ہوئے کتنے دن ہوئے؟"

"یہ ساتواں مہینہ جا رہا ہے۔"

"شادی کے چھٹے مہینے میں پیدا ہوا؟"

"اور کیا بابو جی۔"

"پھر بھی تمھارا لڑکا ہے؟"

"ہاں جی"

"کیسی بے سر پیر کی باتیں کر رہے ہو؟"

معلوم نہیں وہ میرا منشا سمجھ رہا تھا یا نہیں، اسی سادہ لوحانہ انداز سے بولا۔ "گھر میں مرتے مرے بچی، بابو جی۔ نیا جنم ہوا۔ تین دن تین رات چھٹ پٹاتی رہی، کچھ نہ پوچھیے۔"

میں نے اب ذرا طنز کے ساتھ کہا۔ "لیکن چھ مہینے میں لڑکا ہوتے میں نے آج سنا۔"

یہ کنایہ نشانہ پر جا بیٹھا۔ معذرت آمیز تبسم کے ساتھ بولا۔ "مجھے تو بابو جی اسکا خیال بھی نہیں آیا۔ اسی لاج سے تو گومتی بھاگی تھی۔ میں نے کہا، گومتی اگر تمھارا دل مجھ سے نہیں ملتا تو مجھے چھوڑ دو، میں اسی دم چلا جاؤں گا اور پھر کبھی تمھارے پاس نہ آؤں گا۔ تمھیں جب کسی چیز کی جرورت ہو مجھے لکھنا۔ میں بے شک تمھاری مدد کرونگا۔ مجھے تم سے کوئی ملال نہیں ہے۔ تم میری نجر میں اب بھی اتنی ہی بھلی ہو۔ اب بھی میں تمھیں اتنا ہی چاہتا ہوں۔ نہیں میں اب تمھیں اور زیادہ چاہتا ہوں۔ لیکن اگر تمھارا دل مجھ سے پھر نہیں گیا ہے تو میرے ساتھ چلو۔ گنگو جیتے جی تم سے بے وپھائی نہیں کرے گا۔ میں نے تم سے اس لیے بیاہ نہیں کیا کہ تم دیوی ہو، بلکہ اسلیے کہ میں تمھیں چاہتا ہوں۔ اور سمجھتا تھا کہ تم بھی مجھے چاہتی ہو۔ یہ بچہ میرا ہے۔ میرا اپنا بچہ ہے۔ میں نے ایک بویا ہوا کھیت لیا تو کیا اسکے پھل کو اسلیے چھوڑ دوں گا کہ اسے دوسرے نے بویا تھا۔" یہ کہہ کر اسنے زور سے قہقہہ مارا۔

میں کپڑے اتارنے بھول گیا۔ کہہ نہیں سکتا کہ کیوں میری آنکھیں پر آب ہوگئیں۔ نہ جانے وہ کونسی طاقت تھی جس نے میری دلی کراہت کے باوجود میرے ہاتھوں کو بڑھا دیا اور میں نے اس معصوم بچے کو گود میں لے لیا اور اس پیار سے اسکا بوسہ لیا کہ شاید اپنے بچوں کا کبھی نہ لیا ہوگا۔

گنگو بولا۔ "بابو جی آپ بڑے شریف آدمی ہیں۔ گومتی سے برابر آپ کا بکھان کیا کرتا ہوں۔ کہتا ہوں چل ایک بار انکے درشن کر آ۔ لیکن مارے شرم کے آتی ہی نہیں۔"

میں اور شریف، اپنی شرافت کا پردہ آج میری نظروں سے ہٹا۔ میں نے عقیدت کے ڈوبے ہوئے لہجے کہا۔ "نہیں جی، وہ میرے جیسے سیاہ دلوں کے پاس کیا آئیں گے۔ چلو میں انکے درشن کرنے چلتا ہوں۔ تم مجھے شریف سمجھتے ہو، میں ظاہر میں شریف مگر دل کا کمینہ ہوں۔ اصلی شرافت تم میں ہے اور یہ معصوم بچہ وہ پھول ہے جس سے تمھاری شرافت کی دہک نکل رہی ہے۔" میں بچے کو سینے سے چمٹائے ہوئے گنگو کے ساتھ چلا۔


(ختم شد)


۔
 

محمد وارث

لائبریرین
بد نصیب ماں


( 1 )


پنڈت اجودھیا ناتھ کا انتقال ہوا تو سب نے کہا ایشور آدمی کو ایسی ہی موت دے۔ چار جوان لڑکے یادگار چھوڑے اور ایک لڑکی۔ اثاثہ بھی کافی، پختہ مکان، دو باغ، کئی ہزار کے زیور اور بیس ہزار نقد۔ بیوہ پھول متی کو صدمہ ہونا لازمی تھا اور وہ کئی دن تک بے حال رہی لیکن جوان بیٹوں کو سامنے دیکھ کر اسے تشفی ہوئی۔ چاروں لڑکے ایک سے ایک سعادت مند، چاروں بہویں ایک سے ایک فرمانبردار۔ جس وقت پھول متی چارپائی پر لیٹتی تو باری باری سے اسکے پاؤں دباتیں۔ وہ اشنان کر کے اٹھتی تو اسکی ساڑھی دھوتیں۔ سارا گھر اسکے اشارے پر چلتا تھا۔ بڑا لڑکے کامتا ناتھ ایک دفتر میں پچاس کا نوکر تھا۔ دوسرا اما ناتھ ڈاکٹری پاس کر چکا تھا اور کہیں مطب کھولنے کی فکر میں تھا۔ تیسرا دیا ناتھ بی۔اے میں فیل ہو گیا تھا اور اخباروں میں مضامین لکھ کر اپنا جیب خرچ نکال لیتا تھا۔ سب سے چھوٹا سیتا ناتھ چاروں میں ذہین اور ہونہار تھا۔ اور امسال بی۔اے اول درجے میں پاس کر کے ایم۔اے کی تیاری میں مصروف تھا۔ کسی میں وہ لا ابالیاں نہ تھیں، نہ فضول خرچیاں، نہ کم اندیشیاں، جو والدین کو جلاتی ہیں اور خاندان کو تباہ کرتی ہیں۔ بڑھیا گھر کی مالکن تھی اگرچہ کنجیاں بڑی بہو کے پاس رہتی تھیں۔ پھول متی میں وہ حکومت پسندی نہ تھی جو بڑھاپے کو سخت گیر بنا دیا کرتی ہے مگر اسکی مرضی کے بغیر کوئی لڑکا ناشتہ بھی نہیں منگا سکتا تھا۔

شام کا وقت تھا۔ پنڈت جی کو مرے آج بارھواں دن تھا۔ کل تیرھویں ہے، برہم بھوج ہوگا، برادری کی دعوت ہوگی، اسکی تیاریاں ہو رہی تھیں۔ پھول متی اپنے حجرے میں بیٹھی دیکھ رہی تھی کہ پلّے دار بوریوں میں آٹا لا کر رکھ رہے ہیں۔ گھی کے ٹین آرہے ہیں، سبزی کے ٹوکرے، شکر کی بوریاں، دہی کی مٹکیاں، سب چلی آرہی ہیں۔ مہا برہمن کے لیے دان کی چیزیں لائی گئیں، برتن، پلنگ، بسترے، کپڑے وغیرہ مگر پھول متی کو کوئی چیز نہیں دکھائی گئی۔ حسبِ ضابطہ سب چیزیں اسکے پاس آنی چاہیے تھیں اور وہ ہر ایک چیز کو دیکھتی، اسے پسند کرتی، انکی مقدار میں کمی بیشی کرتی تب ان چیزوں کو بھنڈارے میں رکھا جاتا۔ مگر اسے دکھانے کی کسی نے ضرورت نہ سمجھی۔ اچھا، آٹا تین ہی بوری کیوں آیا، اس نے تو پانچ بوریوں کے لیے کہا تھا۔ گھی کے پانچ ہی کنستر آئے، اس نے دس کنستر منگوائے تھے۔ شاید سبزی، دہی، شکر وغیرہ میں بھی کمی کی گئی ہو۔ کس نے اس حکم میں مداخلت کی، جب اس نے ایک بات طے کردی تو کسی کو کیا حق ہے کہ اس میں کمی بیشی کرے۔ آج چالیس سال سے گھر کے ہر ایک معاملے میں پھول متی کا فیصلہ ناطق تھا۔ اس نے سو کہا تو سو خرچ کیے گئے، ایک کہا تو ایک۔ کسی نے مین میکھ نہ کی۔ یہاں تک کہ پنڈت اجودھیا ناتھ بھی سب کچھ اسکی مرضی پر چھوڑ دیتے تھے، پر آج اسکی آنکھوں کے سامنے اسکی خلاف ورزی کی جا رہی ہے وہ اسے کیوں برداشت کر سکتی تھی؟

وہ کچھ دیر تو ضبط کیے بیٹھی رہی، پر آخر اس سے رہا نہ گیا۔ خود پروری اسکی فطرتِ ثانی بن گئی تھی۔ غصے میں بھری ہوئی آئی اور کامتا ناتھ سے بولی، کیا آٹا تین بوری لائے، میں نے تو پانچ بوریوں کے لیے کہا تھا، اور گھی بھی پانچ کنستر، تمھیں یاد ہے میں نے دس کنستر کہے تھے۔ کفایت کو میں برا نہیں کہتی، لیکن جس نے یہ کنواں کھودا، اسکی آتما پانی کو ترسے تو کتنی شرم کی بات ہے۔

کامتا ناتھ نے معذرت نہیں کی، عذرِ گناہ نہیں کیا، نادم بھی نہیں ہوا، فوراً تقصیر کی تلافی کرنے نہیں دوڑا۔ ایک منٹ تو باغیانہ انداز سے کھڑا رہا، پھر بولا ہم لوگوں کی صلاح تین ہی بوریوں کی ہوئی اور تین بوریوں کے لیے پانچ کنستر گھی کافی تھا، اسی حساب سے اور چیزیں بھی کم کردی گئیں۔

پھول متی تیز ہو کر بولی۔ "کس کی رائے سے آٹا کم کیا گیا؟"

"ہم لوگوں کی رائے سے۔"

"تو میری رائے کوئی چیز نہیں؟"

"ہے کیوں نہیں؟ لیکن اپنا نفع نقصان تو ہم ہی سمجھتے ہیں۔"

پھول متی ہکا بکا ہو کر اسکا منہ تکنے لگی۔ اس جملے کا مطلب اسکی سمجھ میں نہ آیا۔ اپنا نفع نقصان۔ یہ "اپنا" کیا بلا ہے؟ اس کا وجود کب سے ہوا؟ اسکے نفع نقصان کی ذمہ داری اسکے سر ہے۔ دوسروں کو، خواہ وہ اسکے پیٹ کے لڑکے ہی کیوں نہ ہوں، اسکے فیصلے میں دخل دینے کا کیا حق ہے۔ لونڈا اسطرح جواب دے رہا ہے گویا گھر اسکا ہے۔ اس نے مر مر کر یہ گرہستی جمع کی ہے، میں تو غیر ہوں، ذرا اسکی خود سری تو دیکھو۔

اس نے تحکمانہ لہجے میں کہا۔ "میرے نفع نقصان کے ذمہ دار تم نہیں ہو، مجھے اختیار ہے میں جو مناسب سمجھوں وہ کروں۔ ابھی جا کر دو بورے آٹا اور پانچ کنستر گھی اور لاؤ۔ اور آئندہ سے خبردار جو کسی نے میری بات کاٹی۔"

اس نے اپنے خیال میں ضرورت سے زیادہ تنبیہہ کردی تھی اور وہاں کھڑے ہونے کی ضرورت نہ سمجھ کر وہ اپنے حجرے میں چلی آئی۔ حالانکہ کامتا ناتھ ابھی وہیں کھڑا تھا۔ اور اسکے چہرے سے مترشح ہو رہا تھا کہ اسے اس حکم کی تعمیل میں کچھ عذر ہے۔ مگر پھول متی مطمئن بیٹھی تھی۔ اتنی تنبیہہ پر بھی کسی کو اس پر نافرمانی کی جرأت ہوسکتی ہے، یہ اسکے ذہن میں نہ آیا۔ مگر رفتہ رفتہ اس پر اب حقیقت کھلنے لگی کہ اس گھر میں اسکی وہ حیثیت نہیں رہی جو دس بارہ روز پہلے تھی۔ رشتہ داروں کے یہاں نوید میں گھی، شکر مٹھائی وغیرہ آرہی تھی۔ بڑی بہو ان چیزوں کو خود خاص انداز سے سنبھال سنبھال کر رکھ رہی تھی۔ تینوں چھوٹی بہوئیں بھی بھنڈارے میں گھسی تھیں۔ کوئی بھی پھول متی سے کچھ پوچھنے نہیں آتا۔ برادری کے لوگ بھی جو کچھ پوچھتے ہیں وہ کامتا ناتھ سے کچھ یا بڑی بہو سے۔ کامتا ناتھ کہاں کا بڑا مہتمم ہے، دن بھر بھنگ پئے پڑا رہتا ہے اور بڑی بہو جیسی پھوہڑ عورت بھلا ان باتوں کو کیا سمجھ سکتی ہے۔ بھد ہوگی اور کیا سب کے سب خاندان کی ناک کٹوائیں گے۔ وقت پر کوئی نہ کوئی چیز کم ہو جائے گی۔ تب ادھر ادھر بھاگیں پھریں گے۔ ان کاموں کیلیے بڑا تجربہ اور سلیقہ چاہیے۔ کوئی چیز ضرورت سے زیادہ بن جائے گی اور ماری پھرے گی۔ کوئی چیز اتنی کم بنے گی کہ کسی تپل پر پہنچے گی کسی پر نہیں۔ آخر ان سبھوں کو ہو کیا گیا ہے۔ اچھا بڑی بہو سیف کیوں کھول رہی ہے۔ وہ سیف کو میری مرضی کے بغیر کھولنے والی کون ہوتی ہے۔ کنجی اس کے پاس ہے ضرور، لیکن جب تک میں روپے نہ نکلواؤں وہ صندوق نہیں کھول سکتی۔ آج اس طرح کھول رہی ہے گویا سب کچھ وہی ہے، میں کچھ ہوں ہی نہیں۔ اس نے بڑی بہو کے پاس جا کر تند لہجے میں کہا۔ "سیف کیوں کھولتی ہو بہو؟ میں نے تو کھولنےکو نہیں کہا۔"

بڑی بہو نے بے باکانہ انداز سے کہا۔ "بازار سے سامان آیا ہے تو دام نہ دیئے جائیں۔"

"کون چیز کس بھاؤ سے آئی ہے اور کتنی آئی ہے، مجھے کچھ معلوم نہیں۔ جب تک حساب نہ ہو جائے، روپے کیسے دیئے جائیں گے؟"

"حساب کتاب سب ہوگیا۔"

"کس نے کیا؟"

"اب میں کیا جانوں، جا کر اپنے لڑکوں سے پوچھو۔"

پھول متی پھر آکر اپنی کوٹھڑی میں بیٹھ گئی۔ اس وقت بگڑنے کا موقع نہ تھا۔ گھر میں مہمان بھرے ہوئے تھے۔ اگر اس وقت اس نے لڑکوں کو ڈانٹا تو لوگ تو یہی کہیں گے، پنڈت کے مرتے ہی ان کے گھر میں پھوٹ پڑ گئی۔ خون کا گھونٹ پی پی کر رہ جاتی ہے، جب مہمان رخصت ہو جائیں گے، تب وہ ایک ایک کی خبر لے گی۔ دیکھیے اس وقت لڑکے کیا باتیں بناتے ہیں۔ اس عرصہ میں وہ کار پردازوں کی بے قاعدگیوں اور فضول کاریوں اور غلطیوں کا مبصرانہ نگاہوں سے مشاہدہ کر رہی تھی۔ بارہ بجے دعوت شروع ہوئی۔ ساری برادری کے لوگ یکبارگی کھانے کیلیے بلا لئے گئے۔ پھول متی کھڑی تماشا دیکھ رہی تھی۔ صحن میں مشکل سے ڈھائی سو آدمی بیٹھ سکتے تھے، یہ ساری برادری کیسے بیٹھ گئی۔ دو پنگتوں میں لوگ بیٹھتے تو کیا برا تھا۔ یہی تو ہوتا کہ دو کی جگہ چار بجے ختم ہوتی، مگر یہاں تو سب کو سونے کی فکر پڑی ہوئی ہے۔

یکایک شور مچا، ترکاریوں میں نمک نہیں۔ بڑی بہو جلدی جلدی نمک پیسنے لگی، پھول متی غصے سے ہونٹ چبا رہی تھی۔ مگر اس موقع پر زبان نہ کھول سکتی تھی۔ بارے نمک پسا اور پتیلیوں میں ڈالا گیا۔

گھر میں برف نہ تھی۔ آدمی بازار دوڑایا گیا۔ بازار میں اتنی رات گئے برف کہاں؟ آدمی ناکام لوٹ آیا۔ مہمانوں کو وہی نل کا گرم پانی پینا پڑا۔ پھول متی کا بس چلتا تو لڑکوں کا منہ نوچ لیتی، ایسی بد انتظامی اسکے گھر میں کبھی نہ ہوئی تھی۔ اس پر سب کو مالک اور منتظم بننے کی دھن ہے۔ برف جیسی ضروری چیز منگوانے سے فرصت نہ ملی۔ مہمان اپنے دل میں کیا کہتے ہونگے۔ دعوت کرنے چلے تھے اور گھر میں برف تک نہیں۔ اچھا پھر کیوں ہلچل مچی۔ ارے غضب، کسی کے شوربے میں ایک مری ہوئی چوہیا نکل آئی۔ یا بھگوان تمھیں آبرو قائم رکھیو۔ چھی، اس پھوہڑ پن کی بھی کوئی حد ہے۔ سارے مہمان اٹھے جا رہے ہیں، نہ اٹھیں تو کیا کریں۔ آنکھوں سے دیکھ کر مکھی کون نگلے گا۔ پھول متی کے دل میں ایسا ابال اٹھ رہا تھا کہ دیوار سے سر ٹکرائے۔ مجنونانہ حالت میں بار بار سر کے بال نوچتی تھی۔ ابھاگے دعوت کا انتظام کرنے چلے تھے۔ سارا کرا دھرا مٹی میں مل گیا۔ سینکڑوں روپے پر پانی پھر گیا، بدنامی ہوئی وہ الگ۔ اب اس سے ضبط نہ ہوسکا۔ مہمان اٹھ چکے تھے۔ پتلوں پر کھانا جوں کا توں پڑا تھا۔ چاروں لڑکے آنگن میں نادم کھڑے تھے۔ ایک دوسرے کو الزام دے رہا تھے۔ بڑی بہو دیورانیوں پر بگڑ رہی تھی۔ پھول متی شعلے کی طرح ٹوٹ کر آئی اور بولی۔ "منہ میں کالک لگ گئی کہ نہیں۔ یا ابھی کچھ کسر ہے۔ ڈوب مرو سب کے سب جا کر چلو بھر پانی۔ شہر میں کہیں منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے۔ ہفتوں اس دعوت کا چرچا رہے گا۔ مذاق اڑایا جائے گا۔ تم لوگوں کو کچھ شرم و حیا تو ہے نہیں۔ تمھیں کیا، آتما تو اس کی رو رہی ہے جس نے زندگی کو گھر کی آبرو بنانے میں تباہ کر دیا۔"

کامتا ناتھ کچھ دیر تو کھڑا سنتا رہا، آخر جنھجلا کر بولا۔ اچھا اب رہنے دو، اماں غلطی ہوئی ہم سب مانتے ہیں۔ بہت بڑی غلطی ہوئی، لیکن اب اس کیلیے آدمیوں کو حلال کر ڈالو گی۔ سبھی سے غلطیاں ہوتی ہیں۔ پچھتانے کے سوا آدمی اور کیا کر سکتا ہے۔ کسی کی جان تو نہیں ماری جاتی۔ آدمی غلطیوں ہی سے سیکھتا بھی تو ہے۔

بڑی بہو نے فرمایا۔ "ہم کیا جانتے تھے کہ بی بی (نند کملا) سے اتنا ذرا سا کام نہ ہوگا۔ چوہیا ترکاری میں بیٹھی ہوگی، انہوں نے ٹوکری کو بغیر دیکھے بھالے کڑھاؤ میں ڈال دیا۔"

کامتا ناتھ نے بیوی کو ڈانٹا۔ "اس میں نہ کملا کا قصور ہے نہ تمھارا نہ میرا، اتفاق ہے۔ اتنے بڑے بھوج میں ایک مٹھی ترکاری کڑھاؤ میں نہیں ڈالی جاتی۔ ٹوکرے کے ٹوکرے انڈیل دیئے جاتے ہیں۔ اس میں کیسی جگ ہنسائی اور کیسی نک کٹائی؟ تم خواہ مخواہ جلے پر نمک چھڑکتی ہو۔"

پھول متی۔ "شرماتے تو نہیں، الٹے اور بے حیائی کی باتیں کرنے لگے۔"

کامتا ناتھ۔ "شرماؤں کیوں، کسی کی چوری کی ہے۔ چینی میں چیونٹے اور آٹے میں گھن، یہ سب تو نہیں دیکھے جاتے۔ ہماری نگاہ نہ پڑی۔ بس یہی بات بگڑ گئی۔ ورنہ چپکے سے چوہیا پکڑ کر نکال دیتے کسی کو خبر تک نہ ہوتی۔"

پھول متی اس کفر پر استعجاب سے بولی۔ "کیا سب کو چوہیا کھلا کر انکا دھرم لے لیتا۔"

کامتا ناتھ ماں کی طرف نگاہِ ملامت سے دیکھ کر بولا۔ "کیا پرانے زمانے کی باتیں کر رہی ہو، اماں ان باتوں سے دھرم نہیں جاتا۔ یہ دھرماتما لوگ جو پتل سے اٹھ اٹھ کر گئے ہیں، ان میں ایسا کون ہے جو بھیڑ بکری کا گوشت نہیں کھاتا۔ تالاب کے کچھوے اور گھونگے تک تو کسی سے بچتے نہیں۔ کیا وہ ذرا سی چوہیا ان سب سے ناپاک ہے۔"

پھول متی کے پاس ایسی کٹ حجتوں کا جواب نہ تھا، اپنا سا منہ لے کر چلی گئی۔


(جاری ہے)


۔
 

محمد وارث

لائبریرین
بد نصیب ماں

(گزشتہ سے پیوستہ)


( 2 )


دو مہینے گزر گئے ہیں۔ رات کا وقت ہے۔ چاروں بھائی بھنگ پی کر کمرے میں بیٹھے مشورہ کر رہے ہیں۔ بڑی بہو بھی اس مجلس میں شریک ہیں۔

کامتا ناتھ نے مسند پر ٹک کر کہا۔ "میں تو کملا کی شادی میں اپنے حصے کی ایک پائی بھی نہیں دے سکتا، آخر میرے بھی تو بال بچے ہیں۔"

اما ناتھ۔ "تو یہاں کس کے پاس فالتو روپے ہیں، پانچ پانچ ہزار ہی تو ایک ایک کے حصے میں آئے ہیں۔ مجھے اپنا میڈیکل ہال کھولنے کیلیے کم از کم پانچ ہزار روپے کی ضرورت ہے۔"

دیا ناتھ۔ "مجھے بھی پریس اور اخبار کی فکر ہے۔ پانچ ہزار اپنے ہونگے تو پانچ ہزار کا کوئی ساجھی اور مل جائے گا۔ میں تو اپنے حصے میں سے ایک کوڑی بھی نہیں دے سکتا۔"

کامتا۔ "دادا نے پانچ ہزار جہیز ٹھہرایا تھا۔ اسکی ضرورت ہی کیا ہے کہ پنڈت مراری لال کے لڑکے سے شادی ہو۔ لڑکی قسمت والی ہو تو غریب گھر میں بھی آرام سے ہے، بدنصیب ہے تو راجہ کے گھر میں بھی روتی ہے، یہ تو نصیب کا کھیل ہے۔"

سیتا نے شرماتے ہوئے کہا۔ "یہ تو مناسب معلوم نہیں ہوتا کہ طے کی ہوئی سگائی توڑ دی جائے۔ ان سے کہا جائے کہ پانچ ہزار کی جگہ تین ہزار لے لیں۔ اسطرح پانچ ہزار میں شادی ہو سکتی ہے۔ میں اپنے حصے کے سب روپے دے دؤں گا۔"

کامتا ناتھ نے کھسیا کر بھائیوں سے کہا۔ "سنتے ہو اسکی باتیں۔"

اما ۔ "جب ٹھوکر کھائیں گے تو آنکھیں کھلیں گی۔"

کامتا ۔ "اتنا یاد رکھو کہ ہم لوگ تمھاری تعلیم کے ذمہ دار نہیں ہیں۔"

سیتا ۔ "جی ہاں یاد ہے۔"

اما ۔ "اور جو کہیں تمھیں ولایت جا کر پڑھنے کیلیے وظیفہ مل جائے تو سوٹ بوٹ اور سفر خرچ کیلیے روپیہ کہاں سے لاؤ گے۔ اس وقت کس کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھرو گے؟"

کامتا ۔ "اور وظیفہ تمھیں ملے گا، کہو میں آج لکھدوں۔"

اس دلیل نے سیتا ناتھ کو بھی توڑ لیا۔ فی الواقع اگر اسے سرکاری وظیفہ مل گیا تو چار پانچ ہزار تیاریوں کیلیے درکار ہونگے۔ کملا کیلیے وہ اتنی بڑی مہربانی ہر گز نہیں کر سکتا کہ اپنی زندگی کی سب سے بڑی آرزو پامال کر دے۔

بولا۔ "ہاں ایسی حالت میں تو مجھے بھی روپے کی ضرورت پڑے گی۔"

کامتا۔ "تو اسکی ایک صورت یہی ہے کہ کملا کی شادی کم سے کم خرچ میں کر دی جائے۔ ایک ہزار سے زیادہ ہم کسی طرح خرچ نہیں کر سکتے۔ پنڈت دین دیال کیسے رہیں گے؟ ایم۔اے بی۔اے نہ سہی، ججانی سے انکی آمدنی پچاس روپے ماہوار سے کم نہیں۔ عمر بھی ابھی چالیس سے زیادہ نہ ہوگی۔ پچھلے سال ہی تو بیوی مری ہے۔ مجھے یقین ہے کہ وہ جہیز کے بغیر راضی ہو جائیں گے۔"

اما۔ "جہیز کا کوئی سوال نہیں، تیسری شادی ہے۔"

کامتا۔ "یہ نہ کہو، وہ آج چاہیں تو دو ہزار پا سکتے ہیں۔ مگر ہمارے ساتھ کچھ دب جائیں گے۔ تو یہی صلاح ہے کہ مراری لال کو جواب دیا جائے اور دن دیال کے ساتھ سگائی طے کی جائے۔"

دیا۔ "اماں سے بھی پوچھ لینا چاہیئے۔"

کامتا۔ "اماں سے پوچھنا بیکار ہے، انکی تو جیسے عقل گھاس کھا گئی ہے۔ وہی پرانے وقتوں کی باتیں۔ مراری لال کے نام پر ادھار کھائے بیٹھی ہیں۔ یہ نہیں سمجھتیں کہ وہ زمانہ نہیں رہا۔"

اما۔ "وہ مانیں گی نہیں، اپنے زیور بیچ کر شادی کریں گی، دیکھ لیجیے گا۔"

کامتا۔ "ہاں یہ ممکن ہے، زیوروں پر انکا پورا اختیار ہے۔ یہ انکا استری دھن ہے، وہ جو چاہیں کر سکتی ہیں۔"

دیا ناتھ۔ "استری دھن ہے تو کیا اسے لٹا دیں گی؟ آخر وہ بھی تو دادا ہی کی کمائی ہے۔"

کامتا۔ "کسی کی کمائی ہو، استری دھن عورت کی چیز ہے۔"

اما۔ "یہ سب فانی گورکھ دھندے ہیں۔ استری دھن کوئی چیز نہیں۔ گہنے دس ہزار سے کم کے نہیں۔ اتنی بڑی رقم ہم کھو دینے کیلیے تیار نہیں۔ کسی بہانے سے یہ گہنے اپنے ہاتھ میں کرنے ہونگے۔ ابھی دین دیال کا ذکر نہ کرو ورنہ تاڑ جائیں گی۔ گہنے اپنے پاس آجائیں تو صاف صاف کہہ دو، تب کیا کر لیں گی۔"

دیا۔ "ہاں یہ ترکیب اچھی ہے۔"

کامتا۔ "مجھے تو دھوکہ کی چال اچھی معلوم نہیں ہوتی۔ جس چیز پر ہمارا حق ہے اس کیلیے ہم لڑ سکتے ہیں۔ جس پر ہمارا حق نہیں اس کیلیے ہم دھوکا دھڑی نہیں کر سکتے۔"

دیا ناتھ۔ "تو آپ لوگ الگ بیٹھے رہیں، جا کر کہتا ہوں کہ میں نے ایک اخبار میں مضمون لکھا تھا۔ اس پر سرکار مقدمہ چلا رہی ہے۔ پانچ ہزار کی ضمانت دینی پڑے گی۔ آپ اپنے زیور دے دیں تو میری جان بچ جائے گی۔ آپ لوگ بھی کچھ نمک مرچ ملا دیجیے گا۔"

کامتا۔ "نا بھیا، میں اس کام کے قریب نہ جاؤں گا۔"

سیتا۔ "میرا بھی استعفٰی ہے۔"

اما۔ "ان لوگوں کو جانے دو جی، ہم اور تم مل کر رنگ جما لیں گے۔ یہ دھرماتما لوگ ہیں۔ بھیا نوکر ہی ہیں۔ سیتا کو وظیفہ ملنے والا ہے۔ ضرورت تو ہمیں اور تمھیں ہے۔"

بڑی بہو نے فرمایا۔ "پچاس روپے کے ہی تو نوکر ہیں یا اور کچھ۔ اتنے دن مجھے آئے ہوگئے، پیتل کا ایک چھلا بھی نہ بنوایا، توفیق ہی نہ ہوئی، آج دھرماتما بنے ہیں۔"

اما۔ "اماں کے زیور مل جائیں گے تو انکا ہار تمھیں دے دونگا۔ بھئی خاطر جمع رکھو۔"

بڑی بہو۔ "مل چکے، وہ گڑ نہیں جو چینٹے کھائیں۔"

دیا۔ "اچھا تو اسی بات پر ابھی جاتا ہوں۔ زیور لیکر نہ آؤں تو منہ نہ دکھاؤں۔"

یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ دیا ناتھ کی کوڑی چت پڑی۔ ماں کا مامتا بھرا دل بیٹے کی مصیبت دیکھ کر کیوں نہ پسیجتا۔ پھول متی یہ داستان سنتے ہی باؤلی ہوگئی۔ اس پر اما ناتھ نے اور بھی ردا جمایا۔ "اگر صبح دس بجے تک روپے داخل نہ ہوئے تو ہتھکڑیاں پڑ جائیں گی۔ بنک سے روپے ابھی تو نہیں مل سکتے۔ مہینوں خط و کتابت ہوگی، وراثت کا فیصلہ ہوجائے گا تب کہیں جا کر روپے ملیں گے۔" پھول متی کو یہ کب برداشت ہو سکتا تھا کہ اسکے زیوروں کے ہوتے ہوئے اسکے بیٹے کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں پڑ جائیں۔ سارے زیور نکال کر دیا ناتھ کو دے دیئے۔ اسطرح اپنی ماں کی گردن پر خنجر چلا کر دونوں ناخلف خوش خوش بھائیوں کے پاس لوٹ آئے۔


(جاری ہے)

۔
 

محمد وارث

لائبریرین
بد نصیب ماں

(گزشتہ سے پیوستہ)



( 3 )

دو تین مہینے اور گزر گئے، زیوروں پر تصرف کرکے چاروں بھائی اب ماں کی دلجوئی کرنے لگے۔ اپنی بیویوں کو سمجھاتے رہتے کہ اماں کا دل نہ دکھائیں۔ اگر اسکی تشفی تھوڑی سی ظاہر داری سے ہو جاتی ہے تو اس میں کیوں کمی کی جائے اور چاروں کرتے اپنے دل کی، مگر ماں سے صلاح لے لیتے یا ایسا جال پھیلاتے کہ وہ انکی باتوں میں آ جاتی اور ہر ایک بات میں رضا مند ہو جاتی۔ باغ کا فروخت کرنا اسے بہت ناگوار گزرا تھا لیکن چاروں نے ایسی بندشیں باندھیں کہ وہ اسے بیع کرنے پر راضی ہوگئی۔ ہاں کملا کی شادی کے معاملے میں بیٹوں سے اسکا اتفاق نہ ہوا۔ وہ کہتی تھی کہ شادی مراری کے لڑکے سے ہی ہوگی۔ چاروں بھائی پنڈت دین دیال سے کرنا چاہتے تھے۔ ایک دن اس بات پر تکرار کی نوبت آ گئی۔

پھول متی نے کہا۔ "ماں باپ کی کمائی میں کیا بیٹی کا حصہ نہیں ہے۔ تمھیں دس ہزار کا ایک باغ ملا، پچیس ہزار کا مکان۔ بیس ہزار نقد میں سے کیا پانچ ہزار بھی کملا کا حصہ نہیں ہے؟"

کامتا ناتھ نے نرمی سے کہا۔ "اماں کملا ہماری بہن ہے اور ہم اپنے مقدور بھر کوئی ایسی بات نہ کریں گے جس سے اسے نقصان ہو۔ لیکن حصے کی جو بات کہتی ہو تو کملا کا حصہ کچھ نہیں ہے۔ دادا جب زندہ تھے تب اور بات تھی۔ اب تو ہمیں ایک ایک پیسے کی کفایت کرنا پڑے گی۔ جو کام ایک ہزار سے ہو جائے اس کیلیے پانچ ہزار خرچ کرنا کہاں کی عقلمندی ہے؟"

اما ناتھ نے تصیح کی۔ "پانچ ہزار کیوں صاحب دس ہزار کہیئے۔ دعوت ضیافت رسم و رسوم میں کیا پانچ ہزار بھی خرچ نہ ہونگے؟"

کامتا۔ "ہاں ٹھیک ہے، دس ہی سمجھو، دس ہزار روپے ایک شادی میں خرچ کرنے کی اب ہماری حیثیت نہیں ہے۔"

پھول متی نے ضد پکڑ کر کہا۔ "شادی تو مراری لال کے لڑکے سے ہی ہوگی۔ چاہے پانچ ہزار خرچ ہوں، چاہے دس ہزار، میرے شوہر کی کمائی ہے۔ میں نے مر مر کر جوڑا ہے، اپنی مرضی سے خرچ کرونگی۔ تم سے مانگنے جاؤں تو مت دینا۔"

کامتا ناتھ کو اب تلخ حقیقت کے اظہار کے سوا چارہ نہ رہا۔ بولے "اماں تم خواہ مخواہ بات بڑھاتی ہو۔ جس روپے کو تم اپنا سمجھتی ہو وہ تمھارا نہیں ہے، وہ ہمارا ہے۔ ایک ایک پائی ہماری ہے۔ تم ہماری مرضی کے بغیر اس میں سے کچھ خرچ نہیں کر سکتیں۔"

پھول متی کو جیسے سانپ نے ڈس لیا، بولی۔ "کیا کہا، پھر تو گویا میں اپنے ہی روپے اپنی مرضی سے خرچ نہیں کر سکتی؟"

کامتا۔ "وہ روپے تمھارے نہیں، ہمارے ہیں۔"

پھول متی۔ "تمھارے ہونگے لیکن میرے مرنے کے بعد۔"

کامتا۔ "نہیں دادا کے مرتے ہی سب کچھ ہمارا ہوگیا۔"

اما۔ "اماں قانون تو جانتی نہیں، خواہ مخواہ الجھتی ہیں۔"

پھول متی کی بے نور آنکھیں شعلے کی طرح دیک اٹھیں۔ چہرہ لال ہوگیا، بولی۔ "تمھارا قانون بھاڑ میں جائے۔ ایسے قانون میں آگ لگے۔ میں ایسے لچر قانون کو نہیں مانتی، یہ قانون ہے کہ گلے پر چھری پھیرنا۔ تمھارے دادا ایسے کوئی دھنا سیٹھ نہ تھے۔ میں نے پیٹ اور تن کاٹ کر یہ روپے جمع کیے ہیں، نہیں تو آج اس گھر میں دھول اڑتی ہوتی، گھر ہی کہاں ہوتا۔ میرے جیتے جی تم میرے روپے چھو نہیں سکتے، میں نے تم چاروں بھائیوں کی شادی میں دس دس ہزار روپے خرچ کیے ہیں۔ تمھاری پڑھائی میں بھی پانچ پانچ ہزار سے کم خرچ نہ ہوئے ہونگے۔ کملا بھی تو میرے پیٹ سے پیدا ہوئی ہے، اسکی شادی میں بھی دس ہزار خرچ کرونگی، جو کچھ بچے گا، تم لے لینا۔"

اما ناتھ نے جھلا کر کہا۔ "بھائی صاحب آپ ناحق اماں کے منہ لگتے ہیں۔ چل کر مراری لال کو خط لکھ دیجیے۔ یہ قاعدہ قانون تو جانتی نہیں، بیکار بحث کرتی ہیں۔"

پھول متی نے ضبط کر کے کہا۔ "اچھا کیا قانون ہے۔ ذرا میں بھی سنوں۔"

اما۔ "قانون یہی ہے کہ باپ کے مرنے بعد ساری جائیداد بیٹوں کی ہو جاتی ہے، ماں کا حق صرف گزارہ لینے کا ہے۔"

پھول متی نے پوچھا۔ "کس نے بنایا ہے ایسا قانون؟"

اما۔ "ہمارے رشیوں نے، مہاراج منو نے اور کس نے؟"

پھول متی۔ "گھر میں نے بنوایا ہے۔ روپے میں نے جوڑے ہیں، باغ میں نے خریدا اور آج اس گھر میں غیر ہوں؟ منو نے یہ قانون بنایا ہے؟ اچھی بات ہے، اپنا گھر بار لو، میری جان چھوڑو۔ اسطرح محتاج بن کر رہنا مجھے منظور نہیں۔ اس سے کہیں اچھا ہے کہ میں مر جاؤں۔ واہ رے اندھیر، میں نے ہی درخت لگایا اور میں ہی اسکا پتا نہیں توڑ سکتی۔ میں نے گھر بنوایا، میں ہی اس میں نہیں رہ سکتی۔ اگر یہی قانون ہے تو اس میں آگ لگ جائے۔ اگر میں جانتی کہ میری یہ درگت ہونیوالی ہے تو ساری جائیداد اپنے نام کرا لیتی۔"

چاروں نوجوانوں پر ماں کی تندہی کا کوئی اثر نہ ہوا۔ قانون کا فولادی درہ انکی حفاظت کر رہا تھا۔ اس کچے لوہے کا ان پر کیا اثر ہوتا۔

شام ہوگئی تھی، دروازے پر نیم کا درخت سر جھکائے کھڑا تھا۔ اس کے پتوں میں بھی حس نہ تھی۔ رخصت ہونے والے آفتاب کی ٹھنڈی کرنیں جیسے جائے پناہ ڈھونڈتی پھرتی تھیں۔ پھول متی آہستہ سے اٹھ کر اپنی کوٹھڑی میں چلی گئی۔


(جاری ہے)


۔
 

محمد وارث

لائبریرین
بد نصیب ماں


(گزشتہ سے پیوستہ)


( 4 )

پھول متی اپنے کمرے میں جا کر لیٹی تو اسے معلوم ہوا کہ اسکی کمر ٹوٹ گئی ہے۔ شوہر کے مرتے ہی اپنے پیٹ کے جنے لڑکے اسکے دشمن ہو جائیں گے، اسکا اسے کبھی خواب میں بھی گمان نہ ہوا تھا۔ جن لڑکوں کو اسنے خونِ جگر پلا پلا کر پالا تھا، جن پر اسے غرور تھا، وہی آج اسے یوں آنکھیں دکھا رہے ہیں، واہ رے زمانے کی خوبی۔ اب اس گھر میں رہنا اسے عذاب معلوم ہوتا تھا، جہاں اسکی کچھ قدر نہیں، کچھ گنتی نہیں، وہاں لا وارثوں کی طرح پڑی روٹیاں کھائے یہ اسکی خود دار طبیعت کیلیے حد درجہ گراں تھا مگر چارہ ہی کیا تھا۔ وہ لڑکوں سے الگ ہو کر رہے بھی تو کسکی ناک کٹے گی۔ زمانہ اسے تھوکے تو کیا اور لڑکوں کو تھوکے تو کیا، بدنامی تو اسکی ہے۔ دنیا تو یہی کہے گی کہ چار جوان بیٹوں کے ہوتے بڑھیا الگ پڑی ہے۔ مزدوری کر کے پیٹ پال رہی ہے۔ جنہیں اس نے ہمیشہ حقارت سے کی نظر سے دیکھا وہی اب اس پر ہنسیں گے۔ نہیں یہ ذلت اس بیکسی کی ذلت سے کہیں زیادہ دل شکن تھی۔ اب اسے اپنے کو ایک نئے طرز کا عادی بنانا پڑے گا۔ اب زمانہ بدل گیا ہے۔ اب اس نئے ماحول کے اندر زندگی بسر کرنی ہوگی۔ اب تک مالکن بنکر رہی اب لونڈی بنکر رہنا پڑے گا۔ ایشور کی یہی مرضی ہے، اپنے بیٹوں کی لاتیں اور باتیں غیروں کی لاتوں اور باتوں کے مقابلے میں پھر بھی غنیمت ہیں۔ وہ بڑی دیر تک منہ ڈھانپے اپنی اس بیکسی پر روتی رہی۔ ساری رات اس روحانی کوفت میں گزر گئی۔

جاڑوں کی صبح آہستہ آہستہ ڈرتی ڈرتی تاریکی کے پردے سے نکلی جیسے کوئی قیدی چھپ کر جیل سے نکل آیا ہو۔ پھول متی معمول کے خلاف آج تڑکے ہی اٹھی۔ رات بھر اس کا روحانی تناسخ ہو چکا تھا۔ سارا گھر سو رہا تھا اور وہ آنگن میں جھاڑو لگا رہی تھی، رات بھر شبنم میں بھیگی ہوئی پختہ زمین اسکے ننگے پیروں میں کانٹوں کی طرح چبھ رہی تھی۔ پنڈت زندہ تھے تب اسے بہت سویرے نہ اٹھنے دیتے تھے۔ ٹھنڈ اسے بہت مضر تھی، مگر اب وہ دن نہیں رہے۔ جھاڑو سے فرصت پا کر اسنے آگ جلائی اور کنکریاں چننے لگی۔ رفتہ رفتہ لڑکے جاگے، بہویں اٹھیں۔ سبھوں نے بڑھیا کو سردی سے سکڑتے ہوئے کام کرتے دیکھا، پر کسی نے یہ نہ کہا کہ اماں کیوں ہلکان ہوتی ہو، شاید وہ بڑھیا کی اس بیکسی پر دل میں خوش ہو رہے تھے۔

آج سے پھول متی کا یہی وطیرہ ہوگیا کہ جو کچھ بن پڑے گھر کا کام کرنا، سارے گھر کی خدمت کرنا اور انتظامی امور سے الگ رہنا۔ اسکے چہرے پر جو ایک خود داری کی جھلک نمایاں تھی اسکی جگہ ایک حسرتناک بے بسی چھائی ہوئی نظر آتی تھی، جہاں بجلی جلتی تھی وہاں اب تیل کا چراغ ٹمٹما رہا تھا، جسکے بجھانے کیلیے ہوا کا ایک ہلکا سا جھونکا کافی تھا۔

بھائیوں نے طے شدہ تجویز کے مطابق مراری لال کو ایک انکاری خط لکھ بھیجا اور دین دیال سے کملا کی شادی ہوگئی۔ دین دیال کی عمر چالیس سال سے کچھ زیادہ تھی اور خاندانی وجاہت میں ہیٹے تھے لیکن دال روٹی سے خوش تھے۔ بغیر کسی قرارداد کے شادی کرلی۔ تاریخ مقرر ہوئی، بارات آئی، شادی ہوئی، کملا رخصت ہوگئی۔ کملا کے دل پر کیا گزر رہی تھی، اسے بھی کون جان سکتا ہے۔ لیکن چاروں بھائی بیحد خوش تھے، گویا انکے پہلو سے کانٹا نکل گیا ہو۔ شریف خاندان کی لڑکی گھر والوں کی رضا میں راضی تھی۔ تقدیر میں آرام لکھا ہوگا، آرام کرے گی۔ تکلیف لکھی ہوگی، تکلیف اٹھائے گی۔ گھر والوں نے جس سے شادی کردی اس میں ہزار عیب بھی ہوں تو یہی اسکا معبود، اسکا مالک، انحراف اسکے وہم و گمان سے باہر تھا۔

پھول متی نے کسی کام میں دخل نہ دیا۔ کملا کو کیا دیا گیا، مہمانوں کی خاطر مدارت کی گئی، کس کے ہاں سے نوید میں کیا آیا، اسے کسی امر سے سروکار نہ تھا۔ اس سے کچھ صلاح بھی لی گئی تو یہی کہا کہ "بیٹا تم لوگ جو کچھ کرتے ہو اچھا ہی کرتے ہو، مجھ سے کیا پوچھتے ہو۔"

جب کملا کیلیے دروازے پر ڈولی آگئی اور کملا ماں کے گلے لپٹ کر رونے لگی تو وہ اسے اپنی کوٹھڑی میں لے گئی اور جو کچھ سو پچاس روپے اور دو چار زیور اسکے پاس بچ رہے تھے بیٹی کے آنچل میں ڈالکر بولی۔ "بیٹی، میری تو دل کی دل ہی میں رہ گئی۔ نہیں تو آج کیا تمھاری شادی اسطرح ہوتی اور تم اسطرح بدا کی جاتیں۔"

کملا نے زیور اور روپے آنچل سے نکال کر ماں کے قدموں میں رکھ دیئے اور بولی۔ "اماں، میرے لیے تمھاری آشیرباد لاکھوں روپے کے برابر ہے۔ تم ان چیزوں کو اپنے پاس رکھو، نہیں معلوم ابھی تمھیں کن کن مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔" پھول متی کچھ کہنا چاہتی تھی کہ اما ناتھ نے آ کر کہا۔ "کیا کر رہی ہو۔ کملا چل جلدی کر ساعت ٹلی جاتی ہے۔ وہ لوگ جلدی مچا رہے ہیں، پھر تو دو چار مہینے میں آئے گی ہی، جو کچھ لینا دینا ہو لے لینا۔" پھول متی نے دل کو سنبھال کر کہا۔ "میرے پاس اب کیا ہے بیٹا جو میں اسے دونگی۔ جاؤ بیٹی بھگوان سہاگ امر کریں۔"

کملا رخصت ہوگئی، پھول متی پچھاڑ کھا کر گر پڑی۔




( 5 )

ایک سال گزر گیا۔ پھول متی کا کمرہ گھر میں سب کمروں سے وسیع اور ہوا دار تھا۔ اسنے اسے بڑی بہو کیلیے خالی کر دیا اور ایک چھوٹی سے کوٹھڑی میں رہنے لگی، جیسے کوئی بھکارن ہو۔ لڑکوں اور بہوؤں سے اب اسے کوئی تعلق نہ تھا۔ وہ اب گھر کی لونڈی تھی۔ گھر کے کسی فرد کے معاملے سے اسے دلچسپی نہ تھی۔ وہ زندہ صرف اسلیے تھی کہ اسے موت نہ آتی تھی۔ خوشی یا رنج کا اسکے اوپر کوئی اثر نہ تھا۔ اما ناتھ کا مطب کھلا، احباب کی دعوت ہوئی۔ دیا ناتھ نے اخبار جاری کیا پھر جلسہ ہوا۔ سیتا ناتھ کو وظیفہ ملا، وہ ولایت پڑھنے گیا پھر جشن ہوا۔ کامتا ناتھ کے بڑے لڑکے کا ایگیوپویت ہوا، خوب دھوم دھام ہوا، پھول متی کے چہرے پر مسرت کی خفیف سی جھلک بھی نظر نہ آئی۔ اما ناتھ ٹائیفائڈ میں مہینہ بھر بیمار رہے۔ دیا ناتھ نے ایک مضمون لکھا اور دفعہ 144 میں چھ مہینے کیلیے جیل چلے گئے۔ کامتا ناتھ نے ایک معاملے میں رشوت لیکر غلط رپورٹ لکھی اور سال بھر کیلیے معطل کر دیئے گئے، پھول متی کے چہرے پر رنج کی پرچھائیں تک نہ پڑیں۔ اسکی زندگی میں کسی قسم کی دلچسپی، کوئی آرزو، کوئی فکر نہ تھی۔ بس چوپایوں کی طرح کام کرنا اور کھانا، یہی اسکی زندگی کے دو کام تھے۔ جانور مارنے سے کام کرتا ہے مگر کھاتا ہے دل سے، وہ بے کہے کام کرتی تھی مگر کھاتی تھی زہر کے نوالوں کی طرح۔ مہینوں سر میں تیل نہ پڑتا، مہینوں کپڑے نہ دھلتے، کچھ پرواہ نہیں۔ اس میں احساس ہی گویا فنا ہوگیا تھا۔

ساون کی جھڑی لگی ہوئی تھی۔ ملیریا پھیل رہا تھا۔ آسمان پر مٹیالے بادل، زمین پر مٹیالا پانی، نم ہوا، سینوں میں بلغم اور کف بھرتی پھرتی تھی۔ مہری اور کہارن دونوں بیمار پڑ گئے تھے۔ پھول متی نے گھر کے سارے برتن مانجھے۔ پانی میں بھیگ کر سارا کام کیا، آگ جلائی، پتیلیاں چڑھا دیں اور گنگا سے پانی لانے چلی۔ کامتا ناتھ روزانہ گنگا جل پیتے تھے۔ نل کا پانی انہیں موافق نہ تھا۔

کامتا ناتھ نے چارپائی پر بیٹھے بیٹھے کہا۔ "رہنے دو اماں، میں پانی بھر لاؤں گا۔ کہارن اور مہری آج دونوں غائب ہیں۔"

پھول متی نے مٹیالے آسمان کی طرف دیکھ کر کہا۔ "تم بھیگ جاؤ گے بیٹا، سردی ہو جائے گی۔"

"تم بھی رہنے دو، کہیں بیمار نہ پڑ جاؤ"

"میں بیمار نہیں پڑوں گی، مجھے بھگوان نے امر کردیا ہے۔"

اما ناتھ بھی وہیں بیٹھا ہوا تھا۔ اسکے مطب میں کچھ نفع نہ ہوتا تھا اسلیے بہت پریشان رہتا تھا۔ "جانے بھی دو بھیا، بہت دنوں بہوؤں پر حکومت کر چکی ہے، اسکا خمیازہ اٹھانے دو۔"

گنگا بڑھی ہوئی تھی۔ معلوم ہوتا تھا سمندر ہے، افق پانی کے ساحل سے ملا ہوا تھا۔ کنارے کے درختوں کی صرف پھنگیاں پانی کے اوپر نظر آتی تھیں۔ پھول متی کلسا لیے ہوئے سیڑھیوں کے نیچے اتری، پاؤں پھسلا، سنبھل نہ سکی۔ پانی میں گر پڑی، پل بھر ہاتھ پاؤں چلائے پھر لہریں اسے نیچے کھینچ لے گئیں۔ کنارے پر دو چار پنڈت چلائے۔ "ارے بڑھیا ڈوبی جاتی ہے۔" دو چار آدمی دوڑے بھی، لیکن پھول متی لہروں میں سما گئی تھی، ان بل کھاتی لہروں میں جنہیں دیکھ کر ہی انسان سہم اٹھتا ہے۔ ایک نے پوچھا۔

"یہ کون بڑھیا تھی؟"

"ارے وہی پنڈت اجودھیا ناتھ کی بیوہ ہے۔"

"ہاں اسکی تقدیر میں ٹھوکر کھانا لکھا تھا۔"

"اسکے تو کئی لڑکے بڑے بڑے ہیں اور سب کماتے ہیں۔"

"ہاں سب ہیں بھائی، مگر تقدیر بھی تو کوئی چیز ہے۔"



(ختم شد)


۔
 

محمد وارث

لائبریرین
شانتی


مرحوم دیوناتھ میرے دوستوں میں سے تھے۔ جب انکی یاد آجاتی ہے تو وہ رنگ رلیاں آنکھوں میں پھر جاتی ہیں اور کہیں تنہائی میں جا کر ذرا دیر رو لیتا ہوں۔ میرے اور انکے درمیان دو اڑھائی سو میل کا فاصلہ تھا۔ میں لکھنؤ میں تھا، وہ دہلی میں۔ لیکن شاید ہی کوئی ایسا مہینہ جاتا کہ ہم آپس میں نہ مل لیتے ہوں۔ وہ نہایت شریف، محبت نواز اور دوستوں پر جان دینے والے آدمی تھے۔ جنہوں نے اپنے اور پرائے میں کبھی امتیاز نہیں کیا۔ دنیا کیا ہے اور یہاں شرافت و محبت کا صلہ کیا ملتا ہے، انہوں نے کبھی نہ جانا اور نہ جاننے کی کوشش کی۔ ان کی زندگی میں کئی ایسے موقع آئے جب انہیں آئندہ کیلیے ہوشیار ہو جانا چاہیئے تھا۔ دوستوں نے انکی صاف دلی سے نامناسب فائدہ اٹھایا اور کئی مرتبہ انہیں شرمندہ بھی ہونا پڑا۔ لیکن اس بھلے آدمی نے زندگی سے سبق لینے کی قسم کھائی تھی، انکے طرزِ عمل میں کوئی تبدیلی نہ ہوئی۔ جیسے بھولا ناتھ جئے ویسے ہی بھولا ناتھ مرے۔

جس دنیا میں وہ رہتے تھے وہ نرالی دنیا تھی جس میں بدگمانی و چالاکی اور بغض و حسد کیلیے گنجائش نہ تھی۔ سب اپنے تھے، کوئی غیر نہ تھا۔ میں نے بار بار انہیں متنبہ کرنا چاہا لیکن اسکا نتیجہ امید کے خلاف برآمد ہوا۔ زندگی کے خوابوں کو پریشان کرتے ہوئے انکا دل دکھتا تھا۔ مجھے کبھی فکر ہوتی تھی کہ انہوں نے ہاتھ بند نہ کیا تو نتیجہ کیا ہوگا۔ مصیت یہ تھی کہ انکی بیوی گوپا بھی کچھ اسی سانچے میں ڈھلی ہوئی تھی۔ ہماری دیویوں میں جو ایک مآل اندیشی ہوتی ہے اور اڑاؤ مردوں کی غیر مآل اندیشیوں کیلیے بنک کا کام کرتی ہیں، اس سے گوپا محروم تھی۔ یہاں تک کہ اسے کپڑوں اور زیوروں کا بھی شوق نہ تھا۔

جب مجھے دیوناتھ کے انتقال کی خبر ملی اور میں بھاگا ہوا دہلی گیا تو گھر میں برتن بھانڈے کے سوا اور کوئی سامان نہ تھا۔ ابھی مرحوم کی عمر ہی کیا تھی جو زیادہ فکر کرتے۔ پورے چالیس کے بھی تو نہ ہوئے تھے۔ یوں تو لڑکپن انکی سرشت میں داخل تھا لیکن اس عمر میں سب ہی لوگ بے فکر ہوتے ہیں۔ پہلے ایک لڑکی ہوئی تھی اسکے بعد دو لڑکے ہوئے، دونوں لڑکے بچپن ہی میں داغ دے گئے، لڑکی بچ رہی تھی۔

جس طرزِ معاشرت کے وہ عادی تھے اسے دیکھتے ہوئے اس مختصر کنبے کیلیے دو سو روپے ماہوار کی ضرورت تھی۔ دو تین سال میں لڑکی کا بیاہ بھی کرنا ہوگا، ایسے کیا ہوگا میری عقل کام نہ کرتی تھی۔

اس موقع پر مجھے یہ بیش قیمت تجربہ ہوا کہ جو لوگ خدمتِ خلق کرتے ہیں اور ذاتی مفاد کو اپنی زندگی کا مقصد نہیں سمجھتے، انکے پس ماندوں کو آڑ دینے والوں کی کبھی کمی نہیں رہتی۔ یہ کوئی قاعدہ نہیں ہے کیونکہ میں نے ایسے لوگوں کو بھی دیکھا ہے جنہوں نے زندگی میں بہتوں کے ساتھ سلوک کیے لیکن انکے بعد انکے بال بچوں کی کسی نے بات تک نہ پوچھی۔ لیکن چاہے کچھ ہو، دیوناتھ کے دوستوں نے شرافت سے کام لیا اور گوپا کی بسر اوقات کیلیے روپیہ جمع کرنے کی تجویز کی۔ ایک صاحب جو رنڈوے تھے اس سے بیاہ کرنے کو بھی تیار تھے لیکن گوپا نے اسی جذبے کا اظہار کیا جو ہماری دیویوں کا جوہر ہے اور تجویز کو رد کردیا۔ مکان بہت بڑا تھا اسکا ایک حصہ کرائے پر اٹھا دیا۔ اسطرح پچاس روپے ملنے لگے۔ وہ اتنے ہی میں اپنا نباہ کرلے گی، جو کچھ خرچ تھا وہ اسی کی ذات سے تھا۔

اس کے ایک مہینے بعد مجھے کاروبار کے سلسلے میں غیر ممالک جانا پڑا اور وہاں میرے اندازے سے کہیں زیادہ دو سال لگ گئے۔ گوپا کے خط برابر جاتے رہتے تھے جن سے معلوم ہوتا تھا کہ وہ آرام سے ہے، کوئی فکر کی بات نہیں۔ مجھے بعد میں معلوم ہوا گوپا نے مجھے غیر سمجھا اور صحیح حالت چھپاتی رہی۔

پردیس سے لوٹ کر میں سیدھا دہلی پہنچا۔ دروازے پر پہنچتے ہی مجھے رونا آگیا، موت کی افسردگی طاری تھی۔ جس کمرے میں دوستوں کے جمگھٹ رہتے تھے اس کے دروازے بند تھے۔ مکڑیوں نے چاروں طرف جالے تان رکھے تھے۔ پہلی نظر میں تو شبہ ہوا کہ دیوناتھ دروازے پر کھڑے میری طرف دیکھ کر کچھ کہہ رہے ہیں۔ میں توہم پرست نہیں ہوں اور اجسام روحانی کا بھی قائل نہیں ہوں لیکن اس وقت میں ایک بار چونک ضرور پڑا۔ دل میں ایک لرزش سی محسوس ہوئی لیکن دوسری نظر میں یہ خیالی تصویر مٹ چکی تھی۔ دروازہ کھلا، گوپا کے سوا کھولنے والا ہی کون تھا؟

میں نے اسے دیکھ کر دل تھام لیا۔ اسے میرے آنے کی اطلاع تھی اور اس نے میرے استقبال کیلیے نئی ساڑھی پہن لی اور شاید بال بھی گوند لیے تھے پر ان دو برسوں میں وقت نے اس پر جو مظالم ڈھائے تھے انہیں وہ کیا کرتی؟ عورتوں کی زندگی میں یہ وہ عمر ہے جب حسن و شباب اپنے عروج پر ہوتا ہے۔ جب اس میں اکھڑ پن، شرم اور بے اعتنائی کی جگہ لگاوٹ، خوش ادائی اور دل آویزی آجاتی ہے۔ لیکن گوپا کی جوانی ختم ہوچکی تھی۔ اسکے چہرے پر جھریاں تھیں، بالوں میں سفیدی آگئی تھی۔

میں نے پوچھا۔ "کیا تم بیمار تھیں گوپا؟"

اس نے آنسو پی کر کہا۔ "نہیں تو، میرے تو کبھی سر میں درد بھی نہیں ہوا۔"

"تو تمھاری یہ کیا حالت ہے؟ بالکل بوڑھی ہوگئیں۔"

"تو اب جوانی لیکر کرنا ہی کیا ہے؟ میری عمر بھی تو بتیس سے اوپر ہوگئی۔"

"یہ عمر تو زیادہ نہیں ہوتی۔"

"ہاں ان کیلیے جو بہت جینا چاہتے ہوں۔ میں تو یہ چاہتی ہوں کہ جتنی جلدی ہوسکے زندگی کا خاتمہ ہو جائے۔ بس بسنتی کے بیاہ کی فکر ہے۔ اسے سے چھٹی پا جاؤں پھر مجھے زندگی کی پروا نہ رہے گی۔"

اب معلوم ہوا کہ جو صاحب اس مکان میں کرایہ دار تھے وہ ٹھوڑے دنوں بعد تبدیل ہوکر چلے گئے اور تب سے کوئی دوسرا کرایہ دار نہ آیا۔ میرے دل میں برچھی سی چبھ گئی۔ اتنے دنوں بیچاروں نے کسطرح بسر کی، خیال ہی دردناک تھا۔


(جاری ہے)

۔
 

محمد وارث

لائبریرین
شانتی

(گزشتہ سے پیوستہ)



میں نے متاسف ہو کر کہا۔ "لیکن تم نے مجھے اطلاع کیوں نہیں دی؟ کیا میں بالکل غیر ہوں؟"

گوپا نے شرمندہ ہو کر کہا۔ "نہیں نہیں، یہ بات نہیں ہے۔ تمھیں غیر سمجھوں گی تو اپنا کسے سمجھوں گی؟ میں نے سوچا پردیس میں تم خود اپنے جھمیلے میں پڑے ہونگے۔ تمھیں کیا ستاؤں۔ کسی نہ کسی طرح دن کٹ ہی گئے، گھر میں اور کچھ نہ تھا تو تھوڑے سے گہنے تھے ہی، اب سنتی کے بیاہ کا فکر ہے۔ پہلے میں نے سوچا تھا کہ اس مکان کو الگ کر دوں گی، بیس بائیس ہزار روپے مل جائیں گے، لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ مکان پہلے ہی رہن ہو چکا ہے، اور سود ملا کر اس پر بیس بائیس ہزار روپے ہوگئے ہیں۔ مہاجن نے اتنی ہی دیا کیا کم کی کہ مجھے گھر سے نکال نہیں دیا۔ ادھر سے تو اب کوئی امید نہیں۔ بہت ہاتھ پاؤں جوڑنے پر شاید مہاجن سے دو ڈھائی ہزار روپے اور مل جائیں، اتنے میں کیا ہوگا؟ اسی فکر میں گھلی جا رہی ہوں۔ لیکن میں بھی کتنی مطلبی ہوں۔ نہ تمھیں ہاتھ منہ دھونے کو پانی دیا نہ کچھ ناشتے کو لائی اور اپنا دکھڑا لے بیٹھی۔ اب آپ کپڑے اتارئیے اور آرام سے بیٹھیے۔ کچھ کھانے کو لاؤں، کھا لیجیے تب باتیں ہوں۔ گھر میں تو سب خیریت ہے؟"

میں نے کہا۔ "میں تو بمبئی سے سیدھا یہاں آرہا ہوں، گھر کہاں گیا۔"

گوپا نے مجھے مخمور نگاہوں سے دیکھا۔ اس وقت اسکی نگاہوں میں شباب کی جھلک تھی۔ مجھے ایسا معلوم ہوا کہ اسکے چہرے کی جھریاں مٹ گئی ہیں۔ چہرے پر ہلکی سی سرخی دوڑ گئی۔ اس نے کہا۔ "اسکا نتیجہ یہ ہوگا کہ تمھاری دیوی جی تمھیں کبھی یہاں نہ آنے دیں گی۔"

"میں کسی کا غلام ہوں۔"

"کسی کو اپنا غلام بنانے کیلیے پہلے خود بھی اسکا غلام بننا پڑتا ہے۔"

شام ہو رہی تھی۔ سنتی لالٹین لیکر کمرے میں آئی۔ دو سال پیشتر کی معصوم لڑکی اب شباب میں قدم رکھ چکی تھی۔ جسے گود میں اٹھا کر پیار کیا کرتا تھا اسکی طرف آج آنکھیں نہ اٹھا سکا۔ اور وہ جو میرے گلے سے لپٹ کر خوش ہوتی تھی، آج میرے سامنے کھڑی بھی نہ رہ سکی۔ جیسے مجھ سے کوئی چیز چھپانا چاہتی ہے اور جیسے میں اسے اس چیز کے چھپانے کا موقع دے رہا ہوں۔

میں نے پوچھا۔ "سنتی اب تم کس درجے میں پڑھتی ہو؟"

اس نے سر جھکائے ہوئے جواب دیا۔ "دسویں میں ہوں۔"

"گھر کا بھی کچھ کام کاج کرتی ہو؟"

"اماں جب کرنے بھی دیں۔"

گوپا نے کہا۔ "میں نہیں کرنے دیتی یا خود کسی کام کے قریب نہیں جاتی۔"

سنتی منہ پھیر کر ہنستی ہوئی چلی گئی۔ ماں کی دلاری لڑکی تھی۔ جس دن وہ گرہستی کا کام کرتی اس دن شاید گوپا رو رو کر آنکھیں پھوڑ لیتی۔ وہ خود لڑکی کو کوئی کام نہ کرنے دیتی تھی مگر سب سے شکایت کرتی تھی کہ وہ کام نہیں کرتی۔ یہ شکایت بھی اسکے پیار ہی کا ایک کرشمہ تھی۔

میں کھانا کھا کر لیٹا تو گوپا نے پھر سنتی کی شادی کا ذکر چھیڑ دیا۔ اسکے سوا اسکے پاس اور بات ہی کیا تھی۔ لڑکے تو بہت ملتے ہیں لیکن کچھ حیثیت بھی تو ہو۔ لڑکی کو یہ سوچنے کا موقع کیوں ملے کہ دادا ہوتے تو میرے لیے شاید اس سے اچھا بر ڈھونڈتے۔ پھر گوپا نے ڈرتے ڈرتے لالہ مداری لال کے لڑکے کا ذکر کیا۔


(جاری ہے)
۔
 

محمد وارث

لائبریرین
شانتی

(گزشتہ سے پیوستہ)


میں نے متحیر ہو کر اسکی طرف دیکھا۔ لالہ مداری لال پہلے انجنیئر تھے اب پنشن پاتے تھے۔ لاکھوں روپے جمع کر لیے تھے پر اب تک انکی حرص کی پیاس نہ بجھی تھی۔ گوپا نے گھر بھی وہ چھانٹا جہاں اسکی رسوائی دشوار تھی۔

میں نے کہا۔ "مداری لال تو بہت ہی بڑا آدمی ہے۔"

گوپا نے دانت تلے زبان دبا کر کہا۔ "ارے نہیں بھیا تم نے انھیں پہچانا نہ ہوگا۔ میرے اوپر بڑے دیالو ہیں، کبھی کبھی آ کر خیریت بھی پوچھ جاتے ہیں۔ لڑکا ایسا ہونہار ہے کہ میں تم سے کیا کہوں۔ پھر انکے یہاں کمی کس بات کی ہے؟ یہ ٹھیک بات ہے کہ پہلے وہ خوب رشوت لیتے تھے لیکن یہاں دھرماتما کون ہے؟ کون موقع پا کر چھوڑ دیتا ہے۔ مداری لال نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ وہ مجھ سے جہیز نہیں چاہتے، صرف لڑکی چاہتے ہیں۔ سنتی انکے من میں بیٹھ گئی ہے۔"

مجھے گوپا کی سادگی پر رحم آیا لیکن میں نے سوچا کہ میں اس کے دل میں کسی کے خلاف شبہات پیدا کیوں کروں۔ شاید مداری اب وہ نہ رہے ہوں۔ انسان کی طبیعت بدلتی رہتی ہے۔

میں نے نیم متفق ہو کر کہا۔ "مگر یہ تو سوچو تم میں اور ان میں کس قدر فرق ہے۔ تم شاید اپنا سب کچھ قربان کر کے بھی انکا منہ سیدھا نہ کر سکو۔"

لیکن گوپا کے من میں بات جم گئی تھی۔ سنتی کو وہ ایسے گھر میں بیاہنا چاہتی تھی جہاں وہ رانی بنکر رہے۔

دوسرے دن میں مداری لال کے پاس گیا اور ان سے جو میری بات چیت ہوئی اس نے مجھے مطمئن کر دیا۔ کسی زمانے میں وہ لالچی رہے ہونگے لیکن اس وقت تو انہیں بہت ہی بلند خیال اور پاک دل پایا۔

بولے۔ "بھائی صاحب میں دیو ناتھ جی سے خوب واقف ہوں۔ وہ آدمیوں میں رتن تھے۔ ان کی لڑکی میرے گھر میں آئے یہ میری خوش قسمتی ہے۔ آپ اسکی ماں سے کہہ دیجیے، مداری لال ان سے کسی چیز کی خواہش نہیں رکھتا۔ خدا کا دیا ہوا میرے گھر میں سب کچھ ہے۔ میں انھیں زیر بار کرنا نہیں چاہتا۔"

میرے دل کا بوجھ اتر گیا۔ ہم سنی سنائی باتوں سے دوسروں کے متعلق کیسے غلط خیالات قائم کر لیتے ہیں۔ میں نے آ کر گوپا کو مبارک باد دی۔ یہ طے ہوا کہ گرمیوں میں بیاہ کر دیا جائے گا۔

چار مہینے گوپا نے بیاہ کی تیاریوں میں کاٹے۔ میں مہینے میں ایک مرتبہ ضرور اس سے مل جاتا تھا لیکن ہر مرتبہ مایوس ہو کر لوٹتا۔ گوپا نے اپنے خاندان کی عزت کا نہ جانے کتنا بڑا نصب العین اپنے سامنے رکھ لیا تھا۔ دیوانی اس بھرم میں پڑی ہوئی تھی کہ اسکی اولو العزمی شہر میں اپنی یادگار چھوڑ جائے گی۔ یہ جانتی تھی کہ یہاں ایسے تماشے روز ہوتے ہیں اور آئے دن بھلا دیئے جاتے ہیں۔ شاید وہ دنیا سے یہ کہلانا چاہتی تھی کہ اس گئی گزری حالت میں بھی مرا ہوا ہاتھی نو لکھ کا ہے۔ قدم قدم پر اسے دیو ناتھ کی یاد آتی تھی، وہ ہوتے تو یہ کام کیوں نہ ہوتا، یوں ہوتا، اور تب وہ روتی۔ مداری لال نیک آدمی ہے، سچ ہے، لیکن گوپا کا اپنی بیٹی کے متعلق بھی تو کچھ فرض ہے۔ اسکی دس پانچ لڑکیاں تھوڑی ہی ہیں۔ وہ تو دل کھول کر ارمان نکالے گی۔ سنتی کیلیے اسنے جتنے گہنے اور جوڑے بنوائے تھے انھیں دیکھ کر مجھے تعجب ہوتا تھا۔ جب دیکھو کچھ نہ کچھ سی رہی ہے۔ محلے میں شاید ہی کوئی ایسا شخص ہوگا جس سے اسنے قرض نہ لیا ہو۔ وہ اسے قرض سمجھتی تھی لیکن دینے والے دان سمجھ کر دیتے تھے۔ سارا محلہ اسکا مددگار تھا۔ سنتی اب محلے کی لڑکی تھی۔ گوپا کی عزت اب سب کی عزت تھی اور گوپا کیلیے تو نیند اور آرام حرام تھا۔ درد سے سر پھٹا جا رہا ہے، آدھی رات ہوگئی ہے مگر وہ بیٹھی کچھ سی رہی ہے۔

اکیلی عورت اور وہ بھی نیم جان اور کیا کیا کرے؟ جو کام دوسروں پر چھوڑ دیتی تھی اس میں کچھ نہ کچھ خرابی ہو جاتی تھی۔ لیکن اسکی ہمت ہے کہ کسی طرح نہیں مانتی۔ پچھلی دفعہ اسکی حالت دیکھ کر مجھ سے رہا نہ گیا، بولا۔ "گوپا دیوی اگر مرنا چاہتی ہو تو شادی ہو جانے کے بعد مرنا۔ مجھے اندیشہ ہے کہ تم اس کے پہلے ہی کہیں چل نہ دو۔"

گوپا نے جواب دیا۔ "بھیا اسکی فکر نہ کرو۔ بیوہ کی عمر بہت لمبی ہوتی ہے۔ تم نے سنا نہیں رانڈ مرے نہ کھنڈر ڈھئے۔ لیکن میری تمنا یہی ہے کہ سنتی کا ٹھکانا لگا کر میں بھی چل دوں۔ اب اور زندہ رہ کر کیا کروں گی، سوچا کیا کروں۔ اگر کسی طرح کا رخنہ پڑ گیا تو کس کی بدنامی ہوگی؟ ان چار مہینوں میں مشکل سے گھنٹہ بھر سوتی ہونگی۔ نیند ہی نہیں آتی۔ لیکن میرا دل خوش ہے۔ میں مروں یا جیؤں، مجھے تسکین تو ہوتی ہے کہ سنتی کیلیے اسکا باپ جو کر سکتا تھا وہ میں نے کر دیا۔ مداری لال نے اپنی شرافت دکھائی ہے تو مجھے تو اپنی ناک رکھنی ہے۔"

ایک دیوی نے آ کر کہا۔ "بہن ذرا چل کر دیکھ لو چاشنی ٹھیک ہو گئی ہے یا نہیں۔" گوپا اس کے ساتھ چاشنی کا امتحان کرنے گئی اور ایک لمحے کے بعد آ کر بولی۔ "جی چاہتا ہے کہ سر پیٹ لوں۔ تم سے ذرا باتیں کرنے لگی ادھر چاشنی اتنی کڑی ہوگئی کہ لڈو دانتوں سے لڑیں گے، کسی سے کیا کہوں۔"

میں نے چڑ کر کہا۔ "تم بیکار جھنجھٹ کر رہی ہو۔ کیوں نہیں کسی حلوائی کو بلا کر مٹھائیوں کا ٹھیکہ دے دیتیں؟ پھر تمھارے یہاں مہمان ہی کتنے آئیں گے جن کیلیے یہ طومار باندھ رہی ہو۔ دس پانچ کی مٹھائی ان کیلیے بہت ہوگی۔" میری یہ بات شاید گوپا کو ناگوار ہوئی، ان دنوں اسے بات بات پر غصہ آ جاتا تھا۔

بولی۔ "بھیا، تم یہ باتیں نہ سمجھو گے۔ تمھیں یقیناً نہ ماں بننے کا موقع ملا نہ بیوی بننے کا۔ سنتی کے باپ کا کتنا نام تھا۔ کتنے آدمی انکے دم سے پلتے تھے۔ کیا تم نہیں جانتے یہ پگڑی میرے ہی سر تو بندھی ہے۔ تمھیں یقین نہ آئے گا ناستک ہی جو ٹھہرے پر میں تو انھیں سدا اپنے اندر بیٹھا ہوا پاتی ہوں۔ جو کچھ کر رہے ہیں وہی کر رہے ہیں۔ میں ناقص العقل بھلا اکیلی کیا کر لیتی؟ وہی میرے مددگار ہیں وہی میرے رہبر ہیں۔ یہ سمجھ لو کہ جسم میرا ہے لیکن اسکے اندر جو آتما ہے وہ انکی ہے۔ تم انکے دوست ہو، تم نے اپنے سینکڑوں روپے خرچ کیے اور اتنے حیران ہو رہے ہو۔ میں تو انکی شریک زندگی ہوں۔ لوک میں بھی اور پرلوک میں بھی۔"

میں اپنا سا منہ لیکر رہ گیا۔


(جاری ہے)

۔
 

محمد وارث

لائبریرین
شانتی

(گزشتہ سے پیوستہ)


جون میں شادی ہوگئی۔ گوپا نے بہت کچھ دیا اور اپنی حیثیت سے بہت زیادہ دیا، لیکن پھر بھی اس کا دل مطمئن نہ ہوا۔ آج سنتی کے باپ ہوتے تو نہ جانے کیا کرتے، بار بار یہ کہتی اور روتی۔

جاڑوں میں مَیں پھر دہلی آگیا۔ میرا خیال تھا کہ گوپا اب خوش ہوگی، لڑکی کا گھر اور دونوں اچھے ہیں، گوپا کو اسکے سوا اور کیا چاہیے۔ لیکن سکھ اسکے مقدر ہی میں نہ تھا۔

میں ابھی کپڑے بھی نہ اتارنے پایا تھا کہ اس نے دکھڑا شروع کر دیا۔ بھیا، گھر دوار سب کچھ اچھا ہے۔ ساس سسر بھی اچھے ہیں لیکن داماد نکما نکلا۔ سنتی بچاری رو رو کر دن کاٹ رہی ہے، تم اسے دیکھو تو پہچان نہ سکو، بس اسکا سایہ ہی رہ گیا ہے۔ ابھی چند دن ہوئے آئی تھی، اسکی حالت دیکھ کر چھاتی پھٹتی ہے۔ نہ تن بدن کی سدھ ہے نہ کپڑے لتے کی۔ میری سنتی کی یہ درگت ہوگی، یہ تو میں نے خواب میں بھی نہ سوچا تھا۔ بالکل گم سم ہو گئی، کتنا پوچھا بیٹا تجھ سے وہ کیوں نہیں بولتا۔ بس آنکھوں سے آنسو بہتے رہتے ہیں، میری سنتی تو کنوئیں میں گر گئی۔

میں نے کہا۔ "تم نے اسکے گھر والوں سے پتہ نہیں لگایا۔"

"لگایا کیوں نہیں بھیا، سب حال معلوم ہوگیا۔ لڑکا چاہتا ہے کہ میں چاہے جس راہ جاؤں، سنتی میری پوجا کرتی رہے۔ سنتی بھلا اسے کیوں سہنے لگی۔ اسے تم جانتے ہو کہ کتنی خود دار ہے۔ وہ ان عورتوں میں نہیں ہے جو شوہر کو دیوتا سمجھتی ہیں اور اسکی بدسلوکیاں برداشت کرتی رہتی ہیں۔ اس نے ہمیشہ پیار دلار پایا ہے، باپ بھی اس پر جان دیتا تھا، میں بھی آنکھ کی پتلی سمجھتی تھی۔ شوہر ملا چھیلا جو آدھی آدھی رات تک مارا مارا پھرتا ہے۔ دونوں میں کیا بات ہوئی یہ کون جان سکتا ہے لیکن دونوں میں کوئی گانٹھ پڑ گئی ہے، نہ وہ سنتی کی پرواہ کرتا ہے اور نہ سنتی اسکی پرواہ کرتی ہے۔ مگر وہ تو اپنے رنگ میں مست ہے، سنتی جان دے دے گی۔"

میں نے کہا۔ "لیکن تم نے سنتی کو سمجھایا نہیں، اس لونڈے کا کیا بگڑے گا، اسکی زندگی خراب ہو جائے گی۔"

گوپا کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ بولی، "بھیا کس دل سے سمجھاؤں، سنتی کو دیکھ کر میری چھاتی پھٹتی ہے۔ بس یہی جی چاہتا ہے کہ اسے اپنے کلیجے میں رکھ لوں کہ اسے کوئی کڑی آنکھ سے دیکھ بھی نہ سکے۔ سنتی پھوہڑ ہوتی، آرام طلب ہوتی تو سمجھاتی بھی۔ کیا یہ سمجھاؤں کہ تیرا شوہر گلی گلی منہ کالا کرتا پھرے اور تو اسکی پوجا کر۔ میں تو خود یہ ذلت برداشت نہ کرسکتی۔ مرد اور عورت میں بیاہ کی پہلی شرط یہ ہے کہ دونوں سولہ آنے ایک دوسرے کے ہو جائیں۔ ایسے مرد کم ہیں جو عورت کی برابر کج نگاہی بھی برداشت کر سکیں لیکن ایسی عورتیں بہت ہیں جو شوہر کو دیوتا سمجھتی ہیں۔ سنتی ان عورتوں میں نہیں۔ وہ اگر محبت کرتی ہے تو محبت چاہتی ہے اور اگر شوہر میں یہ بات نہ ہوئی تو وہ اس سے واسطہ نہیں رکھے گی چاہے اس کی ساری زندگی روتے کٹ گئی۔"

یہ کہہ کر گوپا اندر گئی اور ایک سنگھار دان لا کر بولی۔ "سنتی اب کے اسے یہیں چھوڑ گئی ہے، اسی لیے آئی تھی۔ یہ وہ گہنے ہیں جنہیں میں نے نہ جانے کتنی تکلیفیں برداشت کرکے بنوائے تھے۔ انکے پیچھے ماری ماری پھرتی تھی، یوں کہو کہ بھیک مانگ کر جمع کئے تھے۔ سنتی اب ان کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتی۔ پہنے تو کس لیے؟ سنگھار کرے تو کس پر۔ پانچ صندوق کپڑوں کے دیئے تھے، کپڑے سیتے سیتے میری آنکھیں پھوٹ گئیں، وہ سب کپڑے اٹھا لائی۔ ان چیزوں سے اب اسے نفرت سی ہوگئی ہے۔ بس کلائی میں کانچ کی دو چوڑیاں اور اجلی ساڑھی، یہی اسکا سنگھار ہے۔"

میں نے گوپا کو دلاسا دیا کہ میں جا کر ذرا کیدار ناتھ سے ملوں گا۔ دیکھوں تو وہ کس رنگ ڈھنگ کا آدمی ہے۔

گوپا نے ہاتھ جوڑ کر کہا۔ "بھیا، بھول کر بھی نہ جانا، سنتی سنتے ہی جان دیدے گی۔ غیرت کی پتلی ہی سمجھو اسے، رسی سمجھ لو جس کے جل جانے پر بھی بل نہیں جاتے۔ جن پیروں نے اسے ٹھکرا دیا ہے انہیں وہ کبھی نہیں سہلائے گی۔ اسے اپنا بنا کر کوئی چاہے تو لونڈی بنا لے لیکن حکومت تو اس نے میری نہ سہی، دوسروں کی کیا سہے گی۔"

میں نے گوپا سے تو اس وقت کچھ نہ کہا لیکن موقع پاتے ہی لالہ مداری لال سے ملا، میں راز معلوم کرنا چاہتا تھا۔ اتفاق سے باپ بیٹے دونوں ایک ہی جگہ مل گئے۔ مجھے دیکھتے ہی کیدار ناتھ نے اسطرح جھک کر چرن چھوئے کہ میں اسکی سعادت مندی سے متاثر ہوگیا۔ جلدی سے اندر گیا اور چائے، مربہ اور مٹھائیاں لایا۔ اتنا شائستہ، اتنا شریف اور اتنا خلیق نوجوان میں نے نہ دیکھا تھا۔ یہ گمان ہی نہ ہو سکتا تھا کہ اسکے اندر اور باہر میں کوئی فرق ہو سکتا ہے۔ جب تک رہا، سر جھکائے بیٹھا رہا۔ جب وہ ٹینس کھیلنے چلا گیا تو میں نے مداری لال سے کہا۔

"کیدار ناتھ بابو تو بہت ہی نیک معلوم ہوتے ہیں، پھر میاں بیوی میں اتنی کشیدگی کیوں ہو گئی ہے۔"


(جاری ہے)

۔
 

محمد وارث

لائبریرین
شانتی

(گزشتہ سے پیوستہ)


مداری لال نے ایک لمحہ غور کر کے جواب دیا۔ "اسکا سبب سوا اسکے اور کیا بتاؤں کہ دونوں اپنے ماں باپ کے لاڈلے ہیں اور پیار لڑکوں کو اپنے من کا بنا دیتا ہے۔ میری ساری عمر محنت میں کٹی، اب جا کر ذرا راحت ملی ہے۔ رنگ رلیوں کا کبھی موقع ہی نہ ملا۔ دن بھر محنت کرتا تھا اور شام کو پڑ کر سو رہتا تھا۔ صحت بھی اچھی تھی اسلیے برابر یہی فکر سوار رہتی تھی کہ کچھ جمع بھی کر لوں۔ ایسا نہ ہو کہ میرے بال بچے بھیک مانگتے پھریں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ان مہاشے کو مفت کی دولت ملی، سنک سوار ہو گئی۔ شراب اڑنے لگی۔ پھر ڈرامہ کھیلنے کا شوق ہوا۔ روپے کی کمی تھی نہیں اس پر ماں باپ کے اکیلے بیٹے، انکی خوشی ہماری زندگی کی بہشت تھی۔ پڑھنا لکھنا تو دور رہا، آوارگی کی طرف رجحان بڑھتا گیا۔ رنگ اور گہرا ہوا، اور اپنی زندگی کا ڈرامہ کھیلنے لگے۔ میں نے یہ رنگ دیکھا تو مجھے فکر ہوئی۔ سوچا بیاہ کردوں ٹھیک ہو جائے گا۔ گوپا دیوی کا پیغام آیا تو میں نے منظور کر لیا۔ میں سنتی کو دیکھ چکا تھا، سوچا ایسی خوبصورت بیوی پا کر اس کی اصلاح ہو جائے گی۔ لیکن اتفاق سے وہ بھی لاڈلی لڑکی تھی، ضدی اور ہٹیلی۔ مفاہمت کا زندگی میں کیا درجہ ہے اسکی اسکو خبر ہی نہیں، لوہا لوہے سے لڑ گیا۔ یہ ہے سارا بھید اور صاحب میں تو بہو کو ہی زیادہ خطا وار سمجھتا ہوں۔ لڑکے تو سب ہی من چلے ہوتے ہیں، لڑکیان اپنی ذمہ داری سمجھتی ہیں، انکی سیوا قربانی اور محبت یہی انکے دو ہتھیار ہیں جن سے وہ اپنے شوہر پر فتح حاصل کر لیتی ہیں۔ بہو میں یہ گن نہیں ہے، ناؤ کیسے پار ہوگی، خدا ہی جانے۔" اتنے میں سنتی اندر سے آ گئی، اپنی تصویر کا مٹا ہوا خاکہ تھی۔ کندن تپ کر مجسم ہو گیا تھا، مٹی ہوئی تمناؤں کی اس سے اچھی تصویر نہیں ہو سکتی۔ مجھ پر طعن کرتے ہوئی بولی۔ "آپ جانے کب سے بیٹھے ہوئے ہیں، مجھے خبر تک نہیں اور آپ شاید باہر ہی باہر چلے بھی جاتے۔"

میں نے اپنے آنسوؤں کو روکتے ہوئے کہا۔ "نہیں سنتی یہ کیسے ہو سکتا تھا۔ تمھارے پاس آ ہی رہا تھا کہ تم خود آ گئیں۔" لالہ مداری لال کمرے سے باہر اپنی موٹر کی صفائی کرانے لگے، شاید مجھے سنتی سے بات چیت کا موقع دینا چاہتے تھے۔

سنتی نے پوچھا۔ "اماں تو اچھی طرح ہیں۔"

میں نے کہا۔ "ہاں وہ تو اچھی ہیں، لیکن تم نے اپنی کیا گت بنا رکھی ہے۔"

"میں تو بہت اچھی طرح ہوں۔"

"یہ بات کیا ہے؟ تم لوگوں میں کیا ان بن ہے؟ گوپا دیوی جان دے ڈالتی ہیں، تم خود مرنے کی تیاری کر رہی ہو، کچھ تو عقل سے کام لو۔"

سنتی کے ماتھے پر بل پڑ گئے۔ وہ بولی۔ "آپ نے نا حق یہ گفتگو چھیڑی، میں نے تو یہ سوچ کر اپنے دل کو سمجھا لیا کہ میں بد نصیب ہوں۔ بس ان باتوں کا علاج میرے قابو سے باہر ہے۔ میں اس زندگی سے موت کو کہیں بہتر سمجھتی ہوں۔ جہاں اپنی قدر نہ ہو زندگی کی کوئی دوسری شکل میری سمجھ میں نہیں آتی۔ اسلیے کسی طرح کا سمجھوتا کرنا میرے لیے غیر ممکن ہے۔ نتیجے کی میں پرواہ نہیں کرتی۔"

"لیکن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"نہیں چاچا جی، اس معاملے میں آپ کچھ نہ کہیے، نہیں تو چلی جاؤں گی۔"

"آخر سوچو تو"

"میں سب سوچ چکی اور طے کر چکی۔ حیوان کو انسان بنانا میری طاقت سے باہر ہے۔"

مئی کا مہینہ تھا، میں منصوری گیا ہوا تھا کہ گوپا کا تار پہنچا، فوراً آؤ، بہت ضروری کام ہے۔ میں گھبرا کر دوسرے ہی دن دہلی پہنچا۔ گوپا دق کی مریضہ معلوم ہو رہی تھی۔ میں نے پوچھا "سنتی تو اچھی ہے۔"

اس نے جواب دیا۔ "ہاں"

"کیدار ناتھ؟"

"وہ بھی اچھی طرح ہے۔"

"تو کیا ماجرا ہے؟"

"کچھ نہیں"

"تم نے مجھے تار دے کر بلایا اور پھر کہتی ہو کہ کوئی بات نہیں۔"

"دل گھبرا رہا تھا، اس لیے تم کو بلا لیا۔ سنتی کو کسی طرح سمجھا کر یہاں لانا ہے، میں تو سب کچھ کر کے تھک گئی۔"

"کیا ادھر کوئی نئی بات ہوئی ہے؟"

"نئی تو نہیں لیکن ایک طرح سے نئی ہی سمجھو۔ کیدار ایک ایکٹرس کے ساتھ کہیں بھاگ گیا۔ ایک ہفتہ سے کچھ پتہ نہیں، سنتی سے کہہ گیا ہے کہ جب تک تم رہو گی میں گھر میں قدم نہیں رکھوں گا۔ سنا ہے کہ کیدار اپنے باپ کے جعلی دستخط بنا کر کئی ہزار روپے بھی بنک سے لے گیا ہے۔"

"تم سنتی سے ملی تھیں۔"

"ہاں تین دن سے برابر جا رہی ہوں۔"

"اگر سنتی نہیں آنا چاہتی تو تم رہنے کیوں نہیں دیتیں؟"

"وہاں وہ گھٹ گھٹ کر مر جائیگی۔"

میں اسی وقت مداری لال کے پاس گیا۔ وہ میری صورت دیکھتے ہی بولے۔ "بھائی صاحب میں تو لٹ گیا، لڑکا بھی اور بہو بھی گئی۔"

معلوم ہوا جب سے کیدار غائب ہو گیا ہے، سنتی اور بھی اداس رہنے لگی تھی۔ اس نے اسی دن اپنی چوڑیاں توڑ ڈالی تھیں اور مانگ کا سیندور پونچھ ڈالا۔ کسی سے بات نہ کرتی تھی۔ آج صبح وہ جمنا اشنان کرنے لگی، اندھیرا تھا، سارا گھر سو رہا تھا، کسی کو نہیں جگایا۔ جب دن چڑھ گیا اور بہو نہ ملی تو اسکی تلاش ہونے لگی۔ دوپہر کو پتہ چلا کہ جمنا گئی ہے۔ لوگ ادھر بھاگے، وہاں اسکی لاش ملی۔ پولیس آئی، لاش کا معائنہ ہوا، اب لاش ملی ہے۔ میں کلیجہ تھام کر بیٹھ گیا۔ ارتھی کے ساتھ گیا اور وہاں سے لوٹا تو رات کے دس بج چکے تھے۔ میرے پاؤں کانپ رہے تھے۔ معلوم نہیں یہ خبر پا کر گوپا کی کیا حالت ہوگی۔ اس ابھاگن کے باغِ تمنا میں یہی ایک پودا تھا، اسے اپنے خونِ جگر سے سینچ کر پال رہی تھی۔ اسکی نسبت سنہرے خواب ہی اسکی زندگی کا ماحصل تھا۔ اس میں کونپلیں نکلیں گی، پھول کھلیں گے، پھل آئیں گے، چڑیاں اسکی ڈالیوں پر بیٹھ کر اپنے سہانے راگ گائیں گی۔ لیکن آج موت کے بے رحم ہاتھوں نے اس پودے کو اکھاڑ کر پھینک دیا۔ اسکی زندگی اب بیکار تھی۔ وہ نقطہ ہی مٹ گیا جس پر زندگی کے تمام خطوط آ کر ملتے تھے۔

دل کو دونوں ہاتھوں سے تھامے میں نے زنجیر کھٹکھٹائی۔ گوپا ایک لالٹین لیے نکلی۔ میں نے گوپا کے چہرے پر سکون کی نئی جھلک دیکھی۔ اس نے مجھے غمگین دیکھ کر محبت سے میرا ہاتھ پکڑ لیا اور بولی۔ "آج تو تمھیں سارا دن روتے ہی کٹا۔ لاش کے ساتھ تو بہت آدمی تھے؟ میرے جی میں بھی آیا تھا کہ چل کر سنتی کا آخری درشن کر لوں، لیکن میں نے سوچا کہ جب سنتی ہی نہ رہی تو اس لاش میں کیا رکھا ہے، نہ گئی۔"

میں حیرت سے گوپا کا منہ دیکھنے لگا۔ اسے اس افسوسناک حادثے کی اطلاع مل گئی تھی، لیکن وہ کس قدر صابر، پر سکون ہے۔ میں نے کہا۔ "اچھا کیا تم نہ گئیں، رونا ہی تو تھا۔"

گوپا نے کہا۔ "اور کیا، روئی تو یہاں بھی۔ لیکن تم سے سچ کہتی ہوں کہ دل سے نہیں روئی، نہ جانے آنسو کسطرح نکل آئے۔ مجھے در حقیقت سنتی کی موت سے خوشی ہوئی۔ بد نصیب اپنی غیرت و خود داری کیلیے دنیا سے رخصت ہو گئی، نہیں تو نہ جانے کیا کیا دیکھنا پڑتا۔ اس لیے اور بھی خوش ہوں کہ اس نے اپنی آن نبھا دی۔ عورت کو زندگی میں محبت نہ ملے تو اسکا مرنا ہی اچھا ہے۔ تم نے سنتی کی لاش دیکھی تھی، لوگ کہتے ہیں ایسا جان پڑتا کہ مسکرا رہی ہے۔ میری سنتی سچ مچ دیوی تھی۔ بھیا انسان اس لیے تھوڑا ہی جینا چاہتا ہے کہ روتا رہے۔ جب معلوم ہوگیا کہ زندگی میں دکھ کے سوا اور کچھ نہیں ہے تو آدمی جی کر کیا کرے؟ کس لیے جئے، کھانے سونے اور مر جانے کیلیئے؟ یہ میں نہیں کہتی کہ سنتی کی یاد آئیگی یا میں اسے یاد کرکے روؤنگی نہیں۔ لیکن غم کے آنسو نہ ہونگے، خوشی کے آنسو ہونگے۔ بہادر بیٹے کی ماں اسکی بہادری سے خوش ہوتی ہے۔ سنتی کی موت کیا کم باعثِ فخر ہے؟ میں آنسو بہا کر اس فخر کو کیوں برباد کروں؟ وہ جانتی ہے کہ چاہے ساری دنیا اسکی مذمت کرے، اسکی ماں اسکی تعریف ہی کرے گی۔ اسکی روح سے یہ مسرت بھی چھین لوں؟ لیکن اب رات زیادہ ہو گئی ہے، اوپر جا کر سو رہو۔ میں نے تمھاری چارپائی بچھا دی ہے، مگر دیکھو اکیلے پڑے پڑے رونا نہیں۔ سنتی نے وہی کیا جو اسے کرنا چاہیے تھا۔ اسکے پتا ہوتے تو آج سنتی کی مورت بنا کر پوجتے۔"



(ختم شد)


۔
 

محمد وارث

لائبریرین
روشنی



آئی۔سی۔ایس پاس کر کے ہندوستان آیا، مجھے صوبہ جات متحدہ کے ایک کوہستانی علاقے میں ایک سب ڈویژن کا چارج ملا۔ مجھے شکار کا بہت شوق تھا اور کوہستانی علاقے میں شکار کی کیا کمی، میری دلی مراد بر آئی۔ ایک پہاڑ کے دامن میں میرا بنگلہ تھا، بنگلے پر کچہری کر لیا کرتا تھا۔ اگر کوئی شکایت تھی تو یہ کہ سوسائٹی نہ تھی، اس لیے سیر و شکار اور اخبارات و رسائل سے اس کمی کو پورا کیا کرتا تھا۔ امریکہ اور یورپ کے کئی رسالے آتے تھے، انکے مضامین کی شگفتگی اور جدت اور خیال آرائی کے مقابلے میں ہندوستانی اخبار اور رسالے بھلا کیا جچتے، سوچتا تھا وہ دن کب آئے گا کہ ہمارے یہاں بھی ایسے شاندار رسالے نکلیں گے۔

بہار کا موسم تھا، پھاگن کا مہینہ، میں دورے پر نکلا اور کندھوار کے تھانے کا معائنہ کر کے گجن پور کے تھانے کو چلا، کوئی اٹھارہ میل کی مسافت تھی مگر منظر نہایت سہانا، دھوپ میں کسی قدر تیزی تھی مگر ناخوشگوار نہیں، ہوا میں بھینی بھینی خوشبو تھی۔ آم کے درختوں میں بھور آ گئے تھے اور کوئل کوکنے لگی تھی۔ کندھے پر بندوق رکھ لی تھی کہ کوئی شکار مل جائے تو لیتا چلوں، کچھ اپنی حفاظت کا بھی خیال تھا کیونکہ ان دنوں جا بجا ڈاکے پڑ رہے تھے۔ میں نے گھوڑے کی گردن سہلائی اور کہا۔ "چلو بیٹا چلو، ڈھائی تین گھنٹے کی دوڑ ہے، شام ہوتے ہی گجن پور پہنچ جائیں گے۔" ساتھ کے ملازم پہلے ہی روانہ کر دیئے گئے تھے۔

جا بجا کاشتکار کھیتوں میں کام کرتے نظر آتے تھے۔ ربیع کی فصل تیار ہو چکی تھی، اوکھ اور خربوزے کیلیئے زمین تیار کی جا رہی تھی۔ ذرا ذرا سے مزارعے تھے، وہی باوا آدم کے زمانے کے بوسیدہ ہل، وہی افسوسناک جہالت، وہی شرمناک نیم برہنگی، اس قوم کا خدا ہی حافظ ہے۔ گورنمنٹ لاکھوں روپے زراعتی اصلاحوں پر صرف کرتی ہے، نئی نئی تحقیقاتیں اور ایجادیں ہوتی ہیں، ڈائرکٹر، انسپکٹر سب موجود اور حالت میں کوئی اصلاح، کوئی تغیر نہیں۔ مغرب میں تعلیم کا طوفانِ بے تمیزی برپا ہے، یہاں مدرسوں میں کتے لوٹتے ہیں۔ جب مدرسے پہنچ جاتا ہوں تو مدرس کو کھاٹ پر نیم غنودگی کی حالت میں لیٹے پاتا ہوں۔ بڑی دوا دوش سے دس بیس لڑکے جوڑے جاتے ہیں۔ جس قوم پر جمود نے اس حد تک قبضہ کر لیا ہو اسکا مستقبل انتہا درجہ مایوس کن ہے۔ اچھے اچھے تعلیم یافتہ آدمیوں کو سلف کی یاد میں آنسو بہاتے دیکھتا ہوں۔ مانا کہ ایشیا کے جزائر میں آرین مبلغوں نے مذہب کی روح پھونکی تھی، یہ بھی مان لیا کہ کسی زمانے میں آسٹریلیا بھی آرین تہذیب کا ممنون تھا لیکن اس سلف پروری سے کیا حاصل، آج تو مغرب دنیا کا مشعلِ ہدایت ہے۔ ننھا سا انگلینڈ نصف کرۂ زمین پر حاوی ہے اپنی صنعت و حرفت کی بدولت۔ بے شک مغرب نے دنیا کو ایک نیا پیغامِ عمل عطا کیا ہے اور جس قوم میں اس پیغام پر عمل کرنے کی قوت نہیں ہے اسکا مستقبل تاریک ہے۔ جہاں آج بھی نیم برہنہ گوشہ نشین فقیروں کی عظمت کے راگ الاپے جاتے ہیں، جہاں آج بھی شجر و حجر کی عبادت ہوتی ہے، جہاں آج بھی زندگی کے ہر ایک شعبے میں مذہب گھسا ہوا ہے اگر اسکی یہ حالت ہے تو تعجب کا مقام نہیں۔

میں انہیں تصورات میں ڈوبا ہوا چلا جا رہا تھا، دفعتاً ٹھنڈی ہوا کا ایک جھونکا جسم میں لگا تو میں نے سر اوپر اٹھایا۔ مشرق کی طرف منظر گرد آلود ہو رہا تھا، افق گرد و غبار کے پردے میں چھپ گیا تھا، آندھی کی علامت تھی۔ میں نے گھوڑے کو تیز کیا مگر لمحہ بہ لمحہ غبار کا پردہ وسیع اور بسیط ہوتا جاتا تھا اور میرا راستہ بھی مشرق ہی کی جانب تھا۔ گویا میں یکہ و تنہا طوفان سے طوفان کا مقابلہ کرنے دوڑا جا رہا تھا۔ ہوا تیز ہوگئی، وہ پردۂ غبار سر پر آ پہنچا اور دفعتاً میں گرد کے سمندر میں ڈوب گیا۔ ہوا اتنی تند کہ کئی بار میں گھوڑے سے گرتے گرتے بچا۔ وہ سرسراہٹ اور گڑگڑاہٹ تھی کہ الامان، گویا فطرت نے آندھی میں طوفان کی روح ڈال دی ہے۔ دس بیس ہزار توپیں ایک ساتھ چھوٹتیں تب بھی اتنی ہولناک صدا نہ پیدا ہوتی، مارے گرد کے کچھ نہ سوجھتا تھا یہاں تک کہ راستہ بھی نظر نہ آتا تھا۔ اُف ایک قیامت تھی جسکی یاد سے آج بھی کلیجہ کانپ جاتا ہے۔ میں گھوڑے کی گردن سے چمٹ گیا اور اسکے ایالوں میں منہ چھپا لیا۔ سنگریزے گرد کے ساتھ اڑ کر منہ پر اسطرح لگتے تھے جیسے کوئی کنکریوں کو پچکاری میں بھر کر مار رہا ہو۔ ایک عجیب دہشت مجھ پر مسلط ہوگئی۔ کسی درخت کے اکھڑنے کی آواز کانوں میں آ جاتی تو پیٹ میں میری آنتیں تک سمٹ جاتیں۔ کہیں کوئی درخت پہاڑ سے میرے اوپر گرے تو یہیں رہ جاؤں۔ طوفان میں ہی تودے بھی تو ٹوٹ جاتے ہیں، کوئی ایسا تودہ لڑہکتا ہوا آ جائے تو بس خاتمہ ہے، رہنے کی گنجائش نہیں۔ پہاڑی راستہ کچھ سوجھائی دیتا نہیں، ایک قدم دائیں بائیں جاؤں تو ایک ہزار فٹ گہرے کھڈے میں پہنچ جاؤں۔ عجیب ہیجان میں مبتلا تھا، کہیں شام تک طوفان جاری رہا تو موت ہی ہے۔ رات کو کوئی درندہ آ کر صفایا کر دے گا۔ دل پر بے اختیار رقت کا غلبہ ہوا، موت بھی آئی تو اس حالت میں کہ لاش کا بھی پتہ نہ چلے گا۔ افوہ کتنی زور سے بجلی چمکی ہے کہ معلوم ہوا ایک نیزہ سینے کے اندر گھس گیا۔

(جاری ہے)
 

محمد وارث

لائبریرین
روشنی


(گزشتہ سے پیوستہ)


دفعتاً چھن چھن کی آواز سنکر چونک پڑا، اس گڑگڑاہٹ میں بھی چھن چھن کی آواز صاف سنائی دے رہی تھی جیسے کوئی سانڈنی دوڑ رہی ہو۔ سانڈنی پر کوئی سوار تو ہوگا ہی مگر اسے راستہ کیونکہ سوج رہا ہے کہیں سانڈنی ایک قدم بھی ادھر ادھر ہو جائے تو بچہ تحت الثریٰ میں پہنچ جائے۔ کوئی زمیندار ہوگا، مجھے دیکھ کر شاید پہچانے بھی نہیں، چہرے پر منوں گرد پڑی ہوئی ہے، مگر ہے بلا کا ہمت والا۔

ایک لمحہ میں چھن چھن کی آواز قریب آ گئی پھر میں نے دیکھا کہ ایک جوان عورت سر پر ایک کھانچی رکھے قدم بڑھاتی ہوئی چلی آ رہی ہے، ایک گز فاصلے سے بھی اسکا صرف دھندلا سا عکس نظر آیا۔ وہ عورت ہو کر اکیلی مردانہ وار چلی جا رہی ہے، نہ آندھی کا خوف ہے نہ ٹوٹنے والے درختوں کا اندیشہ، نہ چٹانوں کے گرنے کا غم، گویا یہ بھی کوئی روزمرہ کا معمولی واقعہ ہے۔ مجھے اپنے دل میں غیرت کا احساس کبھی اتنا شدید نہ ہوا تھا۔

میں نے جیب سے رومال نکال کر منہ پونچھا اور اس سے بولا۔ "او عورت گجن پور یہاں سے کتنی دور ہے؟"

میں نے پوچھا تو بلند لہجے میں مگر آواز دس گز بھی نہ پہنچی، عورت نے کوئی جواب نہ دیا، شاید اسنے مجھے دیکھا ہی نہیں۔

میں نے چیخ کر پکارا۔ "او عورت، ذرا ٹھہر جا، گجن پور یہاں سے کتنی دور ہے؟"

عورت رک گئی، اسنے میرے قریب آ کر مجھے دیکھ کر سر جھکا کر کہا، "کہاں جاؤ گے؟"

"گجن پور کتنی دور ہے؟"

"چلے آؤ، آگے ہمارا گاؤں ہے اسکے بعد گجن پور ہے۔"

"تمھارا گاؤں کتنی دور ہے؟"

"وہ کیا آگے دکھائی دیتا ہے۔"

"تم اس آندھی میں رک کیوں نہیں گئیں؟"

"چھوٹے چھوٹے بچے گھر پر ہیں، کیسے رک جاتی۔ مرد تو بھگوان کے گھر چلا گیا۔"

آندھی کا ایسا زبردست ریلا آیا کہ میں شاید دو تین قدم آگے کھسک گیا، گرد و غبار کی ایک دھونکنی سی منہ پر لگی، اسکا کیا حشر ہوا مجھے خبر نہیں۔ پھر میں وہیں کھڑا رہ گیا۔ فلسفے نے کہا، اس عورت کیلیئے زندگی میں کیا راحت ہے، کوئی ٹوٹا پھوٹا جھونپڑا ہوگا اور دو تین فاقہ کش بچے۔ بیکسی میں موت کا کیا غم، موت تو اس کیلیئے باعثِ نجات ہوگی۔ میری حالت اور ہے، زندگی اپنی تمام دل فریبیوں اور رنگینیوں کے ساتھ میری ناز برداری کر رہی ہے۔ حوصلے میں، ارادے میں اسے کیوں کر خطرے میں ڈال سکتا ہوں۔



(2)

میں نے پھر گھوڑے کے ایالوں میں منہ چھپا لیا، شتر مرغ کی طرح جو خطرے سے بچنے کی کوئی راہ نہ پا کر بالوں میں سر چھپا لیتا ہے۔

وہ آندھی کی آخری سانس تھی، اسکے بعد بتدریج زور کم ہونے لگا یہاں تک کہ کوئی پندرہ منٹ میں مطلع صاف ہو گیا۔ نہ گرد و غبار کا نشان تھا نہ ہوا کے جھونکوں کا، ہوا میں ایک فرحت بخش خنکی آ گئی تھی۔ ابھی مشکل سے پانچ بجے ہونگے۔ سامنے ایک پہاڑی تھی اسکے دامن میں ایک چھوٹا سا گاؤں تھا، میں جوں ہی اس گاؤں میں پہنچا وہی عورت ایک بچے کو گود میں لیے میری طرف آ رہی تھی۔ مجھے دیکھ کر اسنے پوچھا۔ "تم کہاں رہ گئے تھے؟ میں ڈری کہ تم رستہ نہ بھول گئے ہو، تمھیں ڈھونڈنے جا رہی تھی۔"

میں نے اسکی انسانیت سے متاثر ہو کر کہا۔ "میں اس کے لئے تمھارا بہت ممنون ہوں، آندھی کا ایسا ریلا آیا کہ مجھے رستہ نہ سوجھا، میں وہیں کھڑا رہ گیا۔ یہی تمھارا گاؤں ہے، یہاں سے گجن پور کتنی دور ہے؟"

"بس کوئی دھاپ بھر سمجھ لو، رستہ بالکل سیدھا ہے، کہیں دہنے بائیں مڑیو نہیں، سورج ڈوبتے ڈوبتے پہنچ جاؤ گے۔"

"یہی تمھارا بچہ ہے؟"

"نہیں ایک اور اس سے بڑا ہے۔ جب آندھی آئی تو دونوں نمبر دار کی چوپال میں جا کر بیٹھے تھے کہ جھونپڑی کہیں اڑ نہ جائے۔ جب سے آئی ہوں یہ میری گود سے نہیں اترتا، کہتا ہے تو پھر بھاگ جائے گی، بڑا شیطان ہے لڑکوں میں کھیل رہا تھا۔ محنت مزدوری کرتی ہوں بابو جی، ان کو پالنا تو ہے، اب میرا کون بیٹھا ہوا ہے جس پر ٹیک کروں، گھاس لے کر بیچنے گئی تھی، کہیں جاتی ہوں تو من ان بچوں میں لگا رہتا ہے۔"

میرا دل اتنا اثر پذیر تو نہیں لیکن اس دہکان عورت کے بے لوث اندازِ گفتگو، اسکی سادگی اور جذبۂ مادری نے مجھ پر تسخیر کا سا عمل کیا۔ اسکے حالات سے مجھے گونہ دلچسپی ہو گئی، پوچھا۔ "تمھیں بیوہ ہوئے کتنے دن ہو گئے ہیں؟"

عورت کی آنکھیں نم ہو گئیں، اپنے آنسوؤں کو چھپانے کیلیئے بچے کے رخسار کو اپنی آنکھوں سے لگا کر بولی۔

"ابھی تو کل چھ مہینے ہوئے ہیں بابو جی، بھگوان کی مرضی ہے آدمی کا کیا بس۔ بھلے چنگے ہل لیکر لوٹے، ایک لوٹا پانی پیا، قے ہوئی بس آنکھیں بند ہو گئیں، نہ کچھ کہا نہ سنا، میں سمجھی تھکے ہیں سو رہے ہیں جب کھانا کھانے کے لیے اٹھانے لگی تو بدن ٹھنڈا تھا۔ تب سے بابو جی گھاس چھیل کر پیٹ پالتی ہوں اور بچوں کو کھلاتی ہوں، کھیتی میری ماں کی نہ تھی، بیل بدھئے بیچ کر انکے کریا کرم میں لگا دیئے۔ بھگوان تمھارے ان دونوں غلاموں کو زندگی دے میرے لیے یہی بہت ہیں۔"

میں موقع اور محل سمجھتا ہوں اور نفسیات میں بھی دخل رکھتا ہوں لیکن اس وقت مجھ پر ایسی رقت طاری ہوئی کہ میں آبدیدہ ہو گیا اور جیب سے پانچ چھ روپے نکال کر اس عورت کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہا۔ "میری طرف سے یہ بچوں کی مٹھائی کھانے کے لیے لو، مجھے موقع ملا تو پھر کبھی آؤں گا۔" یہ کہہ کر میں نے بچے کے رخساروں کو انگلی سے چھو دیا۔

ماں ایک قدم پیچھے ہٹ کر بولی۔ "نہیں بابو جی یہ رہنے دیجیے، میں غریب ہوں لیکن بھکارن نہیں ہوں۔"

"یہ بھیک نہیں ہے، بچوں کے مٹھائی کھانے کے لیے ہے۔"

"نہیں بابو جی۔"

"مجھے اپنا بھائی سمجھ کر لے لو۔"

"نہیں بابو جی، جس سے بیاہ ہوا اسکی عزت تو میرے ہی ہاتھ ہے، بھگوان تمھارا بھلا کریں، اب چلے جاؤ تمھیں دیر ہو جائے گی۔"

میں دل میں اتنا خفیف کبھی نہ ہوا تھا، جنہیں میں جاہل، کور باطن، بے خبر سمجھتا تھا اسی طبقے کی ایک معمولی عورت میں یہ خود داری، یہ فرض شناسی، یہ توکل۔ اپنے ضعف کے احساس سے میرا دل جیسے پامال ہو گیا۔ اگر تعلیم فی الاصل تہذیبِ نفس ہے اور محض اعلیٰ ڈگریاں نہیں تو یہ عورت تعلیم کے معراج پر پہنچی ہوئی ہے۔ میں نے نادم ہو کر نوٹ جیب میں رکھ لیا اور گھوڑے کو ایڑ لگاتے ہوئے پوچھا۔ "تمھیں اس آندھی میں ذرا بھی ڈر نہ معلوم ہوتا تھا؟"

عورت مسکرائی، "ڈر کس بات کا؟ بھگوان تو سبھی جگہ ہیں اگر وہ مارنا چاہیں تو کیا یہاں نہیں مار سکتے۔ میرا آدمی گھر آ کر بیٹھے بیٹھے چل دیا، آج وہ ہوتا تو تم اسطرح گجن پور اکیلے نہ جانے پاتے، جا کر تمھیں پہنچا آتا، تمھاری خدمت کرتا۔"

گھوڑا اڑا جا رہا تھا، میرا دل اس سے زیادہ تیزی سے اڑ رہا تھا جیسے کوئی مفلس سونے کا ڈلا پا کر دل میں ایک طرح کی پرواز کا احساس کرتا ہے، وہی حالت میری تھی۔ اس دہقان عورت نے مجھے وہ تعلیم دی جو فلسفہ اور مابعد الطبیعیات کے دفتروں سے بھی حاصل نہ ہوئی تھی۔ میں اس مفلس کی طرح اس سونے کے ڈلے کو گرہ میں باندھتا ہوا ایک غیر مترقبہ نعمت کے غرور سے مسرور، اس اندیشے سے خائف کے کہیں یہ اثر دل سے نہ مٹ جائے، اڑا چلا جاتا تھا۔ بس یہی فکر تھی کہ اسکو پارۂ دل کے کسی گوشے میں چھپا لوں جہاں کسی حریص کی اس پر نگاہ نہ پڑے۔


(جاری ہے)

۔
 

محمد وارث

لائبریرین
روشنی


(گزشتہ سے پیوستہ)


(3)

گجن پور ابھی پانچ میل سے کم نہ تھا۔ رستہ نہایت پچیدہ، پیڑ بے برگ و بار، گھوڑے کو روکنا پڑتا۔ تیزی میں جان کا خطرہ تھا۔ آہستہ سنبھلتا ہوا چلا جاتا تھا کہ آسمان سے ابر گھر آیا، کچھ تو پہلے ہی سے چھایا ہوا تھا پر اب اس نے ایک عجیب صورت اختیار کر لی۔ برق کی چمک اور رعد کی گرج شروع ہوئی پھر افقِ مشرق کی طرف سے زرد رنگ کے ایک ابر کی تہہ اس مٹیالے رنگ پر زرد لیپ کرتی ہوئی تیزی سے اوپر کی جانب دوڑتی نظر آئی۔ میں سمجھ گیا اولے ہیں، پھاگن کے مہینے میں اس رنگ کے بادل اور گرج کی یہ مہیب گڑگڑاہٹ ژالہ باری کی علامت ہے۔ گھٹا سر پر چڑھتی چلی جاتی تھی۔ یکایک سامنے ایک کفِ دست میدان آ گیا جسکے پرلے سرے پر گجن پور کے ٹھاکر دوارے کا کلس صاف نظر آ رہا تھا۔ کہیں کسی درخت کی بھی آڑ نہ تھی لیکن میرے دل میں مطلق کمزوری نہ تھی۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ مجھ پر کسی کا سایہ ہے جو مجھے ہر آفت ہر گزند سے محفوظ رکھے گا۔

ابر کی زردی ہر لمحہ بڑھتی جاتی تھی، شاید گھوڑا اس خطرے کو سمجھ رہا تھا، وہ بار بار ہنہناتا تھا اور اڑ کر خطرے سے باہر نکل جانا چاہتا تھا۔ میں نے بھی دیکھا کہ راستہ صاف ہے، لگام ڈھیلی کر دی۔ گھوڑا اڑا، میں اسکی تیزی کا لطف اٹھا رہا تھا، دل میں خوف کا مطلق احساس نہ تھا۔

ایک میل نکل گیا ہونگا کہ ایک رپٹ آ پڑی، پہاڑی ندی تھی جس کے پیٹے میں کوئی پچاس گز لمبی رپٹ بنی ہوئی تھی۔ پانی کی ہلکی دھار رپٹ پر سے بہہ رہی تھی، رپٹ کے دونوں طرف پانی جمع تھا۔ میں نے دیکھا کہ ایک اندھا لاٹھی ٹیکتا ہوا رپٹ سے گزر رہا تھا۔ وہ رپٹ کے ایک کنارے سے اتنا قریب تھا کہ میں ڈر رہا تھا کہیں گر نہ پڑے۔ اگر پانی میں گرا تو مشکل ہوگی کیونکہ وہاں پانی گہرا تھا۔ میں نے چلا کر کہا، "بڈھے داہنے کو ہو جا۔" بڈھا چونکا اور گھوڑے کے ٹاپوں کی آواز سن کر شاید ڈر گیا، داہنے تو نہیں ہوا اور بائیں کی طرف ہو لیا اور پھنس کر پانی میں گر پڑا۔ اس وقت ایک ننھا سا اولا میرے سامنے گرا، دونوں مصیبتیں ایک ساتھ نازل ہوئیں۔

ندی کے اس پار ایک مندر تھا، اس میں بیٹھنے کی جگہ کافی تھی، ایک منٹ میں وہاں پہنچ سکتا تھا لیکن یہ نیا عقدہ سامنے آ گیا۔ کیا اس اندھے کو مرنے کے لیے چھوڑ کر اپنی جان بچانے کے لئے بھاگوں؟ حمیت نے اسے گوارا نہ کیا، زیادہ پس و پیش کا موقع نہ تھا، میں فوراً گھوڑے سے کودا اور کئی اولے میرے چاروں طرف گرے، میں پانی میں کود پڑا۔ ہاتھی ڈباؤ پانی تھا، رپٹ کے لئے جو بنیاد رکھی گئی تھی وہ ضرورت سے زیادہ چوڑی تھی۔ ٹھیکیدار نے دس فٹ چوڑی رپٹ تو بنا دی مگر کھدی ہوئی مٹی برابر نہ کی، بڈھا اسی گڑھے میں گرا تھا۔ میں بھی غوطہ کھا گیا لیکن تیرنا جانتا تھا کوئی اندیشہ نہ تھا۔ میں نے دوسری ڈبکی لگائی اور اندھے کو باہر نکالا۔ اتنی دیر میں وہ سیر پانی پی چکا تھا، جسم بے جان ہو رہا تھا اسلئے بڑی مشکل سے باہر نکالا، دیکھا تو گھوڑا بھاگ کر مندر میں جا پہنچا ہے۔ اس نیم جان لاش کو لیے ہوئے ایک فرلانگ چلنا آسان نہ تھا، اوپر اولے تیزی سے گرنے لگے تھے، کبھی سر پر کبھی شانے پر کبھی پیٹھ میں گولی سی لگ جاتی تھی، میں تلملا اٹھتا تھا، لیکن اس لاش کو سینے سے لگائے مندر کی طرف لپکا چلا جاتا تھا۔ میں اس وقت اپنے دل کے جذبات بیان کروں تو شاید خیال ہو میں خواہ مخواہ تعلی کر رہا ہوں۔ اچھے کام کرنے میں ایک خاص مسرت ہوتی ہے مگر میری خوشی ایک دوسری ہی قسم کی تھی، وہ فاتحانہ مسرت تھی، میں نے اپنے اوپر فتح پائی تھی۔

آج سے پہلے غالباً میں اندھے کو پانی میں ڈوبتے دیکھ کر یا تو اپنی راہ چلا جاتا یا پولیس کو رپورٹ کرتا۔ خاص اس حالت میں جبکہ سر پر اولے پڑ رہے ہوں میں کبھی پانی میں نا گھستا۔ ہر لمحہ خطرہ تھا کہ کوئی بڑا سا اولا سر پر گر کر عزیز جان کا خاتمہ نہ کر دے، مگر میں خوش تھا کیونکہ آج میری زندگی میں ایک نئے دور کا آغاز تھا۔

میں مندر میں پہنچا تو سارا جسم زخمی ہو رہا تھا، مجھے اپنی فکر نہ تھی۔ ایک زمانہ ہوا میں نے فوری امداد (فرسٹ ایڈ) کی مشق کی تھی وہ اس وقت کام آئی۔ میں نے آدھ گھنٹے میں اس اندھے کو اٹھا کر بٹھا دیا۔ اتنے میں دو آدمی اندھے کو ڈھونڈتے ہوئے مندر میں آ پہنچے، مجھے اسکی تیمار داری سے نجات ملی۔ اولے نکل گئے تھے، میں نے گھوڑے کی پیٹھ ٹھونکی، رومال سے ساز کو صاف کیا اور گجن پور چلا، بے خوف و خطر دل میں ایک غیبی طاقت محسوس کرتا ہوا۔ اسی وقت اندھے نے پوچھا۔ "تم کون ہو؟ بھائی مجھے تو کوئی مہاتما معلوم ہوتے ہو۔"

میں نے کہا۔ "تمھارا خادم ہوں۔"

"تمھارے سر پر کسی دیوتا کا سایہ معلوم ہوتا تھا۔"

"ہاں ایک دیوی کا سایہ ہے۔"

"وہ کون دیوی ہے؟"

"وہ دیوی پیچھے گاؤں میں رہتی ہے۔"

"تو کیا وہ عورت ہے؟"

"نہیں، میرے لئے وہ دیوی ہے۔"


(ختم شد)
 

محمد وارث

لائبریرین
مالکن


(1)

شیو داس نے بھنڈار کی کنجی اپنی بہو رام پیاری کے سامنے پھینک دی اور آنکھوں میں آنسو بھر کر کہا۔ "بہو آج سے گرہستی کی دیکھ بھال تمھارے ذمہ ہے۔ میرا سکھ بھگوان سے دیکھا نہیں گیا، نہیں تو کیا جوان بیٹے کو یوں چھین لیتے؟ مگر اس کا کام کرنے والا تو کوئی چاہیئے۔ اب ہل توڑ دوں گزر نہ ہوگی، اس لیے برجو کا ہل اب میں ہی سنبھالوں گا۔ پھر گھر کی دیکھ بھال کرنیوالا، رکھنے رکھانے والا تمھارے سوا دوسرا کون ہے؟ رو مت بیٹا، بھگوان کی جو مرضی تھی وہ ہوا اور جو مرضی ہوگی وہ ہوگا، ہمارا تمھارا کیا اختیار ہے۔ میرے جیتے جی کوئی تمھیں ٹیڑھی نگاہوں سے بھی نہ دیکھ سکے گا۔ تم کسی بات کی فکر مت کرو، برجو گیا تو میں تو ابھی بیٹھا ہوں۔"

رام پیاری اور دلاری دو حقیقی بہنیں تھیں، دونوں کی شادی برجو اور متھرا حقیقی بھائیوں سے ہوئی۔ دونوں بہنیں میکے کی طرح سسرال میں بھی محبت اور پیار سے رہنے لگیں، شیو داس کو فرصت ملی، دن بھر دروازے پر بیٹھا گپ شپ کرتا، آباد گھر دیکھ کر خوش ہوتا۔ دھرم کے کاموں کی طرف طبیعت مائل ہونے لگی۔ لیکن خدا کی مرضی، بڑا لڑکا جو بیمار پڑا۔ اور آج اسے مرے ہوئے پندرہ روز ہو گئے۔ آج اسکی آخری مراسم سے فرصت ملی اور شیو داس نے سچے بہادر کی طرح کارزارِ حیات کے لیے کمر باندھ لی۔ دل میں چاہے اسے کتنا ہی صدمہ ہوا ہو اسے کسی نے روتے ہوئے نہیں دیکھا، آج اپنی بہو کو دیکھ کر اسکی آنکھیں ڈبڈبا آئیں لیکن اس نے اپنی طبیعت کو سنبھالا اور بھرائی ہوئی آواز میں اسے دلاسا دینے لگا، شاید اس نے سوچا تھا کہ گھر کی مالکن بن کر بیوہ کے آنسو پچھ جائیں گے، کم سے کم اسے اپنی محنت تو نہ کرنی پڑے گی۔

رام پیاری نے رقت آمیز لہجے میں کہا۔ "یہ کیسے ہو سکتا ہے، دادا تم محنت مزدوری کرو اور میں مالکن بن کر بیٹھوں، کام دھندے میں لگی رہوں گی تو دل بہلتا رہے گا۔ بیٹھے بیٹھے تو رونے کے سوا اور کچھ نہ ہوگا۔"

شیو داس نے سمجھایا۔ "بیٹا بھگوان کی مرضی سے تو کسی کا بس نہیں۔ رونے دھونے سے ہلکان ہونے کے سوا اور کیا ہاتھ آئے گا؟ گھر میں بھی تو بیسوں کام ہیں، کوئی سادھو سنت آ جائے، کوئی مہمان آ پہنچے، اسکی خاطر مدارات کے لئے کسی کو تو گھر پر رہنا ہی پڑے گا۔" بہو نے بہت حیلے کئے پر شیو داس نے ایک نہ سنی۔



(2)

شیو داس کے باہر چلے جانے کے بعد مالکن نے کنجی اٹھا لی تو اسکے دل میں اختیار اور ذمہ داری کا زبردست احساس پیدا ہوا۔ تھوڑی دیر کے لئے شوہر کی جدائی کا صدمہ اسکے دل سے محو ہو گیا۔ اسکی چھوٹی بہن اور دیور دونوں کام کرنے گئے ہوئے تھے، شیو داس باہر تھا، گھر بالکل خالی تھا۔ اس وقت وہ بے فکر ہو کر بھنڈار کو کھول سکتی ہے، اس میں کیا کیا سامان ہے، کیا کیا چیز ہے یہ دیکھنے کے لیے اسکا دل بیتاب ہوگیا۔ اس مکان میں وہ کبھی نہیں آئی تھی، جب کسی کو کچھ دینا یا کسی سے کچھ لینا ہوتا تھا رام دلاری کواڑ کی درازوں سے اندر جھانکتی تھی مگر اندھیرے میں کچھ نظر نہ آتا تھا۔ سارے گھر کے لیے وہ کوٹھڑی ایک طلسم یا راز تھی جسے کھول کر دیکھنے کا موقع مل گیا۔ اس نے باہر کا دروازہ بند کر دیا کہ اسے کوئی بھنڈار کھولے نہ دیکھ لے، نہیں تو سوچے گا کہ بے ضرورت اس نے کیوں کھولا۔ اسکا سینہ دھڑک رہا تھا کہ کوئی دروازہ نہ کھٹکھٹانے لگے۔ اندر پاؤں رکھا تو اسے اسی طرح کی لیکن اس سے کہیں زیادہ خوشی ہوئی جو اسے اپنے کپڑے اور زیور کی پٹاری کھولنے میں ہوتی تھی۔ مٹکوں میں گڑ، شکر، گیہوں، جو وغیرہ سب چیزیں رکھی ہوئی تھیں۔ ایک کنارے بڑے بڑے برتن رکھے ہوئے تھے جو شادی بیاہ کے موقع پر نکالے جاتے تھے یا مانگے دیئے جاتے تھے۔ ایک جگہ مالگزاری کی رسیدیں اور لین دین کے کاغذات رکھے ہوئے تھے۔ کوٹھڑی پر شان و شوکت چھائی ہوئی تھی، اسکے سایہ میں رام پیاری کوئی آدھ گھنٹے تک اپنے دل کو ٹھنڈک پہنچاتی رہی۔ لمحہ بہ لمحہ اسکے دل پر نشہ سا طاری ہوتا جا رہا تھا جب وہ اس کوٹھڑی سے نکلی تو اسکے دل کی حالت بالکل بدلی ہوئی تھی جیسے کسی نے اس پر سحر کر دیا ہو۔

اسی وقت دروازے پر کسی آدمی نے آواز دی اس نے فوراً بھنڈارے کا دروازہ بند کیا اور جا کر صدر دروزاہ کھول دیا، دیکھا تو پڑوسن چھنیا کھڑی ایک روپیہ قرض مانگ رہی ہے۔

رام پیاری نے بے رخی سے کہا۔ "ابھی تو ایک پیسہ بھی گھر میں نہیں ہے، بہن کام کاج میں سب خرچ ہو گیا۔"

چھنیا حیران رہ گئی، چوہدری کے گھر میں اس وقت ایک روپیہ بھی نہیں ہے یہ یقین کرنے کی بات نہ تھی۔ جس کے یہاں سینکڑوں کا لین دین ہے اسکا سارا اثاثہ کام کاج میں صرف نہیں ہو سکتا۔ اگر شیو داس نے یہ حیلہ کیا ہوتا تو اسے تعجب نہ ہوتا، رام پیاری تو اپنے سادہ اخلاق کے لیے گاؤں میں مشہور تھی۔ اکثر شیو داس کی نگاہیں بچا کر ہمسایوں کو ضرورت کی چیزیں دے دیا کرتی تھی۔ ابھی کل ہی اس نے جانکی کو سیر بھر دودھ دے دیا تھا، یہاں تک کے اپنے گہنے تک دے دیا کرتی تھی۔ بخیل شیو داس کے گھر میں ایسی سخی بہو کا آنا لوگ اپنی خوش قسمتی سمجھتے تھے۔

چھنیا نے متعجب ہو کر کہا۔ "ایسا نہ کہو بہن، بڑی مصیبت میں پڑ گئی ہوں، نہیں تو تم جانتی ہو کہ عادت قرض مانگنے کی نہیں ہے۔ لگان کا ایک روپیہ دینا ہے، پیادہ دروازے پر کھڑا بک جھک رہا ہے۔ روپیہ دے دو کسی طرح مصیبت ٹلے، میں آج کے آٹھویں روز آ کر دے جاؤنگی۔ گاؤں میں اور کون گھر ہے جہاں مانگنے جاؤں۔"

رام پیاری ٹس سے مس نہ ہوئی۔

اسکے جاتے ہی رام پیاری شام کے کھانے کا انتظام کرنے لگی، پہلے چاول دال چننا وبال معلوم ہوتا تھا اور رسوئی میں جانا سولی پر چڑھنے سے کم نہ تھا، کچھ دیر دونوں بہنوں میں جھوڑ ہوتی، آخر میں شیو داس آ کر کہتا کہ کیا آج کھانا نہ پکے گا۔ اس وقت دونوں میں سے ایک اٹھتی اور موٹے موٹے ٹکڑ پکا کر رکھ دیتی جیسے بیلوں کا راتب ہو، آج رام پیاری تن من سے کھانا پکانے کے کام میں لگی ہوئی ہے، اب وہ گھر کی مالکن ہے۔

اس نے باہر نکل کر دیکھا کہ کتنا کوڑا کرکٹ پڑا ہوا ہے۔ "بڈھے دادا دن بھر مکھی مارا کرتے ہیں اتنا بھی نہیں ہوتا کہ ذرا جھاڑو ہی دے ڈالیں، اب کیا ان سے اتنا بھی نہیں ہوتا۔ دروازہ ایسا صاف ہونا چاہیئے کہ دیکھ کر دل خوش ہو جائے یہ نہیں کہ اب ابکائی آنے لگے، ابھی کہہ دوں تو تک اٹھیں۔ اچھا یہ منی ناند سے الگ کیوں کھڑی ہے؟"

اس نے منی گائے کے پاس جا کر ناند میں جھانکا۔ "بدبو آ رہی ہے، ٹھیک ہی معلوم ہوتا ہے مہینوں سے پانی نہیں بدلا گیا ہے، اس طرح تو گائے رہ چکی۔ اپنا پیٹ بھر لیا چھٹی ہوئی اور کسی سے کیا مطلب؟ ہاں دودھ سب کو اچھا لگتا ہے۔ دادا دروازے پر بیٹھے چلم پی رہے ہیں مگر اتنا نہیں ہوتا کہ چار گھڑے پانی ناند میں ڈال دیں۔ مزدور رکھا ہے وہ بھی تین کوڑی کا، کھانے کو ڈیڑھ سیر کام کرتے نانی مرتی ہے، آئے تو پوچھتی ہوں ناند میں پانی کیوں نہیں بدلتا۔ وہ رہے یا جائے، آدمی بہت ملیں گے چاروں طرف تو لوگ مارے مارے پھر رہے ہیں۔" آخر اس سے رہا نہ گیا، گھڑا اٹھا کر پانی لینے چلی۔

شیو داس نے پکارا۔ "پانی کیا ہوگا بہو؟ ناند میں پانی بھرا ہوا ہے۔"

پیاری نے کہا۔ "ناند کا پانی سڑ گیا ہے، منی بھوسے میں منہ نہیں ڈالتی، دیکھتے ہو کوس بھر کھڑی ہے۔"

شیو داس مسکرایا، دوڑ کر بہو کے ہاتھ سے گھڑا لے لیا۔


(جاری ہے)

۔
 
Top