نَہیں ہوں، مَیں کِسی کا بھی نَہیں ہوں - (غزل)

عؔلی خان

محفلین
*~* غزل *~*

نَہیں ہوں، مَیں کِسی کا بھی نَہیں ہوں
اگر خُود اَپنے جیسا بھی نَہیں ہوں

کبھی اِیسے بھی دِن آتے ہیں مُجھ پَر
کہ خُود کو مِلنے جاتا بھی نَہیں ہوں

مَیں لوگوں سے بہت ڈَرتا ہوں لیکن
جو رَب ہے، اُس سے ڈَرتا بھی نَہیں ہوں

بہت ہی دُکھ ہوا یہ جان کر آج
کہ مَیں تو اَپنے جیسا بھی نَہیں ہوں

نکلتا ہے نہ کوئی کام اَپنا
کِسی کے کام آتا بھی نَہیں ہوں

مَیں اَپنی حَد مِیں رہتا ہوں ہمیشہ
پھر اس حَد سے نِکلتا بھی نَہیں ہوں

بہت مَعصُوم لگتا ہوں بَظاہر
مَگر اس کا مَیں سایہ بھی نَہیں ہوں

بچھا دیتا مَیں خُود کو ان کی خَاطِر
مَگر دُکھ ہے کہ رَستہ بھی نَہیں ہوں

جہاں پِیشانی پہ کُچھ حَرف آئے
مَیں ایسے دَر پہ جھکتا بھی نَہیں ہوں

کِسی ہٹّی پہ چَل جائے جو اِک دِن
مَیں ایسا کھوٹا سکّہ بھی نَہیں ہوں

عؔلی مَیں کیا ہوں، کہ ہر روز خُود سے
جو کہتا ہوں، وہ کرتا بھی نَہیں ہوں

© عؔلی خان – www.AliKhan.org/book.pdf
 
Top