نواسہ رسول ْ حضرت امام حسن بن علی کے اقوال زریں

معبود) جوچيزيں اپنے وجودميں تيري محتاج ہيں ان سے تيرے لئے کيونکراستدلال کياجاسکتاہے؟ کياکسي کے لئے اتناظہورہے جوتيرے لئے ہے؟ تاکہ وہ تيرے اظہارکاذريعہ بن سکے،(بھلا) توغائب ہي کب تھاکہ تيرے لئے کسي ايسي دليل کي ضرورت پڑے جوتيرے اوپردلالت کرے؟ اورتوکب دورتھا تاکہ آثارکے ذريعہ تجھ تک پہونچاجاسکے؟ اندھي ہوجائيں وہ آنکھيں جوتجھے نہ ديکھ سکيں حالانکہ توہميشہ ان کاہم نشين تھا۔
(دعائے عرفہ ،بحار/ج 98 ص 226) ۔
جس نے تجھ کوکھوديااس کوکياملا؟ اورجس نے تجھ کوپالياکون سي چيزہے جس کواس نے نہيں حاص کيا؟ جوبھي تيرے بدلے ميں جس پربھي راضي ہوا،وہ تمام چيزوں سے محروم ہوگيا۔(دعائے عرفہ ،بحار/ج 98 ص 228) ۔
اس قوم کوکبھي فلاح حاصل نہيں ہوسکتي جس نے خداکوناراض کرکے مخلوق کي مرضي خريدلي۔(مقتل خوارزمي،ج 1 ص 239) ۔
قيامت کے دن اسي کوامن وامان حاصل ہوگاجودنياميں خداسے ڈرتارہاہو۔(بحار/ج 44 ص 192) ۔
۔خداوندعالم نے امربہ معروف ونہي ازمنکرکواپنے ايک واجب کي حيثيت سے پہلے ذکرکياکيونکہ وہ جانتاہے کہ اگريہ دونوں فريضے (امربمعروف ونہي ازمنکر) اداکئے گئے توسارے فرائض خواہ سخت ہوںيانرم،قائم ہوجائيں گے کيونکہ يہ دونوں انسانوں کواسلام کي طرف دعوت دينے والے ہيں اورصاحبان حقوق کے حقوق ان کي طرف پلٹانے والے ہيں اورظالموں کومخالفت پرآمادہ کرنے والے ہيں۔(تحف العقول ص 237) ۔
لوگو! رسول خداکاارشادہے : جوديکھے کسي ظالم بادشاہ کوکہ اس نے حرام خداکوحلال کردياہے، پيمان الہي کوتوڑدياہے سنت رسول کي مخالفت کرتاہے، بندگان خداکے درميان ظلم وگناہ کرتاہے اورپھربھي نہ عمل سے اورنہ قول سے اس کي مخالفت کرتاہے توخداپرواجب ہے کہ اس ظالم بادشاہ کے عذاب کي جگہ اس کوڈال دے۔(مقتل خوارزمي،ج 1 ص 234) ۔
لوگ دنياکے غلام ہيں ،اوردين ان کي زبانوں کے لئے چٹني ہے ،جب تک (دين کے نام پر) معاش کادارومدارہے دين کانام ليتے ہيں ليکن جب مصيبتوں ميں مبتلاہوجاتے ہيں تو دينداروں کي تعدادبہت کم ہوجاتي ہے۔تحف العقول ص 445) ۔
جوشخص خداکي نافرماني کرکے اپنامقصدحاصل کرناچاہتاہے اس کے حصول مقصدکاراستہ بندہوجاتاہے اوربہت جلدخطرات ميں گھرسکتاہے۔
(تحف العقول ص 248) ۔
کياتم نہيں ديکھ رہے ہوکہ حق پرعمل نہيں ہورہاہے ،اورباطل سے دوري نہيں اختيارکي جارہي ہے،ايسي صورت ميں مون کاحق ہے کہ لقائے الہي کي رغبت کرے۔(تحف العقول ص 245) ۔
ميں موت کوسعادت اورظالموں کے ساتھ زندگي کواذيت سمجھتاہوں۔(تحف العقول ص 245) ۔

(1)وہ چيزجو خود اپنے وجود کے لئے تيرى محتاج ھے، تيرے وجود کے لئے کس طرح دليل ھو سکتى ھے؟
کيا تيرى ذات سے بڑہ کر بھى کوئى آشکار چيز ھو سکتى ھے کہ جو تجھے آشکار کرے؟تو کب پوشيدہ ھے کہ مجھے ڈھونڈھنے کے لئے اس دليل کى ضرورت پڑے جو مجھ پر دلالت کرے ؟ اور اب تو کب دور ھے کہ تيرے آثار کے ذريعے مجھ تک پھونچائے ؟ نابينا ھو جائے وہ آنکہ جو تجھے اپنى طرف ناظر نہ سمجھے ۔ ( 1)
(2)جس نے تجھے پا ليا اس نے کيا کھويا، اور جس نے تجھے کھوديا اس نے کيا پايا؟
جو انسان تيرے علاوہ کسى اور چيز کو دوست رکھتا ھو اور اسى پر راضى وخوشنود ھو، وہ يقينا گھاٹے ميں ھے۔ (2)
(3)جو لوگ خدا کى خوشنودى کو بندوں کى رضايت کے بدلے خريدتے ھيں، وہ کبھى کامياب نہ ھوں گے۔ (3)
(4)روز قيامت کسى بھى شخص کے لئے امان نھيں ھے مگر وہ شخص کہ جو باتقويٰ ھو۔ (4)
(5)خداوند عالم فرماتا ھے: ”مومن مردو وعورت ايک دوسرے کے ساتھى ھيں، جو امر بالمعروف اور نھى عن المنکر کرتے ھيں۔“
خدا وند عالم نے سب سے پھلے امر بالمعروف اور نھى عن المنکر کو ايک فريضے کے طور پربيان کيا ھے، اس لئے کہ وہ يہ جانتا ھے کہ اگر يہ فرائض انجام پا جائيں تو دوسرے تمام وظائف بھى خواہ وہ سخت ھوں يا آسان، انجام پا ھى جائيں گے۔ کيونکہ امر بالمعروف اور نھى عن المنکردين اسلام کى تبليغ کا ايک بھترين ذريعہ ھے، جومظلوموں کو، ظالموں کے مقابلہ ميں اپنا حق لينے کے لئے اکساتا رھتاھے۔ (5)
(6)رسول خدا صلى الله عليہ وآلہ وسلم نے فرمايا: اے لوگو! جو شخص ظالم بادشاہ کو ديکھے کہ جو حرام خدا کو حلال کررھا ھے، خداوند عالم کے حکم کى خلاف ورزى کررھا ھے، الله کے رسول کے لائے ھوئے قوانين کى مخالفت کررھا ھے، بندگان کے درميان ظلم وستم، معصيت ونافرمانى اور دشمنى کا بازار گرم کئے ھوئے ھے، اور وہ شخص اپنے فعل و عمل کے ذريعہ اس کى مخالفت نہ کرے، تو خداوند عالم پر لازم ھے کہ اس شخص کا ٹھکانہ بھى اسى ظالم کے ساتھ قرار دے۔ (6)
(7)لوگ دنياکے غلام ھيں، اور دين کو اپنى زندگى کے وسائل فراھم کرنے کے لئے ايک لعاب کے طور پر استعمال کرتے ھيں،جو ان کى زبانوں سے چمٹا ھوا ھے۔ ليکن جب آزمائش وامتحان کا وقت آجاتا ھے تو ديندار لوگ کم ياب ھو جاتے ھيں۔ (7)
(8)جوشخص گناھوں کے ذريعہ اپنے مقصد تک پھونچنا چاھتا ھے، اس کى آرزوئيں بہت دير سے پورى ھوتى ھيں، اور جس چيز سے ڈرتا ھے سب سے پھلے اسى ميں گرفتار ھوجاتا ھے۔ (8)
(9)کيا تم نھيں ديکہ رھے ھو کہ لوگوں کے حقوق کو پامال کيا جا رھا ھے، اور کوئى باطل کا مقابلہ کرنے والا نھيں؟ لھٰذا ايسے ميںمومن اگر حق پر ھے تو اس کو چاھئے کہ خدا سے ملاقات کى تمنا کرے۔ (9)
(10) موت سے بڑہ کر ميرے لئے کوئى سعادت نھيں ھے، ستمگروں اورظالموں کے ساتھ زندگى بسر کرنے سے بڑہ کر ميرے لئے کوئى عذاب نھيں ھے۔ (10)
(11)تمھارى مصيبتيں وپريشانياں تمام لوگوں سے زيادہ اس لئے ھيں کہ دانشمندوں کا عھدہ ( اگر تم سمجھتے ھو يا بالفرض اگر تمھارے اندر اس کى لياقت ھے تو) تمھارے ھاتھوں سے لے ليا گيا ھے۔
يہ مصيبتيں وپريشانياںاس وجہ سے ھيں چونکہ حل وعقد امور اور نفاذ احکام الٰھى ان خدا شناس دانشمندوں کے ھاتھ ميں ھونا چاھئے جو حلال وحرام الٰھى کے امين ھيں۔
ليکن يہ مقام ومنزلت تم سے اس لئے لے ليا گيا ھے کہ تم نے حق سے کنارہ کشى اختيار کي،واضح اور آشکار دليلوںکے باوجود تم نے سنت پيغمبر(ص) ميںاختلاف پيدا کرديا۔ اگرتم ان آزار واذيت کے مقابلہ ميں صبر سے کام ليتے اور ان مصيبتوں اور سختيوں کو خدا کى راہ ميں قبول کر ليتے تو تمام امور الٰھى کى باگڈور تمھارے ھاتھوں ميں تھما دى جاتى اور اس کا مرجع و مآخد تم ھى قرار پاتے۔ ليکن تم نے ظالموں اور ستمگروں کواپنے اوپر مسلط کرليا اور تمام امور الٰھى کى باگڈور ان کے ھاتھ ميں تھما دى جب کہ وہ شبھات پر عمل کرتے ھيں اور شھوت وھوس رانى کو اپنا پيشہ بنائے ھوئے ھيں، تمھاراموت سے فرار اور اس ناپائدار زندگى پر راضى ھونا،ھى ستمگاروں کى قدرت طلبى کا باعث بنا ھے۔ (11)
(12)خداوندا ! تو گواہ رھنا کہ ھم نے جو کچہ انجام ديا ھے نہ مقام ومنزلت حاصل کرنے کے لئے انجام ديا ھے اور نہ ھى دنيا کى پست اور بيکار چيزوں کے حاصل کرنے کے لئے۔ ھم نے جو کچہ انجام دياصرف اس لئے تاکہ لوگ تيرے دين کى نشانيوں کو سمجھيں، اور تيرے شھروں ميں بسنے والے بندوں کو مفاسد سے روکيں ، تاکہ تيرے مظلوم بندے امن وامان ميں رھيں اور تيرے احکام کى پابندى کرسکيں۔ ( 12)
(13)حق يہ ھے کہ ميں بے مقصد ايک باغي، ظالم اورستمگرکى حيثيت سے قيام نھيںکر رھاھوں، بلکہ ميں نے اپنے جد محمد مصطفےٰ صلى الله عليہ وآلہ وسلم کى امت کى اصلاح کے لئے قيام کيا ھے ، ميں چاھتا ھوں کہ امر بالمعروف اور نھى عن المنکر انجام دوں ، اوراپنے جد محمد مصطفےٰ صلى الله عليہ وآلہ وسلم اور اپنے بابا على مرتضى عليہ السلام کى روش پر گامزن رھوں۔ (13)
(14)اگر دنيا کو باارزش سمجھ ليا جائے تو جان لو کہ منزل آخرت اور خداوند عالم کى جانب سے ملنے والا ثواب اس سے کھيں زيادہ ارزشمند اور بھتر ھے۔
انسان اگر مرنے کے لئے ھى پيدا کيا گيا ھے تو خدا کى قسم شھادت سے بڑہ کر کوئى اور موت بھتر نھيں ھوسکتي۔
جب انسان کا رزق معين ھو چکا ھے تو انسان کے لئے بھتر يھى ھے کہ وہ رزق و روزى کى طلب ميںحرص سے کام نہ لے ۔
اگر مال کو جمع کرنے کا مقصد اس کو ترک کرنا ھى ھے تو پھر کيوںايک آزاد انسان ان چيزوں کے سلسلہ ميں بخل سے کام ليتا ھے کہ جو باقى رھنے نھيں والى ھيں۔ (14)
(15)اى آل ابى سفيان تم پر وائے ھو! اگر تمھارا کوئى دين نھيں ھے اور اگر معاد اور روز قيامت کا تمھيں کوئى خوف نھيںھے تو کم از کم دنيا ميں ھى آزاد اور جوانمردانسان بن کر زندگى گزارو۔ (15)
(16)کچہ لوگ حرص ولالچ کى بنا پر خدا کى عبادت کرتے ھيں، يہ سودا گروں کى عبادت ھے۔
کچہ لوگ ڈر اور خوف کى وجہ سے خدا کى عبادت کرتے ھيں، يہ غلاموں کى عبادت ھے۔
کچہ لوگ خدا وندعالم کا شکر بجا لانے کے لئے اس کى عبادت کرتے ھيں،يہ عبادت سب سے بھترين اور آزاد مردوں کى عبادت ھے۔ (16)
(17)آگاہ ھو جاؤ! لوگوں کا تمھارے پاس اپنى حاجتوں کا لے کر آنا، يہ خداوند عالم کى بھترين نعمتوں ميں سے ايک نعمت ھے۔ لھٰذا اس نعمت سے غافل نہ رھو، کھيں ايسا نہ ھو کہ يہ نعمت تمھارے پاس سے پلٹ کر کسى اور کے پاس چلى جائے۔ (17)
(18)اى لوگو!ان ملامت وسرزنش سے عبرت حاصل کرو جو خدا وند نے علماء يھود کو پند ونصيحت کے طور پر کى تھيں۔جب خداوند عالم فرمايا: ”علمائے يھود نے اھل يھود کو گناہ آلود باتوں سے کيوں نھيں روکا ؟“ اور ارشاد فرماتا ھے: ”گروہ بنى اسرائيل سے وہ لوگ جو کافر ھوگئے،(جناب داؤد اور جناب عيسيٰ کى زبان پر)ملعون قرار پائے۔“ يھاں تک کہ ارشاد ھوتا ھے: ”وہ کتنے ناپسنديدہ کاموں کو انجام ديتے تھے۔“ يھى وجہ تھى کہ خدا وندعالم کو ان کى يہ بات ناگوار گذرى کہ وہ ستمگروں اور ظالموں کے ناروا افعال کو ديکھتے تھے اور اس سے منع نہ کرتے تھے، کيونکہ وہ ستمگروں کى طرف سے ملنے والے مال پر حريص ھو جاتے، اور اعتراض کى صورت ميں وہ اس کے انجام سے ڈرتے تھے۔ اسى لئے خداوند عالم ارشاد فرماتا ھے: ”مجھ سے ڈرو لوگوں سے نہ ڈرو۔“ اور يہ بھى فرماتا ھے: ” مومن مردو عورت ايک دوسرے کے بھائى ھيں، جو نيکى کا حکم ديتے ھيں اور برائيوں سے روکتے ھيں۔“ (18)
(19)اگر کوئى شخص لوگوں کى رضايت وخوشنودى حاصل کرنے کے لئے خداوند عالم کے غيض وغضب کا باعث بنے تو خداوند عالم بھى اس کو لوگوں کے حوالے کرديتا ھے۔ (19)
(20)اس شخص پر ظلم وستم کرنے سے ڈرو جس کا خدا کے علاوہ کوئى اور مدد گار نہ ھو۔ (20)
(21)جوتم پر زيادہ تنقيد کرتا ھے وہ تمھارا واقعى اور حقيقى دوست ھے ، اور جو تمھارى تعريفيں کرتا ھے وہ گويا تمھارا دشمن ھے۔ (21)
(22)حق کى پيروى سے ھى عقل کامل ھوتى ھے۔ (22)
(23)فاسقوں کى صحبت اختيار کرنا، انسان کو معرض اتھام ميںکھڑا کر ديتا ھے۔ (23)
(24)خدا وند متعال کے خوف کى وجہ سے گريہ کرنا، آتش جھنم سے نجات کا باعث ھوتاھے۔ (24)
(25)ايک شخص امام حسين عليہ السلام کے پاس آيا اور کھنے لگا: ”ميں ايک گناگار انسان ھوں اور خدا کى معصيت سے پرھيز نھيں کرتا، مجھے کچہ نصيحت کيجئے۔“ امام حسين عليہ السلام نے فرمايا: ”پانچ کام بجا لاؤ اس کے بعد جو چاھے کرو۔ پھلے يہ کہ خداوند عالم کا عطا کردہ رزق استعمال نہ کرو اور جو تمھارا دل چاھے گنا ہ کرو۔ دوسرے يہ کہ خداوند عالم کى حکومت سے خارج ھو جاؤ اس کے بعد جو تمھارا دل چاھے کرو ۔ تيسرے يہ کہ کسى ايسى جگہ چلے جاؤ کہ خدا تمھيں نہ ديکہ سکے اور جو تمھارا دل چاھے گناہ کرو۔ چوتھے يہ کہ جب عزرائيل تمھارى روح قبض کرنے کے لئے آئيں تو انھيں اپنے پاس سے بھگا دو پھر جو تمھارا دل چاھے گناہ انجام دو۔ پانچويں يہ کہ جس وقت جھنم کا مالک وحاکم تمھيں آگ ميں ڈالے ، تم آگ ميں نہ کودو اس کے بعد جو تمھارا دل چاھے گناہ کرو۔ (25)
(26)جس کام کے سلسلہ ميں تمھيں عذر خواھى کرنا پڑے اس کام سے پرھيز کرو، مومن نہ بدى کرتا ھے اور نہ عذر خواھى کرتا ھے۔ اور منافق ھر روز بدى کرتا ھے اور ھر روز عذر خواھى کرتا ھے۔ (26)
(27)جلدى کرنا کم عقلى کى علامت ھے۔ (27 )
(28)کسى بھى شخص کواس وقت تک بات کرنے کى اجازت نہ دو جب تک کہ وہ سلام نہ کرلے۔ (28)
(29)فکر نہ کرنے والے افراد کے ساتھ بحث وتکرار کرنا، جھل ونادانى کى ايک علامت ھے۔ (29)
(30)تنقيد، فکر اور مختلف نظريات کے سلسلہ ميں جاننا، عالم کى نشانيوں ميں سے ايک ھے۔ (30)
(31)امام حسين عليہ السلام سے پوچھا گيا: يابن رسول الله (ص) آپ روز وشب کيسے گزارتے ھيں؟؟ آپ نے فرمايا: اس حالت ميںکہ خداوند متعال ھمارے اعمال پر ناظر ھوتا ھے اور ھم آتش جھنم کو اپنى آنکھوں سے مشاھدہ کرتے ھيں، موت ھمارا پيچھا کررھى ھے،اپنے اعمال کے سلسلہ ميں حساب وکتاب سے کوئى چھٹکارا نظر نھيں آتا، اپنى دلخواہ چيزوں پر دسترس نھيں رکھتا، اپنے اندر اپنے ارد گرد کى تکاليف کو دور کرنے کى قدرت نھيںپاتا، تمام امور کسى اور کے ھاتھ ميں ھيں، اگر وہ چاھے تو مجھ پر عذاب نازل کرسکتا ھے اور اگر چاھے تو مجھے معاف کرسکتا ھے، اس بنا پر ايسا کون مسکين ھے جو مجھ سے بھى زيادہ ناتواں اور عاجز ھو۔ (31)
(32)جو بخش دے وہ بزرگ سمجھا جاتا ھے اور جو شخص بخل سے کام ليتا ھے وہ ذليل ورسوا ھو جاتا ھے۔ (32)
(33)لوگوں ميں سب سے زيادہ مھربان شخص وہ ھے جو ايسے شخص کو معاف کردے جو اس سے اس بات کى اميد نہ رکھتا ھو۔ (33)
(34)جو شخص ايک برادر مومن کى مشکل کو حل کرے اور اسے اضطراب سے نجات دلائے تو خداوند عالم دنيا وآخرت کے اضطراب وپريشانيوں کو اس سے دور کرديتا ھے۔ (34)
(35)جب کسى شخص کو ديکھو کہ لوگوں کى عزت و آبرو پر حملہ کررھا ھے تو کوشش کرو کہ وہ تمھيں نہ پھچانے۔ (35)
(36)اپنى حاجتوں کو متدين ، جواں مرد اور نجيب وشريف انسان سے بيان کرو۔ (36)
(37)اس شخص کى طرح عمل کرو جو گناھوں پر عذاب اور نيکى پر اجرو ثواب کا عقيدہ رکھتا ھو۔ (37)
(38)سلام کرنے کا اجروثواب ستر نيکيوں کے برابر ھے، جس ميں سے69/ اس شخص کے لئے ھيں جو سلام کرتا ھے اور ايک نيکى سلام کا جواب دينے والے کے لئے ھوتى ھے۔ (38)
(39)اگر يہ تين چيزيں ، فقر، مرض اور موت نہ ھوتى تو بنى آدم کسى کے سامنے سر نہ جھکاتا۔ (39)
(40)تمھارى قيمت بھشت کے سوا اور کچہ نھيں ھے، پھر کيوں اپنے آپ کو اس کے غير سے بيچتے ھو۔ اس لئے کہ جو شخص دنيا پر راضى ھو جائے ( گويا اس کا مقصد صرف اور صرف دنيا ھے) وہ ايک پست چيز پر راضى ھوا ھے۔ (40)
(41)گذشتہ نعمتوں پر شکر ، خداوند متعال کى طرف سے نئى اور تازہ نعمتوں کے عطيہ کا سبب ھوتا ھے۔ ( 41)
(42)جو شخص خوف خدا رکھتا ھو وھى امين ھو سکتا ھے۔ (42)
(43)آنحضرت سے پوچھا گيا فضيلت کيا ھے؟ تو آپ نے فرمايا: ” زبان کو قابو ميں رکھنا اور نيکى کرنا۔“ (43)
(44)اى لوگو! نيک اور اچھے صفات ميں ايک دوسرے کے رقيب ھو جاؤ، اچھے وقت کو ھاتھ سے نہ جانے دو، وہ عمل خير جس کى انجام دھى ميں تم نے سستى سے کام ليا، اسے اچھا نہ گردانو۔ کاميابى اور کامرانى حاصل کر کے دوسروں کا شکريہ اور ستائش حاصل کرو۔ نيک کاموں ميںسستى اور کاھلى کى وجہ سے اپنے آپ کو مورد ملامت قرار نہ دو۔ (44)
(45)وہ تمام بڑى نعمتيں جو خدا نے تمھيں عطا کى ھيں جان لو کہ يہ ان ضروريات ميں سے ھيں جس کى لوگ تم سے توقع رکھتے ھيں۔بچو! کھيں ايسا نہ ھو کى ضرورتمندوں کى طرف سے بے توجھى تم سے يہ نعمتيں واپس لے لے اور يہ بلا اور مصيبت کى صورت اختيار نہ کر ليں۔ جان لو کہ نيک کام کى انجام دھى کے بعد لوگوں کے لئے حمدوستائش کا سبب بننے کے علاوہ خدا وند عالم کى طرف سے بھى اس کے اجروثواب کے حقدار ھو۔اگرکسى نيک کام کو انسانى شکل ميں مشاھدہ کرتے تو اس کو بہت ھى نيک اور بہت ھى خوبصورت شکل ميں ديکھتے اس طرح سے کہ ھر ديکھنے والا اس کو ديکھتا ھى رہ جائے۔اور اگر تم کسى برے کام کو کسى انسانى شکل ميں ديکھتے تو تمھارى نظر ميں اس کا تصور ايک بد صورت اور بھدى شکل والے انسان کا ھوتااس طرح سے کہ دلوں ميں اس سے نفرت پيدا ھوجاتى اوراس نحس شکل کو ديکھتے ھى آنکھيں بند کرليتے۔ (45)
(46)لوگوں ميں قدرتمند ترين شخص وہ ھے جو اپنے دشمن پر غلبہ پانے کے باوجود اسے معاف کردے۔ (46)
(47)صلہ رحم ميںوہ شخص سب سے اچھا ھے جو ان رشتہ داروں کى بہ نسبت دلجوئى اور صلھٴ رحم کرے جنھوں نے اس سے قطع رحم کيا ھے۔ ( 47)
(48)جان لو کہ جو شخص برادر مومن کے غم کو ھلکا کرے تو خداوند عالم بھى دنيا وآخرت کے غموں کو اس سے دور کردے گا۔ اور جو شخص دوسروں کے ساتھ نيکى کرے تو خداوند عالم بھى اس کے ساتھ نيکى کرے گا اس لئے کہ خداوند عالم نيک افراد کو دوست رکھتا ھے۔ (48)
(49)بردبارى انسان کى زينت ھے، اور وعدہ کو وفاکرنا جوان مردى کى علامت ھے۔ (49)
(50)تکبر،ايک طرح کى خود پسندى اور بے جا خود ستائى ھے۔ کاموں ميں جلدى کرنا، کم عقلى کى علامت ھے۔ کم عقلى روح کى کمزورى کى علامت ھے۔ ھر چيز ميں زيادہ روى سے کام لينا ھلاکت کا باعث ھوتا ھے۔ (50)
(51)آگاہ ھو جاؤ، جنگ ايک ايسا فتنہ ھے جس کى سختياں انسان کو خوف ميں مبتلا کرديتى ھيں جس کا مزہ حد سے زيادہ تلخ اور کڑوا ھوتا ھے کہ جسے گھونٹ گھونٹ کرکے پيا جاتا ھے۔ مرد ميدان اور جنگ کا فاتح وھى ھوتا ھے جو ھر وقت جنگ کے لئے آمادہ ھو، لشکر کى کثرت ،جنگ کے سازوسامان اور جنگ شروع ھونے سے پھلے ھى دشمن سے خوف زدہ نہ ھو جائے، اور جنگ ميں جو بھى شخص وقت کے آنے سے پھلے ،کام ميں دقت نظرى اور سازوسامان پر نظر رکھنے سے پھلے ميدان ميں آجائے اس نے اپنى قوم وقبيلہ کو کوئى فائدہ نہ پھونچايا ھوچاھے خواہ وہ اپنى جان جوکھم ميں ھى کيوں نہ ڈال دے۔ (51)
(52)ميں تمھيں خدا سے ملاقات کے دن (روز قيامت) سے ڈراتے ھوئے تمھيں تقويٰ و پرھيزگارى کى وصيت کرتا ھوں ،اس وقت کا تصور کرو کہ جب موت ايک وحشتناک شکل وصورت ميں آئے گي، اس کا آنا اچانک اور ناگوار انداز ميں ھوگا، تمھارى روح کو اپنے پنجوں ميں جکڑ لے گااس وقت تمھارے اور عمل کے درميان فاصلہ پيدا ھو جائے گا، ليکن پھر بھى تم طول عمر اور اپنے تن کى فکر ميں ھو۔ ميں تمھيں ديکہ رھا ھوں کہ اچانک موت نے تمھارا گريبان پکڑ ليا ھے اور تمھيں زمين سے اپنے اندر کھينچ رھى ھے، تمھيں زمين کى بلندى سے پستى پر لا پٹخا ھے ، دنيا کى الفت ومحبت سے تمھيں قبر کى تاريکى ميںڈھکيل ديا ھے، دنيا کى خوبصورتى اور چکاچوندھنى سے قبر کى ظلمت وتاريکى کى طرف لے جا رھى ھے ، کشادگى سے قبر کى تنگى کى طرف کھينچ رھى ھے ،ايک ايسے زندان ميں جھاں کسى نزديک ترين عزيز سے بھى ملاقات ناممکن ھے، اس جگہ جھاں بيمارى کى عيادت بھى نھيں کى جاسکتي، جھاں کسى کى نالہ وفرياد نھيں سنى جاتي۔
ان مشکل ايام ميںپروردگار ھميں اور تمھيں کاميابى عطا فرمائے۔ ھميں اور تمھيں اس دن کے عذا ب سے نجات عطا فرمائے، اور ھم سب کو ايک عظيم انعام سے نوازے۔ (52)
(53)ميں وصيت کرتا ھوں تقويٰ الٰھى اختيار کرو، اس لئے کہ خداوند عالم نے اس بات کى ضمانت لى ھے کہ وہ افراد جو با تقويٰ ھيں انھيں ناپسنديدہ چيزوں سے نيک اور اچھى چيزوںکى طرف رھنمائى کرے۔ ”اور وہ اس طرح سے تمھيں روزى عطا کرتا ھے کہ جس کا تم تصور بھى نھيں کرسکتے۔“ (53)
(54)کھيں ايسا نہ ھو جائے کہ تم گناھگار لوگوں سے پرھيز کرو اور خود اس کام کے انجام سے غافل رھو۔ اس لئے کہ خدا وندعالم بھشت دے کرکے دھوکہ نھيں کھائے گا، اس نے جن انعامات کا وعدہ کيا ھے سوائے اس کے فرمانبرداروں کے کوئى اور اس کا حقدار نھيں ھوسکتا۔ (54)
(55)اے بنى آدم! تھوڑا سا سوچو ، غور کرو اور يہ بتاؤ کہ دنيا پر حکومت کرنے والے بادشاہ وحکمراں کھاں ھيں؟جنھوں نے دنيا کى سونى جگھوں کو آباد کياھے۔
 

شمشاد

لائبریرین
قمر بخاری صاحب کیا یہ آپ کی اپنی تحریر ہے؟ اگر نہیں تو جہاں سے آپ نے نقل کر کے چسپاں کیا ہے اس کا ربط دینا بہت ضروری ہے۔ کہ اردو محفل کی یہی پالیسی ہے۔
 
Top