نیند، بے خوابی، جاگنے پہ اشعار

یاز

محفلین
تنہائیوں کے دشت میں بھاگے جو رات بھر
وہ دن کو خاک جاگے گا، جاگے جو رات بھر

وہ دن کی روشنی میں پریشان ہو گیا
سلجھا رہا تھا بخت کے دھاگے جو رات بھر

کیا کیا نہ پیاس جاگے، مرے دل کے دشت میں
حسرت بھی ایک آگ ہے، لاگے جو رات بھر
 

یاز

محفلین
دن نکلتے ہی مرے خواب بکھر جاتے ہیں
روز گرتا ہے اسی فرش پہ گلدان مرا

مجھ کو جس ناؤ میں آنا تھا کہیں ڈوب گئی
خواب ہے نیند کے ساحل پہ پریشان مرا
 

یاز

محفلین
اس آنکھ سے وحشت کی تاثیر اٹھا لایا
میں جاگتے رہنے کی تدبیر اٹھا لایا

اے خواب پذیرائی تو کیوں مری آنکھوں میں
اندیشۂ دنیا کی تعبیر اٹھا لایا
 

یاز

محفلین
سناٹے کا درد نکھارا کرتا ہوں
خود کو خاموشی سے پکارا کرتا ہوں

تنہائی جب آئینہ دکھلاتی ہے
اپنی ذات کا پہروں نظارہ کرتا ہوں

خوابوں کے سنسان جزیروں میں جا کر
ویرانی سے ذکر تمہارا کرتا ہوں

جب سے نیندیں لوٹ گئیں تاروں کی طرف
جاگتے میں زخموں کو سنوارا کرتا ہوں
 

یاز

محفلین
ظلمت کہیں نہ کر دے اجالے کو داغدار
لے کر چراغ دیدۂ تر جاگتے رہو

سوئے نہیں کہ ڈوب گئی نبض کائنات
بوجھل ہو لاکھ آنکھ مگر جاگتے رہو

خوابیدہ اپنے چاہنے والوں کو دیکھ کر
ممکن ہے لوٹ جائے سحر جاگتے رہو
 

یاز

محفلین
میری بے درد نگاہوں میں اگر بھولے سے
نیند آئی بھی تو اب خواب کہاں آتے ہیں
میں تو یکمشت اسے سونپ دوں سب کچھ لیکن
ایک مٹھی میں میرے خواب کہاں آتے ہیں
 
ٹوٹی ہے میری نیند مگر تم کو اس سے کیا
بجتے رہیں ہواؤں سے در تم کو اس سے کیا
لے جائیں مجھ کو مال غنیمت کے ساتھ عدو
تم نے تو ڈال دی ہے سپر تم کو اس سے کیا
تم نے تو تھک کے دشت میں خیمے لگا لیے
تنہا کٹے کسی کا سفر تم کو اس سے کیا
 
Top