نہ تم ہوتے نہ ہم ہوتے، نہ ہوتا درد سینے میں

ابن رضا

لائبریرین
عرض کیا ہے


نہ تم ہوتے نہ ہم ہوتے، نہ ہوتا درد سینے میں
نہ دل ہوتا نہ غم ہوتے، نہ ہوتا درد سینے میں

نہ تم باغِ اِرم ہوتے، نہ ہوتا درد سینے میں
نہ ہستی کے الم ہوتے، نہ ہوتا درد سینے میں

مسافت ہی تھکا سکتی نہ ہم کو آبلہ پائی
اگر تم ہم قدم ہوتے، نہ ہوتا درد سینے میں

محبت کے شراروں سے جگر جلتا نہ جاں جلتی
نہ پتھر کے صنم ہوتے، نہ ہوتا درد سینے میں

ہم آتے ہی نہ مے خانے میں اپنے غم غلط کرنے
نہ ساقی کے ستم ہوتے، نہ ہوتا درد سینے میں

نہ ہوتے آشنا فرہاد و شیریں لفظ الفت سے
نہ قصے یہ رقم ہوتے، نہ ہوتا درد سینے میں

اگر ساقی ہمارے حال پر بھی کچھ کرم کرتا
نہ ہم بھی چشمِ نم ہوتے، نہ ہوتا درد سینے میں

ہمیشہ جھومتے رہتے تمھارے نطقِ شیریں میں
اگر ہم زیر و بم ہوتے، نہ ہوتا درد سینے میں

نہ لیتے نام الفت کا،وفا کی پاسداری کا
نہ سر اتنے قلم ہوتے، نہ ہوتا درد سینے میں

رضاجوئی زمانے کی ہمیں مطلوب کیوں کر ہو
پہ تم کو محترم ہوتے، نہ ہوتا درد سینے میں

اگر کرتے عرق ریزی رضا تم بھی غزل میں تو
نہ شعروں میں سقم ہوتے، نہ ہوتا درد سینے میں


برائے توجہ اساتذہ
محمد یعقوب آسی صاحب و الف عین صاحب
 
آخری تدوین:

آوازِ دوست

محفلین
مسافت ہی تھکا سکتی نہ ہم کو آبلہ پائی
جو تم بھی ہم قدم ہوتے، نہ ہوتا درد سینے میں
اللہ کا واسطہ ہے رضا بھائی محبوب کو اتنا آپشنل نہ رکھیں ہم جیسے کمزور دِلوں کا خیال کریں :)
ایسے دیکھیں شائد کام چل جائے:
مسافت ہی تھکا سکتی نہ ہم کو آبلہ پائی
" ہم قدم جو تم ہوتے نہ ہوتا درد سینے میں"
:)
 

ابن رضا

لائبریرین
اللہ کا واسطہ ہے رضا بھائی محبوب کو اتنا آپشنل نہ رکھیں ہم جیسے کمزور دِلوں کا خیال کریں :)
ایسے دیکھیں شائد کام چل جائے:
مسافت ہی تھکا سکتی نہ ہم کو آبلہ پائی
" ہم قدم جو تم ہوتے نہ ہوتا درد سینے میں"
:)
آپ کا خیال رکھا تو بحر روٹھ جائے گی دوست :):worship:
 
رضا بھائی۔
ردیف کئی جگہ اگر نبھی نہیں تو کمزور ضرور لگی۔
آپ اس سے کہیں بہتر مضمون باندھ سکتے ہیں۔:)
جیسے یہی دیکھیں:
نہ تم باغِ اِرم ہوتے، نہ ہوتا درد سینے میں ؟ چہ معنی دارد؟
نہ ہستی کے الم ہوتے، نہ ہوتا درد سینے میں؟ "کے" بجائے اگر "میں" ہوتا شاید سمجھ آ جاتا۔
اور اسی طرح دوسرے اشعار میں۔
 

ابن رضا

لائبریرین
رضا بھائی۔
نہ ہستی کے الم ہوتے، نہ ہوتا درد سینے میں؟ "کے" بجائے اگر "میں" ہوتا شاید سمجھ آ جاتا۔
اور اسی طرح دوسرے اشعار میں۔
میں آپ سے اتفاق نہیں کرتا:)۔ یہ اور بات ہے کہ اس غزل کا اسلوب کچھ خاص نہیں تاہم جو حوالہ آپ نے دیا اس کی شرح یہ ہے کہ شاعر کا محبوب دنیا میں ہی فردوس کی مانند ہے اس کے لیے کیا یہ وجہ کم نہیں سینے میں درد ہونے کے لیے؟؟؟۔ کہ جنت کو پانا کتنا مشکل کام ہے۔ اسی جنت کے حصول میں زندگی الم ناک ہو جاتی ہے جو درد کو مزید بڑھا دیتی ہے۔ امید ہے اب اگر دوبارہ غور فرمایں گے تو ردیف غیر ضروری نہیں لگے گی

دوسرے کون سے اشعار ہیں جن میں ردیف غیر ضروری لگ رہی ہے؟ تاہم توجہ کے لیے شکریہ۔ خوش رہیے
 
آخری تدوین:
میں آپ سے اتفاق نہیں کرتا:)۔ یہ اور بات ہے کہ اس غزل کا اسلوب کچھ خاص نہیں تاہم جو حوالہ آپ نے دیا اس کی شرح یہ ہے کہ شاعر کا محبوب دنیا میں ہی فردوس کی مانند ہے اس کے لیے کیا یہ وجہ کم نہیں سینے میں درد ہونے کے لیے؟؟؟۔ کہ جنت کو پانا کتنا مشکل کام ہے۔ اسی جنت کے حصول میں زندگی الم ناک ہو جاتی ہے جو درد کو مزید بڑھا دیتی ہے۔ امید ہے اب اگر دوبارہ غور فرمایں گے تو ردیف غیر ضروری نہیں لگے گی

دوسرے کون سے اشعار ہیں جن میں ردیف غیر ضروری لگ رہی ہے؟ تاہم توجہ کے لیے شکریہ۔ خوش رہیے

باغِ ارم سے سینے میں درد کیوں ؟ اور ہستی کے حوالے سے محبوب کا ذکر کہاں سے آ گیا رضا بھائی؟ ہستی لفظ یہاں مجھے تو مبہم لگا باقی آپ جانیں۔
اسی طرح " نہ پتھر کے صنم ہوتے، نہ ہوتا درد سینے میں" سے بھی بات صاف نہیں ہوتی۔ صنم تو ہوتے ہی پتھر کے ہیں ان کے ہونے یا نا ہونے سے سینے کے درد کا کیا علاقہ؟
وغیرہ وغیرہ ۔
شاد و آباد رہیں۔:)
 

ابن رضا

لائبریرین
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
ی ہ غزل مجھے بھی کمزور سی لگی۔ دراصل طویل ردیف کی غزلیں اکثر اپنا مفہوم واضح نہیں کر پاتیں۔ یہاں بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔
زیر و بم، صنم، محترم والے قوافی میں مجھے بھی ردیف کا غلط استعمال لگ رہا ہے۔
کچھ شعروں میں روانی کی کمی ہے۔ مثلاً ساقی کے ستم والا پہلا مصرع یوں ہو تو
کہاں آتے بھلا ہم مے کدے میں غم غلط کرنے
 

محمدظہیر

محفلین
گو کہ سخن شناس نہیں ہوں لیکن مجھے لگتا ہے آپ نے اچھی کوشش کی ہے
پہلی لائن اس دھاگے تک لانے کا سبب بنی
اور ساتھ ہی غالب کا شیر یاد آگیا
نہ تھا کچھ تو خدا تھا، کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا
ڈبویا مجھ کو ہونے نے، نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا
 
Top