نیلا چاند، سرخ جام اور سبز لباس...!!!

نور وجدان

لائبریرین
نیلا چاند، سرخ جام اور سبز لباس...!!!

شام کے وقت سے صبح کا وقت ، ایک انتظار سے وصال اور وصال سے ہجر کا وقت ہوتا ہے . جانے کتنے دکھ ، اللہ جی ..! جانے کتنے دکھ ... ! آپ نے رات کے پہلو سے دن کی جھولی میں ڈالی ، جانے کتنے درد سورج لیے پھرتا ہے . اللہ جی ..! سورج بڑا ، اداس ہے ... اس کو رات میں دیکھا ہے ، جب میں چاند کو دیکھ رہی تھی .. !

دل سے صدا تو اُبھری ہے ، دل کہتا ہے ، اللہ جانے نا...! اللہ جانے کہ کس کو کتنا دینا ہے ، جس کو جتنا ظرف ہوتا ہے اتنا اس کو درد ملتا ہے ..!! سورج کی قربانی کبھی رائیگاں نہیں جاتی ۔۔۔ پیار بانٹنے والے کے حصے میں دینا لکھا ہے اور درد پی پی کر ، سورج کو قربانی دینے کی عادت سی پڑ گئی ہے ۔۔۔۔ اس کی عادت ، نے رات کی جھولی بھرنی ہوتی ہے اور رات سورج کی تلاش کی عادی ۔۔ انتظار کی ''عادت '' کس کی ۔۔۔؟
جانے کس کی ، زمین کی یا رات کی ، یا پھر چاند کی ۔۔۔؟
کون جانے ۔۔۔۔!
بس جانے تو ، ایک '' عادت'' کی لت پڑجانے کا جانے ۔۔۔!
اب کہ عادت سی ہوگئی ہے ، عادت ... !
ہاِں...!
عادت...!!
کیسی عادت ...!
سورج سے، چاند کا رشتہ معلوم کرنے کی عادت ،
زمین سے اللہ کا رشتہ جاننے کی عادت ..!!
زمین پر چاند بھی ہے ، اس کے گرد گھومتا ہے اور سورج اس کو روشنی دیتا ہے ...۔۔۔۔!.
اب پوچھیے !

زمین کا رشتہ کس سے کتنا گہرا....؟ ہوسکتا ہےچاند سے ہو ، چاند زمین کا طواف کرتا رہتا ہے ، زمین کو سورج سے زیادہ ، چاند اس لیے عزیز ہے .... رات کا چاند سے ملنا ، اللہ جی کی نشانی ہے ... اللہ کے امر میں کون رکاوٹ ڈالے ..؟ بات تو وہی ہے نا...! زمین کے گرد چاند ایک ہے مگر زمیں میں طوفان لاتا ہے ، اس کے سمندر میں شور لا کر لہروں کو بڑا تڑپاتا ہے . یہ بھی پتا نہیں چل رہا کہ چاند زمیں کو کشش کر رہا ہے یا زمین چاند کو ...۔۔۔۔! مگر رات بڑی حسین ہو گئی ہے ...۔۔۔! کرم رات پر ہو ... ۔۔۔۔!کبھی کبھی رات کو وصال میں مزہ آتا ، چاند کے رات سے وصل میں زمین بڑی خوش ہوتی ہے اور اللہ جی کی حکمت! اللہ جی کی ...! چاند کو ایک زمین سے پیار ہے ۔۔۔! سورج کے پیار کئی ہیں ...۔۔۔! اس لیے چاند پہ لوگ مرتے بڑے ہیں .۔۔۔!. قسم لے لو! چاند کی محبتیں ، چندا کے نام سے منسوب ہیں ... سورج کی محبتیں بڑی بے نام ہیں ، خشک ، خشک سی ...!!!

کبھی زمیں بڑی کشش کرتی ہے ..!
ارے ! کس کو ؟
چاند کو ....!
اچھا.. اس سے کیا ہوتا ہے ؟
ہوتا تو کچھ نہیں ہے مگر چاند بھی بے تاب ہوجاتا ہے اور اپنا جلوہ سال میں چودہ دفعہ بھی کروا جاتا ہے ، چودھویں کا چاند اور وہ بھی بار بار ابھرے ..!!
اس کا حسن کیسے ہوگا..؟
کیا جانے ہم ...؟
سبز زمین کی گود میں نیلا چاند آجائے اور جام ُُسرخ نہ ہو یہ کیسے ہوسکتا ہے .... ! لبالب جام ہو اور سرخ جام کا مزہ بھی اپنا ہے .اور جام کے بعد کا سماع ۔۔۔ اس کا لطف تو اور ہی ہو۔۔۔ مگر جام کے بعد ہوش کہاں ۔۔۔؟
کہاں ہوش ، ہوش تو نہیں ہے ۔۔؟
لگتا ہے کہ پہلی ہی پی رکھی ہے ، جو سرخی کی بات ہورہی ہے ...!!
کیا فرق پڑتا ہے ...؟ پیے جاؤ اور پی لو ... بس پیمانہ بڑا ہو ..... اور اتنا ڈالو کہ سب کے سب جام پیمانے میں سما جائے ...!!! پیمانے بڑا کرنےسے نہیں ہوتا بس ودیعت کردہ ہوتا اور چھلک بھی جائے تو کیا۔۔۔؟

لگتا ہے دیوانگی چھا گئی ہے ...؟

دیوانہ جام کا رنگ کیا جانے .... یہ سرخ جام تو ہوش کی نشانی ہے ، یاقوت کی طرح بدن میں سما کر ، روح کو نیلا نیلا کر دینے والا....! پینے کے بعد کا ہوش کہیں مجھے بہکا نہ دے ...!!! ہوش والے بہکتے نہیں ہیں اور جوش والے سمجھ کہاں رکھتے ہیں ، فرق ہی مٹ جاتے ہیں سارے کے سارے ...!! بس فرق ختم ہوجاتے ہیں ۔۔ تفریق مٹ جانا اچھا ہوتا ہے۔ اس سے تضاد ختم ہوتا ہے ، رنگ اڑ جائے تو تضاد کے بہانے سو۔۔۔!!!

زمین نیلی ہورہی ہے اور چاند بار بار جھلک دکھلاتا ہے ، چاند کی تاک جھانک سے سمندر میں مدوجزر آگیا .... سیلاب آگیا اور زمیں سبز سے نیلی ہو رہی ہے .... برباد ہو رہی ہے ، تخریب ہو رہی ہے ، مٹی بدل رہی ہے ، ریختگی بڑھے یا زرخیزی .... سیلاب کا کام تو دونوں چیزوں کے سبب پیدا کرنا ہے ...!! اللہ کی حکمت ۔۔ اللہ جی جانے ، وہ جانے ، ہم کیا جانے ۔۔۔؟ ہم تعمیل کے غلام ۔۔۔ غلام ، بس غلام اور کچھ نہیں ۔۔۔! آنے دو سیلاب ۔۔۔! اس کا کرم ، اس کی حکمت اور اس کی حکمت بندہ کیا جانے ۔۔۔ !بندہ جانے وہی ۔۔۔ جو وہ جانے بس۔۔۔!!!

سیلاب سبب زندگی اور سیلاب سبب موت بھی
یہ حیات کا عندیہ بھی اور جانے والے کا سندیسہ بھی .... !

کون جانے کہ کس نے جانا ہے اور کس نے آنا ہے ، مگر زمین نیلی نیلی ہے ، اس کا سبز رنگ ، نیلا ہوتا جارہا ہے ، کبھی کبھی تو گمان ہوتا ہے کہ زمین کہیں پوری ہی نیلی نہ ہوجائے .....!! اور ہوش کھوتا جارہا ہے ...!! زمین نیلی ہر دفعہ ہوتی کہاں ہے ، یہ بھی اس کا حکم ہوتا ہے اور جب حکم ہوتا ہے ، تب جام ملتا ہے ، جام ۔۔۔ جام بس اور جام کے سوا کچھ نہیں ۔۔۔۔۔۔۔!
جام پر جام ...!
کتنا پینا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
دل کر رہا ہے ۔۔۔۔!
بس 'مے و شراب سے کبھی نہ نکلوں ۔۔۔۔!
بس کبھی بھی نہ ۔۔۔!
سرخ شراب ، بس سرخ ، سرخ ، اور سرخ.... سب سرخ ہوجائے ...!!!

بس ، سرخی جام ، نیلا چاند اور سبز زمین کا وصل ہوگیا اور ایک '' نور'' کا ہالہ سا بن گیا...........!!! ایسا ہالہ کب بنتا ہے ، جب بنیاد مل جاتی ہے ، جب سب اجزا مل جاتے ہیں ۔۔۔ جب بکھر کر سب سمٹنے لگتا ہے ۔۔ اور فرق ختم ہوجاتا ہے ۔۔۔!!!
نہ سرخ رہا..!
نہ سبز رہا...!
نہ نیلا رہا...!
صرف ''نور ' رہا....!!!
وہ جو ازل سے دل میں مکیں ہیں ، وہ تو یہیں کہیں ہے اور اسکو ڈھونڈتا کوئی بہت حسیں ہے ، اس کی چاہ میں کس کی ہورہی ترکیب ہے ....!!!

کون جانے ، کون جانے ، کون جانے...!!!
کوئی نہ جانے ....!!
بس ''وہ '' جانے ...!!
 
آخری تدوین:

بزم خیال

محفلین
زبردست خیال ۔۔۔۔۔ مست حال۔۔۔۔۔۔
بہت سی دعائیں و داد !!!!!!!!!!
چند سال پہلے اسی پیرائے میں یہ لکھا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تفکرِ ایمان تنہائی شب میں بیتاب ہوا
ہزاروں سال جل جل کر تو آفتاب ہوا
کہیں آگ کے دریا کہیں روشنی کے مینار
آنکھ مچولی کھیل کھیل کر ہی تو مہتاب ہوا
وارفتگی نم سے ہی ایک دانہ کو بہار آئی
حدتِ قطرہ سے ابر اور قطرہ ہی دمِ آب ہوا
 

نور وجدان

لائبریرین
زبردست خیال ۔۔۔۔۔ مست حال۔۔۔۔۔۔
بہت سی دعائیں و داد !!!!!!!!!!
چند سال پہلے اسی پیرائے میں یہ لکھا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تفکرِ ایمان تنہائی شب میں بیتاب ہوا
ہزاروں سال جل جل کر تو آفتاب ہوا
کہیں آگ کے دریا کہیں روشنی کے مینار
آنکھ مچولی کھیل کھیل کر ہی تو مہتاب ہوا
وارفتگی نم سے ہی ایک دانہ کو بہار آئی
حدتِ قطرہ سے ابر اور قطرہ ہی دمِ آب ہوا
خوب ! خوب ! خوب۔۔۔!

اشعار کی عمدگی پر بے حد داد ۔۔ تحسین ۔۔گویا کہ نثر کے ساتھ شعر وشاعری میں بھی کمال حاصل ہے ۔۔۔

دعا ۔۔۔ کا بہت بہت شکریہ۔۔۔۔۔!
 

نایاب

لائبریرین
رنگوں کی علامت میں لپٹی ہجر سے ابھرتی "روح" کی صدا ۔۔۔۔۔۔۔
نیل کرائیاں نیلکاں ۔ میرا تن من ہویا نیلو نیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت سی دعاؤں بھری داد
 

نور وجدان

لائبریرین
رنگوں کی علامت میں لپٹی ہجر سے ابھرتی "روح" کی صدا ۔۔۔۔۔۔۔
نیل کرائیاں نیلکاں ۔ میرا تن من ہویا نیلو نیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت سی دعاؤں بھری داد
یہ بات تو آپ سے معلوم ہوئی ہے ۔۔۔ خبر ہی نہ تھی۔
دعا کا شکریہ ۔۔
رنگ میرا سرمایہ حیات
ان سے میرا وجود
ان کے بغیر کیا نمود
یہ میری بقا
یہ میری حیا
میرے رنگ
میرے سنگ
چلتے چلتے
لے اڑے ۔۔۔!
اب کہاں جاؤں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
 

نایاب

لائبریرین
یہ بات تو آپ سے معلوم ہوئی ہے ۔۔۔ خبر ہی نہ تھی۔
جو خود ابھی سفر میں ہوں وہ کیا دے سکیں خبر منزل کی ۔۔۔۔
کل سے بچھڑا اک جز ہے محو کل کی تلاش میں ۔۔۔۔۔۔۔۔
رنگ میرا سرمایہ حیات
ان سے میرا وجود
ان کے بغیر کیا نمود
یہ میری بقا
یہ میری حیا
رنگ بکھرتے ہیں نور سے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور رنگ نور کی کیا مثال
اک رنگ بھی اگر مل جائے ہستی ہماری نور ہو جائے ۔
ر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ روشنی پھیلاتے ہیں ۔ ر ۔۔۔۔ راگ سناتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رلاتے ہیں
ن ۔۔۔۔ نغمہ بن روح میں مہکتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ن ۔۔۔۔۔۔۔ نور کی خبر دیتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ ن ۔۔۔۔ نوازتے ہیں آگہی سے
گ ۔۔۔۔۔ گھور اندھیرے میں راہ دکھاتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ گ ۔۔۔۔۔ گہری سوچ سکھاتے ہیں ۔۔۔ گ ۔۔۔۔۔۔۔ گم کر دیتے ہستی کو
اللہ ہم سب کو رنگ ازلی و ابدی کے نور سے رنگ دے ۔۔ آمین
میرے رنگ
میرے سنگ
چلتے چلتے
لے اڑے ۔۔۔!
اب کہاں جاؤں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
رنگ سچے ہوں ، ،،، تو روح کو لے ہی اڑتے ہیں جانب منزل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب منزل کی جانب رواں ہوں تو پھر یہ کیا فکر کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب کہاں جاؤں ۔۔۔۔۔۔۔؟
سوال مجہول ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ کمزور ہے ۔۔۔۔
بہت دعائیں
 

شزہ مغل

محفلین
نیلا چاند، سرخ جام اور سبز لباس...!!!

شام کے وقت سے صبح کا وقت ، ایک انتظار سے وصال اور وصال سے ہجر کا وقت ہوتا ہے . جانے کتنے دکھ ، اللہ جی ..! جانے کتنے دکھ ... ! آپ نے رات کے پہلو سے دن کی جھولی میں ڈالی ، جانے کتنے درد سورج لیے پھرتا ہے . اللہ جی ..! سورج بڑا ، اداس ہے ... اس کو رات میں دیکھا ہے ، جب میں چاند کو دیکھ رہی تھی .. !

دل سے صدا تو اُبھری ہے ، دل کہتا ہے ، اللہ جانے نا...! اللہ جانے کہ کس کو کتنا دینا ہے ، جس کو جتنا ظرف ہوتا ہے اتنا اس کو درد ملتا ہے ..!! سورج کی قربانی کبھی رائیگاں نہیں جاتی ۔۔۔ پیار بانٹنے والے کے حصے میں دینا لکھا ہے اور درد پی پی کر ، سورج کو قربانی دینے کی عادت سی پڑ گئی ہے ۔۔۔۔ اس کی عادت ، نے رات کی جھولی بھرنی ہوتی ہے اور رات سورج کی تلاش کی عادی ۔۔ انتظار کی ''عادت '' کس کی ۔۔۔؟
جانے کس کی ، زمین کی یا رات کی ، یا پھر چاند کی ۔۔۔؟
کون جانے ۔۔۔۔!
بس جانے تو ، ایک '' عادت'' کی لت پڑجانے کا جانے ۔۔۔!
اب کہ عادت سی ہوگئی ہے ، عادت ... !
ہاِں...!
عادت...!!
کیسی عادت ...!
سورج سے، چاند کا رشتہ معلوم کرنے کی عادت ،
زمین سے اللہ کا رشتہ جاننے کی عادت ..!!
زمین پر چاند بھی ہے ، اس کے گرد گھومتا ہے اور سورج اس کو روشنی دیتا ہے ...۔۔۔۔!.
اب پوچھیے !

زمین کا رشتہ کس سے کتنا گہرا....؟ ہوسکتا ہےچاند سے ہو ، چاند زمین کا طواف کرتا رہتا ہے ، زمین کو سورج سے زیادہ ، چاند اس لیے عزیز ہے .... رات کا چاند سے ملنا ، اللہ جی کی نشانی ہے ... اللہ کے امر میں کون رکاوٹ ڈالے ..؟ بات تو وہی ہے نا...! زمین کے گرد چاند ایک ہے مگر زمیں میں طوفان لاتا ہے ، اس کے سمندر میں شور لا کر لہروں کو بڑا تڑپاتا ہے . یہ بھی پتا نہیں چل رہا کہ چاند زمیں کو کشش کر رہا ہے یا زمین چاند کو ...۔۔۔۔! مگر رات بڑی حسین ہو گئی ہے ...۔۔۔! کرم رات پر ہو ... ۔۔۔۔!کبھی کبھی رات کو وصال میں مزہ آتا ، چاند کے رات سے وصل میں زمین بڑی خوش ہوتی ہے اور اللہ جی کی حکمت! اللہ جی کی ...! چاند کو ایک زمین سے پیار ہے ۔۔۔! سورج کے پیار کئی ہیں ...۔۔۔! اس لیے چاند پہ لوگ مرتے بڑے ہیں .۔۔۔!. قسم لے لو! چاند کی محبتیں ، چندا کے نام سے منسوب ہیں ... سورج کی محبتیں بڑی بے نام ہیں ، خشک ، خشک سی ...!!!

کبھی زمیں بڑی کشش کرتی ہے ..!
ارے ! کس کو ؟
چاند کو ....!
اچھا.. اس سے کیا ہوتا ہے ؟
ہوتا تو کچھ نہیں ہے مگر چاند بھی بے تاب ہوجاتا ہے اور اپنا جلوہ سال میں چودہ دفعہ بھی کروا جاتا ہے ، چودھویں کا چاند اور وہ بھی بار بار ابھرے ..!!
اس کا حسن کیسے ہوگا..؟
کیا جانے ہم ...؟
سبز زمین کی گود میں نیلا چاند آجائے اور جام ُُسرخ نہ ہو یہ کیسے ہوسکتا ہے .... ! لبالب جام ہو اور سرخ جام کا مزہ بھی اپنا ہے .اور جام کے بعد کا سماع ۔۔۔ اس کا لطف تو اور ہی ہو۔۔۔ مگر جام کے بعد ہوش کہاں ۔۔۔؟
کہاں ہوش ، ہوش تو نہیں ہے ۔۔؟
لگتا ہے کہ پہلی ہی پی رکھی ہے ، جو سرخی کی بات ہورہی ہے ...!!
کیا فرق پڑتا ہے ...؟ پیے جاؤ اور پی لو ... بس پیمانہ بڑا ہو ..... اور اتنا ڈالو کہ سب کے سب جام پیمانے میں سما جائے ...!!! پیمانے بڑا کرنےسے نہیں ہوتا بس ودیعت کردہ ہوتا اور چھلک بھی جائے تو کیا۔۔۔؟

لگتا ہے دیوانگی چھا گئی ہے ...؟

دیوانہ جام کا رنگ کیا جانے .... یہ سرخ جام تو ہوش کی نشانی ہے ، یاقوت کی طرح بدن میں سما کر ، روح کو نیلا نیلا کر دینے والا....! پینے کے بعد کا ہوش کہیں مجھے بہکا نہ دے ...!!! ہوش والے بہکتے نہیں ہیں اور جوش والے سمجھ کہاں رکھتے ہیں ، فرق ہی مٹ جاتے ہیں سارے کے سارے ...!! بس فرق ختم ہوجاتے ہیں ۔۔ تفریق مٹ جانا اچھا ہوتا ہے۔ اس سے تضاد ختم ہوتا ہے ، رنگ اڑ جائے تو تضاد کے بہانے سو۔۔۔!!!

زمین نیلی ہورہی ہے اور چاند بار بار جھلک دکھلاتا ہے ، چاند کی تاک جھانک سے سمندر میں مدوجزر آگیا .... سیلاب آگیا اور زمیں سبز سے نیلی ہو رہی ہے .... برباد ہو رہی ہے ، تخریب ہو رہی ہے ، مٹی بدل رہی ہے ، ریختگی بڑھے یا زرخیزی .... سیلاب کا کام تو دونوں چیزوں کے سبب پیدا کرنا ہے ...!! اللہ کی حکمت ۔۔ اللہ جی جانے ، وہ جانے ، ہم کیا جانے ۔۔۔؟ ہم تعمیل کے غلام ۔۔۔ غلام ، بس غلام اور کچھ نہیں ۔۔۔! آنے دو سیلاب ۔۔۔! اس کا کرم ، اس کی حکمت اور اس کی حکمت بندہ کیا جانے ۔۔۔ !بندہ جانے وہی ۔۔۔ جو وہ جانے بس۔۔۔!!!

سیلاب سبب زندگی اور سیلاب سبب موت بھی
یہ حیات کا عندیہ بھی اور جانے والے کا سندیسہ بھی .... !

کون جانے کہ کس نے جانا ہے اور کس نے آنا ہے ، مگر زمین نیلی نیلی ہے ، اس کا سبز رنگ ، نیلا ہوتا جارہا ہے ، کبھی کبھی تو گمان ہوتا ہے کہ زمین کہیں پوری ہی نیلی نہ ہوجائے .....!! اور ہوش کھوتا جارہا ہے ...!! زمین نیلی ہر دفعہ ہوتی کہاں ہے ، یہ بھی اس کا حکم ہوتا ہے اور جب حکم ہوتا ہے ، تب جام ملتا ہے ، جام ۔۔۔ جام بس اور جام کے سوا کچھ نہیں ۔۔۔۔۔۔۔!
جام پر جام ...!
کتنا پینا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
دل کر رہا ہے ۔۔۔۔!
بس 'مے و شراب سے کبھی نہ نکلوں ۔۔۔۔!
بس کبھی بھی نہ ۔۔۔!
سرخ شراب ، بس سرخ ، سرخ ، اور سرخ.... سب سرخ ہوجائے ...!!!

بس ، سرخی جام ، نیلا چاند اور سبز زمین کا وصل ہوگیا اور ایک '' نور'' کا ہالہ سا بن گیا...........!!! ایسا ہالہ کب بنتا ہے ، جب بنیاد مل جاتی ہے ، جب سب اجزا مل جاتے ہیں ۔۔۔ جب بکھر کر سب سمٹنے لگتا ہے ۔۔ اور فرق ختم ہوجاتا ہے ۔۔۔!!!
نہ سرخ رہا..!
نہ سبز رہا...!
نہ نیلا رہا...!
صرف ''نور ' رہا....!!!
وہ جو ازل سے دل میں مکیں ہیں ، وہ تو یہیں کہیں ہے اور اسکو ڈھونڈتا کوئی بہت حسیں ہے ، اس کی چاہ میں کس کی ہورہی ترکیب ہے ....!!!

کون جانے ، کون جانے ، کون جانے...!!!
کوئی نہ جانے ....!!
بس ''وہ '' جانے ...!!
مست و بے خود تحریر
آپ کی دوسری تحریر پڑھی ہے۔ عنوان بہت جاندار ہیں دونوں کے۔
مگر یہ پینے پلانے کے دور کیوں چلتے ہیں آپ کی تحاریر میں؟؟؟
 

شزہ مغل

محفلین
جو خود ابھی سفر میں ہوں وہ کیا دے سکیں خبر منزل کی ۔۔۔۔
کل سے بچھڑا اک جز ہے محو کل کی تلاش میں ۔۔۔۔۔۔۔۔

رنگ بکھرتے ہیں نور سے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور رنگ نور کی کیا مثال
اک رنگ بھی اگر مل جائے ہستی ہماری نور ہو جائے ۔
ر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ روشنی پھیلاتے ہیں ۔ ر ۔۔۔۔ راگ سناتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رلاتے ہیں
ن ۔۔۔۔ نغمہ بن روح میں مہکتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ن ۔۔۔۔۔۔۔ نور کی خبر دیتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ ن ۔۔۔۔ نوازتے ہیں آگہی سے
گ ۔۔۔۔۔ گھور اندھیرے میں راہ دکھاتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ گ ۔۔۔۔۔ گہری سوچ سکھاتے ہیں ۔۔۔ گ ۔۔۔۔۔۔۔ گم کر دیتے ہستی کو
اللہ ہم سب کو رنگ ازلی و ابدی کے نور سے رنگ دے ۔۔ آمین

رنگ سچے ہوں ، ،،، تو روح کو لے ہی اڑتے ہیں جانب منزل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب منزل کی جانب رواں ہوں تو پھر یہ کیا فکر کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب کہاں جاؤں ۔۔۔۔۔۔۔؟
سوال مجہول ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ کمزور ہے ۔۔۔۔
بہت دعائیں
نایاب بھائی بہت خوب۔۔۔ بہت خوب
 

نور وجدان

لائبریرین
مست و بے خود تحریر
آپ کی دوسری تحریر پڑھی ہے۔ عنوان بہت جاندار ہیں دونوں کے۔
مگر یہ پینے پلانے کے دور کیوں چلتے ہیں آپ کی تحاریر میں؟؟؟
آپ کی اس بات سے کچھ اشعار یاد آگئے ہیں ، کبھی سنے تھے ۔ پیشِ خدمت ہیں


بے خود کیے دیتے ہیں اندازِ حجابانہ
آ ! دل میں تجھے رکھ لوں ۔۔۔۔! اے جلوہ ِ جاناں.


کیوں آنکھ ملائی تھی ،۔۔۔؟کیوں آنکھ لگائی تھی ۔۔۔؟
اب رُ خ چھپا بیٹھے ۔۔۔!کرکے مجھے دیوانہ ..۔۔۔۔!!!

زاہد تیری قسمت میں ہیں سجدے اسی در کے
چھوٹا ہے نہ چھوٹے گا ، سنگِ درِ جاناں...۔۔۔!

میں ہوش و حواس اپنے اس بات پر کھو بیٹھا
وہ ہنس کے کہیں ۔۔ ''جائے.''..۔۔!!! ہے دیوانہ..!

جس جگہ نظر آئے ، سجدے وہیں کرتا ہوں
اس سے نہیں مطلب ، کعبہ ہو یا بت خانہ ..!

اتنا تو کرم کر! اے نرگسَِ مستانہ
جب جان لبوں پر آئے، دید کرا جانا.۔۔!

جی چاہتا ہے کہ تحفے میں دے دوں انہیں آنکھیں
درشن کا بھی درشن ، نذرانے کا نذرانہ

ساقی ترے آتے ہی جوش یہ مستی کا
شیشے پہ گرا شیشہ ، پیمانہِ پیمانہ

پینے کو تو پی لوں گا ، پر بات ذرا سی ہے
اجمیر کا ساقی ہو۔۔۔!! بغداد کا میخانہ۔۔۔۔!

سر شار مجھے کر دے ، اک جام ِ لبا لب سے
تاحشر ، ساقی رہے ، آباد یہ میخانہ .

دل اپنا چمک اٹھے ایمان کی طلعت سے
کر آنکھ بھی نوارنی ، اے جلوہ جاناں

ہر پھول میں ُبو تری ، ہر شمع میں ضو تری
بلبل ہے تری بلبل ، پراوانہ ہے پراوانہ

نامعلوم
 
آخری تدوین:

نور وجدان

لائبریرین
جو خود ابھی سفر میں ہوں وہ کیا دے سکیں خبر منزل کی ۔۔۔۔
کل سے بچھڑا اک جز ہے محو کل کی تلاش میں ۔۔۔۔۔۔۔۔

رنگ بکھرتے ہیں نور سے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور رنگ نور کی کیا مثال
اک رنگ بھی اگر مل جائے ہستی ہماری نور ہو جائے ۔
ر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ روشنی پھیلاتے ہیں ۔ ر ۔۔۔۔ راگ سناتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رلاتے ہیں
ن ۔۔۔۔ نغمہ بن روح میں مہکتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ن ۔۔۔۔۔۔۔ نور کی خبر دیتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ ن ۔۔۔۔ نوازتے ہیں آگہی سے
گ ۔۔۔۔۔ گھور اندھیرے میں راہ دکھاتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ گ ۔۔۔۔۔ گہری سوچ سکھاتے ہیں ۔۔۔ گ ۔۔۔۔۔۔۔ گم کر دیتے ہستی کو
اللہ ہم سب کو رنگ ازلی و ابدی کے نور سے رنگ دے ۔۔ آمین

رنگ سچے ہوں ، ،،، تو روح کو لے ہی اڑتے ہیں جانب منزل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب منزل کی جانب رواں ہوں تو پھر یہ کیا فکر کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب کہاں جاؤں ۔۔۔۔۔۔۔؟
سوال مجہول ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ کمزور ہے ۔۔۔۔
بہت دعائیں
آپ کی منزل کیا ہے ، کہاں ہیں مجھے معلوم نہیں ہے۔۔۔ !

''رنگ'' کا جو نغمہ ابھی سننے کو ملا ہے ، شاید پہلے ملا ہو۔۔۔ اتنی اچھی وضاحت کبھی ''رنگوں ' کی کوئی اور نہیں کر سکا ہے ۔

رنگ سچے ہیں یا جھوٹے ۔۔ اس کی خبر نہیں ہے ، مصور کا کام رنگ بھرنا ہے ، اب رنگ چڑھے یا نہ چڑھے ، یہ اور بات ہے ۔
'' اصل '' میں ''مجہول '' ہونا ہی ایک ذرے کی نشانی ہے ÷
 

آوازِ دوست

محفلین
آپ کی اس بات سے کچھ اشعار یاد آگئے ہیں ، کبھی سنے تھے ۔ پیشِ خدمت ہیں


بے خود کیے دیتے ہیں اندازِ حجابانہ
آ ! دل میں تجھے رکھ لوں ۔۔۔۔! اے جلوہ ِ جاناں.


کیوں آنکھ ملائی تھی ،۔۔۔؟کیوں آنکھ لگائی تھی ۔۔۔؟
اب رُ خ چھپا بیٹھے ۔۔۔!کرکے مجھے دیوانہ ..۔۔۔۔!!!

زاہد تیری قسمت میں ہیں سجدے اسی در کے
چھوٹا ہے نہ چھوٹے گا ، سنگِ درِ جاناں...۔۔۔!

میں ہوش و حواس اپنے اس بات پر کھو بیٹھا
وہ ہنس کے کہیں ۔۔ ''جائے.''..۔۔!!! ہے دیوانہ..!

جس جگہ نظر آئے ، سجدے وہیں کرتا ہوں
اس سے نہیں مطلب ، کعبہ ہو یا بت خانہ ..!

اتنا تو کرم کر! اے نرگسَِ مستانہ
جب جان لبوں پر آئے، دید کرا جانا.۔۔!

جی چاہتا ہے کہ تحفے میں دے دوں انہیں آنکھیں
درشن کا بھی درشن ، نذرانے کا نذرانہ

ساقی ترے آتے ہی جوش یہ مستی کا
شیشے پہ گرا شیشہ ، پیمانہِ پیمانہ

پینے کو تو پی لوں گا ، پر بات ذرا سی ہے
اجمیر کا ساقی ہو۔۔۔!! بغداد کا میخانہ۔۔۔۔!

سر شار مجھے کر دے ، اک جام ِ لبا لب سے
تاحشر ، ساقی رہے ، آباد یہ میخانہ .

دل اپنا چمک اٹھے ایمان کی طلعت سے
کر آنکھ بھی نوارنی ، اے جلوہ جاناں

ہر پھول میں ُبو تری ، ہر شمع میں ضو تری
بلبل ہے تری بلبل ، پراوانہ ہے پراوانہ

نامعلوم
ارے واہ جناب کیا کمال کلام ہے! مگر شاعر نامعلوم کیوں جی :) " کوئی جائے ذرا ڈھونڈ کے لائے نجانے کہاں شاعر کھو گیا" :)
 

آوازِ دوست

محفلین
آوازِ دوست : آپ کی رائے سننے کی عادت پڑ گئی ہے
اجی ہم کیا اور ہماری رائے کیا ! بس آپ کا حُسنِ نظر ہے ورنہ بندہ یہاں کِس قابل :)
آپ کا فین کلب بن رہا ہے آپ لکھتی رہیں کارواں چلتا رہے گا سفر کٹتا رہے گا اورایک دِن آپ عمیرہ احمد کو پیچھے چھوڑ جائیں گی۔ قسمت دھوکہ دے سکتی ہے مگر محنت کبھی رائیگاں نہیں جاتی۔ میں خواتین کے ویژن کے بارے میں قدرے متعصب ہی رہا ہوں مگر بانو قُدسیہ اور قُراۃ العین حیدر نے میرے اِس نُقطہء نظر کو کافی ٹھیس پُہنچائی۔ دراصل اِس تعصب کی بنیاد اِس حقیقت پر ہےکہ عورتوں کی تجرباتی دُنیا مردوں کی تجرباتی دُنیا کی نسبت بظاہرکافی محدود نظرآتی ہے اور محدود تجربات محدود تخیّل کا پیش خیمہ ہوتے ہیں اور بُلند تر تخیّل کے بغیر فنکار کے فن کو رفعت نہیں مِلتی۔
لیکن پھرہیلن کیلرکی تحریر نے میرے شیشہ شیشہ تصورات پر جیسے کوہ ہمالیہ ہی گِرا دیا۔ قُدرت اپنی عطا کے حوالے سے بھی اُتنی ہی بے نیاز ہے جتنا کہ کسی بھی اور معاملے میں ہم اُس کی بے نیازی کا تصّور کر سکیں۔
 

نور وجدان

لائبریرین
ارے واہ جناب کیا کمال کلام ہے! مگر شاعر نامعلوم کیوں جی :) " کوئی جائے ذرا ڈھونڈ کے لائے نجانے کہاں شاعر کھو گیا" :)
یہ نامعلوم اس لیے لکھا کہ نیٹ پر اس پر کوئی حوالہ موجود نہیں .ا س صورت میں نا معلوم لکھ دینا ہی بہتر ہوتا ہے .میں نے یہ کلام سنا ہے حافظ نور سلطان کی آواز میں (آڈیو کیسٹ) ... وہ آپ کو شاید نیٹ پر اس کلام سنانے پر قادر نہ ہوں گے :)
 

آوازِ دوست

محفلین
یہ نامعلوم اس لیے لکھا کہ نیٹ پر اس پر کوئی حوالہ موجود نہیں .ا س صورت میں نا معلوم لکھ دینا ہی بہتر ہوتا ہے .میں نے یہ کلام سنا ہے حافظ نور سلطان کی آواز میں (آڈیو کیسٹ) ... وہ آپ کو شاید نیٹ پر اس کلام سنانے پر قادر نہ ہوں گے :)
اَب یاد آیا کہ میں نے اِس کلام کو اپنے علاقے کی مسجد سے بطور نعت سُنا ہے تب بھی اچھا لگا تھا :) ترنم اور موسیقیت بھی شاعری کی طرح خوب ہے۔ آڈیو کیسٹس کا خوبصورت زمانہ ابھی باقی ہےکیا :)
 

نور وجدان

لائبریرین
اجی ہم کیا اور ہماری رائے کیا ! بس آپ کا حُسنِ نظر ہے ورنہ بندہ یہاں کِس قابل :)
آپ کا فین کلب بن رہا ہے آپ لکھتی رہیں کارواں چلتا رہے گا سفر کٹتا رہے گا اورایک دِن آپ عمیرہ احمد کو پیچھے چھوڑ جائیں گی۔ قسمت دھوکہ دے سکتی ہے مگر محنت کبھی رائیگاں نہیں جاتی۔ میں خواتین کے ویژن کے بارے میں قدرے متعصب ہی رہا ہوں مگر بانو قُدسیہ اور قُراۃ العین حیدر نے میرے اِس نُقطہء نظر کو کافی ٹھیس پُہنچائی۔ دراصل اِس تعصب کی بنیاد اِس حقیقت پر ہےکہ عورتوں کی تجرباتی دُنیا مردوں کی تجرباتی دُنیا کی نسبت بظاہرکافی محدود نظرآتی ہے اور محدود تجربات محدود تخیّل کا پیش خیمہ ہوتے ہیں اور بُلند تر تخیّل کے بغیر فنکار کے فن کو رفعت نہیں مِلتی۔
لیکن پھرہیلن کیلرکی تحریر نے میرے شیشہ شیشہ تصورات پر جیسے کوہ ہمالیہ ہی گِرا دیا۔ قُدرت اپنی عطا کے حوالے سے بھی اُتنی ہی بے نیاز ہے جتنا کہ کسی بھی اور معاملے میں ہم اُس کی بے نیازی کا تصّور کر سکیں۔
آپ کی اپروچ بہت بیلنس ہے قطع نظر اس کے آپ '' chauvinist '' معاشرے کی پیداوار ہیں . مجھے خوشی ہے کہ آپ سوچ کو ایک مثبت رُخ دیے ہوئے ہیں .ایک ذہین اور متجسس انسان بھی ہیں .۔۔۔آج کل کی عورت وہی جذباتی ، روایت کا شکار عورت نہیں ہے ..اس کے نظریات تو آج کل مردوں کو پیچھے چھوڑ رہے ہیں .. اس لیے جینڈر بائس نہ ہونا آپ کے لیے تو مفید ثابت ہوا ہے :) :) :)اس بات کو ماننے سے انکار نہیں ہے کہ زندگی میں زیادہ ہم تجربے سے حاصل کرتے ہیں . مگر اس پر مکمل یقین کر لینا کہاں کا حق ہے .آپ نے اپنے دو قسم کے مشاہدات رکھ کر بات کو اپنی سوچ کے دائرے تک محدود رکھا. میں اس میں ایک تیسرا سوچ کا دائرہ رکھ دیتی ہوں....''تحقیق'''.... دنیا میں ترقی کا انحصار تجربے ، مشاہدے اور تحقیق سے ہو رہا ہے .ان تین باتوں میں سے ''تحقیق '' فوقیت رکھتی ہے کہ آپ اپنے مشاہدات کو کسی دوسرے انسان کے تجربات کو cause and its effects and then consequences and predictions and possible forthcoming immediate effects سے جوڑ کر بات کرلیں۔۔۔اور پھر دیکھیں کہ ُاس انسان(case study ) کا تجربہ آپ کے مفروضہ جات(hypothesis) پر کس طرح پورا اترتا ہے ؟..سائنس نے آج فلسفے ، ادب ، نفسیات ، معاشیات ، عمرانیات اور اس طرح کے دوسرے شعبوں کو جو پہلے ''آرٹس مضامین '' کہلائے جاتے تھے ان کو سائنس کا درجہ اسی وجہ سے دے دیا ہے کہ یہ scientific method سے ہوتے ہوئے گزرتے ہیں . اگر لکھنے والے تحقیق کے اس عمل سے گزر جاتا ہے تو وہ تجربات ومشاہدات سے زیادہ تحقیق کی بنیاد پر تخییل کو دراز کر سکتا ہے .۔۔اور کس حد تک اچھےتخییل کی پرواز یا اڑان ہوسکتی ہے .۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اللہ جی کی مرضی .. اللہ جی بے نیاز ...:):)

ایک بات واضح کردوں بس...میرا مقصد نہ تو عمیرہ احمد بننا ہے اور نہ کوئی لکھاری ....۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مجھے ''فین کلب '' سے سروکار نہیں ...ہاں ! ایکٹو ہونا اگر فین کلب بننے پر اثر انداز ...تو اس میں میرا کوئی قصور نہیں ..کیونکہ مجھے ان تحاریر میں کچھ بھی نہیں ملتا سوائے اس کہ میں آج کل بہت زیادہ ایکٹو ہون .... آج ایکٹو ہوں ..شاید کل کو نہ رہوں ...:) :) :)...۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔...اپنی خوشی کے لیے لکھ رہی ہوں جب خوشی نہیں ملے گی تب لکھنا چھوڑ دوں گی ..... یہ جو لکھا ہے ابھی تک اس میں کچھ بھی ایسا نہیں جس پر ''واہ واہ '' ہو سکے ...اور میں اس بات کو تسلیم کرنے میں عار نہیں سمجھتی ..مگر دوست احباب اگر رائے دے دیں تو اس رائے کو لے لینا اپنے لیے فخر سمجھتی ہوں کہ چاہے یہ تنقید و تعریف ہو...مجھے اپنی خوبیاں اور خامیاں دونوں پتا چل رہی ہیں ... اور ان کو کھلے دل سے تسلیم کرنے سے میرا قد چھوٹا نہیں ہوجانا.... سو آپ کو کبھی کچھ برا لگا مجھے صاف کہ دیں کہ یہ پسند نہیں آیا اور اکثر آپ ناپسندیدگی کے بجائے رائے دینے سے احتراز کرتے ہیں ..یہ آپ کی مرضی ہے کہ کون سا راستہ اختیار کریں .. تنقید کرنے کا یہ احتراز برتنے کا .۔۔۔۔) :) :)
 
آخری تدوین:

نور وجدان

لائبریرین
اَب یاد آیا کہ میں نے اِس کلام کو اپنے علاقے کی مسجد سے بطور نعت سُنا ہے تب بھی اچھا لگا تھا :) ترنم اور موسیقیت بھی شاعری کی طرح خوب ہے۔ آڈیو کیسٹس کا خوبصورت زمانہ ابھی باقی ہےکیا :)
بچپن میں سنا کرتی تھی یا گھر میں سنی جایا کرتی تھیں جب ہم اسکول کی بڑی کلاسز میں بھی نہیں تھے .. پتا نہیں ۔۔وہ کون سا زمانہ تھا ۔۔ یاد بھی نہیں ہے مجھے
 
Top