نہ محرابِ حرم سمجھے نہ جانے طاقِ بتخانہ ۔ بیدم شاہ وارثی

فرخ منظور

لائبریرین
نہ محرابِ حرم سمجھے نہ جانے طاقِ بتخانہ
جہاں دیکھی تجلی ہو گیا قربان پروانہ

دلِ آزاد کو وحشت نے بخشا ہے وہ کاشانہ
کہ اک در جانبِ کعبہ ہے اک در سوئے بتخانہ

بِنائے میکدہ ڈالی جو تُو نے پیرِ میخانہ
تو کعبہ ہی رہا کعبہ نہ پھر بتخانہ، بتخانہ

کہاں کا طُور، مشتاقِ لقا وہ آنکھ پیدا کر
کہ ذرّہ ذرّہ ہو نظّارہ گاہِ حسنِ جانانہ

خدا پوری کرے یہ حسرتِ دیدار حسرت کی
کہ دیکھوں اور ترے جلووں کو دیکھوں بے حجابانہ

شکستِ توبہ کی تقریب میں جھک جھک کے ملتے ہیں
کبھی پیمانہ شیشہ سے کبھی شیشہ سے پیمانہ

سجا کر لختِ دل سے کشتیِ چشمِ تمنّا کو
چلا ہوں بارگاہِ عشق میں لے کر یہ نذرانہ

کبھی جو پردۂ بے صورتی میں جلوہ فرما تھے
اُنھیں کو عالمِ صورت میں دیکھا بے حجابانہ

مری دنیا بدل دی جنبشِ ابروئے جاناں نے
کہ اپنا ہی رہا اپنا نہ بیگانہ ہی بیگانہ

جلا کر شمع پروانے کو ساری عمر جلتی ہے
اور اپنی جان دے کر چین سے سوتا ہے پروانہ

کسی کی محفلِ عشرت میں پیہم دور چلتے ہیں
کسی کی عمر کا لبریز ہونے کو ہے پیمانہ

ہماری زندگی تو مختصر سی اک کہانی تھی
بھلا ہو موت کا جس نے بنا رکھا ہے افسانہ

یہ لفظِ سالک و مجذوب کی ہے شرح اے بیدمؔ
کہ اک ہشیار ختم المرسلیں اور ایک دیوانہ

(بیدمؔ شاہ وارثی)
 
آخری تدوین:
Top