نویس — اردو کے لیے ایک صوتی کی‌بورڈ لےآؤٹ

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
بہت ہی اعلیٰ !!!
ابھی ابھی فون پر ڈاؤنلوڈ کرکے استعمال کیا ۔ ایک عرصے سے فون کےاردو کیبورڈ پر اعراب کی کمی محسوس ہوتی تھی ۔ یہ دیکھ کر نہایت مسرت ہوئی کہ آپ کے اس کیبورڈ میں نہ صرف بنیادی اعراب موجود ہیں بلکہ دیگر علامات کا بھی اہتمام ہے ۔
سعادت بھائی ، آپ کا بہت بہت شکریہ ! اللّٰہ کریم اس بے لوث خدمت کے لئے آپ کو جزائے عظیم عطا فرمائے اور آپ کے وقت اور توانائی میں برکت عطا فرمائے ۔ آمین ۔
 
نویس کے بارے میں کچھ اپڈیٹس…

لینکس
لینکس میں کی‌بورڈ لے‌آؤٹس کی نظامت کے لیے X Keyboard Configuration Database کا استعمال کیا جاتا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے نویس کا اندراج بھی اِس کے ”اضافی“ (extras) لے‌آؤٹس میں کر دیا تھا، اور اب اِس کے حالیہ 2.33 ریلیز میں نویس شامل ہے۔ جیسے جیسے لینکس ڈسٹریبیوشنز اِس ورژن پر منتقل ہوتی جائیں گی، ویسے ویسے ان میں نویس بھی دستیاب ہو گا۔ فی الوقت مشہور ڈسٹروز میں سے آرچ، فیڈورا ۳۵، منجارو، اور اوپن‌سوزا ٹمبل‌وِیڈ میں یہ ورژن (اور لہٰذا نویس) شامل ہے، سو اگر آپ اِن ڈسٹروز میں سے کسی ایک کے صارف ہیں تو نویس کو آزما سکتے ہیں۔ (ہدایات ویب‌سائٹ پر موجود ہیں۔)

اینڈروئیڈ
اینڈروئیڈ پر اردو کی‌بورڈز ویسے تو کافی دستیاب ہیں، لیکن نویس میں شامل کچھ کیریکٹرز ایسے ہیں جو کسی دوسرے کی‌بورڈ میں نہیں ہیں۔ اپنے ذاتی استعمال کے لیے ۲۰۱۸ میں سِمپل کی‌بورڈ نامی ایک ایپ میں نویس کو شامل کیا تھا (سِمپل کی‌بورڈ ایک ننھا مُنّا سا اور مِنِمِلسٹ کی‌بورڈ ہے جو AOSP (اینڈروئیڈ اوپن سورس پروجیکٹ) کے کی‌بورڈ پر مبنی ہے۔) AOSP کی‌بورڈ ہی پر مبنی ایک اور کی‌بورڈ، اِنڈِک کی‌بورڈ، بھی ہے جو ہندوستانی زبانوں کے لیے بنایا گیا ہے، اور اِس کے ایک ڈویلپر نے کچھ عرصہ پہلے اِس کے اندر بھی سِمپل کی‌بورڈ سے نویس کا کوڈ شامل کیا ہے۔

نویس کا موبائل لے‌آؤٹ میں نے محض اپنی پسند اور ضروریات کو دیکھتے ہوئے بنایا تھا، لیکن اگر احباب چاہیں تو سِمپل کی‌بورڈ یا اِنڈِک کی‌بورڈ کو بھی آزما سکتے ہیں۔ :)

روابط:
- سِمپل کی‌بورڈ (ایف-ڈروئیڈ، گوگل پلے)
- اِنڈِک کی‌بورڈ (ایف-ڈروئیڈ، گوگل پلے)
بہت زبردست سعادت بھائی۔
لِنکس پرlocalectl کا استعمال لے آؤٹ نافذ کرنے کے لیے شاید زیادہ جنیرک ہو، مثلاً:

Bash:
localectl --no-convert set-x11-keymap us,pk pc104 ,urd-navees grp:alt_shift_toggle

لے آؤٹ میں اگر ح اور ء کو ھ اور ئ سے تبدیل کر دیں تو اچھا رہے گا۔ ح بہت کم الفاظ میں واقع ہوتا ہے اور ء کی تو اردو میں بالکل ضرورت ہی نہیں ہے۔
 

سعادت

تکنیکی معاون
بہت زبردست سعادت بھائی۔
لِنکس پرlocalectl کا استعمال لے آؤٹ نافذ کرنے کے لیے شاید زیادہ جنیرک ہو، مثلاً:

Bash:
localectl --no-convert set-x11-keymap us,pk pc104 ,urd-navees grp:alt_shift_toggle
شکریہ، ریحان۔ localectl کے بارے میں علم نہیں تھا، اسے بھی ڈاکیومینٹیشن میں شامل کر دوں گا۔

لے آؤٹ میں اگر ح اور ء کو ھ اور ئ سے تبدیل کر دیں تو اچھا رہے گا۔ ح بہت کم الفاظ میں واقع ہوتا ہے اور ء کی تو اردو میں بالکل ضرورت ہی نہیں ہے۔
یہ میپنگز کرلپ کے کی‌بورڈ سے آئی تھیں، اور جب تک نویس بنانے کا خیال آیا تب تک مَیں ان کا عادی ہو چکا تھا۔ :)
 
ریحان ، اگر کیبورڈ میں ء نہیں ہوگا تو ان شاء اللّٰہ ، ماشاء اللّٰہ ، ذکاء الرحمٰن ، علاء الدین کی طرح کے الفاظ کس طرح لکھے جائیں گے؟
ظہیر بھائی ان شااللّٰہ، ماشااللّٰہ بغیر ہمزہ کے لکھے جا سکتے ہیں۔ اردو میں ہمزہ کا کوئی وجود ہی نہیں اس لیے مفرد ہمزہ لکھنے نہ لکھنے سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔

ؤ اردو میں نیم مصوتے /w/ کو ظاہر کرتا ہے، اس لیے اردو تلفظ کے مطابق علاؤالدین اور ذکاؤالرحمان لکھا جانا چاہیے۔ ؤ میں و پر ی ہے ہمزہ نہیں جو کہ اس کے نیم مصوتہ ہونے کی علامت سمجھی جا سکتی ہے۔ اؤ یہاں پر /aw/ کو ظاہر کرتا ہے جو کہ ایک (diphthong) یعنی دوہرا مصوتہ ہے ہے۔

اسی طرح کچھ اور الفاظ کی املا کی بابت بالائی ہمزہ کے تناظر میں (جو کہ میرے نزدیک بالائی ی ہے) چند باتیں عرض کرنا چاہوں گا۔

ئ اور ی دونوں نیم مصوتے /j/ کو ظاہر کرتے ہیں، یہ آواز جب لفط کے شروع میں آئے تو حرفِ‌صحیح کی حیثیت رکھتی ہے ورنہ نیم مصوتہ ہوتی ہے۔ یہ غلط فہمی ہے کہ ئ کے اوپر ہمزہ ہے، دراصل ی کے اوپر ی ہی ہے جو کہ نیم مصوتے کی علامت ہے۔
آیا، آئے میں ی اور ئ اسی نیم مصوتے کو ظاہر کرتے ہیں۔ ان میں فرق کچھ نہیں ہے۔صرف اگر ماقبل حرف ساکن یا مفتوح ہو تو ئ لکھ دیا جاتا ہے مثلاً دھوئے۔ لیکن اگر اگلا حرف الف ہو تو پھر ی کر دیا جاتا ہے جیسے دھویا۔ آواز ہر دو صورت میں ایک ہی ہے۔

املا کمیٹی کا دعویٰ کے ان الفاظ میں ی کا شائبہ تک نہیں مضحکہ خیز ہے۔ آ اے اور جا ای کوئی نہیں بولتا۔
املا کمیٹی والے جسے الفاظ کے درمیان حرفِ صحیح ی سمجھ رہے ہیں وہ دراصل ژ ہے، فارسی میں مجھے محسوس ہوتا ہے کہ آزمایش کو لگ بھگ آزماژش ہی بولا جاتا ہے، یش بولنے کے لیے آزما کے بعد وقف کرنا ضروری ہے۔ ی کی بین اللفظ حیثیت صرف نیم مصوتے کی ہو سکتی ہے، اسے ژ سے کنفیوز نہیں کرنا چاہیے۔
پس ثابت ہوا کہ ی اور ئ کا فرق مصنوعی ہے، اس کا صرف ایک فائدہ ہے کہ گئے اور لیے میں فرق واضح ہو جاتا ہے بغیر پچھلے حرف پر فتحہ ڈالے مثلاً گئے اور لیے کا فرق واضح ہو جاتا ہے لیکن اس میں فرق ماقبل حرف کی حرکت کا ہے ی اور ئ کا نہیں۔

یہاں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ ماہرینِ لسانیات جدید انگریزی transcriptions میں price کے diphthong کو /ɑj/ سے ظاہر کرتے ہیں۔ اسی قبیل کے دوہرے مصوتے /a:j/، /əj/ یا پھر /ɐj/ اردو میں واقع ہوتے ہیں۔ دوہرے مصوتے کی جگہ ڈیڑھ مصوتے کی اصطلاح حقیقت کے زیادہ قریب ہے کیونکہ دوہرا مصوتہ دراصل ایک مصوتے اور ایک نیم مصوتے پر مشتمل ہوتا ہے۔

مرکباتِ اضافی میں شوخیِ تحریر کو شوخئ تحریر لکھنے کی کوئی وجہ میری سمجھ میں نہیں آتی۔ شوخیِ کی درست ٹرینسکرپشن /:ʃo:xije/ بنتی ہے اور اس لیے اسے شوخیِ لکھنا ہی درست ہے، یہاں شوخئ کا استعمال میرے نزدیک درست نہیں، اچانک ئ سے قبل حرف کو مکسور ہونے کی اجازت کیونکر مل گئی؟ ی پر کسرہ اس بات کا عندیہ دے دیتا ہے کہ یہاں ی طویل مصوتہ /:i/ نہیں بلکہ نیم مصوتہ /j/ ہے اور ساتھ ساتھ تلفظ میں طویل مصوتے ے کا اضافہ بھی ظاہر ہو جاتا ہے یعنی اسے شوخیے پڑھا جانا چاہیے۔

ہائے مختفی پر ختم ہونے والے الفاظ پر اضافت ظاہر کرنے کے لیے ۂ کا استعمال کیا جاتا ہے، ہ پر بالائی ی کی مدد سےنیم مصوتے /j/ یعنی ی کی نشاندہی کی جاتی ہے مثلاً تختۂ /:təxtəje/۔

مختصر یہ کہ ؤ اردو میں /w/ کی علامت ہے جو کہ انگریزی w اور عربی کا اصل و ہے اور اردو کے وسے منفرد ہے۔ؤ پر ی اس کے نیم مصوتہ ہونے کی علامت ہے۔
ؤ ضمہ کا semivocalic equivalent یعنی نیم مصوتی معادل ہے۔ یہ جاؤ، کھاؤ، رؤف، ضیاؤالرحمان جیسے الفاظ میں واقع ہوتا ہے۔ یہی نیم مصوتہ جیؤ، پیؤ جیسے الفاظ میں واقع ہوتا ہے اور اسے راجیو جیسے الفاظ سے ممتاز کیا جانا چاہیے کہ ان میں اردو و ہے۔

ی اور ئ دونوں ہی نیم مصوتے /j/ کو ظاہر کرنے کے کام آتے ہیں، ئ تب استعمال ہوتا ہے جب ماقبل حرفِ صحیح کو مفتوح ظاہر کرنا ہو ورنہ ی لکھا جاتا ہے۔ اگر ما قبل حرف مصوتہ ہو تو عموماً ئ لکھا جاتا ہے مثلاً دھوئے، جائے وغیرہ مگر اس کی کوئی خاص وجہ نہیں ہے۔ ہمزہ کا اس سارے قصے سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہے، جسے بالائی ہمزہ کہا جاتا ہے وہ بالائی ی یعنی نیم مصوتے کی علامت ٔ ہے۔

ہمزہ عربی میں ایک باقاعدہ آواز ہے جس کا اردو میں کوئی وجود نہیں ۔ اس کے اردو میں استعمال کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
میں بھی یہی کہتا ہوں کہ الگ سے اوپر والا ہمزہ جسے کچھ لوگ و، ہ، ے، یا کسرۂ اضافت کے طور پر لگاتے ہیں، وہ قطعی غلط ہے۔ صرف ایک لفظ کی طرف میری توجہ یہیں محفل میں مبذول کی گئی، جس پر میں بھی کچھ کہہ نہین سکا۔ یعنی مسئول( مدیر مسئول)۔ اس پر بھی روشنی ڈالیں محمد ریحان قریشی
 
میں بھی یہی کہتا ہوں کہ الگ سے اوپر والا ہمزہ جسے کچھ لوگ و، ہ، ے، یا کسرۂ اضافت کے طور پر لگاتے ہیں، وہ قطعی غلط ہے۔ صرف ایک لفظ کی طرف میری توجہ یہیں محفل میں مبذول کی گئی، جس پر میں بھی کچھ کہہ نہین سکا۔ یعنی مسئول( مدیر مسئول)۔ اس پر بھی روشنی ڈالیں محمد ریحان قریشی
استادِ محترم میرے خیال میں اسے مسؤول لکھا جانا چاہیے کیونکہ اس کا تلفظ اردو میں /maswu:l/ ہے۔ ؤ نیم ‌مصوتے w کو ظاہر کرتا ہے اور اس کے بعد و طویل مصوتے /:i/ یعنی یائے معروف کی نشاندہی کرتا ہے۔ ایسا ہی ایک لفظ داؤود بھی ہے۔ اس میں پہلے نیم مصوتہ ؤ ہے اور پھر طویل مصوتہ واؤ معروف۔
 
آخری تدوین:

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
ظہیر بھائی ان شااللّٰہ، ماشااللّٰہ بغیر ہمزہ کے لکھے جا سکتے ہیں۔ اردو میں ہمزہ کا کوئی وجود ہی نہیں اس لیے مفرد ہمزہ لکھنے نہ لکھنے سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔

ہمزہ عربی میں ایک باقاعدہ آواز ہے جس کا اردو میں کوئی وجود نہیں ۔ اس کے اردو میں استعمال کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
ریحان بھائی ، حقیقت تو یہ ہے کہ نہ صرف ہمزہ بلکہ اردو میں کسی بھی حرف کا سرے سے کوئی وجود ہی نہیں ہے۔ اردو تو خالی سلیٹ تھی ۔ اس پر تمام حروف دوسری زبانوں سے درآمد کرکے لکھے گئے ہیں ۔ اگر ہمزہ تو نکال دیا جائے تو پھر ث ، ح ، ذ ، ص، ض، ط، ظ ، ع وغیرہ کی بھی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ان آوازوں کے لئے متبادل حروف موجود ہیں اور بولتے وقت ان کی آوازوں میں کوئی فرق نہیں کیا جاتا۔ پھر تو آپ کا نام مہمد ریہان اور میرا نام زہیر اہمد بھی لکھا جاسکتا ہے ۔ ان شاءاللہ اور ماشاء اللہ کے فقرے تین مختلف الفاظ پر مشتمل ہیں ( ما۔شاء۔اللہ اور ان۔شاء۔اللہ)۔ ان میں سے ہر لفظ کے علاحدہ معنی ہیں ۔ ان میں سے ہمزہ کو نکال دیا جائے تو لفظ تبدیل ہوجائے گا اور معنی بدل جائیں گے۔ اسی طرح ذکاء – الرحمان اور علاء- الدین وغیرہ کا معاملہ ہے ۔ اگر اردو حروفِ تہجی میں سے عربی الاصل حروف کو نکال کر صوتی طور پر متبادل دیگر حروف سے کام لیا جائے تو پھر یہ اردو زبان تو نہیں رہے گی ۔ کوئی اور زبان ہی بن جائے گی۔
ریحان بھائی ، اردو تہجی میں ہمزہ کی ضرورت اور محلِ استعمال کے مباحث بہت قدیم ہیں اور کب کی فیصل بھی ہوچکے ۔ اب اس مسئلہ پر مزید بحث کرنا تحصیلِ لاحاصل ہے ۔ املا کے بارے میں جو نکات آپ نے لکھے ہیں ان سب کا شافی جواب کب کا دیا جاچکا ہے ۔ اس موضوع پر کم از کم دو درجن کے قریب تحقیقی مقالات تو میں پڑھ چکا ہوں۔ املا کمیٹی کی سفارشات میں ان نکات پر اجمالی بحث بھی موجود ہے۔ املا سے متعلق جو طویل پیراگراف آپ نے تحریر فرمایا ہے اور اس میں جو ذاتی آرا پیش کی ہیں وہ داخلی تضادات یا سیلف کنٹراڈکشن کا شکار ہیں ۔ آپ خود ہی غور سے ان کا جائزہ لیجئے ۔ ویسے آپ کی یہ بات پڑھ کر شدید حیرت ہوئی کہ آئے اور جائی کو آیے اور جایی لکھنا چاہئے کیونکہ ان الفاظ کو "آ اے اور جا ای کوئی نہیں بولتا" ۔ نہ معلوم آپ کس اردو کی بات کررہے ہیں۔ اردو میں تو یہ الفاظ تو اسی طرح بولے جاتے ہیں! :)
ریحان ، املا کمیٹی کے بارے میں آپ کے تبصرے ٹھیک نہیں ہیں ۔ املا کمیٹی کی سفارشات انتہائی طویل تحقیق و تدقیق کے بعد مرتب کی گئی ہیں ۔ ان سفارشات کی بنیاد ڈیڑھ صدی پر مشتمل درجنوں ماہرینِ لسانیات کی تحقیق اور مقالات پر رکھی گئی ہے ۔ املا کمیٹی والے محقق ، اہلِ علم اور معتبر ماہرینِ لسانیات تھے لوگ میری طرح پارٹ ٹائم شوقیہ ادیب و شاعر نہیں تھے ۔ یعنی ایسا نہیں ہے کہ کچھ کم علم بیوقوف لوگوں نے بغیر کسی تحقیق و تدقیق کے بس ایک دن شام کی چائے پر بیٹھ کر یہ سفارشات مرتب کردیں اور چند سالوں بعد پھر ایک دن کافی پیتے ہوئے ان کی تدوین و تجدید کردی ۔ :)
ریحان میاں ، میں خود لسانیات کا ایک ادنیٰ سا طالب علم ہوں ۔ انگریزی لسانیات پر بھی اچھا خاصا پڑھا ہے اور زیادہ نہیں تو تھوڑا بہت درک بھی رکھتا ہوں ۔ ولندیزی اور ہسپانوی زبانوں سے بھی کچھ واقفیت ہے۔ لیکن یورپی زبانوں کی صوتیات اور صوتیاتی اصطلاحات کے ترازو پر اردو کو پرکھنا بجائے خود ایک حماقت ہے ۔ ہر زبان میں ہر آواز موجود نہیں ہے۔ ہر زبان کا ایک الگ مزاج ہے جو صدیوں میں جا کر بنتا ہے اور اس کے پیچھے ایک طویل تاریخی پس منظر ہوتا ہے۔کاش زبان کے اصول ہم اور آپ گھر بیٹھ کر بنا سکتے۔ لیکن خوش قسمتی یا بدقسمتی سے ایسا نہیں ہے۔ زبان خود بخود بنتی ہے۔ ہم تو زبان کی تہہ میں کارفرما پیٹرن یا ترتیب و تکرار کو دریافت کرتے ہیں اور ان کی بنیاد پر کچھ اصول و قواعد بنادیتے ہیں اور بس۔

آخر میں سعادت بھائی سے معذرت کہ ان کی اس تکنیکی لڑی میں یہ غیر متعلق بحث کود پڑی ۔ مدیرانِ کرام سے درخواست ہے کہ مناسب سمجھیں تو میرے مراسلے کو کسی الگ لڑی میں منتقل کردیا جائے ۔ شکریہ!
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
میں بھی یہی کہتا ہوں کہ الگ سے اوپر والا ہمزہ جسے کچھ لوگ و، ہ، ے، یا کسرۂ اضافت کے طور پر لگاتے ہیں، وہ قطعی غلط ہے۔ صرف ایک لفظ کی طرف میری توجہ یہیں محفل میں مبذول کی گئی، جس پر میں بھی کچھ کہہ نہین سکا۔ یعنی مسئول( مدیر مسئول)۔ اس پر بھی روشنی ڈالیں محمد ریحان قریشی
اعجاز بھائی ، تو پھر کسرۂ اضافت کو کس طرح لکھا جائے گا؟ کسرہِ اضافت ؟! اگر آپ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ "الگ سے اوپر والے ہمزہ" کی کوئی ضرورت نہیں تو پھر خائن ، قائم ، سائل، حائل وغیرہ کا کیا ہوگا؟!
اس ہمزہ کے بارے میں تو املا کمیٹی کی واضح سفارشات موجود ہیں اور یہ سرے سے کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے ۔ اگر ہم ان سفارشات پر عمل نہ کریں تو کیا کیا جاسکتا ہے ۔ کسی بات کو تو معیار ماننا ہوگا ورنہ سوئی وہیں اٹکی رہے گی ۔ ترقی تورک جائے گی۔
استادِ محترم میرے خیال میں اسے مسؤول لکھا جانا چاہیے کیونکہ اس کا تلفظ اردو میں /maswu:l/ ہے۔ ؤ نیم ‌مصوتے w کو ظاہر کرتا ہے اور اس کے بعد و طویل مصوتے /:i/ یعنی یائے معروف کی نشاندہی کرتا ہے۔ ایسا ہی ایک لفظ داؤود بھی ہے۔ اس میں پہلے نیم مصوتہ ؤ ہے اور پھر طویل مصوتہ واؤ معروف۔
"لکھا جانا چاہیے" ہی تو اصل مسئلہ ہے ریحان ۔ ڈیجیٹل دور اور کمپیوٹر کی ضروریات کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے املا کی تسہیل الگ بات ہے لیکن صدیوں پر محیط رواج اور چلن کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔ ایسی کسی کوشش سے مسائل کم نہیں بلکہ زیادہ ہوجائیں گے ۔ قارئین کی الجھنیں بڑھ جائیں گی ۔ لاکھوں کتابوں میں املا کی درستی کون کرے گا ؟ ہونا تو یوں چاہیے کہ ہم کمپیوٹر پروگراموں کو اردو کے مطابق ڈھالیں کہ ایسا کرنا املا بدلنے کی نسبت کہیں زیادہ آسان ہے ۔
 
ان میں سے ہمزہ کو نکال دیا جائے تو لفظ تبدیل ہوجائے گا اور معنی بدل جائیں گے۔
ظہیر بھائی ابھی حال ہی میں آپ نے ذومعنی کے تناظر میں یہ بات کہی تھی کہ لفظ کا معنی اس کے استعمال پر‌منحصر ہوتا ہے ماخذ پر نہیں۔

اگر اردو حروفِ تہجی میں سے عربی الاصل حروف کو نکال کر صوتی طور پر متبادل دیگر حروف سے کام لیا جائے تو پھر یہ اردو زبان تو نہیں رہے گی
یعنی عربی الفاظ میں آپ یہ ضروری سمجھتے ہیں کہ اصل املا کو برقرار رکھا جائے؟ تو پھر سوال کو بھی سؤال لکھا جانا چاہیے، ایسے سینکڑوں الفاظ ہیں کہ جن کا اصل املا برقرار نہیں رکھا جاتا۔

ث ، ح ، ذ ، ص، ض، ط، ظ ، ع وغیرہ کی بھی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ان آوازوں کے لئے متبادل حروف موجود ہیں اور بولتے وقت ان کی آوازوں میں کوئی فرق نہیں کیا جاتا۔
اس نکتے سے اختلاف ممکن نہ ہو اگر ہر لفظ کا عربی املا برقرار رکھا جانا ہی اصول بن جائے۔املا کمیٹی نے چونکہ صوتیاتی نکات زیرِ بحث لائے اس لیے میں نے بھی اس پر اپنی رائے پیش کی۔
لیکن یورپی زبانوں کی صوتیات اور صوتیاتی اصطلاحات کے ترازو پر اردو کو پرکھنا بجائے خود ایک حماقت ہے ۔
آئے پی اے ایک جہانگیر معیار ہے، اسے رد کرنے کے لیے دلائل کی ضرورت ہوگی۔
ہر زبان میں ہر آواز موجود نہیں ہے۔
یہ تو سب کو معلوم ہے۔
ہم تو زبان کی تہہ میں کارفرما پیٹرن یا ترتیب و تکرار کو دریافت کرتے ہیں اور ان کی بنیاد پر کچھ اصول و قواعد بنادیتے ہیں اور بس۔
املا کا معاملہ مختلف ہے کیونکہ اس میں ایک معیار ہونا ضروری ہے، اسے بے ہنگم نہیں ہونا چاہیے۔
لاکھوں کتابوں میں املا کی درستی کون کرے گا ؟
لاکھوں کتابوں میں نونِ غنہ کو ن اور ھ کو ہ لکھا جا چکا ہے، کئی اور الفاط کا املا بھی املا‌کمیٹی کے معیار سے مطابقت نہیں رکھتا۔ جو ہو چکا ہے اس پر بات کرنا بے کار ہے۔ تاہم جدید معیار وضع کرتے ہوئے صوتیاتی نکات کو مکمل نظرانداز نہیں کیا جانا چاہیے۔

ویسے آپ کی یہ بات پڑھ کر شدید حیرت ہوئی کہ آئے اور جائی کو آیے اور جایی لکھنا چاہئے کیونکہ ان الفاظ کو "آ اے اور جا ای کوئی نہیں بولتا" ۔ نہ معلوم آپ کس اردو کی بات کررہے ہیں۔ اردو میں تو یہ الفاظ تو اسی طرح بولے جاتے ہیں!
میں نے تو یہ کہا کہ ی اور ئ میں صوتیاتی اعتبار سے کوئی فرق نہیں ہے لیکن یہاں ایک معیار قائم کرنے کے لیے آئے اور آیا لکھنا ہی میرے نزدیک بہتر ہے۔

دوسرے نکتے پر تھوڑا مزید غور کر کے دیکھ لیجیے آاے صرف تب ہی بولا جا سکتا ہے جب آ کے بعد وقف کیا جائے یعنی آئے کی یک لفظی حیثیت ختم ہو جائے اور دو الفاظ بالترتیب آ اور اے بولے جائیں۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
ظہیر بھائی ابھی حال ہی میں آپ نے ذومعنی کے تناظر میں یہ بات کہی تھی کہ لفظ کا معنی اس کے استعمال پر‌منحصر ہوتا ہے ماخذ پر نہیں۔

یعنی عربی الفاظ میں آپ یہ ضروری سمجھتے ہیں کہ اصل املا کو برقرار رکھا جائے؟ تو پھر سوال کو بھی سؤال لکھا جانا چاہیے، ایسے سینکڑوں الفاظ ہیں کہ جن کا اصل املا برقرار نہیں رکھا جاتا۔

اس نکتے سے اختلاف ممکن نہ ہو اگر ہر لفظ کا عربی املا برقرار رکھا جانا ہی اصول بن جائے۔املا کمیٹی نے چونکہ صوتیاتی نکات زیرِ بحث لائے اس لیے میں نے بھی اس پر اپنی رائے پیش کی۔
آئے پی اے ایک جہانگیر معیار ہے، اسے رد کرنے کے لیے دلائل کی ضرورت ہوگی۔
یہ تو سب کو معلوم ہے۔
املا کا معاملہ مختلف ہے کیونکہ اس میں ایک معیار ہونا ضروری ہے، اسے بے ہنگم نہیں ہونا چاہیے۔
لاکھوں کتابوں میں نونِ غنہ کو ن اور ھ کو ہ لکھا جا چکا ہے، کئی اور الفاط کا املا بھی املا‌کمیٹی کے معیار سے مطابقت نہیں رکھتا۔ جو ہو چکا ہے اس پر بات کرنا بے کار ہے۔ تاہم جدید معیار وضع کرتے ہوئے صوتیاتی نکات کو مکمل نظرانداز نہیں کیا جانا چاہیے۔
میں نے تو یہ کہا کہ ی اور ئ میں صوتیاتی اعتبار سے کوئی فرق نہیں ہے لیکن یہاں ایک معیار قائم کرنے کے لیے آئے اور آیا لکھنا ہی میرے نزدیک بہتر ہے۔

دوسرے نکتے پر تھوڑا مزید غور کر کے دیکھ لیجیے آاے صرف تب ہی بولا جا سکتا ہے جب آ کے بعد وقف کیا جائے یعنی آئے کی یک لفظی حیثیت ختم ہو جائے اور دو الفاظ بالترتیب آ اور اے بولے جائیں۔
ریحان ، بات عربی لفظوں کو بدستور برقرار رکھنے کی تو ہوہی نہیں رہی بلکہ اردو میں ان کے چلن اور رواج کے متعلق ہی ہورہی ہے۔ اردو میں شروع ہی سے ان شاء اللّٰہ اور ما شاء اللّٰہ کو "ء" کے ساتھ ہی لکھنے کا چلن اور رواج ہے ۔ قائم ، دائم اور مائل سائل وغیرہ بھی ہمزہ کے ساتھ لکھے جاتے ہیں ۔ اسلئے ماشااللّٰہ اور ان شااللّٰہ وغیرہ کا کوئی جواز نہیں بنتا ۔ سوال کو ہمیشہ سے اردو میں سوال ہی پڑھا اور لکھا گیا ہے ۔ سؤال نہیں پڑھا یا لکھا جاتا ۔ جو لفظ اصل زبان سے اردو میں آکر اپنا املا یا معنی بدل گیا اس میں معیار اردو ہی کو مانا جائے گا ۔ اردو املا بے ہنگم نہیں ہے صرف اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اردو کئی مختلف النوع زبانوں سے مل کر بنی ہے ۔ اور املا کے اختلافات صرف اردو ہی میں نہیں بلکہ دنیا کی بہت ساری زبانوں میں ہیں ۔ انگریزی تو املا کے اختلافات سے بھری پڑی ہے ۔ لفظ کی مکتوبی حالت اور ملفوظی شکل میں بے حد فرق ہوتا ہے ۔ لیکن یہ فرق کمپیوٹر پروگراموں کی تشکیل میں اب تک کوئی رکاوٹ نہیں بنا۔ اردو املا کمیٹی نےسینکڑوں سال پرانے اختلافات کو بہت حد تک مٹانے کی کوشش کی ہے ۔
آئے کو آ-اے تو کوئی نہیں کہتا ۔ بیچ میں کوئی وقفہ نہیں دیتا بلکہ روانی کے ساتھ بولا جاتا ہے ۔ اور آواز الف ہی کی ہوتی ہے اگرچہ مختصر ہوتی ہے ۔ لیکن "ی" کی آواز نہیں ہوتی ۔ یعنی آیے نہیں بولا جاتا۔
ریحان میاں ، فی الحال اس گفتگو کو مختصر چھوڑ رہا ہوں ۔ اب بس گھر جانے کے لئے اٹھنا ہے ۔ تفصیل بعد میں کسی اور لڑی میں ۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
ایک اور بات جو لکھنے سے رہ گئی وہ آئے پی اے سے متعلق ہے ۔ اسے جہاں گیر مت کہئے ۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے امریکا والے اپنے آپ کو بیس بال میں اور ہندوستان والے اپنے آپ کو کبڈی میں عالمی چیمپئن کہیں ۔ :) ان کا کام یورپی زبانوں کی حد تک ہی معتبر ہے ۔ دنیا کی ہر زبان میں موجود اصوات کی ترقیم کا دعویٰ ٹھیک نہں ہے ۔ ان کی مدد سے سمجھی ہوئی آواز اصل کے قریب قریب تو ہوسکتی ہیں لیکن بعینہ نہیں ہوسکتی ۔ دوسری بات یہ کہ ان علامات کو سمجھنے کے لئے متعلقہ اصوات کا سُنا ہوا ہونا بھی ضروری ہے ۔ یعنی سمعی حوالہ ضروری ہے ۔ آئے پی اے کی تاریخ اور اس کے ممبران پر ایک نظر ڈال لیجئے گا اور دیکھئے گا کہ اس میں ہندوستانی زبانوں کے کتنے نمائندہ افراد موجود رہے ہیں ۔
 
ریحان ، بات عربی لفظوں کو بدستور برقرار رکھنے کی تو ہوہی نہیں رہی بلکہ اردو میں ان کے چلن اور رواج کے متعلق ہی ہورہی ہے۔ اردو میں شروع ہی سے ان شاء اللّٰہ اور ما شاء اللّٰہ کو "ء" کے ساتھ ہی لکھنے کا چلن اور رواج ہے
بہت عمدہ نکتہ اٹھایا ظہیر بھائی آپ نے. اسی بنا پر میرا ایک عرصے سے یہی موقف ہے کہ فلانی آواز اردو میں ہے، فلانی نہیں جیسےمباحث بے سروپا ہیں.... کیونکہ اس طرح تو آخر میں شاید دس بارہ حروف ہی بچیں گے .... خود انشاء اللہ، ذکاء الرحمن وغیرہ کے املا میں ہمزہ کا سینکڑوں برس "سروائیو" کر جانا ہی اس بات کی دلیل ہے یہ کسی نہ کسی سطح پر اردو کو اس آواز کی ضرورت ہے.
 
قائم ، دائم اور مائل سائل وغیرہ بھی ہمزہ کے ساتھ لکھے جاتے ہیں ۔
خطِ نسخ میں یونکیوڈ کا بالائی ی اور بالائی ہمزہ دونوں ء جیسے نظر آتے ہیں لیکن خطِ نستعلیق میں دو‌نوں ی کی سی شکل رکھتے ہیں۔ اسے ی ہی سمجھنا چاہیے جو کہ‌نیم مصوتے کی علامت ہے۔ یہ املا جب عربی سے ماخوذ ہی نہیں ہے تو اس میں ہمزہ کا کیا کام ہے؟
لیکن یہ فرق کمپیوٹر پروگراموں کی تشکیل میں اب تک کوئی رکاوٹ نہیں بنا۔
ہمزہ کا کمپیوٹر پروگراموں کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ ان کے تناظر میں جو مسائل وجود رکھتے ہیں انھیں پہلے عرض کرچکا ہوں۔ یوں بھی زیادہ تر لوگ اب لاطینی خط میں لکھتے ہیں تو اس کا معیار وضع کرنا زیادہ
امکانات رکھتا ہے۔
اسلئے ماشااللّٰہ اور ان شااللّٰہ وغیرہ کا کوئی جواز نہیں بنتا
املا، ابتدا کو بھی بہت سی جگہوں پر املاء، ابتداء لکھا جاتا رہا ہے اس پر املا کمیٹی یہ کہتی ہے کہ ان الفاط کو الف سے بولا جاتا ہے اس لیے ء کے بغیر لکھا جانا چاہیے اور اگلی ہی سطر میں وہ تراکیب بیچ میں لا کر اپنی ہی بات کی نفی کر دیتے ہیں۔اصل داخلی تضاد تو یہ ہے۔
اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اردو کئی مختلف النوع زبانوں سے مل کر بنی ہے ۔
ہر زبان پر بہت سی زبانوں کے اثرات موجود ہوتے ہیں، اس میں اردو کوئی امتیازی حیثیت نہیں رکھتی۔
دنیا کی ہر زبان میں موجود اصوات کی ترقیم کا دعویٰ ٹھیک نہں ہے ۔ ان کی مدد سے سمجھی ہوئی آواز اصل کے قریب قریب تو ہوسکتی ہیں لیکن بعینہ نہیں ہوسکتی ۔
یہ تو بعینہٖ کی تعریف پر منحصر ہے، اس بات کی اگر آپ کوئی سائنسی توجیہہ یعنی کوئی سپیکٹروگریم وغیرہ پیش کریں تو آسانی ہو جائے گی۔ کچھ کچھ فرق تو ہر شخص کی ادایگی میں ہوتا ہے اور سائنسی طور پر ایسا فرق پکڑنا بھی ممکن ہے جو انسانی سماعت نہیں پکڑ سکتی۔

بہرحال جو تجزیہ میں نے اپنے اصل مراسلے میں پیش کیا ہے وہ ان لوگوں کے تجزیے سے یقینی طور پر حقیقت کے زیادہ قریب ہے جو کہ اردو میں ہمزہ کو الف متحرک کا قائم مقام سمجھتے ہیں، یہ بات سطحی طور پر تو درست لگتی ہے لیکن حقیقت سے بعید ہے۔ بالائی ہمزہ دراصل بالائی ی ہے جو کہ نیم مصوتے کی علامت ہے نہ کہ‌الف کا قائم مقام۔
دوسری بات یہ کہ ان علامات کو سمجھنے کے لئے متعلقہ اصوات کا سُنا ہوا ہونا بھی ضروری ہے ۔ یعنی سمعی حوالہ ضروری ہے ۔
آئے پی اے کے سمعی حوالے ویب پر آسانی کے ساتھ دستیاب ہیں۔
 
آخری تدوین:

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
ریحان بھائی ، یہ بحث تو طویل ہوتی جارہی ہے اور یہ بھی ڈر ہے کہ یہ اپنا رخ نہ بدل لے۔ آئی پی اے کا معاملہ تفصیل کا متقاضی ہے ۔ اس پر کسی دوسری لڑی میں گفتگو کرتے ہیں ۔ فی الحال میں ہمزہ کے مسئلے پر ایک آخری مراسلہ لکھ دوں ۔
املا، ابتدا کو بھی بہت سی جگہوں پر املاء، ابتداء لکھا جاتا رہا ہے اس پر املا کمیٹی یہ کہتی ہے کہ ان الفاط کو الف سے بولا جاتا ہے اس لیے ء کے بغیر لکھا جانا چاہیے اور اگلی ہی سطر میں وہ تراکیب بیچ میں لا کر اپنی ہی بات کی نفی کر دیتے ہیں۔اصل داخلی تضاد تو یہ ہے۔
ریحان بھائی ، اگر آپ ان دو سفارشات کے پس منظر پر نظر ڈال لیں تو پھر آپ کو ان میں تضاد نظر نہیں آئے گا بلکہ یہ انتہائی معقول اور شاندار معلوم ہوں گی ۔ املا کمیٹی کے پیشِ نظر جو پس منظر تھا وہ کچھ یوں ہے:
اردو میں پائے جانے والے عربی کے الفاظ یا تو اسم ہیں یا صفت ( ماسوائے چند استثنیات) ۔ عربی میں ان الفاظ کا آخری حرف ہمیشہ متحرک ہوتا ہے۔ اس کے برعکس اردو والے ہر لفظ کا آخری حرف ہمیشہ ساکن بولتے ہیں۔ چنانچہ عربی کے وہ الفاظ جن کے آخر میں متحرک ہمزہ ہوتا ہے ( ماء ، آباء ، علماء ، ابتداء املاء وغیرہ) جب اردو میں شامل ہوئے تو متحرک ہمزہ کو ساکن کرکے بولنا پڑا ۔ یعنی قرات میں یہ الفاظ الف پر ختم ہوجاتے ہیں ، ساکن ہمزہ کی کوئی آواز نہیں بولی جاتی ۔ لیکن ہوا یہ کہ ان الفاظ کا املا شروع سے ہمزہ کے ساتھ ہی لکھا جاتا رہا۔ بعد میں کچھ لوگوں نے اختلاف کیا اور ان الفاظ کو بغیر ہمزہ کے لکھنا شروع کیا ۔ چونکہ یہ آخری ہمزہ کوئی آواز نہیں دیتا اس لئے املا کمیٹی نے اس ہمزہ کو ختم کرنے کی سفارش کی تاکہ املا کا یہ اختلاف ختم ہو جائے۔ لیکن جب یہی مذکورہ بالا عربی الفاظ کسی ترکیب یا فقرے کا حصہ ہوتے ہیں تو وہاں ہمزہ متحرک ہی رہتا ہے ۔ چنانچہ اس کا تلفظ بھی کیا جاتا ہے ۔ مثلاً ماء اللحم ، ماء الجبن ، ماء الشباب ، ماء الورد ، احیاء العلوم ، اسماء الحسنیٰ ، ضیاء الحق ، ماشاء اللہ وغیرہ۔ ان الفاظ میں ہمزہ مضموم ہے اور تلفظ میں آرہا ہے ۔ اسی لئے ان جگہوں پر ہمزہ برقرار رکھنے کی سفارش کی گئی ۔ اگر ان الفاظ میں سے ہمزہ نکال کر اُس کی جگہ الف لگایا جائے تو کئی اور مسائل پیدا ہوجائیں گے ۔ مثلاً یہ دیکھئے کہ معرف باللام الفاظ میں لام سے پہلے کا الف یعنی ہمزۃ الوصل کبھی نہیں پڑھا جاتا ۔ اب اگر احیاء العلوم کو احیاالعلوم لکھا جائے تو یہاں لام سے پہلے کے الف کو پیش لگا کر پڑھنا پڑے گا ۔ اگر ایسا کردیا جائے تو پھر معرف باللام والی ترکیبات میں ہمزۃ الوصل کو نظر انداز کرنے والا اصول جاتا رہے گا ۔ پھر عظیم الشان کو "عظیم – اُلشان" بھی پڑھا جاسکتا ہے اور ابو الانبیا کو "ابو- اُلانبیا" وغیرہ وغیرہ ۔ دوسری بات یہ ہے کہ اردو زبان کا تعلق فارسی اور عربی سے کبھی ختم نہیں ہوسکتا ۔ اس کا ماضی بھی ان دونوں زبانوں سے جڑا ہے اور مستقبل بھی ۔ اردو میں اب بھی کتنی ہی نئی تراکیب اور اصطلاحات عربی اور فارسی الفاظ کو استعمال کرتے ہوئے گھڑی جاتی ہیں۔ چنانچہ ان الفاظ کا تاریخی پس منظر قائم رکھنا بھی کسی حد تک ضروری ہے تاکہ ترکیب سازی کے یہ اصول اردو دانوں کے پیشِ نظر رہیں ۔ فارسی اضافت ، واؤ عطف اور ہمزۃ الوصل وغیرہ کے اصولوں کے باعث ہی اردو زبان اب تک لسانی بے راہ روی سے بچی ہوئی ہے ورنہ ڈنڈائے طویل اور گھونسۂ شدید تو کب کے پڑ چکے ہوتے۔ :):):)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قائم ، دائم ، سائل ، مائل وغیرہ کے بارے میں آپ نے کہا کہ "یہ املا جب عربی سے ماخوذ ہی نہیں ہے تو اس میں ہمزہ کا کیا کام ہے؟"
ریحان ، آپ کی یہ بات تو درست نہیں ہے ۔ قائم ، دائم ، مائل ، سائل ، دائرہ ، مائدہ ، صائمہ ، یہ تمام الفاظ عربی ہی کے تو ہیں اور وہیں سے اردو میں آئے ہیں ۔ عربی میں بھی یونہی لکھے جاتے ہین اور ان الفاظ کا املا اردو میں بھی شروع ہی سے اسی طرح رہا ہے اور اس املا میں کبھی کوئی اختلاف نہیں رہا ۔ کیا آپ دائرے کو بھی دایرے لکھنا پسند کریں گے؟!
 
ریحان ، آپ کی یہ بات تو درست نہیں ہے ۔ قائم ، دائم ، مائل ، سائل ، دائرہ ، مائدہ ، صائمہ ، یہ تمام الفاظ عربی ہی کے تو ہیں اور وہیں سے اردو میں آئے ہیں ۔
میں نے یہ بات جائے، آئے کے پیشِ نظر کی تھی۔ لیکن مذکورہ الفاظ میں بھی عربی میں ہمزہ کی حیثیت‌مختلف ہے اس لیے اسے بالائی ہمزہ قرار دینا کنفیوژن کا باعث بن سکتا ہے۔ یہ تو طے ہے کہ اردو میں اس کی حیثیت نیم مصوتے کے اعلان کنندہ کی ہے۔ اور نستعلیق میں اس کی شکل بھی ء جیسی نہیں ہے۔

کیا آپ دائرے کو بھی دایرے لکھنا پسند کریں گے؟!
ی اور ئ ایک ہی چیز‌ ہیں۔ لیکن جو جیسے رائج ہے ویسے لکھنے میں مضائقہ نہیں‌۔ جیسا معاملہ آیا اور آئے کا ہے۔ آواز دونوں کی ایک ہی ہے‌۔
اردو زبان اب تک لسانی بے راہ روی سے بچی ہوئی ہے ورنہ ڈنڈائے طویل اور گھونسۂ شدید تو کب کے پڑ چکے ہوتے۔
بلے باز، گیندباز، دھوکے باز ایسی کئی تراکیب عام مستعمل ہیں۔ گو کہ میں انھیں پسند نہیں کرتا لیکن متبادل کئی ایسی تراکیب کے دستیاب نہیں ہیں۔
 
آخری تدوین:
پھر عظیم الشان کو "عظیم – اُلشان" بھی پڑھا جاسکتا ہے اور ابو الانبیا کو "ابو- اُلانبیا" وغیرہ وغیرہ ۔
ایسا نہیں ہوگا کیونکہ عظیم حرفِ صحیح میم پر اختتام پذیر ہوتا ہے احیا کی طرح طویل مصوتے ا پر نہیں۔

ابوالانبیا کو ابو-الانبیا پڑھنا کیا تکنیکی طور پر غلط ہے؟ اگر ایسا ہے بھی تو کیا فرق پڑتا ہے، مطلب تو واضح ہو ہی جاتا ہے۔
اب اگر احیاء العلوم کو احیاالعلوم لکھا جائے تو یہاں لام سے پہلے کے الف کو پیش لگا کر پڑھنا پڑے گا ۔
یعنی ایک حرفِ صحیح (جس کا اردو میں وجود نہیں) اردو رسم الخط میں صرف اس لیے شامل کیا گیا ہے کہ اگلے الف کا مضموم ہونا ظاہر کرے؟ کیا ہی اچھا ہوتا اگر ایسا کوئی انتظام دیگر حروف کے لیے بھی ہوتا تا کہ ان کی حرکات بھی معلوم ہو جاتیں۔
کیا یکُم کو یءکم لکھا جا سکتا ہے؟ ء یہاں یہ بتا رہا ہے کہ اگلا ک مضموم ہے۔

بہرحال اصل تلفظ احیاءالعلوم کا اردو میں احیاؤالعلوم ہی ہے، نیم مصوتے ؤ کے ساتھ۔ لکھا جیسے بھی جائے۔
 
آخری تدوین:
Top