جاسم محمد
محفلین
نواز شریف نے کم تنخواہ میں کیسے گزارا کیا؟
22/01/2020 عدنان خان کاکڑ
وزیراعظم عمران خان صاحب نے مہنگائی کا شکوہ کرتے ہوئے بتایا ہے کہ تنخواہ میں ان کا گزارا نہیں ہوتا۔ وزیراعظم کی مارچ 2019 کی تنخواہ کی رسید اخبارات میں شائع ہوئی تھی جس کے مطابق انہیں تقریباً دو لاکھ روپے ماہانہ تنخواہ ملتی ہے۔ اسمبلی کے اجلاس وغیرہ کے سلسلے میں کچھ اوپر کے پیسے بھی ملتے ہیں۔ کوتاہ بین لوگ کہہ سکتے ہیں کہ وزیراعظم کی گاڑی اور جہاز کا خرچہ ریاست دیتی ہے، بجلی اور فون کا بل حکومت ادا کرتی ہے، دوا دارو مفت ہے، کچن بھی سرکاری کھاتے سے چلتا ہے، تو یہ دو لاکھ تو نری بچت ہیں۔ مگر کیا ان معترضین نے کبھی یہ سوچا ہے کہ مہنگائی کتنی زیادہ ہو گئی ہے اور اوپر کے دیگر خرچے کتنے ہوتے ہیں؟
بجلی، گیس، کچن اور پٹرول کا خرچہ نہ بھی ہو تو ہزار دوسرے خرچے ہوتے ہیں۔ کسی دوست رشتے دار کی شادی میں جانا پڑے تو ہزاروں روپے تو وہیں سلامی اور جوتا چھپائی میں کھل جاتے ہیں۔ پھر وزیراعظم کے کتوں کا خرچہ بھی ہے، دو سگ پرستوں نے بتایا ہے کہ مہنگائی اتنی زیادہ ہو گئی ہے کہ گزشتہ برس جو ڈاگ فوڈ چھے ہزار کی ملتی تھی اب وہ تقریباً گیارہ ہزار کی ہے اور ایک بڑے کتے کا ماہانہ خرچہ ساڑھے سولہ ہزار ہو چکا ہے۔ جس شخص نے پانچ کتے بھی پال رکھے ہوں تو اس کا اسی بیاسی ہزار تو صرف اس کے وفادار کتا ہی کھا جاتے ہیں، تنخواہ میں سے باقی کیا خاک بچے گا؟
اب وزیراعظم اگر ہر وقت اپنے گھر کا خرچہ چلانے کے بارے میں پریشان رہیں گے تو وہ ملک کیسے چلائیں گے؟ اس لئے ہمارا فرض ہے کہ ان کی مدد کریں۔ چندہ دینا تو ممکن نہیں ہے اس لئے وزیراعظم کو آمدنی میں اضافے کے غیر روایتی طریقے ہی سجھانے ہوں گے۔ اس ضمن میں سابقہ کاروباری وزیراعظم نواز شریف کے وزیراعظم ہاؤس میں شب و روز کا مطالعہ مفید رہے گا۔
جب ہمیں پہلے پہل یہ معلوم ہوا کہ نواز شریف نے اس مسئلے کا حل کیسے نکالا تھا تو شروع میں ہمیں یقین نہ آیا مگر پھر یاد آیا کہ وہ ایک ایسے کاروباری خانوادے سے تعلق رکھتے ہیں جو مٹی کو بھی ہاتھ لگائے تو اسے سونے کے بھاؤ بیچ سکتا ہے۔
ہمارے سورس کے مطابق کپتان کی طرح نواز شریف کو بھی یہ مسئلہ درپیش تھا کہ تنخواہ میں پورا نہیں پڑتا تھا۔ ماشا اللہ وہ خود بھی خوش خوراک تھے اور ان کا کنبہ بھی۔ ان کا تو حلقہ انتخاب ہی گوالمنڈی ہے۔ ایک دن انہوں نے حساب لگایا تو معلوم ہوا کہ ان کی تقریباً تمام تنخواہ ہی دودھ دہی کے بل ادا کرنے میں خرچ ہو جاتی ہے۔ انہوں نے جنگی بنیادوں پر اس مسئلے کا حل نکالنے کی کوشش شروع کر دی۔
نواز شریف نے کمیٹیاں ڈال ڈال کر اپنی ذاتی بھینسیں خرید لیں اور انہیں وزیراعظم ہاؤس کے باڑے میں باندھ کر گوالمنڈی سے ماہرین بلوا لیے۔ نہ صرف یہ کہ خود ان کے کنبے اور مہمانوں کی ضروریات پوری ہونے لگیں بلکہ اتنا دودھ بچ جاتا تھا کہ باہر بیچ کر وہ چار پیسے بھی بچا سکیں اور کمیٹی کی قسط بھی ادا کر سکیں۔ رفتہ رفتہ خدا نے کاروبار میں ایسی برکت ڈالی کہ پورے ریڈ زون میں ان کی بھینسوں کا دودھ سپلائی ہونے لگا۔ بابو اسی کی دودھ پتی پی پی کر ملک و قوم کی خدمت کیا کرتے تھے۔ کاروبار میں ایسا ہن برسا کہ نوٹ گنے نہیں جاتے تھے۔ بلکہ انہیں اگر اپنی مدت پوری کرنے کا موقع دیا جاتا تو ہمیں یقین ہے کہ وہ ریڈ زون میں دودھ دہی کے بعد کھویا، برفی، نمک پارے، جلیبیاں اور سموسے بھی سپلائی کرنا شروع کر دیتے اور خوب امیر ہو جاتے۔
کپتان نے وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد سب سے بڑی غلطی یہی کی کہ سوچے سمجھے بغیر یہ نفع بخش پالتو بھینسیں وزیراعظم ہاؤس سے نکال دیں اور ان کی جگہ ماہانہ لاکھ روپے کی ڈاگ فوڈ کھانے والے کتے پال لیے۔ پیسہ جیب میں آنا بند ہوا اور الٹا جیب سے جانے لگا اور اب یہ وقت آیا ہے کہ وزیراعظم یہ کہنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ ان کا گزارا تنخواہ میں نہیں ہو رہا۔
بہرحال پریشانی کی بات نہیں ہے۔ وزیراعظم بھی جہانگیر ترین اور علیم خان کے ساتھ مل کر کمیٹی ڈال لیں اور ساتھ شیخ رشید کو پارٹنر رکھ لیں جن کا بھینسوں اور دودھ کا تجربہ مشہور ہے۔ اللہ برکت ڈالے گا۔ اس کے بعد وزیراعظم کا دل کرتا ہے تو بھینسیں پال لیں اور نواز شریف کے بزنس ماڈل پر چلیں۔ اگر اس میں شرم مانع ہے یا انہیں کابینہ کی روز روز کی کھچ کھچ کے بعد ذاتی وقت میں بھی بھینسوں کے آگے بین بجانا ناپسند ہے تو پھر وہ کتوں کی بریڈنگ کا کاروبار شروع کرنے پر بھی غور کر سکتے ہیں۔ برخوردار خان نے ہمیں بتایا ہے کہ ایک نسلی کتے کا پلا پچاس ساٹھ ہزار میں بھی بک جاتا ہے۔ کتے پالنے کا شوق بھی پورا ہو جائے گا اور چار پیسے بھی بن جائیں گے۔
22/01/2020 عدنان خان کاکڑ
وزیراعظم عمران خان صاحب نے مہنگائی کا شکوہ کرتے ہوئے بتایا ہے کہ تنخواہ میں ان کا گزارا نہیں ہوتا۔ وزیراعظم کی مارچ 2019 کی تنخواہ کی رسید اخبارات میں شائع ہوئی تھی جس کے مطابق انہیں تقریباً دو لاکھ روپے ماہانہ تنخواہ ملتی ہے۔ اسمبلی کے اجلاس وغیرہ کے سلسلے میں کچھ اوپر کے پیسے بھی ملتے ہیں۔ کوتاہ بین لوگ کہہ سکتے ہیں کہ وزیراعظم کی گاڑی اور جہاز کا خرچہ ریاست دیتی ہے، بجلی اور فون کا بل حکومت ادا کرتی ہے، دوا دارو مفت ہے، کچن بھی سرکاری کھاتے سے چلتا ہے، تو یہ دو لاکھ تو نری بچت ہیں۔ مگر کیا ان معترضین نے کبھی یہ سوچا ہے کہ مہنگائی کتنی زیادہ ہو گئی ہے اور اوپر کے دیگر خرچے کتنے ہوتے ہیں؟
بجلی، گیس، کچن اور پٹرول کا خرچہ نہ بھی ہو تو ہزار دوسرے خرچے ہوتے ہیں۔ کسی دوست رشتے دار کی شادی میں جانا پڑے تو ہزاروں روپے تو وہیں سلامی اور جوتا چھپائی میں کھل جاتے ہیں۔ پھر وزیراعظم کے کتوں کا خرچہ بھی ہے، دو سگ پرستوں نے بتایا ہے کہ مہنگائی اتنی زیادہ ہو گئی ہے کہ گزشتہ برس جو ڈاگ فوڈ چھے ہزار کی ملتی تھی اب وہ تقریباً گیارہ ہزار کی ہے اور ایک بڑے کتے کا ماہانہ خرچہ ساڑھے سولہ ہزار ہو چکا ہے۔ جس شخص نے پانچ کتے بھی پال رکھے ہوں تو اس کا اسی بیاسی ہزار تو صرف اس کے وفادار کتا ہی کھا جاتے ہیں، تنخواہ میں سے باقی کیا خاک بچے گا؟
اب وزیراعظم اگر ہر وقت اپنے گھر کا خرچہ چلانے کے بارے میں پریشان رہیں گے تو وہ ملک کیسے چلائیں گے؟ اس لئے ہمارا فرض ہے کہ ان کی مدد کریں۔ چندہ دینا تو ممکن نہیں ہے اس لئے وزیراعظم کو آمدنی میں اضافے کے غیر روایتی طریقے ہی سجھانے ہوں گے۔ اس ضمن میں سابقہ کاروباری وزیراعظم نواز شریف کے وزیراعظم ہاؤس میں شب و روز کا مطالعہ مفید رہے گا۔
جب ہمیں پہلے پہل یہ معلوم ہوا کہ نواز شریف نے اس مسئلے کا حل کیسے نکالا تھا تو شروع میں ہمیں یقین نہ آیا مگر پھر یاد آیا کہ وہ ایک ایسے کاروباری خانوادے سے تعلق رکھتے ہیں جو مٹی کو بھی ہاتھ لگائے تو اسے سونے کے بھاؤ بیچ سکتا ہے۔
ہمارے سورس کے مطابق کپتان کی طرح نواز شریف کو بھی یہ مسئلہ درپیش تھا کہ تنخواہ میں پورا نہیں پڑتا تھا۔ ماشا اللہ وہ خود بھی خوش خوراک تھے اور ان کا کنبہ بھی۔ ان کا تو حلقہ انتخاب ہی گوالمنڈی ہے۔ ایک دن انہوں نے حساب لگایا تو معلوم ہوا کہ ان کی تقریباً تمام تنخواہ ہی دودھ دہی کے بل ادا کرنے میں خرچ ہو جاتی ہے۔ انہوں نے جنگی بنیادوں پر اس مسئلے کا حل نکالنے کی کوشش شروع کر دی۔
نواز شریف نے کمیٹیاں ڈال ڈال کر اپنی ذاتی بھینسیں خرید لیں اور انہیں وزیراعظم ہاؤس کے باڑے میں باندھ کر گوالمنڈی سے ماہرین بلوا لیے۔ نہ صرف یہ کہ خود ان کے کنبے اور مہمانوں کی ضروریات پوری ہونے لگیں بلکہ اتنا دودھ بچ جاتا تھا کہ باہر بیچ کر وہ چار پیسے بھی بچا سکیں اور کمیٹی کی قسط بھی ادا کر سکیں۔ رفتہ رفتہ خدا نے کاروبار میں ایسی برکت ڈالی کہ پورے ریڈ زون میں ان کی بھینسوں کا دودھ سپلائی ہونے لگا۔ بابو اسی کی دودھ پتی پی پی کر ملک و قوم کی خدمت کیا کرتے تھے۔ کاروبار میں ایسا ہن برسا کہ نوٹ گنے نہیں جاتے تھے۔ بلکہ انہیں اگر اپنی مدت پوری کرنے کا موقع دیا جاتا تو ہمیں یقین ہے کہ وہ ریڈ زون میں دودھ دہی کے بعد کھویا، برفی، نمک پارے، جلیبیاں اور سموسے بھی سپلائی کرنا شروع کر دیتے اور خوب امیر ہو جاتے۔
کپتان نے وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد سب سے بڑی غلطی یہی کی کہ سوچے سمجھے بغیر یہ نفع بخش پالتو بھینسیں وزیراعظم ہاؤس سے نکال دیں اور ان کی جگہ ماہانہ لاکھ روپے کی ڈاگ فوڈ کھانے والے کتے پال لیے۔ پیسہ جیب میں آنا بند ہوا اور الٹا جیب سے جانے لگا اور اب یہ وقت آیا ہے کہ وزیراعظم یہ کہنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ ان کا گزارا تنخواہ میں نہیں ہو رہا۔
بہرحال پریشانی کی بات نہیں ہے۔ وزیراعظم بھی جہانگیر ترین اور علیم خان کے ساتھ مل کر کمیٹی ڈال لیں اور ساتھ شیخ رشید کو پارٹنر رکھ لیں جن کا بھینسوں اور دودھ کا تجربہ مشہور ہے۔ اللہ برکت ڈالے گا۔ اس کے بعد وزیراعظم کا دل کرتا ہے تو بھینسیں پال لیں اور نواز شریف کے بزنس ماڈل پر چلیں۔ اگر اس میں شرم مانع ہے یا انہیں کابینہ کی روز روز کی کھچ کھچ کے بعد ذاتی وقت میں بھی بھینسوں کے آگے بین بجانا ناپسند ہے تو پھر وہ کتوں کی بریڈنگ کا کاروبار شروع کرنے پر بھی غور کر سکتے ہیں۔ برخوردار خان نے ہمیں بتایا ہے کہ ایک نسلی کتے کا پلا پچاس ساٹھ ہزار میں بھی بک جاتا ہے۔ کتے پالنے کا شوق بھی پورا ہو جائے گا اور چار پیسے بھی بن جائیں گے۔