نیکی کا بدلہ نیکی ہے یابدی؟

نیلم

محفلین
ایک آدمی جنگل سے گزرہا تھا اور جنگل میں آگ لگی ہوئی تھی‘ جھاڑیوں میں سانپ آگ میں پڑا تھا آدمی نے فوراً ہاتھ بڑھا کر سانپ کو نکال لیا اور بچالیا۔ سانپ بولا : ’’میں اب تمہیں ڈسوں گا۔‘‘ تو آدمی بولا: ’’میں نے تو تمہارے ساتھ نیکی کی ہے تمہیں بچاکے۔‘‘ سانپ بولا: ’’میرے پاس تو یہی صلہ ہے‘‘ آدمی بولا: ’’تم کہتے ہو تو چلو کسی سے پوچھ لیتے ہیں۔‘‘ جب وہ آگے بڑھے تو بھینسیں جنگل میں چر رہی تھیں‘ آدمی بھینس سے بولا کہ ’’میں نے سانپ کو آگ سے بچایا اوریہ میری جان کا دشمن بن بیٹھا ہے۔ اب تم بتائو نیکی کا بدلہ نیکی ہے یا بدی۔‘‘ بھینس بولی: ’’بدی!‘‘ آدمی بولا: ’’وہ کیسے؟‘ بھینس بولی: ’’جب میں تندرست تھی تو دودھ دیتی تھی تو میرا مالک مجھے کھانے کو اچھا دیتا تھا اور میرا خوب خیال رکھتا تھا۔ اب میں بوڑھی ہوگئی ہوں تومجھے انہوں نے ہنٹر مار کر گھر سے نکال دیا ہے لہٰذا نیکی کابدلہ بدی۔‘‘ سانپ بولا ’’اب بتائو‘‘ آدمی کہنے لگا : ’’کسی اور سے پوچھ لیتے ہیں۔‘‘ سانپ کہنے لگا ’’ٹھیک ہے۔‘‘ پھر چلتے ہوئے انہیں راستے میں ایک گدھا مل جاتا ہے تو آدمی کہتا ہے ’’نیکی کا بدلہ نیکی ہے یابدی؟‘‘ گدھا بولا: ’’بدی‘‘ آدمی کہنے لگا ’’وہ کیسے؟‘‘ گدھا بولا: ’’جب میں طاقت ور تھا تو میرے اوپر اتنا زیادہ بوجھ لادتے تھے‘ مجھ سے بہت کام لیتے تھے‘ اب میں کمزور لاغر ہوگیا ہوں تو انہوں نے مجھے گھر سے نکال دیا ہے‘ اس لیے نیکی کا بدلہ دی۔‘‘ آدمی کہنے لگا ’’کسی اور سے پوچھ لیتے ہیں۔‘‘ سانپ کہتا ہے ’’چلو ٹھیک ہے۔‘‘ سانپ مطمئن تھا کہ پہلے ہی دو فیصلے میرے حق میں ہیں تو تیسرا بھی میرے حق میں ہوگا۔ آگے انہیں بندر مل جاتا ہے تو وہ بندر کو بات تفصیل سے بتاتے ہیں بندر بولا: ’’نہیں مجھے اس جگہ لے کے جائو جس جگہ جھاڑیوں میں سانپ پڑا تھا اسے دوبارہ میرے سامنے رکھ کے پھر اس جگہ سے اٹھائو۔‘‘ آدمی سانپ کو پکڑ کر اس جگہ پر رکھ کر اٹھانے لگا تو بندر نے فوراً آدمی کا ہاتھ پیچھے کھینچ لیا اور آدمی سے بولا: ’’یہ نیکی کے لائق نہیں ہے اسے اسی جگہ سڑتا رہنے دو۔‘‘
 

نایاب

لائبریرین
اسی لیئے تو کہتے ہیں کہ
"نیکی کر دریا میں ڈال "
نیکی کرنا یا نیکی کا بدلہ دینا اپنی اپنی فطرت پر منحصر ہے ۔
" جن کی فطرت میں ہو ڈسنا وہ ڈسا ہی کرتے ہیں "
سو
جن کی فطرت میں ہو نیکی کرنا وہ نیکی ہی کیا کرتے ہیں اور اجر اللہ پر چھوڑ دیتے ہیں ۔
 

نیلم

محفلین
اسی لیئے تو کہتے ہیں کہ
"نیکی کر دریا میں ڈال "
نیکی کرنا یا نیکی کا بدلہ دینا اپنی اپنی فطرت پر منحصر ہے ۔
" جن کی فطرت میں ہو ڈسنا وہ ڈسا ہی کرتے ہیں "
سو
جن کی فطرت میں ہو نیکی کرنا وہ نیکی ہی کیا کرتے ہیں اور اجر اللہ پر چھوڑ دیتے ہیں ۔

جی بلکل ،،،نیکی کبھی رایئگاں نہیں جاتی،،،کیونکہ اس کاصلہ تو اللہ کےپاس ہے:)
 

عاطف بٹ

محفلین
نیلم حکایت پوری لکھتے ہیں۔ آپ نے ایک حصہ چھوڑ دیا اور وہ یہ ہے:
جب بندر نے یہ بات کہی تو سانپ نے روتے ہوئے اس کی طرف دیکھ کر کہا، فٹے منہ تیرا بےغیرتا! :p
 

نیلم

محفلین
نیلم حکایت پوری لکھتے ہیں۔ آپ نے ایک حصہ چھوڑ دیا اور وہ یہ ہے:
جب بندر نے یہ بات کہی تو سانپ نے روتے ہوئے اس کی طرف دیکھ کر کہا، فٹے منہ تیرا بےغیرتا! :p
ہاہاہاہاہاہا،آپ سانپ کی جگہ ہوتےتوآپ نےایسےہی بُولناتھا:D
:D
 

قرۃالعین اعوان

لائبریرین
وہ جیسے ایک بچھو پانی میں گر گیا اور مرنے لگا وہاں سے ایک آدمی گذر رہا تھا اس نے بچھو کو پانی سے نکال لیا
اور بچھو نے اسے یہ صلہ دیا کے آدمی کو کاٹ لیا تھوڑی دیر میں بچھو دوبارہ پانی میں گر گیا، آدمی نے بچھو کو دوبارہ نکال لیا اور بچھو نے اسے پھر کاٹ لیا
ایک دوسرے آدمی نے جب یہ منظر دیکھاتو کہا ارے بھئی یہ تمہیں کاٹے جارہا ہے اور تم اسے نکالے جارہے ہو!
مرنے دو اس کو!
آدمی نے جواب دیا جب یہ بچھو ہو کر اپنی فطرت نہیں بدل رہا تو میں آدمی ہوکر اپنی فطرت کیسے بدل سکتا ہوں۔
بات یہی ہے کہ ہمیں جو درس دیا گیا ہے آدمیت کا ،انسانیت کا ، کہ نیکی کرو اچھا سلوک کرو آگے چل کر چاہے جو بدلہ ملے
جب برے لوگ اپنی سرشت نہیں چھوڑتے ،غلط ہوکر بھی بہت ثابت قدمی سے اپنی برائیوں پر ڈٹے رہتے ہیں تو اچھے لوگوں کو ان سے بھی زیادہ ثابت قدم ہونا چاہیئے اور کسی کے برے بدلے پر اور ڈٹ کر کھڑے رہنا چاہیئے اپنے اچھے راستے پر
تب ہی اس برائی کا خاتمہ یا کمی ہوسکتی ہے۔
 
Top