نواز شریف صاحب جلد بازی کام بگاڑ دے گی

نواز شریف صاحب جلد بازی کام بگاڑ دے گی






پنجاب ہاؤس میں مرکزی مجلس عاملہ اور پارلیمانی پارٹی کے مشترکہ اجلاس کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے قائد و سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ ہمارا مقصد مڈ ٹرم الیکشن یا حکومت کی تبدیلی نہیں، ہم میثاق جمہوریت کے تحت کئے گئے وعدوں کی تکمیل چاہتے ہیں، وکلاء لانگ مارچ میں بھرپور شرکت کریں گے، نیشنل سکیورٹی کونسل کی تلوار ابھی تک پارلیمنٹ کے سر پر لٹک رہی ہے، وقت آ گیا ہے کہ ملکی بقاء اور سلامتی کیلئے قوم اٹھ کھڑی ہو، صدر آصف علی زرداری وعدوں کی تکمیل کریں تو ان کی بانہوں میں بانہیں ڈال کر ملکی ترقی کیلئے اپنا کردار ادا کریں گے، میثاق جمہوریت پر عمل درآمد، عدلیہ کی بحالی اور 17ویں ترمیم کا خاتمہ کردیں تو ہم ہر طرح کا تعاون کریں گے، 18ویں ترمیمی بل میں ججوں کی تعیناتی، آزاد الیکشن کمیشن کے قیام اور میثاق جمہوریت کی دیگر شقیں بھی شامل کریں گے۔

میاں نواز شریف نے کہا کہ میڈیا سمیت پوری قوم گواہ ہے کہ ہم تمام ریاستی اداروں کو آئین اور قانون کے تحت چلانے کے متمنی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بابائے قوم قائداعظم کے بعد ہم اداروں کو آئین اور قانون کے مطابق نہ چلا سکے، دوسری قوموں نے آزادی کے ثمرات اپنی عوام تک پہنچانے شروع کر دیئے جبکہ ہم اب تک اس کے برعکس جا رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ 1973ء کے آئین کا آمریت نے برا حال کر دیا ہے اور ایک مخصوص گروہ ہے جو ان غیر آئینی اقدامات کی حمایت کرتا ہے اور آئین موم بن کر رہ گیا ہے اسی المیے کے باعث ہم نے شہید بے نظیر بھٹو کے ساتھ مل کر میثاق جمہوریت پر دستخط کئے تاکہ ڈکٹیٹروں کا راستہ روکا جا سکے۔

انہوں نے کہا کہ ہم عوام کو یہ یقین دلاتے رہے کہ ہمیں ووٹ دو ہم آپ کے جذبات کے ترجمان بنیں گے، ڈکٹیٹر کو کیفر کردار تک پہنچا کر اس کا احتساب کیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ ہماری سیاسی زندگی کا فیصلہ اور نااہل کرنے کا انہیں کوئی اختیار نہیں جو پارلیمنٹ معزول، آئین کو توڑ دیں اور جمہوریت کو زنجیریں پہنا دیں۔ انہوں نے کہا کہ سیاسی جماعتوں، قائدین، میڈیا اور سول سوسائٹی نے اپنے اپنے حصہ کی قربانیاں دی ہیں، آج جو موقع ہاتھ آیا ہے ہمیں ماضی کی غلطیوں کا ازالہ کرتے ہوئے نئے سفر کا آغاز کرنا چاہئے، تبدیلی ناگزیر ہو چکی ہے، آج اجلاس میں ہم نے مجموعی طور پر اپنے امور پر گفتگو کی ہے، ہم نے بڑی امیدوں کے ساتھ اس سفر کی ابتدا کی تھی۔

انہوں نے کہا کہ محترمہ بے نظیر بھٹو، آصف علی زرداری اور فاروق نائیک میری جلاوطنی کے دوران ہمارے گھر جدہ میں تشریف لائے تھے، وہاں سے ہم نے ایک نئے سفر کے آغاز کیلئے اور ملک کو جمہوریت کی ڈگر پر واپس لانے کیلئے میثاق جمہوریت کی دستاویز کی تیاری کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ اس دستاویز کی تیاری میں دو سال لگے، یہ ملک کیلئے ایک مکمل روڈ میپ کی حیثیت رکھتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ نہ معزول ججوں کو بحال کیا گیا ہے نہ ہی 17ویں ترمیم کاخاتمہ ہوا۔ انہوں نے کہا کہ کسی ملک میں یہ مثال موجود نہیں کہ وردی والے حضرات قوم پر مسلط ہوں، ہمیں کوئی مفاد اور لالچ نہیں، صرف ہم پاکستان کے 17 کروڑ عوام کے حقوق، غربت کا خاتمہ، پاکستان کی خود مختاری، پارلیمنٹ کی بالادستی، جمہوریت کے فروغ اور آئین اور قانون کی حکمرانی کے خواہش مند ہیں۔

میاں نواز شریف کی اس پریس کانفرنس میں مزید بہت سی باتیں بھی کہی گئی ہیں۔ پریس کا نفرنس کے دوران نواز شریف کی باڈی لینگویج اس بات کی غماز تھی کہ وہ آخری راؤنڈ کھیلنے کے لئے بے چین نظر آرہے ہیں۔

نواز شریف کی جانب سے جو مطالبات کئے جا رہے ہیں ان کے حوالے سے کوئی بھی ذی ہوش یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ مطالبات غلط ہیں۔ پیپلز پارٹی کی جانب سے بھی ابھی تک ان مطالبات کو رد نہیں کیا گیا ہے۔ پھر آخر وہ کیا وجہ ہے کہ نواز شریف انتہائی قدم اٹھانے پر تلے ہوئے نظر آرہے ہیں ۔

اس سوال کا جواب ڈھونڈھنے کے لئے ہمیں پاکستان میں اقتدار کی تاریخ پر نظر ڈالنا پڑے گی۔ پاکستان میں اقتدار کا نشہ ایسا سر چڑھ کر بولتا ہے جس کی مثال کسی اور جمہوری ملک میں نہیں دی جا سکتی۔ یہاں ایک مرتبہ اقتدار میں آنے کے بعد اس وقت تک اقتدار نہیں چھو ڑا جاتا جب تک کوئی طاقتور اقتدار پر قابض نہ ہوجائے ۔اورطاقتوربھی اس وقت تک اقتدار سے چمٹا رہتا ہے جب تک اس کی طاقت کے غبارے سے ہوا نہ نکل جائے ۔اس کی مثال جنرل ایوب خان سے لیکر پرویز مشرف تک دیکھی جاستی ہے۔

میاں نواز شریف دو مرتبہ ملک کے اقتدار اعلی کے مزے لوٹ چکے ہیں ۔وقت اور حالات نے انہیں اس مقام پر پہنچا دیا کہ وہ محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ میثاق جمہوریت پر دستخط کرنے پر مجبور ہوگئے تھے کیونکہ محترمہ بے نظیر بھٹو جب عالمی طاقتوں کو اس بات پر آمادہ کرچکی تھیں کہ پاکستان میں دو نمبر کی جمہوریت زیادہ دیر نہیں چل سکتی تو ان طاقتوں نے ماضی میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون باہمی چپقلش کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جس پر محترمہ بے نظیر بھٹو نے مسلم لیگ نون کے ساتھ میثاق جمہوریت نامی معاہدہ کی تجویز دی ۔اس تجویز کو عالمی طاقتوں کی حمایت حاصل ہوئی اور عالمی طاقتوں کی جانب سے نواز شریف صاحب کو یہ باور کرا دیا گیا کہ اگر وہ پاکستان کی سیاست میں اپنا کردار رکھنا چاہتے ہیں تو انہیں میثاق جمہوریت پر دستخط کرنا ہوں گے ۔نواز شریف نے اس وقت اس معاہدے پر دستخط کئے لیکن پیپلز پارٹی کے ساتھسیاسی جدوجہد سے خود کو الگ رکھنے کے لئے انہوں


نے لندن میں آل پارٹیز کانفرنس کا ڈول ڈالا اور اختلاف کا بیج بو دیا ۔

نواز شریف جانتے ہیں کہ ابھی تک ان کے سیاسی مستقبل پر چھائے ہوئے بادل نہیں چھٹے ہیں ۔فروری دو ہزار کے انتخابات کا وہ جس شدت سے اعلان کرتے ہیں یہ وہی انتخابات ہیں جنہیں ملتوی کرنے ک مطالبہ نواز شریف نے کیا تھا۔محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے موقع پرانہوں نے محترمہ کہ شہادت کو جواز بناکر انتخابات کو ملتوی کرنے کا مطالبہ کیا تھا کیا وہ اس وقت پرویز مشرف کے اقتدار کو طول دینا چاہتے تھے یا انہیں خوف دامن گیر ہو گیا تھا کہ محترمہ کی شہادت کے بعد پنجاب سے ان کا پتہ نہ صاف ہو جائے ۔ نواز شریف نے ہی گڑھی خدا بخش میں محترمہ بے نظیر بھٹو کے مزار پر کھڑے ہو کر اعلان کیا تھا کہ وہ محترمہ بے نظیر بھٹوشن کو پورا کریں گے کیا وہ پیپلز پارٹی کی حکومت کے خلاف لوگوں کو سڑکوں پر آنے کی دعوت دیکر اپنا وہی وعدہ پورا کررہے ہیں جو انہوں نے بے نظیر بھٹو کے مشن کو پورا کرنے کے لئے کیا تھا ۔

محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت بلاشبہ پاکستان کی سیاست کا بہت بڑا نقصان ہے ۔اگر وہ زندہ ہوتیں اس وقت بھی نواز شریف نے میدان میں نکلنا تھا لیکن ان کی عدم موجودگی میں انہیں جس سیاسی ہزیمت کا سامنا پیپلز پارٹی کے شریک چئیرمین آصف علی زرداری کے ہاتھوں اٹھانا پڑا اس کا تصور تو وہ خواب میں بھی نہیں کرسکتے تھے ۔فروری دو پزار آٹھ کے انتخابات کے نتیجے میں سیاسی جماعتوں کو جو مینڈیٹ ملا اس سے میاں نواز شریف کو یہ تقویت ملی کہ وہ کھل میں شریک رہیں گے ۔نواز شریف شاید یہ بھی سوچ رہے ہوں کہ آصف علی زرداری کی ناتجر بہ کاری کی وجہ سے انکی باری جلد ہی آجائے گی ۔

پاکستان کو جومشکلات درپیش تھیں ان کے تناظر میں کوئی بھی یہ گمان نہیں کر سکتا تھا کہ پاکستان پیپلز پارٹی ان بحرانوں سے نکل آئے گی ۔بالخصوص ممبئی کے واقعہ کے بعدتو رہی سہی کسر نکل گئی تھی لیکن جس تدبر اور دانشمندی کے ساتھ صدر آصف علی زرداری نے پاکستان کو بچایا ہے اس کا اندازہ ابھی نہیں لگایا جاسکتا یہ تو تاریخ ہی بتا سکے گی کہ اصل صورتحال کیا تھی اور پاکستان نے خود کو کس طرح اس مشکل سے نکا لا ۔

صدر آصف زرداری کو دباؤ میں رکھنے اور اور اپنے سیاسی مستقبل کو بچانے کے لئے نواز شریف آخری راؤ نڈ کھیلے کے موڈ میں نظر آرہے ہیں ۔لیکن وہ بھول رہے ہیں کہ صدر آصف علی زرداری سیاست کے میدان میں نو وارد سہی لیکن ستائیس دسمبر دو ہزار سات کو میں نواز شریف کی جانب سے الیکشن ملتوی کرنے کے مطالبے کے بعد سے آصف علی زرداری کے منصب صدارت تک پہنچنے تک نواز شریف بالواسطہ یا بلا واسطہ وہی کچھ کرتے آئے ہیں جو آصف علی زرداری چاہتے تھے ۔

نواز شریف نے اپنی پریس کانفرنس میں معزول ججز کی بحالی کے مطالبے کو سر فہرست رکھا ہے ۔انکا کہنا ہے کہ میثاق جمہوریت پر عمل کیا جائے ۔نواز شریف اللہ کو حاضر و ناظر جان کر صرف ایک بات کا جواب دے دیدیں کہ وہ معزول چیف جسٹس چوھدری افتخار کی بحالی چاہتے ہیں یا میثاق جمہوریت کے تحت عدلیہ کے ججوں کی تقرری چاہتے ہیں ۔نواز شریف دونوں چیزوں کو ایک ساتھ ملا کر قوم کو دھو کا نہ دیں اگر ججز کی تعیناتی میثاق جمہوریت کے تحت کی جاتی ہے تو افتخار چوہدری چیف جسٹس تو کیا ملک کی کسی عدالت کے جج مقرر ہو نے کے بھی اہل نہیں ہیں ۔اگر نواز شریف صرف چوھدی افتخار کی بحالی چاہتے ہیں تو خدا کے لئے میثاق جمہوریت پر عملدامد کے مطالبے سے تائب ہو کر اس کا برملا اعلان کریں۔

نواز شریف صاحب کو چاہئے کہ جلد بازی کا مظاہرہ نہ کریں ۔قوم کو امتحان میں نہ ڈالیں ۔پیپلز پارٹی کی حکومت بھی غلطیاں کرنے کی چیمئن ہے اسے پانچ سال گزارنے دیں نئے انتخابات کے ساتھ تبدیلی کو ملک کے تمام حلقوں کی پذیرائی بھی حاصل ہوگی اور ہو سکتا ہے نواز شریف بھی اقتدار کے سنگھاسن پر براجمان ہو جائیں ۔امریکا میں آنے والی تبدیلی کو وہ اپنے ملک میں دہرانے کی غیر آئینی کو شش کرنے سے اجتناب برتیں ۔نواز شریف شائد یہ سوچ رہے ہیں کہ پرویز مشرف کی چھٹی کرانے میں ساتھ دینے والی امریکی اسٹبلشمنٹ رخصت ہو گئی ہے ۔نئے امریکی صدر بارک اوباما کی اسٹبلشمنٹ کو متاثر کرنے کے لئے پاکستان میں سیاسی اکھاڑہ لگا کر انکی توجہ حاصل کی جائے اور پیپلز پارٹی کو اقتدار سے باہر نکال کر اپنی راہ ہموار کی جائے ۔نواز شریف کو معلوم ہو نا چاہئے کہ ایسی کوئی بھی کو شش ایک مرتبہ پھر ملک میں آمریت کا راستہ ہموار کرنے کے مترادف ہو گی ۔

جہاں آوے کا آوا بگڑا ہوا ہو وہاں تبدیلی راتوں رات نہیں آتی نظام کی خرابیاں درست کرنے میں برس ہا برس لگ جاتے ہیں ۔امریکا میں گوروں کا اقتدار ختم ہو گیا لیکن وہاں بھی ابھی تک کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے ۔تبدیلی کے نام پر ووٹ لینے والے بارک اوبامابھی مجبور ہیں کہ وہ اپنی حکومت میں جارج بش کے دور کے رابرٹ گیٹس کو برقرار رکھیں لیکن ہمارے ملک میں پرویز مشرف کو غاصب اور غیر آئینی صدر کہنے والے کل رات کے اندھیرے میں ڈیل کرکے ریڈ کارپٹ بچھوا کر ملک سے باگے تھے اور آج جب وہ اقتدار میں نہیں ہیں تو پرویز مشرف کی رخصتی کا کارنامہ انجام دینے والوں کو طعنے دیتے نہیں تھکتے کہ انہوں نے پرویز مشرف کو جانے کیوں دیا ۔

نواز شریف صاحب کو اگر خوف ہے کہ سپریم کو رٹ کے ذریعے انہیں نااہل قرار دیکر انہیں سیاسی منظر سے غائب کرنے کے کسی منصوبے پر عملدرآمد کیا جا رہا ہے تو وہ اپنی خاطر جمع رکھیں پیپلز پارٹی ایسا کوئی بھی اوچھا وار کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔اگر خدا نہ خواستہ ایسا ہو تا بھی ہے تو ملک کا میڈیا اور سول سوسائٹی اس کو کسی صورت میں قبول نہیں کریں گے لیکن اگر اپنی اہلت کو بچانے کے لئے جمہوری نظام کو دھچکا پہنچا تو ملک کے عوام اس عمل کوکبھی معاف نہیں کریں گے ۔
 

ساجد

محفلین
نواز شریف صاحب جلد بازی کام بگاڑ دے گی






پنجاب ہاؤس میں مرکزی مجلس عاملہ اور پارلیمانی پارٹی کے مشترکہ اجلاس کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے قائد و سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ ہمارا مقصد مڈ ٹرم الیکشن یا حکومت کی تبدیلی نہیں، ہم میثاق جمہوریت کے تحت کئے گئے وعدوں کی تکمیل چاہتے ہیں، وکلاء لانگ مارچ میں بھرپور شرکت کریں گے، نیشنل سکیورٹی کونسل کی تلوار ابھی تک پارلیمنٹ کے سر پر لٹک رہی ہے، وقت آ گیا ہے کہ ملکی بقاء اور سلامتی کیلئے قوم اٹھ کھڑی ہو، صدر آصف علی زرداری وعدوں کی تکمیل کریں تو ان کی بانہوں میں بانہیں ڈال کر ملکی ترقی کیلئے اپنا کردار ادا کریں گے، میثاق جمہوریت پر عمل درآمد، عدلیہ کی بحالی اور 17ویں ترمیم کا خاتمہ کردیں تو ہم ہر طرح کا تعاون کریں گے، 18ویں ترمیمی بل میں ججوں کی تعیناتی، آزاد الیکشن کمیشن کے قیام اور میثاق جمہوریت کی دیگر شقیں بھی شامل کریں گے۔

میاں نواز شریف نے کہا کہ میڈیا سمیت پوری قوم گواہ ہے کہ ہم تمام ریاستی اداروں کو آئین اور قانون کے تحت چلانے کے متمنی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بابائے قوم قائداعظم کے بعد ہم اداروں کو آئین اور قانون کے مطابق نہ چلا سکے، دوسری قوموں نے آزادی کے ثمرات اپنی عوام تک پہنچانے شروع کر دیئے جبکہ ہم اب تک اس کے برعکس جا رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ 1973ء کے آئین کا آمریت نے برا حال کر دیا ہے اور ایک مخصوص گروہ ہے جو ان غیر آئینی اقدامات کی حمایت کرتا ہے اور آئین موم بن کر رہ گیا ہے اسی المیے کے باعث ہم نے شہید بے نظیر بھٹو کے ساتھ مل کر میثاق جمہوریت پر دستخط کئے تاکہ ڈکٹیٹروں کا راستہ روکا جا سکے۔

انہوں نے کہا کہ ہم عوام کو یہ یقین دلاتے رہے کہ ہمیں ووٹ دو ہم آپ کے جذبات کے ترجمان بنیں گے، ڈکٹیٹر کو کیفر کردار تک پہنچا کر اس کا احتساب کیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ ہماری سیاسی زندگی کا فیصلہ اور نااہل کرنے کا انہیں کوئی اختیار نہیں جو پارلیمنٹ معزول، آئین کو توڑ دیں اور جمہوریت کو زنجیریں پہنا دیں۔ انہوں نے کہا کہ سیاسی جماعتوں، قائدین، میڈیا اور سول سوسائٹی نے اپنے اپنے حصہ کی قربانیاں دی ہیں، آج جو موقع ہاتھ آیا ہے ہمیں ماضی کی غلطیوں کا ازالہ کرتے ہوئے نئے سفر کا آغاز کرنا چاہئے، تبدیلی ناگزیر ہو چکی ہے، آج اجلاس میں ہم نے مجموعی طور پر اپنے امور پر گفتگو کی ہے، ہم نے بڑی امیدوں کے ساتھ اس سفر کی ابتدا کی تھی۔

انہوں نے کہا کہ محترمہ بے نظیر بھٹو، آصف علی زرداری اور فاروق نائیک میری جلاوطنی کے دوران ہمارے گھر جدہ میں تشریف لائے تھے، وہاں سے ہم نے ایک نئے سفر کے آغاز کیلئے اور ملک کو جمہوریت کی ڈگر پر واپس لانے کیلئے میثاق جمہوریت کی دستاویز کی تیاری کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ اس دستاویز کی تیاری میں دو سال لگے، یہ ملک کیلئے ایک مکمل روڈ میپ کی حیثیت رکھتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ نہ معزول ججوں کو بحال کیا گیا ہے نہ ہی 17ویں ترمیم کاخاتمہ ہوا۔ انہوں نے کہا کہ کسی ملک میں یہ مثال موجود نہیں کہ وردی والے حضرات قوم پر مسلط ہوں، ہمیں کوئی مفاد اور لالچ نہیں، صرف ہم پاکستان کے 17 کروڑ عوام کے حقوق، غربت کا خاتمہ، پاکستان کی خود مختاری، پارلیمنٹ کی بالادستی، جمہوریت کے فروغ اور آئین اور قانون کی حکمرانی کے خواہش مند ہیں۔

میاں نواز شریف کی اس پریس کانفرنس میں مزید بہت سی باتیں بھی کہی گئی ہیں۔ پریس کا نفرنس کے دوران نواز شریف کی باڈی لینگویج اس بات کی غماز تھی کہ وہ آخری راؤنڈ کھیلنے کے لئے بے چین نظر آرہے ہیں۔

نواز شریف کی جانب سے جو مطالبات کئے جا رہے ہیں ان کے حوالے سے کوئی بھی ذی ہوش یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ مطالبات غلط ہیں۔ پیپلز پارٹی کی جانب سے بھی ابھی تک ان مطالبات کو رد نہیں کیا گیا ہے۔ پھر آخر وہ کیا وجہ ہے کہ نواز شریف انتہائی قدم اٹھانے پر تلے ہوئے نظر آرہے ہیں ۔

اس سوال کا جواب ڈھونڈھنے کے لئے ہمیں پاکستان میں اقتدار کی تاریخ پر نظر ڈالنا پڑے گی۔ پاکستان میں اقتدار کا نشہ ایسا سر چڑھ کر بولتا ہے جس کی مثال کسی اور جمہوری ملک میں نہیں دی جا سکتی۔ یہاں ایک مرتبہ اقتدار میں آنے کے بعد اس وقت تک اقتدار نہیں چھو ڑا جاتا جب تک کوئی طاقتور اقتدار پر قابض نہ ہوجائے ۔اورطاقتوربھی اس وقت تک اقتدار سے چمٹا رہتا ہے جب تک اس کی طاقت کے غبارے سے ہوا نہ نکل جائے ۔اس کی مثال جنرل ایوب خان سے لیکر پرویز مشرف تک دیکھی جاستی ہے۔

میاں نواز شریف دو مرتبہ ملک کے اقتدار اعلی کے مزے لوٹ چکے ہیں ۔وقت اور حالات نے انہیں اس مقام پر پہنچا دیا کہ وہ محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ میثاق جمہوریت پر دستخط کرنے پر مجبور ہوگئے تھے کیونکہ محترمہ بے نظیر بھٹو جب عالمی طاقتوں کو اس بات پر آمادہ کرچکی تھیں کہ پاکستان میں دو نمبر کی جمہوریت زیادہ دیر نہیں چل سکتی تو ان طاقتوں نے ماضی میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون باہمی چپقلش کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جس پر محترمہ بے نظیر بھٹو نے مسلم لیگ نون کے ساتھ میثاق جمہوریت نامی معاہدہ کی تجویز دی ۔اس تجویز کو عالمی طاقتوں کی حمایت حاصل ہوئی اور عالمی طاقتوں کی جانب سے نواز شریف صاحب کو یہ باور کرا دیا گیا کہ اگر وہ پاکستان کی سیاست میں اپنا کردار رکھنا چاہتے ہیں تو انہیں میثاق جمہوریت پر دستخط کرنا ہوں گے ۔نواز شریف نے اس وقت اس معاہدے پر دستخط کئے لیکن پیپلز پارٹی کے ساتھسیاسی جدوجہد سے خود کو الگ رکھنے کے لئے انہوں


نے لندن میں آل پارٹیز کانفرنس کا ڈول ڈالا اور اختلاف کا بیج بو دیا ۔

نواز شریف جانتے ہیں کہ ابھی تک ان کے سیاسی مستقبل پر چھائے ہوئے بادل نہیں چھٹے ہیں ۔فروری دو ہزار کے انتخابات کا وہ جس شدت سے اعلان کرتے ہیں یہ وہی انتخابات ہیں جنہیں ملتوی کرنے ک مطالبہ نواز شریف نے کیا تھا۔محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے موقع پرانہوں نے محترمہ کہ شہادت کو جواز بناکر انتخابات کو ملتوی کرنے کا مطالبہ کیا تھا کیا وہ اس وقت پرویز مشرف کے اقتدار کو طول دینا چاہتے تھے یا انہیں خوف دامن گیر ہو گیا تھا کہ محترمہ کی شہادت کے بعد پنجاب سے ان کا پتہ نہ صاف ہو جائے ۔ نواز شریف نے ہی گڑھی خدا بخش میں محترمہ بے نظیر بھٹو کے مزار پر کھڑے ہو کر اعلان کیا تھا کہ وہ محترمہ بے نظیر بھٹوشن کو پورا کریں گے کیا وہ پیپلز پارٹی کی حکومت کے خلاف لوگوں کو سڑکوں پر آنے کی دعوت دیکر اپنا وہی وعدہ پورا کررہے ہیں جو انہوں نے بے نظیر بھٹو کے مشن کو پورا کرنے کے لئے کیا تھا ۔

محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت بلاشبہ پاکستان کی سیاست کا بہت بڑا نقصان ہے ۔اگر وہ زندہ ہوتیں اس وقت بھی نواز شریف نے میدان میں نکلنا تھا لیکن ان کی عدم موجودگی میں انہیں جس سیاسی ہزیمت کا سامنا پیپلز پارٹی کے شریک چئیرمین آصف علی زرداری کے ہاتھوں اٹھانا پڑا اس کا تصور تو وہ خواب میں بھی نہیں کرسکتے تھے ۔فروری دو پزار آٹھ کے انتخابات کے نتیجے میں سیاسی جماعتوں کو جو مینڈیٹ ملا اس سے میاں نواز شریف کو یہ تقویت ملی کہ وہ کھل میں شریک رہیں گے ۔نواز شریف شاید یہ بھی سوچ رہے ہوں کہ آصف علی زرداری کی ناتجر بہ کاری کی وجہ سے انکی باری جلد ہی آجائے گی ۔

پاکستان کو جومشکلات درپیش تھیں ان کے تناظر میں کوئی بھی یہ گمان نہیں کر سکتا تھا کہ پاکستان پیپلز پارٹی ان بحرانوں سے نکل آئے گی ۔بالخصوص ممبئی کے واقعہ کے بعدتو رہی سہی کسر نکل گئی تھی لیکن جس تدبر اور دانشمندی کے ساتھ صدر آصف علی زرداری نے پاکستان کو بچایا ہے اس کا اندازہ ابھی نہیں لگایا جاسکتا یہ تو تاریخ ہی بتا سکے گی کہ اصل صورتحال کیا تھی اور پاکستان نے خود کو کس طرح اس مشکل سے نکا لا ۔

صدر آصف زرداری کو دباؤ میں رکھنے اور اور اپنے سیاسی مستقبل کو بچانے کے لئے نواز شریف آخری راؤ نڈ کھیلے کے موڈ میں نظر آرہے ہیں ۔لیکن وہ بھول رہے ہیں کہ صدر آصف علی زرداری سیاست کے میدان میں نو وارد سہی لیکن ستائیس دسمبر دو ہزار سات کو میں نواز شریف کی جانب سے الیکشن ملتوی کرنے کے مطالبے کے بعد سے آصف علی زرداری کے منصب صدارت تک پہنچنے تک نواز شریف بالواسطہ یا بلا واسطہ وہی کچھ کرتے آئے ہیں جو آصف علی زرداری چاہتے تھے ۔

نواز شریف نے اپنی پریس کانفرنس میں معزول ججز کی بحالی کے مطالبے کو سر فہرست رکھا ہے ۔انکا کہنا ہے کہ میثاق جمہوریت پر عمل کیا جائے ۔نواز شریف اللہ کو حاضر و ناظر جان کر صرف ایک بات کا جواب دے دیدیں کہ وہ معزول چیف جسٹس چوھدری افتخار کی بحالی چاہتے ہیں یا میثاق جمہوریت کے تحت عدلیہ کے ججوں کی تقرری چاہتے ہیں ۔نواز شریف دونوں چیزوں کو ایک ساتھ ملا کر قوم کو دھو کا نہ دیں اگر ججز کی تعیناتی میثاق جمہوریت کے تحت کی جاتی ہے تو افتخار چوہدری چیف جسٹس تو کیا ملک کی کسی عدالت کے جج مقرر ہو نے کے بھی اہل نہیں ہیں ۔اگر نواز شریف صرف چوھدی افتخار کی بحالی چاہتے ہیں تو خدا کے لئے میثاق جمہوریت پر عملدامد کے مطالبے سے تائب ہو کر اس کا برملا اعلان کریں۔

نواز شریف صاحب کو چاہئے کہ جلد بازی کا مظاہرہ نہ کریں ۔قوم کو امتحان میں نہ ڈالیں ۔پیپلز پارٹی کی حکومت بھی غلطیاں کرنے کی چیمئن ہے اسے پانچ سال گزارنے دیں نئے انتخابات کے ساتھ تبدیلی کو ملک کے تمام حلقوں کی پذیرائی بھی حاصل ہوگی اور ہو سکتا ہے نواز شریف بھی اقتدار کے سنگھاسن پر براجمان ہو جائیں ۔امریکا میں آنے والی تبدیلی کو وہ اپنے ملک میں دہرانے کی غیر آئینی کو شش کرنے سے اجتناب برتیں ۔نواز شریف شائد یہ سوچ رہے ہیں کہ پرویز مشرف کی چھٹی کرانے میں ساتھ دینے والی امریکی اسٹبلشمنٹ رخصت ہو گئی ہے ۔نئے امریکی صدر بارک اوباما کی اسٹبلشمنٹ کو متاثر کرنے کے لئے پاکستان میں سیاسی اکھاڑہ لگا کر انکی توجہ حاصل کی جائے اور پیپلز پارٹی کو اقتدار سے باہر نکال کر اپنی راہ ہموار کی جائے ۔نواز شریف کو معلوم ہو نا چاہئے کہ ایسی کوئی بھی کو شش ایک مرتبہ پھر ملک میں آمریت کا راستہ ہموار کرنے کے مترادف ہو گی ۔

جہاں آوے کا آوا بگڑا ہوا ہو وہاں تبدیلی راتوں رات نہیں آتی نظام کی خرابیاں درست کرنے میں برس ہا برس لگ جاتے ہیں ۔امریکا میں گوروں کا اقتدار ختم ہو گیا لیکن وہاں بھی ابھی تک کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے ۔تبدیلی کے نام پر ووٹ لینے والے بارک اوبامابھی مجبور ہیں کہ وہ اپنی حکومت میں جارج بش کے دور کے رابرٹ گیٹس کو برقرار رکھیں لیکن ہمارے ملک میں پرویز مشرف کو غاصب اور غیر آئینی صدر کہنے والے کل رات کے اندھیرے میں ڈیل کرکے ریڈ کارپٹ بچھوا کر ملک سے باگے تھے اور آج جب وہ اقتدار میں نہیں ہیں تو پرویز مشرف کی رخصتی کا کارنامہ انجام دینے والوں کو طعنے دیتے نہیں تھکتے کہ انہوں نے پرویز مشرف کو جانے کیوں دیا ۔

نواز شریف صاحب کو اگر خوف ہے کہ سپریم کو رٹ کے ذریعے انہیں نااہل قرار دیکر انہیں سیاسی منظر سے غائب کرنے کے کسی منصوبے پر عملدرآمد کیا جا رہا ہے تو وہ اپنی خاطر جمع رکھیں پیپلز پارٹی ایسا کوئی بھی اوچھا وار کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔اگر خدا نہ خواستہ ایسا ہو تا بھی ہے تو ملک کا میڈیا اور سول سوسائٹی اس کو کسی صورت میں قبول نہیں کریں گے لیکن اگر اپنی اہلت کو بچانے کے لئے جمہوری نظام کو دھچکا پہنچا تو ملک کے عوام اس عمل کوکبھی معاف نہیں کریں گے ۔
وہی چوہے بلی کا کھیل اور اس میں قوم و ملک کا بیڑہ غرق۔ یہی ابن الوقت سیاستدان جو آج پی پی پی کی حکومت میں مزے لوٹ رہے ہیں حالات کی تبدیلی کے ساتھ ہی نواز شریف کے ساتھ کھڑے ہوں گے اور ہم عوام ان کے لئیے زندہ باد کے نعرے لگا رہے ہوں گے۔
اجی صاحب تین حرف بھیجئیے ایسی سیاست اور سیاستدانوں پر ۔ بات کرنی ہے تو یہ کیجئیے کہ ہم عوام اب ان سب کا احتساب کرنے کے لئیے کب میدان میں اتریں گے۔ کوئی فرق نہیں پڑے گا کہ کون سا گروہ حکومت میں آتا ہے کیوں کہ صرف نام ہی بدلتا ہے کام سبھی ایک ہی کرتے ہیں یعنی ملک و قوم کی لوٹ مار۔ :sad2:
 
Top