نوبل انعام یافتہ واحد پاکستانی ڈاکٹر عبدالسلام

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
اسی انگریز سے علامہ نے "سر" کا خطاب لینا کیوں قبول کیا؟۔

لو مدرسہ علم ہوا قصر حکومت
افسوس کہ سر ہو گئے اقبال
پہلے تو سر ملت بیضا کے وہ تھے تاج
اب اور سنو تاج کے سر ہو گئے اقبال
کہتا تھا کل ٹھنڈی سڑک پر کوئ گستاخ
سرکار کی دہلیز پہ سر ہو گئے اقبال
سر ہو گیا ترکوں کی شجاعت سے سمرنا
سرکار کی تدبیر سے سر ہو گئے اقبال
اسکا جواب خود اقبال نے کچھ اس طرح دیا ہے۔۔۔۔​
میرے جنوں نے زمانے کو خوب پہچانا
وہ پیرہن مجھے بخشا کہ تار تار نہیں۔۔​
 

حماد

محفلین
اسکا جواب خود اقبال نے کچھ اس طرح دیا ہے۔۔۔ ۔​
میرے جنوں نے زمانے کو خوب پہچانا​
وہ پیرہن مجھے بخشا کہ تار تار نہیں۔۔​
اس کی ذرا تشریح فرما دیجئے کہ یہ "سر" کا خطاب قبول کرنے کی کیسے توجیح کر تا ہے؟ اور انگریز دشمنی اس سے کیونکر ثابت ہوتی ہے؟ یاد رہے کہ سلمان رشدی کو بھی انگریزی سرکار نے "سر" کا خطاب دیا ہے۔
 
میرا نظریہ ہے کہ اقبال کو اس خطاب کی کوئی طمع نہیں تھی۔۔۔ان کیلئے اسکا ملنا یا نہ ملنا اہمیت نہیں رکھتے تھے۔ چنانچہ جب آپ کے دل میں کسی چیز کے حصول کی طمع نہ ہو تو آپ پرواہ نہیں کرتے کہ آپ کے قول و فعل سے کہیں اس چیز کا حصول دشوار نہ ہوجائے۔مختصر یہ کہ یہ بات آپکو حق بات کہنے سے مانع نہیں ہوتی، چاہے کوئی اس سے خوش ہو یا ناخوش۔۔۔چنانچہ اقبال کی شاعری اسکی گواہ ہے کہ انہوں نے اپنے پیغام کا ابلاغ بھی بھرپور طریقے سے کردیا اور خوامخواہ کےہیرو ازم کا بھی مظاہرہ نہیں کیا۔۔۔ چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ مرے جنوں نے زمانے کو خوب پہچانا، وہ پیرہن مجھےبخشا کہ تار تار نہیں، وہ اپنا دائرہ کار بخوبی سمجھتے تھے چنانچہ انہوں نے مناسب نہیں سمجھا کہ علامہ مشرقی کی طرح انگریز سرکار سے خوامخواہ کی ٹکر لیجائی کیونکہ بیلچوں کا مشین گن سے کوئی مقابلہ نہیں۔۔
لیکن جس شخص کے دل میں آرزو ہوتی ہے کسی اعزاز کی، وہ مداہنت سے بھی کام لے لیا کرتا ہے، کہ کسی طرح سے دوسرے کو خوش کیا جائے۔۔چاہے اسکے لئیے اپنے دل کی آواز کو بھی دبانا پڑجائے تو وہ پرواہ نہیں کرتا۔۔اقبال کے سلسلے میں ایسا ہرگز نہیں تھا۔۔۔انہوں نے چنگاری کو بجھانے کی بات نہیں کی، بلکہ اسے اپنے سینے میں زندہ رکھنے کی ضرورت پر زور دیا ، ہاں قوم کی حالت کے تحت حقیقت پسندی کا تقاضا یہی تھا کہ
نالہ اے بلبل شوریدہ ترا ہے خام ابھی
اپنے سینے میں ذرا اور اسے تھام ابھی
دوسری بات یہ ہے کہ میں یہ نہیں سمجحتا کہ انگریز ہر کام مسلم دشمنی کی ذیل میں ہی کیا کرتے تھے۔۔۔وہ ایک علم دوست قوم تھی اور علمی کاموں کی اور سکالرز کی قدر کیا کرتے تھے، یہ ایک علیحدہ بات ہے کہ چونکہ برصغیر میں انہیں اپنے اقتدار کی راہ میں اگر کسی سے کوئی خطرہ تھا تو وہ مسلمان قوم تھی، چنانچہ اصول جہاں بانی کے تحت انہوں نے مسلمانوں کو اپنے کنٹرول میں رکھنے کیلئے جو کچھ کیا اس میں ایسے اقدامات بھی تھے جن سے مسلمانوں کی مرکزیت اور جمعیت پارہ پارہ ہونے میں مدد ملے۔۔۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top