نہیں گیا تھا جس کی سمت دھیان تک ۔۔۔ برائے تنقید

مطلع اور مقطع (اگر تخلص کی شرط پر سختی کریں تو آخری شعر) یہ دونوں بہت اہم ہیں۔
میں ذاتی طور پر ’’مطلع برائے مطلع‘‘ کا قائل نہیں ہوں۔ اقبال نے بہت غزلوں میں ایسا کیا کہ مطلع کہا ہی نہیں، میں بھی ایسا کر جاتا ہوں۔ ’’لفظ کھو جائیں گے‘‘ میں دیکھئے گا کچھ غزلیں مطلع کے بغیر ہیں، یہ ایک دوسری بحث ہے کہ بے مطلع کی غزل، غزل ہے بھی کہ نہیں؟ وہ قطعہ بھی تو نہیں! کہ قطعہ میں مضمون کا تسلسل شرط ہے۔ مطلع اگر میں نے گھڑا بھی ہے تو اسے ’’گھڑا ہوا‘‘ محسوس نہیں ہونا چاہئے۔ غزل کا مطلع غزل کی اٹھان ہوتی ہے، اور قاری کا یہاں ’’پہلا تاثر‘‘ بنتا ہے۔
اور مقطع؟ گویا غزل میں شامل جملہ شعروں کا ’’مغز‘‘ مقطع ہوتا ہے (تخلص نہ ہو تو آپ اسے آخری شعر کہہ لیجئے، بات وہی رہتی ہے)۔ جیسے ہم ایک طویل کہانی لکھیں یا افسانہ بیان کریں، اس کو سمیٹنے والا آخری جملہ یا مکالمہ گویا مقطع ہے۔ کوئی بھی بات مکمل کئے بغیر قطع کر دی جائے تو تاثر خراب ہوتا ہے اور اگر اسے نامکمل رکھنا ہی مقصود ہے تو پھر اس میں کوئی ایسا سوال ہو جو قاری کو اپنی طرف کھینچ لے۔
 

الف عین

لائبریرین
آسی بھائی نے اتنی تفصیل سے گفتگو کی ہے، اس سلسلے میں میرے کہنے کی ضرورت نہیں ہے۔
ہاں شاہد سے یہ ضرور کہوں گا کہ اگر آسی بھائی کے مشورے پر عمل کیا گیا تو تم کو کسی بھی اعتراض پر یہ کہنے کی ضرورت نہیں، کہ شعر کوئی خاص نہیں، یا اس کو نکالا جا سکتا ہے، یا شعر ضروری نہیں ہے۔ اسی خود احتسابی کی ضرورت ہے، یعنی یہ احساس بھی بعد میں کیوں ہو؟ پہلے ہی ہو جائے، اس سے پہلے کہ وہ شعر یا غزل منظرِ عام پر آئے، اصلاح کی غرض سے یا کسی اور غرض سے۔
مزید یہ کہ میرے خیال میں اران تک والا شعر جسے مطلع بنا دیا گیا ہے (یا مطلع بنانے کے امکان کا اظہار کیا گیا ہے)، سارے متبادلوں میں بہترین ہے۔
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
کیامحترم الف عین صاحب کی یہی رائے ہے؟، یہ مطلع ٹھیک رہے گا؟
ہمیں ہےجانا آج آسمان تک
نہیں بھری گئی مگر اڑان تک
دوسرا شعر محمد یعقوب آسی صاحب کے بقول ٹھیک ہے۔۔۔ تو یہ بھی رکھ لیا گیا۔۔۔
کسی کی چشم ترمیں ایسے کھو گیا
ملا نہیں مرا کوئی نشان تک
تیسرے شعر میں یہ تبدیلی پہلی نظر میں تو ٹھیک لگ رہی ہے، دوسری نظر اس پر کل ڈالتے ہیں:
مثالِ کوہسار ہم جمے رہے
ہلا سکے مگر نہ اک چٹان تک
چوتھا مجھے کمزور لگ رہا ہے۔۔۔ اس پر غور فرمانا باقی ہے۔۔
وطن تو مل گیا اسے نصیب سے
بنا سکا نہ مفلس اک مکان تک
اورباقی کے فی الحال رد ہیں۔۔۔

کچھ ایسے اشعار ہیں جن کے ساتھ میں نے عرصہ گزارا اور ان میں کمی نہ پائی لیکن جب دوسروں کے آگے گئے تو غلط نکلے، جیسے:
روشنی آنکھ میں چمکتی ہے
اشک بہتا ہے، گہر لگتا ہے
۔۔۔ میرے دوست ایمان نے بتایا کہ اس کا پہلا مصرع کسی اور بحر کا ہے ، لیکن مجھے اس کے الفاظ کے ساتھ چھیڑ چھاڑ پسند نہیں آرہی۔۔۔
ایک غزل جلدی میں لکھی گئی لیکن اس کا ایک شعر ایسا تھا کہ آج تک ایسا دوسرا لکھنے میں کامیابی نہیں ملی:
کوئی سنے تو کہیں داستانِ دل اپنی
یہ شب، یہ چاند، یہ پل، یہ سماں، یہ تنہائی
یہ قطعہ (یا دو شعر، جو بھی کہیے) بھی جلدی میں لکھا گیا تھا، یہ بھی سراہا گیا:
کہتے رہے کہ ظلم ہوا اور برا ہوا
انصاف کی کسی نے مگر بات تک نہ کی
اکیسویں صدی میں ہے یہ پتھروں کا عہد
یا پتھروں کے عہد میں اکیسویں صدی؟؟
 

الف عین

لائبریرین
روشنی آنکھ میں چمکتی ہے
اشک بہتا ہے، گہر لگتا ہے
اس سلسلے میں تمہارے دوست کا خیال درست ہے، پہلا مصرع فاعلاتن مفاعلن فعلن ہے، دوسرا فاعلاتن فعلاتن فعلن۔
 

الف عین

لائبریرین
لو میں بھی وہ مصرع اسی بحر میں کہہ گیا!!۔ اس وقت جلدی میں مصرع سوجھا اور پوسٹ کر کے عشاء کے لئے چلا گیا، مگر بعد میں یاد آتا رہا کہ میں نے غلطی کر دی۔ گہر تو فاعلاتن مفاعلن فعلن میں فٹ ہوتا ہی نہیں۔ دوسری بحر میں ہی کرنا بہتر ہے۔
پہلا مصرع یوں کیا جا سکتا ہے۔
نور آنکھوں میں چمکتا ہے یوں
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
نور آنکھوں میں چمکتا ہے یوں ۔۔۔ اشک بہتاہے گہر لگتا ہے ۔۔۔
فاعلاتن فعلاتن فعلن۔۔۔۔
میں تو اس کو ’’فاعلن فاعلن مفاعیلن‘‘ سمجھتا رہا۔۔۔
دل ناداں تجھے ہوا کیا ہے ؟ آخر اس درد کی دوا کیا ہے؟
۔۔۔ اسی میں آپ کو یاد ہوگا تین غزلیات ایک ساتھ پوسٹ کردی تھیں ۔۔۔
کوئی حاجت نہ تھی بتانے کی ۔۔ تھی ضرورت مجھے ستانے کی
مجھ کو عجلت نہیں تھی ملنے کی ۔۔ اس کو عجلت تھی چھوڑ جانے کی
تیرے گھر کی تو راکھ بھی نہ بچی ۔۔۔ اور تعریف کر زمانے کی ۔۔۔
۔۔۔ کیا وہ تینوں بھی ’’فاعلا تن فعلاتن فعلن‘‘ میں تھیں؟؟
 

الف عین

لائبریرین
نہیں بھئی، جس غزل کا تم نے حوالہ دیا ہے، وہ فاعلاتن مفاعلن فعلن ہے، جسے شاید بحر ہزج کہا جاتا ہے۔ اس کے اراکین ویسے ہی ہوتے ہیں جنہیں تم فاعلن فاعلن مفاعیلن کے ساتھ تقطیر کر سکتے ہو۔ لیکن فاعلاتن فعلاتن فعلن دوسری بحر ہے۔ جو در اصل عام بحر فاعلاتن فعلاتن فعلاتن فعلن میں ایک فعلاتن کی کمی سے بنتی ہے۔ یہ وہی بحر ہے جس میں فراز کی جاناں جاناں غزل ہے۔
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
اضافے کے ساتھ اس غزل کے اشعار کچھ اس طرح ہیں:​
ہمیں ہےجانا آج آسمان تک
نہیں بھری گئی مگر اڑان تک
کسی کی چشم ترمیں ایسے کھو گیا
ملا نہیں مرا کوئی نشان تک
مثالِ کوہسار ہم جمے رہے
ہلا سکے مگر نہ اک چٹان تک
وطن تو مل گیا اسے نصیب سے
بنا سکا نہ مفلس اک مکان تک
میں تجھ میں ہوں، تو مجھ میں ہے مگر رہے​
یہ بات تیرے میرے درمیان تک​
بزرگ بن کے بات ہم سے کر گئے​
ہوئے نہیں جو اصل میں جوان تک​
پھنسی تھی جس کی کشمکش میں زندگی​
وہ بات ہی نہ آسکی زبان تک​
جنہیں بنا لیا تھا ہم نے ہم سفر​
ہوئے نہیں وہ ہم پہ مہربان تک​
کرو تو بند آنکھ بھول کر زمیں​
چلو تو، اڑ کے دیکھیں آسمان تک​
بھلا سکے نہ بعد مرگ بھی جنہیں​
وہ آشنا تھے لیکن اس جہان تک​
اب دیکھتے ہیں آپ کا اس ضمن میں ارشاد کیا ہے۔۔جناب الف عین صاحب اور جناب محمد یعقوب آسی صاحب۔۔۔
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
ہمارے اطمینان کا معیار تو آپ کو معلوم ہے۔۔۔تاہم کچھ غلطیاں واضح ہو رہی ہیں اب، ان کو ختم کرنے کے بعد کی صورتحال یہ ہے:​
ہمیں ہےجانا آج آسمان تک
نہیں بھری گئی مگر اڑان تک
کسی کی چشم ترمیں ایسے کھو گیا
ملا نہیں مرا کوئی نشان تک
پھنسی تھی جس کی کشمکش میں زندگی
وہ بات ہی نہ آسکی زبان تک
کرو تو بند آنکھ چھوڑ کر زمیں
چلو تو، اڑ کے دیکھیں آسمان تک
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Top