نیا پاکستانی بجٹ

قیصرانی

لائبریرین
top2.gif
 

قیصرانی

لائبریرین
مزید تفصیل ادھر سے

http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/story/2007/06/070609_pak_fiscal_budget_ns.shtml

پاکستان کی وفاقی کابینہ نے یکم جولائی سے شروع ہونے والے نئے مالی سال کے لیے تقریباً سولہ کھرب روپے کے بجٹ کی منظوری دے دی ہے۔

کابینہ کا اجلاس وزیراعظم شوکت عزیز کی صدارت میں ہوا۔ قومی اسمبلی میں نئے مالی سال کا (08 - 2007) بجٹ وزیر مملکت برائے خزانہ عمر ایوب خان سنیچر کی شام کو پیش کریں گے۔

حکومت کی جانب سے شائع کردہ بجٹ کی تفصیلات کے مطابق دفاع کے لیے پونے تین سو ارب روپے جبکہ ملک بھر میں ترقیاتی کاموں کے لیے پانچ سو بیس ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔

مالی سال 07 - 2006 میں دفاعی بجٹ کے لیے دو سو پچاس ارب روپے مختص کیے گئے تھے لیکن اس مد میں پونے تین سو ارب روپے خرچ ہوئے۔

جنرل پبلک سروس کی مد میں چھ سو اکتالیس ارب ستاسی کروڑ پچاس لاکھ روپے مختص کیے گئے ہیں۔ قرضہ جات اور ان پر سود کی ادائیگی کی مد کا نیا نام جنرل پبلک سروس رکھ دیا گیا ہے۔

نئے مالی سال کے بجٹ میں اندازہ لگایا گیا ہے کہ دس کھرب تیس ارب چون کروڑ ستر لاکھ روپے کی ٹیکس وصول ہوگی اور نان ٹیکس ریونیو کی مد میں تین کھرب سینتیس ارب انسٹھ کروڑ تیس لاکھ روپے آمدن ہوگی۔

نئے بجٹ میں کہا گیا ہے کہ پچہتر ارب روپے کی آمدنی نجکاری سے ہوگی، لیکن اس کے باوجود بھی خسارہ پورا کرنے کے لیے ایک کھرب تیس ارب ترانوے کروڑ ستر لاکھ روپے کا قرض لینا ہوگا۔

نئے مالی سال میں صوبوں کو چار کھرب پینسٹھ ارب چھیانوے کروڑ چالیس لاکھ روپے دیے جائیں گے۔

قومی اسمبلی میں بجٹ پیش کیے جانے کے موقع پر حزب مخالف کی طرف سے سخت احتجاج اور ہنگامے کا امکان ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلی قومی اسمبلی ہوگی جس میں مسلسل پانچ بجٹ پیش کیے گئے ہیں۔

کہا جا رہا ہے کہ وزیر خزانہ اپنی بجٹ تقریر میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں پندرہ فیصد تک اضافے کا اعلان کرینگے۔

حزب مخالف کی جماعتیں اس حکومتی دعوے سے متفق نہیں ہیں کہ بجٹ ’ٹیکس فری‘ ہوگا۔ ان کا کہنا ہے کہ البتہ اعداد وشمار کے ہیر پھیر سے ایسا تاثر دینے کی کوشش ضرور کی جائے گی۔

ان کے مطابق ہر دو ہفتوں بعد تیل، بجلی، گیس اور اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں میں اضافہ کر کے سال بھر ’مِنی بجٹ‘ پیش کیے جاتے ہیں اور کئی باالواسطہ ٹیکس نافذ کر کے عوام کا خون چُوسا جاتا ہے۔

واضح رہے کہ مشرف دور میں ریٹائرڈ فوجیوں کی پنشن وغیرہ پر خرچ ہونے والے چالیس ارب روپوں کے قریب وسائل کو غیر دفاعی بجٹ میں شامل کر دیا گیا ہے۔
 
خدا تمہارا بھلا کرے قیصرانی ، میں سوچ ہی رہا تھا کہ بجٹ پر اتنی ہی دلچسپی اور گہرائی سے گفتگو ہونی چاہیے جتنی اس وقت سیاست پر ہو رہی ہے۔ گو کہ ہماری تعداد کم ہے اور موضوعات بہت زیادہ مگر اگر ہم اس سلسلہ کو جاری رکھیں تو لوگوں کی تعداد بڑھنے کا امکان ہے اور اگلے سال ہم انہی پوسٹس کے حوالے سے تجزیہ بھی کر سکیں گے کہ پچھلے سال کے مقابلے میں کیا پیش رفت ہوئی۔

میرے خیال میں مندرجہ ذیل موضوعات اہم ہیں بجٹ میں
غریب آدمی کو کیا آسانی فراہم کی جاتی ہے
بجلی اور گیس کی قیمتوں میں کمی کا کوئی منصوبہ آتا ہے یا نہیں
توانائی کے لیے کیا منصوبہ بندی کی جاتی ہے نیز کسی ڈیم پر کام شروع ہوگا کہ نہیں
حکومتی اخراجات کم کیے جائیں گے کہ نہیں۔
اشیائے خورد و نوش کے لیے کیا منصوبہ بندی کی جائے گی
تعلیم اور صحت کے لیے کیا رقم مختص‌ہوگی
صنعتوں کے لیے کیا آسانی ہوگی اور خاص طورپر ٹیکسٹائل اور زراعت کے لیے کیا آسانی ہوگی
افراط زر کو قابو میں رکھنے کے لیے کیا کیا جائے گا
 

ساجداقبال

محفلین
میرے مطابق صحیح اور غلط
---------------------------------------------------------------------------------------
حکومت کی جانب سے شائع کردہ بجٹ کی تفصیلات کے مطابق دفاع کے لیے پونے تین سو ارب روپے جبکہ ملک بھر میں ترقیاتی کاموں کے لیے پانچ سو بیس ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔

مالی سال 07 - 2006 میں دفاعی بجٹ کے لیے دو سو پچاس ارب روپے مختص کیے گئے تھے لیکن اس مد میں پونے تین سو ارب روپے خرچ ہوئے۔

جنرل پبلک سروس کی مد میں چھ سو اکتالیس ارب ستاسی کروڑ پچاس لاکھ روپے مختص کیے گئے ہیں۔ قرضہ جات اور ان پر سود کی ادائیگی کی مد کا نیا نام جنرل پبلک سروس رکھ دیا گیا ہے۔ کھلم کھلا دھوکہ

نئے مالی سال کے بجٹ میں اندازہ لگایا گیا ہے کہ دس کھرب تیس ارب چون کروڑ ستر لاکھ روپے کی ٹیکس وصول ہوگی اور نان ٹیکس ریونیو کی مد میں تین کھرب سینتیس ارب انسٹھ کروڑ تیس لاکھ روپے آمدن ہوگی۔

نئے بجٹ میں کہا گیا ہے کہ پچہتر ارب روپے کی آمدنی نجکاری سے ہوگی، لیکن اس کے باوجود بھی خسارہ پورا کرنے کے لیے ایک کھرب تیس ارب ترانوے کروڑ ستر لاکھ روپے کا قرض لینا ہوگا۔ نجکاری۔۔۔کس کے گھر جائے گا یہ طوفان بلا سٹیل مل کے بعد۔۔

نئے مالی سال میں صوبوں کو چار کھرب پینسٹھ ارب چھیانوے کروڑ چالیس لاکھ روپے دیے جائیں گے۔

قومی اسمبلی میں بجٹ پیش کیے جانے کے موقع پر حزب مخالف کی طرف سے سخت احتجاج اور ہنگامے کا امکان ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلی قومی اسمبلی ہوگی جس میں مسلسل پانچ بجٹ پیش کیے گئے ہیں۔احتجاج کا کوئی فائدہ؟؟؟

کہا جا رہا ہے کہ وزیر خزانہ اپنی بجٹ تقریر میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں پندرہ فیصد تک اضافے کا اعلان کرینگے۔ مہنگائی آٹھ گنا(حکومتی دعویٰ) اور اضافہ محض 15 فیصد۔۔۔باقی عوام کیا کرے؟

حزب مخالف کی جماعتیں اس حکومتی دعوے سے متفق نہیں ہیں کہ بجٹ ’ٹیکس فری‘ ہوگا۔ ان کا کہنا ہے کہ البتہ اعداد وشمار کے ہیر پھیر سے ایسا تاثر دینے کی کوشش ضرور کی جائے گی۔ ہمیشہ کی طرح

ان کے مطابق ہر دو ہفتوں بعد تیل، بجلی، گیس اور اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں میں اضافہ کر کے سال بھر ’مِنی بجٹ‘ پیش کیے جاتے ہیں اور کئی باالواسطہ ٹیکس نافذ کر کے عوام کا خون چُوسا جاتا ہے۔

واضح رہے کہ مشرف دور میں ریٹائرڈ فوجیوں کی پنشن وغیرہ پر خرچ ہونے والے چالیس ارب روپوں کے قریب وسائل کو غیر دفاعی بجٹ میں شامل کر دیا گیا ہے۔
ملٹری ٹیکس کیوں نہیں لگا دیتے؟
 

قیصرانی

لائبریرین
شکریہ محب، اب دیکھیں کہ بجٹ کی تفصیلات کیا آتی ہیں اور اس پر بحث ہی حقیقی نتائج کی طرف جانے میں مدد دے گی
 

مہوش علی

لائبریرین
سٹاک ايکسچينج پر ٹيکس نہيں لگايا گيا،،،،،، بہت بڑي غلطي

مجھے سٹاک ايکسچينج پر ٹيکس کو ايک سال ملتوا کرنے کي منطق سمجھ نہيں آ رہي

في الحال پاکستان ميں ايک ہزار کے قريب يوٹيليٹي سٹورز ہيں، جن کي تعداد 5 ہزار تک بڑھائي جا رہي ہے تاکہ Selective Subsidy دي جائے جو کہ غربت کے ليے بہت اہم ہے (ميں ہميشہ Collective Subsidy کے خلاف رہي ہوں جہاں امير کو بھي سبسڈي مل رہي ہوتي ہے)
 
مہوش میں آپ کی بات سے متفق ہوں واقعی یہ بہت بڑی غلطی ہے اس وقت سٹاک مارکیٹ عروج پر ہے۔

اس کے علاوہ پراپرٹی اور زراعت پر ٹیکس بھی اشد ضروری تھا۔

دفاع میں بجٹ اضافہ تشویشناک ہے گو کہ ضروری ہے مگر فوجیوں کی پینشن کو الگ کرنا اس کے اصل حجم کو بڑھانا ہے۔

اس کے علاوہ حکومت کے غیر ترقیاتی اخراجات اگر چالیس فیصد کو چھوتے ہیں تو یہ انتہائی تشویشناک ہے جس کی توقع ہے۔
 

قیصرانی

لائبریرین
محب علوی نے کہا:
دفاع میں بجٹ اضافہ تشویشناک ہے گو کہ ضروری ہے مگر فوجیوں کی پینشن کو الگ کرنا اس کے اصل حجم کو بڑھانا ہے۔
یہ نکتہ واقعی قابل غور ہے۔ لیکن اگر اس کو اس حوالے سے دیکھا جائے کہ پاکستان اب کوئی 26 ایف سولہ کو خریدنے کے لئے مجبور ہے تو اس ضمن میں اضافہ کچھ زیادہ نہیں‌ لگ رہا۔ کیونکہ ایک ایف سولہ کی قیمت چودہ اعشاریہ چھ سے لے کر اٹھارہ اعشاریہ آٹھ ملین ڈالر ہوتی ہے (مڈ لائف اپ گریڈ کے طیاروں سے ہٹ کر) اس کے علاوہ میزائلز اور دیگر اسلحہ جات کے ساتھ ہونے والی پوری ڈیل بہت مہنگی ہے

طیاروں کی قیمت کے لئے وکی کا لنک یہ رہا

http://en.wikipedia.org/wiki/F16

اس پوری دفاعی ڈیل کے لئے وکی کا یہ آرٹیکل بہت عمدہ ہے۔ ویسے وکی کا یہ پورا آرٹیکل پاک فضائیہ پر مبنی ہے اور کافی معلوماتی ہے

http://en.wikipedia.org/wiki/Pakistan_Air_Force

(برسبیل تذکرہ اسی آرٹیکل سے یہ بھی علم ہوا کہ سرگودھا کا فائٹر پائلٹس ٹریننگ سکول اس وقت دنیا کا نمبر ون سکول ہے اور اس نے ٹاپ گن سکول کو بھی کہیں پیچھے چھوڑا ہوا ہے)

اس کے علاوہ جے ایف 17 کے تین سو طیارے پلان کئے گئے ہیں جبکہ فی طیارہ 20 ملین امریکی ڈالر ہے۔ اس پراجیکٹ کی قیمت چار سو سے پانچ سو ملین امریکی ڈالر تھی جو پاکستان نے 59٪ اور چین نے 41 فیصد کی بنیاد پر شروع کی

اتنی لمبی بات کہنے سے مراد یہ ہے کہ دفاعی بجٹ چاہے جتنا بھی ہو، ہمارا دفاع بھی اتنا ہی مہنگا ہے۔ یعنی ہر سال کی سرمایہ کاری مل کر ہر دس یا پندرہ سال بعد کے اپ گریڈیشن کے اخراجات کو پورا کرتی ہے

یہ میری ذاتی رائے ہے۔ اس سے اختلاف کرنے کا حق سب کو حاصل ہے
 

مہوش علی

لائبریرین
دفاعي بجٹ ميں ہم سب لوگ کمي چاہتے ہيں مگر افسوس کہ عملي طور پر يہ ممکن نہيں ہو سکتا کيونکہ اسکي سب سے اور سب سے اہم وجہ ہندوستان کا دفاعي بجٹ ہے جو کہ پاکستان کے دفاعي بجٹ سے 6 تا 7 گنا بڑھ گئي ہے اور پاکستاني دفاع انڈيا کے مقابلے ميں آہستہ آہستہ کمزور ہوتا جا رہا ہے
 
دفاعی بجٹ کی مجبوری تو سمجھ آتی ہے اور اس میں اضافہ ہوتا رہے گا مگر حقائق سامنے لانے چاہیے۔ قیصرانی کی وضاحت کے بغیر سمجھ نہ آتا کہ اتنا اضافہ کیوں‌ ہوا ہے دفاعی بجٹ میں۔
 

پاکستانی

محفلین
مہوش علی نے کہا:
سٹاک ايکسچينج پر ٹيکس نہيں لگايا گيا،،،،،، بہت بڑي غلطي

مجھے سٹاک ايکسچينج پر ٹيکس کو ايک سال ملتوا کرنے کي منطق سمجھ نہيں آ رہي

في الحال پاکستان ميں ايک ہزار کے قريب يوٹيليٹي سٹورز ہيں، جن کي تعداد 5 ہزار تک بڑھائي جا رہي ہے تاکہ Selective Subsidy دي جائے جو کہ غربت کے ليے بہت اہم ہے (ميں ہميشہ Collective Subsidy کے خلاف رہي ہوں جہاں امير کو بھي سبسڈي مل رہي ہوتي ہے)
خوب 5 ہزار یوٹیلٹی سٹور قائم کئے جائیں گے، مگر کب؟؟؟
بھوک آج ہے!!!!
آج کیا کھایا جائے گا ؟؟؟
پھر ان پانچ ہزار سے کتنے پاکستانی مستفید ہو سکیں گے زیادہ سے زیادہ 10 یا 15 فیصد!!!!!!!!
بقیہ کے پچھاسی فیصد؟؟؟؟؟؟؟
 

مہوش علی

لائبریرین
پاکستانی نے کہا:
مہوش علی نے کہا:
سٹاک ايکسچينج پر ٹيکس نہيں لگايا گيا،،،،،، بہت بڑي غلطي

مجھے سٹاک ايکسچينج پر ٹيکس کو ايک سال ملتوا کرنے کي منطق سمجھ نہيں آ رہي

في الحال پاکستان ميں ايک ہزار کے قريب يوٹيليٹي سٹورز ہيں، جن کي تعداد 5 ہزار تک بڑھائي جا رہي ہے تاکہ Selective Subsidy دي جائے جو کہ غربت کے ليے بہت اہم ہے (ميں ہميشہ Collective Subsidy کے خلاف رہي ہوں جہاں امير کو بھي سبسڈي مل رہي ہوتي ہے)
خوب 5 ہزار یوٹیلٹی سٹور قائم کئے جائیں گے، مگر کب؟؟؟
بھوک آج ہے!!!!
آج کیا کھایا جائے گا ؟؟؟
پھر ان پانچ ہزار سے کتنے پاکستانی مستفید ہو سکیں گے زیادہ سے زیادہ 10 یا 15 فیصد!!!!!!!!
بقیہ کے پچھاسی فیصد؟؟؟؟؟؟؟

پاکستاني بھائي،

ہماري قوم کے مسائل اسکے وسائل کے حساب سے زيادہ ہيں، اور کسي کے پاس بھي الہ دين کا چراغ نہيں کہ پلک جھپکتے ميں ان مسائل کو حل کر دے (چاہے يہ مشرف حکومت ہو يا مذھبي، بے نظير، نواز شريف حکومت)

ان يوٹيليٹي سٹورز کو اگلے 4 تا 5 ماہ ميں قائم کيا جائے گا

گورنمنٹ کي پاليسيز ميں ايک تسلسل رہا اور چند ايک بہت اچھي نئي پاليسيز اختيار کي گئيں جسکي وجہ سے ملک ميں کافي ترقي ہوئي

مثال کے طور پر کسان ابتک صرف يوريا استعمال کرتے آئے تھے، ليکن حکومت نے تجربہ کيا يوريا کي جگہ “ڈيپ” استعمال کرنے کا کيونکہ نئي تحقيق “ڈيپ” کے استعمال سے زيادہ اچھي فصل دکھا رہي تھي

اس سلسلے ميں حکومت نے “ڈيپ” کے استعمال پر 400 روپے کي سبسڈي دي اور اسکا آخر ميں جا کر يہ نتيجہ نکلا کہ ہمارے پاس کپاس کي ريکارڈ فصل ہوئي اور اس مثبت نتيجہ کو ديکھتے ہوئے حکومت نے اس بجٹ ميں يہ سبسڈي 470 روپے تک بڑھا دي ہے

تو پاکستان کے وسائل کے لحاظ سے مسائل بہت زيادہ ہيں، اور پھر يہ تو يوں بھي اليکشن کے سال کا بجٹ ہے اور پاکستان کے وسائل کے لحاظ سے عوام فرينڈلي ہے اور کسي کي طرف سے بذات خود بجٹ پر کوئي زيادہ تنقيد نہيں ہو رہي سوائے اسکے کے الزام لگا رہے ہيں کہ حکومت مستقبل ميں مني بجٹ لائے گي

ديکھئے پاکستان کے وسائل کم ہيں اور آبادي کے بے ہنگم اضافے سے اور پريشانياں بھي بڑھ رہي ہيں اور جبتک يہ شعبہ بہتري نہيں کرے گا (يعني بہبود آبادي) اُسوقت تک پاکستان کے مسائل بڑھتے ہيں رہيں گے (ليکن آبادي اُسوقت تک کنٹرول نہيں ہو سکتي جبتک کہ ہمارا مذھبي طبقہ اسکي مخالفت کرتا رہے گا
 
یہ پوسٹ براہ راست بجٹ کے موضو ع پر نہیں بلکہ اس کے ذیل ایک عنوان یعنی ڈیپ کے استعمال پر ہے۔
اگرچہ ڈیپ کا استعمال این اور پی وافر مقدار میں‌فراہم کردیتا ہے جو کہ زراعت (پودوں‌کی بڑھوتی) کے لیے ضروری ہے مگر نامیاتی کھاد کے مقابلے میں اس کا استعمال بہت مضر ہے۔
ہوسکتا ہے کہ کپاس کی فصلیں کچھ عرصہ بہتر ہوں مگر ڈیپ کے مسلسل استعمال سے یوٹریفیکیشن کا اندیشہ ہے جس کی وجہ سے غیر ضروری جڑی بوٹیاں جڑ پکڑجائیں گی۔ پھر ان بن بلائے پودوں‌کو تلف کرنے کے لیے غیرملکی دوائیاں‌ امپورٹ کی جائیں‌گی۔ این او‌‌ پی زمین میں‌ موجود ہوتے ہیں اور پودے انہیں پوری طرح استعمال نہیں‌کرتے لہذا وہ پانی میں‌حل ہوکر سطح میں موجود ابی ذخائر اور زیر زمیں پانی کے بھی ناقابل استعمال بناسکتے ہیں ۔ دیکھئے ہہاں
میرے خیال میں ڈیپ کا استعمال ایک نامعقول سا فیصلہ ہوگا جو زمیں، کپاس کی فصل اور ابی ذخایر پر لمبے عرصے کے لیے منفی کے اثرات مرتب کرے گا۔
پھر یہ غیرملکی میڈیسن کی کمپنوں کو فروغ دے گا۔ بالاخر ہم کو جینٹک موڈیفاییڈ بیچ پر انحصار کرنے پر مجبور کرسکتاہے۔
 

ساجداقبال

محفلین
ہمیشہ کی طرح اعداد وشمار کا کھیل۔اس بجٹ میں ہمیشہ کی طرح کچھ بھی نہیں۔
اگر آپ پاکستانی ہیں تو آپ کے علم میں ہوگا کہ پاکستانی بجٹ کی کیا حیثیت ہے؟ ہمارے ساتھ جو ہمیشہ کھیل کھیلا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ بجٹ سے پہلے اشیاءِ صرف انتہائی مہنگی کر دی جاتی ہیں اور بجٹ پیش کر کے ریلیف کے نام پر ان چیزوں کی قیمت تھوڑی سی کم کر دی جاتی ہے۔ اگر پچھلے ایک ماہ آپ پاکستان میں تھے تو گھی کی مثال آپکے سامنے ہوگی۔ اور چینی تو صرف ایک دن میں، پرسوں 40 روپے مہنگی ہو گئی۔ گندم کی جس ریکارڈ پیدوار کا ڈھنڈورا پیٹا جا رہا تھا، اسکے مطابق تو گندم سستی ہونی چاہیئے تھی، لیکن گنگا اُلٹی ہی بہہ رہی ہے۔
کتنے افسوس کی بات ہے کہ ہماری برسوں کی غلطیاں یہ حکومت بھی دُہرا رہی ہے۔ تعلیم کیلیے محض 5 ارب روپے جبکہ مختلف وزارتوں کیلیے 1000ارب سے زیادہ کا بجٹ‌رکھا گیا ہے۔
ہمت علی کی پوسٹ واقعی قابل غور ہے۔ ایسی کھادیں اور جی ایم بیج بھارت، چین اور برازیل سمیت تمام ممالک مسترد کر چکے ہیں، پتہ نہیں ہمارے ارباب اختیار کو ان میں کیا خوبی نظر آتی ہے؟
 

مہوش علی

لائبریرین
سلمان شاہ صاحب پريس کانفرنس کر رہے ہيں اور اس ميں انہوں نے بہت تفصيل سے جواب ديا ہے کہ کيوں سٹاک ايکسچيج پر ٹيکس نہيں لگايا گيا

مختصر وجوہات يہ تھيں

1) وزير اعظم شوکت عزيز نے سٹاک ايکسچيج سے بہت شروع ميں کمٹ کيا تھا کہ 2008 تک اس پر کوئي ٹيکس نہيں ہو گا

2) اس سلسلے ميں اہم مسئلہ ہے کہ ہم بي 1 ترقي گروپ ميں ہيں اور اس گروپ ميں شامل ديگر ممالک اپني سٹاک ايکسچيج کو مضبوط کرنے کے ليے يہ ٹيکسس يا تو بالکل ختم کر رہے ہيں يا پھر صرف معمولي ٹيکس لگا رہے ہيں، چنانچہ پاکستان کو اسي عالمگيريت کے حوالے سے ٹيکسس لگانے پڑيں گے


خير يہ گفتگو تو چلتي رہے گي، بہرحال سلمان شاہ صاحب مجھے بذاتِ خود بہت کواليفائڈ اور محب وطن لگے ہيں اور يہ قوم کي خوش قسمتي ہوتي ہے کہ ايسے ٹيلنٹڈ لوگ اس ميں موجود ہوں

کاش کہ ہماري سياست ميں بھي ايسے ٹيلنٹڈ لوگ موجود ہوتے
 

قیصرانی

لائبریرین
موجودہ بحث سے قطع نظر، جینیٹیکلی موڈیفائیڈ سیاست دان ہی شاید ایسے محب وطن ملیں :(
 

ساجداقبال

محفلین
بجٹ کے حوالے سے وسعت کا ہفتہ وار کالم دلچسپ ہے:
بجٹ کے موقع پر جاری ہونے والے اکنامک سروے کے مطابق میرے گھر پر کام کرنے والی ماسی ، صحبت علی چوکیدار اور پرویز مشرف کی فی کس آمدنی اب نو سو چھبیس ڈالر سالانہ ہوگئی ہے۔یعنی پاکستانی کرنسی میں چھیالیس سو تیس روپے ماہانہ۔
مجھے اس حکومتی دعوٰی پر اس لیے یقین ہے کیونکہ بجٹ تقریر میں ایک کارکن کی کم ازکم تنخواہ بھی چھیالیس سو روپے ماہانہ مقرر کی گئی ہے۔
لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ماسی میرے فلیٹ سمیت پانچ گھروں میں کل ملا کے بارہ گھنٹے کام کرتی ہے۔ ہرگھر سے اسے پانچ سو روپے ملتے ہیں اور یوں اسے مہینے کے ڈھائی ہزار روپے میسر آتے ہیں۔
صحبت علی چوکیدار رات سے صبح تک میرے کمپاؤنڈ میں دس گھنٹے ڈنڈا پکڑ کے گھومتا ہے اور اس کے عوض اسے کمپاؤنڈ کی انتظامیہ ہر ماہ ساڑھے تین ہزار روپے دیتی ہے۔
صدرِ مملکت کی اوسط آمدنی بھی پاکستانی شہری کے طور پر نو سو چھبیس ڈالر سالانہ ہوگئی ہے لیکن ان کی سیکیورٹی، آمد و رفت، رہن سہن اور بربنائے منصب مراعات کے مجموعی ماہانہ اخراجات جتنے بھی بنتے ہیں ان تک پہنچنے کے لئے صحبت علی چوکیدار اور کام والی ماسی کو تقریباً ایک ہزار برس تک بلا ناغہ کام کرنا پڑے گا۔
اس فرق کے بعد بھی صدرِ مملکت بطور ایک فوجی افسر چاہیں تو قومی ائرلائن کے طیارے اور ٹرین میں ٹکٹ کی دس سے پچیس فیصد قیمت کا رعائتی پاس بنوا کر سفر کر سکتے ہیں۔ ان پر ٹول ٹیکس کا بھی اطلاق نہیں ہو سکتا جبکہ صحبت علی چوکیدار اور ماسی کو طیارے سے لے کر کوچ تک ہر جگہ پورا ٹکٹ دینا پڑےگا۔
آپ چاہیں تو میری اب تک کی تحریر پڑھنے کے بعد مجھے بلاتکلف ایک پاگل قرار دے سکتے ہیں۔ آپ کہہ سکتے ہیں ماسی، صحبت علی چوکیدار اور صدرِ مملکت کے موازنے کی کیا تک ہے۔ تینوں کرداروں کے ماحول، صلاحیت، قابلیت اور ذمہ داریوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ ماسی اور صحبت علی نہ صرف ان پڑھ ہیں بلکہ غیر ہنرمند ہونے کے سبب صرف جسمانی محنت کرنے کے قابل ہیں۔جبکہ خطرات میں گھرے صدرِ مملکت کے کاندھوں پر پورے ملک کا بوجھ ہے۔
میں آپ کے تمام ممکنہ اعتراضات بلاحجت تسلیم کرلوں گا۔
بس ایک درخواست ہے۔
آئندہ مجھے کوئی یہ نہ بتائے کہ شمالی افریقہ سے ایران تک کے علاقے پر حکمراں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی فی کس آمدنی اس بدو کے برابر تھی جس نے بھرے مجمع میں ان کے گریبان پر یہ کہہ کے ہاتھ ڈال دیا تھا کہ جب مالِ غنیمت میں سے میرے حصے میں صرف ایک چادر آئی تو تُو نے دو چادروں کا کرتا کیسے بنا لیا۔
کوئی یہ قصہ نہ سنائے کہ جب خاتونِ اول رضی اللہ عنہا نے بیت المال سے آنے والے راشن میں سے کچھ راشن بچا کر ایک دن میٹھے کی اضافی ڈش بنا لی تو خلیفہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نےگھر کے لیے سرکاری راشن کی مقدار ہی کم کروا دی۔
کوئی مجھے یہ واقعہ سنا کر متاثر کرنے کی کوشش نہ کرے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ ایوانِ خلافت میں بھی جو کی سوکھی روٹی نرم کرنے کے لیے پانی میں بھگو دیتے تھے اور اسے کھاتے ہوئے بھی ان کا ہاتھ جواب دہی کے خوف سے لرزتا رہتا تھا۔
آپ بس امامِ کعبہ کو بلوا کر درازی اقتدار کی دعا کرواتے رہیے اور فی کس آمدنی نوسو چھبیس ڈالر سالانہ اور زرِ مبادلہ کے ذخائر پندرہ ارب ڈالر ہونے کی نوید سناتے رہیے۔
میں کبھی بھی صحبت علی اور ماسی کو نہیں بتاؤں گا کہ انکی سالانہ آمدنی کتنی بڑھ چکی ہے۔کہیں مانگ ہی نہ بیٹھیں۔
 

قیصرانی

لائبریرین
اس کالم پر کچھ کہنے کو تو دل کرتا ہے لیکن کیا کہا جائے۔ وسعت اللہ خان کو ماہوار پانچ سو روپے پر فی گھر ماسی کا کام کرنا دکھائی دیتا ہے لیکن ان سے یہ نہیں ہو سکتا کہ اس کے حق المحنت کا معاوضہ بڑھا دیں :(
 
Top