نگر میں دل کے اب کچھ بھی نہیں ہے - ارشاد عرشی ملک

رانا

محفلین
نگر میں دل کے اب کچھ بھی نہیں ہے
یہاں شور و شغب کچھ بھی نہیں ہے

یہ دل رسمآ دھڑکتا جارہا ہے
دھڑکنے کا سبب کچھ بھی نہیں ہے

نہ جانے کون کب لہجہ بدل لے
یہ دنیا ہے عجب کچھ بھی نہیں ہے

تعلق تھا تو تھی ناراضگی بھی
پر اب لطف و غضب کچھ بھی نہیں ہے

نہ وہ پہلے سے اب رنج و الم ہیں
نہ وہ بزم طرب کچھ بھی نہیں ہے

تری فرقت کا کیا خدشہ ہو دل کو
تری قربت میں جب کچھ بھی نہیں ہے

جو کہنا تھا کہا کھل کر ہمیشہ
ہمارے زیرِلب کچھ بھی نہیں ہے

نہ کوئی مصلحت نہ وضع داری
ہمیں جینے کا ڈھب کچھ بھی نہیں ہے

مہک اشعار کی بانٹی جہاں میں
پر اپنا یہ کسب کچھ بھی نہیں ہے

بنے بیٹھے ہیں بابائے ادب وہ
جنہیں پاسِ ادب کچھ بھی نہیں ہے

قبا اوڑھی نہیں مانگے کی میں نے
میری کنیت لقب کچھ بھی نہیں ہے

میں بنتِ آدم و حوا ہوں عرشی
مرا نام و نسب کچھ بھی نہیں ہے
 
Top