داغ نہ ہوا پر نہ ہوا شوق کا دفتر پورا ۔ داغ دہلوی

فرخ منظور

لائبریرین
نہ ہوا پر نہ ہوا شوق کا دفتر پورا
ایک ہی دن میں ہوا قصۂ محشر پورا

مجھ کو دم بھر کی بھی فرصت نہ ملی نالوں سے
ورنہ گھڑیال ٹھہرتا ہے گھڑی بھر پورا

تھک گئے ہاتھ مگر کثرتِ مطلب ہے وہی
فکر ہے مجھ کو خطِ شوق ہو کیونکر پورا

اپنے حصّے کی بچا لیتے ہیں دینے والے
نہ بھرا ساقیِ کم ظرف نے ساغر پورا

ایک ہی آن میں قاتل نے کیا قتل جہاں
حلق آیا نہ کسی کا تہِ خنجر پورا

نہ یہ دل ہے نہ یہ جرات نہ یہ اندازِ بیاں
نامہ بر حال کہے یار سے کیونکر پورا

گو تری زلف پریشاں سے پریشاں ہے سوا
ابھی آشفتہ ہوا کب دلِ مضطر پورا

نہ کیا نیم اشارے سے مرا کام تمام
مژۂ یار لگاتی نہیں خنجر پورا

اس کی رفتار نے کی اور قیامت برپا
اٹھنے پایا بھی نہ تھا فتنۂ محشر پورا

قصد بت خانہ کیا ہے جو خدا پہنچا دے
جو کیا کام ہوا خیر سے اکثر پورا

ختم ہے شوخیِ الفاظ و تلاشِ مضمون
ہے تو یوں داغِؔ سخنور ہے سخنور پورا

(نواب داغؔ دہلوی)

گلزار داغ - غزل ٨٣

 
Top