نگاہ خود پہ جو ڈالی تو یہ ہوا معلوم

Sarwar A. Raz

محفلین
نگاہ خود پہ جو ڈالی تو یہ ہوا معلو

نگاہ خود پہ جو ڈالی تو یہ ہوا معلوم
“نہ ابتدا کی خبر ہے نہ انتہا معلوم!“

سوائے اس کے نہیں کچھ بھی با خدا معلوم
ہمیں تو اپنا بھی یارو! نہیں پتا معلوم!

مآل شکوہ غم، حاصل وفامعلوم!
غریب شہر وفاکا علاج؟ لا معلوم!

خزاں گزیدہ بہاروں نے کیا کہا تجھ سے؟
مآلِ گل نہیں کیا تجھ کو اے صبا معلوم؟

اک عمر کٹ گئی امید و نامرادی میں
اب انتظار ہے کل کا سو وہ بھی کیا معلوم!

بس اتنا جانتے ہیں دل کسی کو دے آئے
بھلے برے کی خبر ہم کو کیا بھلا معلوم؟

نہیں ہے کچھ بھی تلاش سکون سے حاصل
مقام عشق کی ہم کو ہے ہر ادا معلوم

بھلے ہی تم کو نہ ہو اپنے عاشقوں کی خبر
ہمیں ہے حال تمہارا ذرا ذرا معلوم!

پڑا ہے سوچ میں “سرور“ مقام عبرت میں
یہ کیاغضب ہے کہ معلوم بھی ہے نا معلوم!
 

منہاجین

محفلین
کیا معلوم

ماشاء اللہ، کیا خوب اِرشاد فرمایا ہے۔

ع۔ اب انتظار ہے کل کا سو وہ بھی کیا معلوم!
 

سیفی

محفلین
نگاہ خود پہ جو ڈالی تو یہ ہوا مع

Sarwar A. Raz نے کہا:
سوائے اس کے نہیں کچھ بھی با خدا معلوم
ہمیں تو اپنا بھی یارو! نہیں پتا معلوم!

سرور صاحب !!

یہ لفظ “ با خدا“ ہے یا “بخدا“ ؟؟
میری ناقص عقل کے مطابق قسم کے لئے بخدا ہی استعمال ہوتا ہے۔ باخدا کا مفہوم تو “ با وفا“ ، “با وقار“ کی طرح ہے۔۔۔

اگر میں غلطی کر رہا ہوں تو برائے کرم اصلاح فرمائیں۔۔۔
 

Sarwar A. Raz

محفلین
مکرمی منہاجین صاحب: آداب عرض ہے!
غزل کی پذیرائی اور داد و تحسین کے لئے ممنون ہوں۔ اس بزم میں ضرورت ہے کہ لوگ دوسروں کی تخلیقات پر رائے اور خیالات کا اظہار کریں۔ اس طرح سے ہی کام آگے بڑھ سکتا ہے۔ اب اگر آپ کہیں گے کہ میں نے یہ کام اب تک خود کیوں شروع نہیں کیا تو عرض کرنا ہوگا کہ آزاد شاعری سے میں مطلق نا بلد ہوں بلکہ اس کو پڑھتا ہی نہیں ہوں کیونکہ وہ میرے سر کے اوپر سے گذر جاتی ہے۔ یہ شاید میری کوتاہ فہمی ہے۔ اور اب تک اس محفل میں غزلیں اور پابند نظمیں دی نہیں گئی ہیں۔ یا کم سے کم میری نظر سے نہیں گذری ہیں۔
سرور عالم راز “سرور“
 

Sarwar A. Raz

محفلین
محترمی سیفی صاحب: آداب!
آپ کی نگاہ ایک ایسے نکتہ پر گئی ہے جس کو اب تک کسی نے نہیں دیکھا ہے! اگر آپ دوسری محفلوں میں جاتے ہیں تو وہاں آپ نے دیکھا ہو گا کہ میں نے اس غزل میں نئے لکھنے والوں کے لئے ایک “معمہ“ کا ذکر کیا ہے کہ اس میں ایک لفظ اپنے معمول کی بنت سے الگ باندھا گیا ہے۔ وہ لفظ :با خدا: ہی ہے جو :بخدا: کی شکل میں عموما“ مستعمل ہے۔ :با خدا: غلط العام کہا جا سکتا ہے۔ :خدا نخواستہ: کی بھی یہی صورت ہےکہ اس کی عام بنت یہی ہے لیکن :خدا نا خواستہ: بھی نظر آ جاتا ہے گو بہت کم۔ اس وقت کوئی شعر بطور سند یاد نہیں آرہا ہے لیکن جیسے ہی آئے گا ضرور حاضر کروں گا۔ آپ کی جز رسی سے دل بہت خوش ہوا۔ شکریہ!
سرور عالم راز “سرور“
 

سیفی

محفلین
نسیم صبح تیری مہربانی

سلام سرور صاحب !

حوصلہ افزائی کا شکریہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ کیا کہتے ہیں

کہاں میں اور کہاں نکہتِ گل
نسیمِ صبح تیری مہربانی

تاہم میرا خیال اب بھی یہی ہے کہ جو غلط العام زیادہ مقبول عام کے درجے کو نہ پہنچا ہو اسے درست ہی لکھنا چاہیے کہیں ایسا نہ ہو کہ آخر کار اردو کے ذخیرہ میں صرف غلط العام ہی رہ جائیں۔ :lol:
 

Sarwar A. Raz

محفلین
محبی سیفی صاحب: آداب!
خط کاشکریہ! آپ کے خیال سے میں متفق نہیں ہوں۔ اگر یہ صحیح ہوتا تو میر تقی “میر“ لفظ :مسجد: کو غلاط العام :مسیت: نہ باندھتے جب کہ یہ تلفظ تو سراسر غیر فصیح بھی ہے! اور اس کے مقبول عام ہونے کا بھی کوئی سوال نہیں ہے!
آپ نے جو شعر لکھا ہے، معلوم نہیں کس کا ہے۔ البتہ آپ اس کو غلط لکھ گئے ہیں:
کہاں میں اور کہاں نکہتِ گل
نسیمِ صبح تیری مہربانی
دونوں مصرعے مختلف وزن کے ہیں۔ تصدیق کر لیں اور صحیح شعر اور شاعر کے نام سے آگاہ کریں تو عنایت ہو گی۔
سرور عالم راز “سرور“
 
کیسے رو رو کے گزاری ہے تمہیں کیا م

یہ جو آپ نے

“نہ ابتدا کی خبر ہے نہ انتہا معلوم!“

quote کیا ہے، کیا کسی اور کا مصرعہ ہے؟
 

Sarwar A. Raz

محفلین
محبی شارق صاحب: آداب!
جی ہاں :نہ ابتدا کی خبر ہے نہ انتہا معلوم: ایک بزرگ شاعر کا مصرع ہے جن کا نام اس وقت ذہن سے اتر گیا ہے۔یاد آیا یا کسی اور نے بتایا تو اطلاع دوں گا۔
سرور عالم راز “سرور“
 

مغزل

محفلین
کیا بات ہے سرور عالم راز صاحب ۔ بہت خوب غزل ہے ۔
میری جانب سے مبارکباد ، کہ آپ ایسی شخصیت کے کلام پر داد دینا میری بساط سے بڑھ کر ہے۔
 

مغزل

محفلین
محبی شارق صاحب: آداب!
جی ہاں :نہ ابتدا کی خبر ہے نہ انتہا معلوم: ایک بزرگ شاعر کا مصرع ہے جن کا نام اس وقت ذہن سے اتر گیا ہے۔یاد آیا یا کسی اور نے بتایا تو اطلاع دوں گا۔
سرور عالم راز “سرور“

جناب یہ شعر شاد عظیم آبادی کا ہے ۔

سنی حکایتِ ہستی تو درمیاں سے سنی
نہ ابتدا کی خبر ہے نہ انتہا معلوم
شاد عظیم آبادی

کتا ب : میخانہِ‌الہام
 
Top