نقوش اقبال از مولانا سید ابو الحسن علی ندوی ( مکمل صفحات)

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

عائشہ عزیز

لائبریرین
289-290

ابھی تک ہے پردے میں اولادِ آدم
کسی کی خودی آشکارا نہیں ہے
پردے کی حمایت و تائید میں اقبال نے "خلوت" کے عنوان سے ایک نظم کہی ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ پردہ کی وجہ سے عورت کو یکسو ہو کر اپنی صلاحیتوں کو نسلوں کی تربیت پر صرف کرنے اور اپنی ذات کے امکانات کو سمجھنے کو موقع ملتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی اسے سماجی خرابیوں سے الگ رہ کر اپنے گھر اور خاندان کی تعمیر کا سامان میسر آتا ہے، گھر کے پر سکون ماحول کے اندر اسے زندگی کے مسائل اور معاشرتی موضوعات کو سوچنے سمجھنے کی آسانیاں ملتی ہیں، اور اس طرح وہ اپنے اور دوسروں کے لیے بہتر کار گزرای کرسکتی ہے؂
رسوا کیا اس دور کو جلوت کی ہوس نے
روشن ہے نگہ آئینہ دل ہے مکدر
بڑھ جاتا ہے جب ذوق نظر اپنی حدوں سے
ہوجاتے ہیں افکار پراگندہ و ابتر
آغوش صدف جس کے نصیبوں میں نہیں ہے
وہ قطرہ نیساں کبھی بنتا نہیں گوہر
خلوت میں خودی ہوتی ہے خود گیر ولیکن
خلوت نہیں اب دیر و حرم میں بھی میسر
ایک بڑا معاشرتی سوال یہ رہا کہ مرد و زن کے تعلق میں بالا دستی (UPPER HAND) کسے حاصل ہو اس لیے کہ دنیا کا کوئی بھی تعلق ہو اس میں کوئی ایک فریق شریک غالب کی حیثیت ضرور رکھتا ہے، اور یہ اس کائناتی حقیقت پر مبنی ہے کہ ہر شے اور ہر انسان ایک دوسرے کا محتاج ہے اور ہر ایک ایک دوسرے کی تکمیل کرتا ہے خصوصاََ مرد و زن کے تعلقات میں چند چیزوں میں مرد کو عورت پر فضلیت اور اولیت حاصل ہے، اور یہ بھی کسی نسل اور صنفی تفریق کی بنا پر نہیں بلکہ عورت کے حیاتیاتی، عضویاتی فرق اور فطرت کے لحاظ کے ساتھ اس کے حقوق و مصالح کی رعایت کے پیش نظر ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نگرانی اور "قوامیت" ایسی چیز نہیں جو مرد اور عورت دونوں کی سپرد کر دی جاتی یا عورت کو دے دی جاتی، اقبال نے مغرب کے نام نہاد "آزادئ نسواں" کی پروا کیے بغیر عورت کے بارے میں اسلامی تعلیمات کی پرزور وکالت کی اور عورت کی حفاظت کے عنوان سے کہا؎
اک زندہ حقیقت مرے سینے میں ہے مستور
کیا سمجھے گا وہ جس کی رگون میں ہے لہو سرد!
نے پردہ نہ تعلیم، نئی ہو کہ پرانی
نسوانیت زن کا نگہبان ہے فقط مرد
جس قوم نے اس زندہ حقیقت کو نہ پایا
اس قوم کا خورشید بہت جلد ہوا زرد
یہ نظم در حقیقت حدیث شریف "لن یفلح قوم ولو علیھم امراۃ" کی ترجمانی ہے، انہون نے اپنی دوسرے نظم میں فرمایا ؎
جوہر مرد عیاں ہوتا ہے بے منتِ غیر
غیر کے ہاتھ میں ہے جوہر عورت کی نمود
راز ہے اس کے تب غم کا یہی نکتہ شوق
آتشیں لذتِ تخلیق سے ہے اس کا وجود
کھلتے جاتے ہیں اسی آگ سے اسرار حیات
گرم اسی آگ سے ہے معرکہ ابود و نبود
میں بھی مظلومی نسواں سے ہوں غمناک بہت
نہیں ممکن مگر اس عقدہ شکل کی کشود
اقبال اپنے کلام میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ بلند اشاردات بھی لائے ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ "حبب الیّ من دنیاکم الطیب والنساء وجعلت قرۃ عینی فی الصلوٰۃ" (مجھے دنیا کی چیزوں میں خوشبو اور عورتیں پسند کرائی گئی ہیں، اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں رکھی گئی ہے) اقبال نے اس حدیث کا بھی حوالہ دیا ہے کہ "جنت" ماؤں کے قدموں تلے ہے، انہوں نے امومت کو رحمت
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
صفحہ نمبر 271
ایکہ دادی کرد راسوزِ عرب
بندہ خودرا حضورِ خود طلب
بندہ چوں لالہ داغے در جگر
دو ستانش از غم ِ او بے خبر
بندہ اندر جہان نالاں چونے
تٖفتہ جاں از نغمہ ہائے پے بہ پے
در بیاباں مثل چوب نیم سوز
کارواں بگذشت و من سوزم ہنوز
اندریں دشت ودرے پہناورے
بو کہ آید کا روانے دیگرے
جاں ز مہجوری بنالد در بدن
نالہ من وائے من اے وائے من
۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین

صفحہ نمبر 272
اقبال اور قومیت و وطنیت
اقبال وطن دوست ہیں ، لیکن وطن پرست نہیں ،اس لئے کہ اسلام نے حسبِ وطن کو ایمان کا تقاضا سمجھتے ہوئے بھی اس کی پرستش ، بے جا طرفداری اور اس کے لئے اندھی عصبیت سے روکا ہے ۔۔۔ ۔ اسلام نے وطنی عصبیت ہی نہیں بلکہ رنگ و نسل زبان اور تہذیب کی عصبیت اور تعصب سے بھی منع کیا ہے ، اور انسان کو ان تمام چھوٹے چھوٹے گھروندوں اور تنگ و تاریک دائروں سے باہر نکال کر بین الاقوامی انسانی برادری کی شاہراہ پر لا کھڑا کیا ہے ، آجکل کی چلی ہوئی قومیت ( NATIONALISM ) اور وطنیت جس کا سر چشمہ یورپ کی سر زمین ہے اقبال کی نظر میں شرک اور بُت پرستی سے کم نہیں ، انھیں اسلام اور قوم پرستی میں کھلا تضاد نظر آتا ہے ، اور وہ اسے غار تگرِدین ، اور اس کے پیرہن کو مذہب کا کفن بتاتے ہیں ، اس معاملہ میں اقبال کا ذہن شروع ہی سے صاف تھا کہ اسلام​
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
صفحہ نمبر 273
قومیت و وطنیت کا قائل نہیں ، میں ان لوگوں سے متفق نہیں جو یہ کہتے ہیں کہ اقبال پہلے وطنیت کی طرف آئے ملت کی طرف ، بلکہ صحیح یہ ہے کہ وہ شروع سے آخر تک وطن دوست ہوتے ہوئے بھی ملت اور اسلام کی آفاقیت کے قائل رہے ، سن 1905 کے بعد کے کلام میں ان کے یہ شعر اس دعویٰ کے ثبوت میں پیش کئے جاسکتے ہیں ۔
نرالا سارے جہاں سے اسکو عرب کے معمار نے بنایا
بنا ہمارے حصار ملت کی اتھاد و وطن نہیں ہے
کہاں کا آنا کہاں کا جانا ، فریب ہے امتیاز عقبیٰ
نمود ہر شے میں ہے ہماری ، کہیں ہمارا وطن نہیں ہے
بانگ درا میں اقبال نے اپنا نقطہ نظر بالکل واضح کر دیا تھا کہ ملت اسلامیہ کی طاقت ، کسی وطن سے نہیں ، بلکہ توحید و ملت سے ہے ، ان کا خیال ہے کہ پوری کائنات ، انسانی اولو العزمیوں کی جو لانگاہ ہے ، اس لئے کسی مقام و سر زمین سے بندھ جانا تاہی اور آزادی کو کھو دینے کے مرادف اور اپنے پاؤں میں بیڑی ڈال لینے کے برابر ہے ، ان کا کہنا ہے کہ ہجرت اصول انسان کو عالمی انسانیت اور عالمگیر انسانی برادری کا ایک عظیم سبق تھا ، جسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے درس گاہِ نبوت سے دیا ۔ ان کے عقیدہ میں اس قوم پرستی اور وطن کی بیجا طرفداری اور حق و ناحق پاسداری کے سبب وقوموں میں رقابت پیدا ہوتی ہے ، استحصال سر اٹھاتا ہے ، سیاست میں بے ایمانی اور بے اصولی رونما ہوتی ہے ، اور جنگل کے قانون کو بڑھاوا ملتا ہے ، اپنی نظم " وطنیت " میں انھوں نے صاف طور پر یہ خیالات پیشن کیے ہیں :-
اس دور میں مے اور ہے جام اور ہے جم اور
ساقی نے بناکی روشِ لطف و کرم اور
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
صفحہ نمبر 274
مسلم نے بھی تعمیر کیا اپنا حرم اور
تہذیب کے آذر نے ترشوائے صنم اور
ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیرہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے
یہ بُت کہ تراشیدہ تہذیب نوی ہے
غارت گرِ کا شانہ دین نبویً ہے
بازو ترا توحید کی قوت سے قوی ہے
اسلام ترا دیس ہے تو مصطفوی ہے
نظارہ دیرینہ زمانہ کو دکھا وے
اے مصطفوی خاک میں اس بُت کو ملا دے
ہو قید مقامی تو نتیجہ ہے تباہی
وہ بحر میں آزاد وطن صورت ماہی
ہے ، ترکِ وطن سنتَ محبوب الہٰی
دے تو بھی نبوت کی صداقت پہ گواہی
گفتار سیاست میں وطن اور ہی کچھ ہے
ارشاد نبوت میں وطن اورہی کچھ ہے
اقوام جہاں میں ہے رقابت تو اسی سے
تسخیر ہے مقصودوتجارت تو اسی سے
خالی ہے صداقت سے سیاست تو اسی سے
کمزور کا گھر ہوتا ہے غارت تو اسی سے
اقوام میں مخلوقِ خدا بٹتی ہے اس سے
قومیت اسلام کی جڑ کٹتی ہے اس سے
اقبال نے مسلمانوں کو طرح طرح سے سمجھایا ہے کہ ملت اسلامیہ کی اساس ایمان و عقیدہ اور رسالت محمدیً کی ابدیت و آفاقیت پر ہے ، اور ان کی قوت کا سر چشمہ ان کی مذہب کے ساتھ وابستگی اور ملی اتحاد و اعتماد ہے ، ان کا مذہب ہر مقام اور ہر زمانہ کے لئے ہے ، اسرار خودی میں انھوں نے تفصیل کے ساتھ بتایا ہے کہ
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
صفحہ نمبر 275
ملت اسلامیہ اپنے ایمان و عقیدہ اور اپنے نظام حیات کی وجہ سے زمان و مکاں کے حدود و قیود سے بہت بلند ہے ، انھوں نے اپنے ملیغ اور موثر فن کارانہ اور حکیمانہ انداز میں ملت کو اس خودی سے روشناس کرایا ، اور اس کے پیام و مقام کی آفاقیت اور عالمگیری پر زور دیا ہے ۔
انھوں نے اس نکتہ کی بھی وضاحت کی ہے کہ اسلام اور مسلمان کسی ملک و سر زمین پر انحصار نہیں کرتے ، اسی لئے ملکی حدود کی تبدیلی ، سیاسی عروج و زوال اور فتح و شکست سے اس انداز میں متاثر نہیں ہوتے ، جس طرح ملک و نسب پر انحصار رکھنے والی قومیں ہوتی ہیں ۔
پاک ہے گردوطن سے سرِ داماں تیرا
تو وہ یوسف ہے کہ ہر مصر ہے کنعان تیرا
تو نہ مٹ جائیگا ایران کے مٹ جانے سے
نشہ مئے کو تعلقم نہیں پیمانے سے
اپنی ملت پر قیاس اس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم رسولً ہاشمی
انکی جمعیت کا ہے ملک و نسب پر انحصار
قوت مذہب سے مستحکم ہے جمعیت تیری
دامن دیں ہاتھ سے چھوٹا تو جمعیت کہاں
اور جمعیت ہوئی رخصت تو ملت بھی گئی
" دنیائے اسلام " ان کی ایک موثر نظم ہے ، اس میں انھوں نے دکھایا ہے کہ اہل مغرب کی کوشش رہی ہے کہ خود عالم اسلام کو ایک دوسرے سے الگ کر دیا کہ اہل مغرب کی کوشش رہی ہے کہ خود عالم اسلام کو ایک دوسرے سے الگ کر دیا جائے اور اتحاد ملت کو کبھی مضبوط نہ ہونے دیا جائے ، اس میں انھوں نے ملت کو ان چالوں سے ہوشیار رہنے کی تلقین کی ہے ۔
حکمتِ مغرب سے ملت کی یہ کیفیت ہوئی
ٹکرے ٹکرے جسطرح سونے کو کر دیتا ہے گاز
ملک ہاتھوں سے گیا ملت کی آنکھیں کھل گئیں
حق ترا چشمے عطا کر دست غافل در نگر !
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
291-292

کہا ہے اور اسے نبوت سے تشبیہ دی ہے، ماں کی شفقت کو وہ شفقت کے قریب کہتے ہیں اس لیے کہ اس سے بھی اقوام کی سیرت سازی ہوتی ہے اور ایک ملت وجود میں آتی ہے۔
آں یکے شمع شبستانِ حرم
حافظ جمعیتِ خیر الامم
سیرت فرزند ہا از امہات
آنکہ ناز و برو جودش کائنات
ذکر او فرمود باطیب و صلوٰۃ
گفت آں مقصودً حرف کن فکاں
زیر پائے امہات آمد جناں
نیک اگر بینی امومت رحمت ست
زانکہ اور ابا نبوت نسبت ست
شفقتِ او شفقت پیغمبراست
سیرت اقوام را صورت گر است
از امومت پختہ تر تعمیر ما
در خط سیمائے او تقدیر ما
آب بند نخل جمعیت توئی
حافظِ سرمایہ ملت توئی
ہوشیار از دست بردر روزگار
گیر فرزندانِ خدرا درکنار
اخیر میں یہ بتا دینا ضروری ہے کہ اقبال حضرت فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا کو ملت اسلامیہ کی ماؤں کے لیے مثالی خاتون سمجھتے ہیں اور جگہ جگہ ان کی اتباع کی تاکید کرتے ہیں کہ وہ کس طرح چکی پیستے ہوئے بھی قرآن پڑھتی رہتی تھیں اور گھریلو کاموں میں مشکیزہ تک اٹھانے پر صبر فرماتی تھیں، اقبال کے خیال میں سیرت کی اسی پختگی سے حضرت حسنینؓ ان کی آغوش سے نکلے۔
مزرع تسلیم را حاصل بتولؓ
مادراں را اسوہ کامل بتولؓ
آن ادب پروردہ صبر و رضا
آسیا گرداں و لب قرآن سرا
فطرت تو جذبہ ہادارد بلند
چشم ہوش اس اسوہ زہراؓ بلند
تا حسینےؓ شاخ تو بار آورد
موسم پیشیں بہ گلزار آورد!
وہ مسلمان خاتون کو وصیت کرتے ہیں کہ:۔
اگر پندے زدر ویشے پزیری
ہزار امت بمیر و تونہ میری
بتولےؓ باش و پنہاں شو ازیں عصر
کہ در آغوش شبیرؓ بگیری!
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
صفحہ نمبر 301
جلال کے ساتھ، اپنی شیرینی و دلآویزی کی بدولت ایک کوزہ نبات معلوم ہوتا ہے ، وہ فرماتے ہیں
کلیسا کی بنیاد رہبانیت تھی
سماتی کہاں اس فقیری میں میری
خصوصیت تھی سلطانی اور میبی میں
کہ وہ سر بلندی ہے یہ سر نہ زیری
سیاسیت نے مذہب سے پیچھا چھڑایا
چلی کچھ نہ پییر کلیسا کی پیری
ہوئی دین و دولت میں جس دم جدائی
ہوس کی امیری ہوس کی وزیری
دوئی ملک و دیں کے لئے نامرادی
دوئی چشم تہذیب کی زا بصیری
یہ اعجاز ہے ایک صحرا نشین کا
بشیری ہے آئینہ دارِ نذیری
اسی میں حفاظت ہے انسانیت کی
کہ ہوں ایک جنیدی وارد شیری
طویل انسانی تاریخ کی جو بزم سے زیادہ رزم کے افسانوں پر مشتمل ہے ، اور جس کے بڑے ہوئے حصے کو خوں ریز اور خون آشام جنگوں اور افراد و جماعتوں کی طالع آزمائیؤں ، اور مہم جوئیؤں کی تفصیلات نے گھیر رکھا ہے ، شھادت ہے کہ کسی فرد یا جماعت میں قوت و اقتدار کے مرکوز ہو جانے نے بنی نوع انسان کو اتنا نقصان نہیں پہنچایا ، اور تاریخ کو اتنا زیر و زبر نہیں کیا ، جتنا نشہ قوت و احساس برتری نے کیا ، جس وقت کسی فرد یا جماعت پر یہ احساس مستولی ہو جاتا ہے کہ اب اس سے زیادہ طاقت ور کوئی نہیں ، وہ ایک سیل رواں ہے ، جس کے سامنے کوئی ٹھہر نہیں سکتا ، وہ خدا کی تقدیر ہے ، جس کو کوئی بدل نہیں سکتا ، ساری دنیا اور ہمسائی قومیں اس کے رحم و کرم پر ہیں ، اصل حقیقت اور اصل قانون طاقت ہے ، انسانیت ، عدل و انصاف ، اخلاق و ضمیر ، خوب و ناخوب ، مناسب و
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
293-294

اقبال کے کلام میں تاریخی حقائق و اشارات[1]

اقبال تاریخ کے خصوصی طالب علم کبھی نہیں رہے، انہوں نے اس میں خصوصی بصیرت و مہارت کا دعویٰ کبھی نہیں کیا، بلکہ بعض اوقات جب ان سے کسی ایسی کتاب پر جو کسی تاریخی موضوع پر لکھی گئی تھی، رائے دینے اور تبصرہ کرنے کی فرمائش کی گئی تو انہوں نے بڑی سادگی اور بے تکلفی سے معذرت کردی، اور کہہ دیا کہ تاریخ میرا خصوصی موضوع نہیں ہے، وہ اصلاََ فلسفہ اور اس کے بعد کتاب الہٰی قرآن کے طالب علم تھے، لیکن جیسا کہ سب جانتے ہیں، ان کا مطالعہ نہایت وسیع، متنوع اور
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] یہ مقالہ اردو میں اصلاََ شکاگو، امریکہ کی ایک علمی مجلس میں پڑھنے کے لیے لکھا گیا تھا، اور اس کا انگریزی ترجمہ ڈاکٹرمحمد آصف صاحب قدوائی نے تیار کیا تھا، لیکن یہ سفر جو M.S.A (یونائیٹڈ اسٹیٹس اینڈ کناڈا) کی دعوت اور محب محترم عرفان احمد صاحب کی تحریک و کوشش پر 11 جولائی ؁1975 کو ہونے والا تھا، بعض مجبوریوں کی بناء پر نہیں ہوسکا، اب یہ مقالہ جو اس ملتوی شدہ سفر کی یاد گار ہے، "نقوش اقبال" کے تیسرے ایڈیشن میں شامل کیا جاتا ہے۔ جس کی صحیح جگہ یہی ہے۔(مصنف)



عمیق تھا، انہوں نے اپنے اس وسیع و طویل مطالعہ کے دوران اقوام و ملل، سلطنتوں اور ملکوں تیز مذاہب و اخلاق اور مختلف انسانی تہذیبوں اور معاشروں کی تاریخ کا غائر نظر سے مطالعہ کیا تھا، اس طرح تاریخ اگرچہ ان کے مطالعہ کا مرکزی اور بنیادی موضوع نہیں تھا، لیکن انسانی تقدیر، انسانیت کے عروج و زوال اور انسانی مسائل سے دلچسپی رکھنے والے ہر انسان کی طرح ان کو تاریخ سے دلچسپی تھی، پھر فلسفہ انسان کے اندر، حقیقت کی جستجو، منتشر اکائیوں اور غیر مربوط اجزا میں وحدت و ربط پیدا کرنے کی جو خواہش و صلاحیت پیدا کردیتا ہے، اسباب و مقدمات سے نتائج اور جزئیات سے کلیات تک پہنچنے کی جو عادت ڈال دیتا ہے، اور جس طرح فلسفی کی نظر، تغیرات و واقعات اور حوادث کی سطح پر نہیں ٹھہرتی، بلکہ اس سے گزر کر ان کی تہ تک پہنچتی ہے، اس سب کی بنا پر اور اس کی بدولت، وہ تاریخ کے تھوڑے مطالعہ سے بھی ان نتائج و حقائق تک پہنچ جاتے ہیں، جہاں تاریخ کے وہ صد ہا طالب علم اور عالم و مصنف نہیں پہنچتے جو فلسفیانہ عقل و نگاہ سے محروم اور تاریخ کے مکتب و مدرسہ کے روایتی طالب علم اور استاد ہیں۔
ان صحیح اور عمیق حقائق و نتائج تک پہنچنے میں، ان کی قرآن مجید کے عمیق، مخلصانہ اور مسلسل مطالعہ نے بھی خاص رہنمائی کی جو نسل آدم اور انسانی جماعتوں اور گروہوں کی سعادت و شقاوت اور عروج و زوال کے ایسے ابدی اصولوں پر مشتمل ہے اور دنیا میں پیش آنے والے حوادث اور اقوام و ملل کی ہلاکت و بربادی اور عروج و ترقی کے حقیقی اسباب کی اس طرھ نقاب کشائی کرتا ہے کہ عقل انسانی محو حیرت رہ جاتی ہے، اور اس کتاب کی جو دنیا سے الگ تھلگ رہنے والے اقبال ہی کے الفاظ میں ایک
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
صفحہ نمبر 302
نامناسب ، سب بے معنی الفاظ اور کمزوروں اور بے دست و پا قوموں اور افراد کی غلامانہ و شکست خوردہ منطق ہے ، جب جنگل کے قانون (MIGHT IS RIGHT) طاقت ہی اصل دلیل اور حق و باطل کا معیار ہے ، فلسفہ کی مکمل طور پر فرمانروائی ہوتی ہے ، خوف خدا، انسانیت کا احترام ، شرم و لحاظ ، بزدلی اور کمزروی کی علامت سمجھی جانے لگتی ہیں ، وسائل مقاصد بن جاتے ہیں ، اور مقاصد غیر محدود شکل اختیار کر لیتے ہیں ، تو پھر نشہ قوت میں سرشار فرد یا جماعت ایک ایسی اندھی تخریبی طاقت اور کوہ آتش فشاں کا یک ایسا آتشیں سیلاب لاوہ بن جاتا ہے ، جس کے سامنے نہ سلطنتیں ٹھہرتی ہیں ، نہ تہذیبیں ، نہ اخلاقی تعلیمات ، نہ پیشوایان مذہب کی مساعی جمیلہ کے نتائج ، اور ان کے قائم کئے ہوئے وہ ادارے جو صدیوں سے انسانیت کے حق میں فیض رساں اور چشمہ رحمت تھے ، یہ آتشیں سیلاب سیکڑوں ہزاروں برس کی تعمیری کوششوں ، علم و ادب کے اندوختوں ، بلکہ آئندہ کئی صدیوں تک کے لئے تعمیر انسانیت کی توقعات اور امیدوں پر پانی پھیر دیتا ہے ، بستیوں کی بستیاں اور شہرؤں کے شہر بے چراغ ہو جاتے ہیں ، آباد اور پُررونق بستیوں پر ہل چل جاتے ہیں ، آبادیاں خرابات میں ، شہر قبرستانوں میں ، عبادت گاہیں میخانوںاور قمار خانوں میں ، علم و دانش کے مرکز تفریح گاہوں میں تبدیل ہو جاتے ہیں ، معاشرہ اس طرح زیر و زبر ہو جاتا ہے کہ پر بلند اور ہر معزز ذلیل ہو کر رہ جاتا ہے۔
قرآن مجید نے اپنے معجزانہ انداز میں چند لفظوں میں اس کی تصویر کھنچ دی ہے ، اس نے ملکہ سباکی زبان سے نکلے ہوئے الفاظ کو اپنی لافانی کتاب میں ذکر کر کے ایک طرح سے ان پر مہر تصدیق ثبت کر دی ہے ۔
ان المعلوک اِذا دَخَلوُا قَریۃََ اَفسَدُوُھا
بادشاہ جب کسی شہر میں داخل ہوتے ہیں تو
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
295-296


صحرا نشیں امی پر نازل ہوئی تھی، اس کے سوا کوئی توجیہ نہیں کر پاتی کہ وہ ایک علیم و خبیر ذات اور خالق ارض و سماوات کی نازل کی ہوئی کتاب ہے، انہوں نے جب سلطان شہید نادر خاں کو اپنی ملاقات کے موقع پر قرآن مجید کا ایک نسخہ پیش کیا تو انہیں ان الفاظ میں اس کا تعارف کرایا، وہ کہتے ہیں؎
گفتم این سرمایہ اہل حق است
در ضمیر او حیات مطلق است
اندر اوہر ابتدا را انتہا است
حیدر از نیرو او خیبر کشا است
اسی طرح اسرار خودی میں فرماتے ہیں؎
آں کتاب زندہ قرآن حکیم
حکمت اولا یزال سبت و قدیم
نسخہ اسرار تکوین حیات
بے ثبات از قویش گیر و ثبات
کلام اقبال کا مطالعہ اس نقطہ نظر سے نہایت مفید، معلومات افزا اور بصیرت افروز ثابت ہوگا کہ اس میں ان کے مطالعہ تاریخ کی جھلکیاں پائی جاتی ہیں، اور اس سے تاریخ کے ایک سچے طالب علم اور انسانی تمدن و معاشرہ کے تجربات سے فائدہ اٹھانے کی خواہش رکھنے والے انسان کو کیا رہنمائی حاصل ہوتی ہے، اس نقطہ نظر سے کلام اقبال کا مطالعہ کرنے والوں کے لیے یہ بات ایک قیمتی انکشاف سے کم نہیں ہوگی کہ اقبال کے کلام میں بعض ایسے دقیق اور لطیف تاریخی اشارے آگئے ہیں جن کی شرح میں دفتر کے دفتر سیاہ کیے جاسکتے ہیں، انہوں نے اپنے بعض قطعوں اور مختصر نظموں اور بعض اوقات ایک شعر میں تاریخ اور فلسفہ تاریخ کے دریا کو کوزہ میں بند کردیا ہے، اور ان کی ایجاز کی سرحدیں شاعرانہ اعجاز سے مل گئی ہیں، جو اہم حقائق ان چند شعروں میں آگئے ہیں، ان کو اگر شرح و بسط کے ساتھ نثر کے صد ہا صفحات میں تاریخی دلائل و شواہد کی تائید اور کتابوں کے حوالوں کی مدد سے پیش کی جائے تو وہ اس قدر مؤثر اور دل نشین نہیں ہوسکتے، جتنے ان کے شیریں اور دل آویز بیان اور جچے تلے لفظوں میں نظر آتے ہیں، ان کی علمی و تاریخی قدر و قیمت اور ان نتائج کی صداقت کا (جو ان اشعار میں پیش کیے گئے ہیں) اندازہ صحیح طور پر وہی کرسکتا ہے، جس کی عام انسانی تاریخ اور پھر اسلامی تاریخ اور قرآن مجید کے علوم و معارف پر وسیع اور گہری نظر ہو، نیز جس کی یہودیت اور عیسائیت، قدیم ہندوستانی مذاہب، فلسفہ و ادبیات عجم اور قرون وسطیٰ کی تاریخ پر بھی (جس کو مغربی دانشور اور مورخ بجا طور پر قرن مظلمہ DARK AGES) کے نام سے یاد کرتے ہیں، وسیع اور گہری نظر ہو، ہم یہاں پر ان کی اس تاریخی بصیرت اور قرآنی حکمت کے چند نمونے پیش کرتے ہیں، جن کے انتخاب میں کلام اقبال کے دریا کو کھنگالنے اور ان کا تفصیلی جائزہ لینے کی کوشش نہیں گی گئی ہے، ان کے انتخاب میں زیادہ تر حافظہ پر اور ان کی تشریح و توثیق میں قارئین کی عام معلومات اور ان کے اس تاریخی مطالعہ پر جو ایک اوسط درجہ کے پڑھے لکھے انسان کا ہوتا ہے، اعتماد کیا گیا ہے، ان حقائق کی عظمت کا صحیح ادارک کرنے اور اقبال نے اپنے جن خیالات اور نتائج فکر کا اعلان کیا ہے، ان کی صحت و واقعیت تسلیم کرنے کے لیے پہلے ان کے تاریخی پس منظر اور ماحول کو سمجھنے کی ضرورت ہوگی، جن سے ان تاریخی اشارات کا تعلق ہے، اس لیے ہم ان اشعار کو نقل کرنے سے پہلے جس سیاق و سباق میں وہ کہے گئے ہیں، ان کو بیان کردینا ضروری سمجھتے ہیں۔
قدیم مذاہب بالخصوص یورپ کی مسیحیت نے انسانی زندگی کو دو خانوں میں "دین" و "دنیا" میں تقسیم اور دنیا کو دو کیمپوں "اہل دین" اور "اہل دنیا" میں
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
297-298

بانٹ دیا تھا، جو نہ صرف یہ کہ ایک دوسرے سے جدا تھے اور ان کے درمیان ایک موٹی سرحدی لکیر اور وسیع خلیج حائل تھی، بلکہ یہ دونوں خانے ایک دوسرے سے متصادم اور یہ دونوں کیمپ باہم متحارب تھے، ان کے نزدیک دین و دنیا میں شدید رقابت تھی، جس کو ان میں سے کسی ایک سے رسم و راہ پیدا کرنی ہو، اس کو دوسرے سےکلی طور پر قطع تعلق اور اعلان جنگ کرنا ضروری تھا، کوئی انسان ایک وقت میں (ان کے بقول) دو کشتیوں پر سوار نہیں ہوسکتا تھا، معاشی جدوجہد، غفلت اور خدا فراموشی کے بغیر، حکومت و سلطنت دینی و اخلاقی تعلیمات کو نظر انداز کیے اور خوف خدا سے بے نیاز ہوئے بغیر اور دین دار بننا، تارک الدنیا ہوئے بغیر متصور ہی نہیں تھا۔
ظاہر ہےکہ انسان عام طور پر سہولت پسند واقع ہوا ہے، دین کا ایسا تصور جس میں دنیا کے کسی جائز تمتع، ترقی اور سربلندی اور طاقت و حکومت کے حصول کی گنجائش نہ ہو، انسانوں کی اکثریت کے لیے قابل قبول اور قابل برداشت نہیں ہے، یہ اس کے فطرت کے خلاف ایک جنگ اور اس کی فطری خواہشات کو کچلنے کی سعی لاحاصل کے مرادف ہے، نتیجہ یہ ہوا کہ دنیا کے متمدن، ذہین، صاحب صلاحیت اور عملی انسانوں کی بڑی تعداد نے اپنے لیے دین کے بجائے دنیا کا انتخاب کیا اور اس نے اس پر اپنے کو(ایک ناگزیر حقیقت اور ضرورت کی بنا پر) مطمئن اور راضی بھی کر لیا، وہ ہر قسم کی دینی ترقی سے مایوس ہوکر دنیا کے حصول اور اس کی ترقی میں ہمہ تن مشغول ہوگئی، دین و دنیا کے اس تضاد کو ایک بدیہی اور مسلم حقیقت سمجھ کر انسانوں کے مختلف طبقوں اور انسانی اداروں نے عام طور پر مذہب کو خیر باد کہا، سیاست و ریاست نے مذہب کے نمائندے کلیسا کے خلاف علم بغاوت بلند کیا اور اپنے کو اس کی ہر پابندی سے آزاد کرلیا، اس کا نتیجہ ظاہر تھا، حکومتیں "پیل بے زنجیر" اور معاشرہ "شتر بے مہار" ہو کر رہ گیا، دین و دنیا کی اس دوئی اور اہل دین اور اہل دنیا کی اس رقابت نے نہ صرف یہ کہ مذہب و اخلاق کے اثر کو محدود و کمزور اور انسانی زندگی، اور انسانی معاشرہ کو اس کی آسمانی برکت و رحمت سے محروم کردیا، بلکہ الحاد و لادینیت کا دروازہ چوپٹ کھول دیا، جس کا سب سے پہلے یورپ شکار ہوا، پھر دنیا کی کی دوسری قومیں، جو یورپ کے فکری، علمی، یا سیاسی اقتدار کے زیر اثر آئیں، اس سے کم و بیش متاثر ہوئیں قرون وسطیٰ میں مسیح رہبانیت کے پرجوش داعیوں اور غالی مبلغوں نے جن کے نزدیک انسانیت سے بڑھ کر روحانی ترقی میں کوئی چیز سدراہ نہ تھی، اور جنہوں نے فطرت دشمنی، مردم بیزاری اور جسمانی تغدیب پر کمر باندھ رکھی تھی، اس آگ پر تیل کا کام کیا[1] اور مذہب کو ایسی مہیب اور وحشیانہ شکل میں پیش کیا، جس کے تصور سے بھی رونگٹے کھڑے ہوجاتے تھے، نتیجہ یہ ہوا کہ رفتہ رفتہ مذہب و اخلاق کا زوال اور نفس پرستی (اپنے وسیع معنی میں) کا عروج اپنے آخری نقطہ پر پہنچ گیا، اور دنیا نہ صرف یہ کہ ان دو انتہائی سروں کے درمیان جھولا جھولنے لگی، بلکہ وہ مذہب کے بے وزن اور بے اثر ہوجانے کی وجہ سے لادینیت اور اخلاقی انتشار کی عمیق خندق میں جاگری[2]۔
بعث محمدیً کا عظیم، ناقابل فراموش احسان اور گراں قدر تحفہ یہ انقلاب انگیز اعلان ہے کہ انسان کے اعمال و اخلاق اور ان سے پیدا ہونے والے نتائج کا اصل انحصار
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو لیکی کی "تاریخ اخلاق یورپ" جلد دوم۔
[2] تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو ڈریپر کی کتاب "مذہب و سائنس" یا مصنف کی کتاب "انسانی دنیا پر مسلمانوں کے عروج و زوال کا اثر" 252 تا 259
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
299-300

انسان کی ذہنی کیفیت، عمل کے محرکات اور اس کے مقصد پر ہے، جس کو اسلام کی دین و شریعت کی زبان میں "نیت" کے ایک مفرد و سادہ لیکن نہایت عمیق و وسیع لفظ میں ادا کیا گیا ہے[1]۔ اس کے نزدیک نہ کوئی چیز مستقل دنیا ہے، نہ کوئی چیز مستقل دین، اس کے نزدیک خدا کی رضا کی طلب، اخلاص اور اس کے حکم کی تعمیل کے جذبہ و ارادہ کے ساتھ بڑے سے بڑا دنیاوی عمل، یہاں تک کہ حکومت، جنگ، دنیاوی نعمتوں سے تمتع، نفس کے تقاضوں کی تکمیل، حصول معاش کی جدوجہد، جائز تفریح طبع کا سامان، ازدواجی و عائلی زندگی، سب تقرب الی اللہ کا ذریعہ، اعلےٰ سے اعلیٰ مراتب ولایت تک پہنچنے کا وسیلہ اور خالص "دین" بن جاتی ہے، اس کے برخلاف وہ بری سے بڑی عبادت اور دینی کام، جو رضائے الہٰی کے مقصد اور اطاعت کے جذبہ سے خالی ہو اور خدا فراموشی اور غفلت کے ساتھ ہو، (حتٰی کہ قرض عبادتیں، ارکانِ اسلام، ہجرت و جہاد، قربانی اور سرفروشی اور ذکر و تسبیح) خالص دنیا اور ایسا عمل شمار ہوگا، جس پر کوئی ثواب اور اجر نہیں ہے، بلکہ وہ بعض اوقات وبال کا موجب اور خدا سے دوری کا سبب ہوجائے گا[2]۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] مشہور و صحیح حدیث جو شہرت و استفاصہ کے درجہ کو پہنچ چکی ہے، اور جس سے حدیث کے جلیل القدر امام، امام بخاری نے اپنی کتاب "الجامع الصحیح" کا آغاز کیا ہے، اس کے ابتدائی الفاظ ہی یہ ہیں "انما الاعمال بالنیات وانما لا مرء مانویٰ" (تمام انسانی اعمال کا اعتبار اور ان کا دارومدار نیتوں ہی پر ہے، اور آدمی کو اس کی نیتوں ہی کے مطابق پھل ملتا ہے)" بعض ائمہ اسلام کا قول ہے کہ اسلام کا ایک تہائی حصہ اس
حدیث میں آگیا ہے۔
[2] اس کی تائید میں صریح احادیث سے کتب حدیث کے دفتر بھرے ہوئے ہیں، ملاحظہ ہو ابواب اخلاص و نیت اور ایمان و احتساب۔
(باقی ص 300 پر)



محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ عظیم ترین معجزہ اور انقلاب انگیز اور عہد آفریں کارنامہ ہے کہ آپؐ نے دین و دنیا کی اس دوئی کو دور کیا اور ان دونوں بچھڑوں کو جو سینکڑوں برس سے ایک دوسرے کی صورت دیکھنے کے روادار نہ تھے، اور بارہا خون آشام جنگیں لڑ چکے تھے، گلے ملایا، یہ آپؐ کی خصوصیت ہے کہ آپؐ کامل طور پر "رسول وحدت" اور بیک وقت "بشیر و نذیر" ہیں، آپؐ نے دنیا کے انسانوں کو متحارب کیمپوں سے نکال کر حسنِ عمل، خدمت خلق اور حصول رضائے الہٰی کے ایک ہی محاذ پر کھڑا کر دیا اور سب کو اس جامع اور انقلاب انگیز دعا کی تلقین کی کہ "رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ" اور "اِنَّ صَلَاتِی وَ نُسُکِی وَ مَحیَایَ وَ مَمَاتِی لِلّٰہِ رَبِّ العٰلَمِینَ" کہہ کر یہ ثابت کردیا کہ مومن کی زندگی متفرق و متضاد وحدتوں کا مجموعہ نہیں، بندگی و عبودیت کی ایک ہی اکائی اور وحدت ہے، یہاں لباس دنیا میں درویش، قبائے شاہی میں فقیر و زاہد، سیف و تسبیح کے جامع، رات کے عبادت گزار اور دن کے شہسوار نظر آئیں گے اور ان کو اس میں کسی قسم کا تضاد بلکہ دشواری بھی محسوس نہیں ہوگی۔
اس تمہید کے بعد آپ اقبال کی یہ نظم پڑھئیے، جو انہوں نے دین و سیاست کے عنوان پر لکھی ہے، کس طرح انہوں نے عیسائیت اور اسلام، قرون وسطیٰ، عصر حاضر اور مسیحی و اسلامی تعلیمات کے دریا کو کوزہ میں بند کردیا ہے، جو اپنی پوری علمی، سنجیدگی اور وقار
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(باقی ص 299 کا) اقبال کے معنوی استاد و مرشدِ روشن ضمیر اور اسلام کے ایک عارف و شارح مولانا جلال الدین رومیؒ نے اس مضمون کو اپنے اس شعر میں ادا کیا ہے؎
چپست دنیا؟ از خدا غافل شدن
نے قماش و نقرہ و فرزند و زن
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
صفحہ نمبر 303
وَجِعلُوا َعزۃ اھلھا اذلۃ وولذالِکَ یفعلون۔ ( انمل 34)
اس کو تباہ کر دیتے ہیں ، اور وہاں عزت والوں کو بھی ذلیل کر دیا کرتے ہیں ، اور اسی طرح یہ بھی کریں گے ۔
اسی نشہ قوت اور حد سے بڑھے ہوئے احساس برتری کی دنیا کی وہ گذشتہ قومیں شکار ہوئیں جن کا قرآن مجید نے ذکر کیا ہے ، اور جنہوں نے صرف تخریبی اور مفسدانہ کردار ادا کیا ، اور ایک مست و مجنوں ہاتھی کی طرح انہوں نے اپنے ہم جنس انسانوں اور ہمسایہ قوموں کو سبزہ کی طرح روند ڈالا ، انہیں میں سے ایک قوم عاد تھی ، جس کی قرآن مجید نے اسی بیماری کی نشاندہی کی ہے۔
فاما عاد فستکبرو فی الارض بغیر الحق O وقالو امن اشد منا قوۃََ ، اولم یرو ان اللہ الذی خلقھم ھو اشدُ منھم قوۃ وکانواباٰیاتنا یجحدون۔ (فصلت 15)
جو عاد تھے ناحق ملک میں غرور کرنے لگے اور کہنے لگے کہ ہم سے بڑھ کر قوت میں کون ہے ؟ کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ خدا جس نے ان کو پیدا کیا ، وہ ان سے قوت میں بہت بڑھ کر ہے، اور وہ ہماری آتیوں سے انکار کرتے تھے ۔
اس خدا فراموشی ، خود مستی ، و خود پرستی کا نتیجہ ، طاقت کے اس آزادانہ استعمال کی شکل میں ہوا ، جو تمام حدود و قیود سے آزاد نتائج و عواقب سے بے نیاز اور جرم و سزائے جرم کے باہمی تناسب سے بے فکر تھی ، خدا کے پیغمبر حضرت ہود علیہ السلام نے ، جو اس سرکش قوم عاد میں مبعوث ہوئے تھے ان کی بیماریوں کی نشاندہی کی ۔
اتبنون بکل ریحِِ اٰیۃ تعبثون و تتخذون مضانع لعلکم تخلدون۔ واِذا بَطشتم جبارین ۔ ( الشعراء 128۔130 )
بھلا تم جو اونچی جگہ پر نشان تعمیر کرتے ہو، اور محل بناتے ہو ، شاید تم ہمیشہ رہو گے ، اور جب تم (کسی کو) پکڑتے ہو تو ظالمانہ پکڑتے ہو۔
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
صفحہ نمبر 304
جب کوئی نا خدا ترس قوم یا فرد ، اقتدار مطلق کے کسی مقام پر فائز ہو جاتی ہے ، اور اس کے ہاتھ میں ایسی طاقت آ جاتی ہے ، جس سے وہ اپنے ہر منشا کو پورا کر سکتی ہے م تو پھر وہ اپنے زیر اثر افراد اور قوموں کے ساتھ جو اس کے رحم و کرم پر ہوتی ہے ، مٹی کی بے جان مورتوں اور کاغذ کے پُرزروں جیسا سلوک کرنے لگتی ہے ، وہ اس کو ان کے توڑنے ، رکھنے ، پھیلانے ، کھولنے اور چٹکی سے مسلنے کا پورا اختیار سمجھتی ہے ، وہ ان کی موت و حیات کے بارے میں اپنی مرضی کے مطابق فیصلے کرنے لگتی ہے ، قرآن مجید فرعون کے متعلق جو اپنے کو ایسے ہی اقتدار مطلق کا مالک سمجھنے لگا تھا ، کہتا ہے ،
ان فرعون علافی الارض وجعل اھلھا شیعاََ یستضعف طائفۃ منھم یُذبحُ ابناءَھم ویستحیِ نِساءَھُم اَنہ کان من المفسدین۔ (القصص)
فرعون نے ملک میں سر اٹھا رکھا تھا ، اور وہاں کے باشندوں کو گروہ گروہ بنا رکھا تھا ، ان میں سے ایک گروہ ( یہاں تک) کمزرو کر دیا تھا کہ ان کے بیٹوں کو ذبح کر ڈالتا اور ان کی لڑکیوں کو زندہ رہنے دیتا، بیشک وہ مفسدوں میں سے تھا ۔
ایک ایسے ہی خود پرست اور خود مست کی ، جوان اوصاف کے ساتھ چرپ زبان اور سحر بیان بھی واقع ہوا ہے ، قرآن مجید ان الفاظ میں تصویر کشی کرتا ہے ، یہ در حقیقت
ایک فرد واحد نہیں ، بلکہ ایک خاص ذہنیت و کردار کی نمائندگی کرنے والی ایک مستقل نوع یا طبقہ ہے ،
وَمن الناس من یعجبک قولہ فی الحیاٰۃِ الدنیا ویُشھداللہ علی ما فی قلبہ وھو الد الخصام۔ واذا
اور کوئی شخص تو ایسا ہے جس کی گفتگو دنیا کی زندگی میں تم کو دلکش معلوم ہوتی ہے ، اور وہ اپنے ماٍفی الضمیر پر خدا کو گواہ بناتا ہے
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
صفحہ نمبر 305
تولیٰ سعیٰ فی الارضِ لیُفسد فیھا ویُھلک الحرث النسل ۔ واللہُ لا یُحب الفساد۔ واذا قیلَ لہ اتق اللہَ اَخذتہ العزۃُ بالاثمِ فحسبہُ جھنمُ ولبئسَ الھاد۔ ( البقرہ 204- 206)
حالانکہ وہ سخت جھگڑالو ہے ، اور جب اس کو کسی قسم کا اقتدار حاصل ہوتا ہے ، تو زمین میں دوڑتا پھرتا ہے تاکہ اس میں فتنہ انگیزی کرے ، اور کھیتی کو ( برباد) اور (انسانوں اور حیوانوں کی) نسل کو نابود کر دے ، اور خدا فتنہ انگیزی کو پسند نہیں کرتا ، اور جب اس سے کہا جاتا ہے کہ خدا سے خوف کرو تو غرور اس کو گناہ میں پھنسا دیتا ہے ، سو ایسے کو جہنم سزاوار ہے ، اور وہ بہت بُرا ٹھکانہ ہے۔
انسانی تاریخ ذہنیت کے نمونوں اور نمائندوں کی مثالوں سے بھری ہوتی ہے ، رومی اور ایرانی اپنے اپنے وقت ، اور اپنے اپنے حلقہ اثر میں اس کا بہترین نمونہ تھے ، اس نشہ قوت ، اور اس حد سے بڑھے ہوئے احساس برتری نے ان میں جو تخریبی صلاحتیں سفاکانہ ذہنیت اور مردم آزادی کی کیفیت پیدا کر دی تھی ، وہ ان کی بے مقصد فتوحات قوت پرستی اور انسان کشی کے واقعات سے عیاں ہے ، ڈاکٹر ڈریپر ( DRAPPER) اپنی کتاب معرکہ مذہب و سائنس (CONFLICT BETWEEN RELIGION AND SCIENCE) میں لکھتا ہے :-
"جب جنگی اور سیاسی اثر کے لحاظ سے سلطنت روما ، منتہائے ترقی پر فائز ہو گئی ، و مذہبی اور عمرانی پہلو سے اس کی اخلاقیات حالت فساد کے درجہ اخیر کو پہنچ چکی تھی ، اہل روما کی عیش پرستی و عشرت پسندی کی کوئی انتہا نہ رہی تھی ، ان کا اصول یہ تھا کہ انسان کو چاہئے کہ زندگی کو ایک سلسلہ تعیش بنا دے ۔۔۔۔۔۔
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
صفحہ نمبر 306
۔۔۔۔۔ عالی شان حماموں ، دلکشا تماشاگاہوں ، اور جوش آفریں دنگلوں سے جن میں پہلوان کبھی ایک دوسرے سے ، اور کبھی وحشی درندوں سے ، اس وقت تک مصروف زور آزمائی رہتے تھے ، جب تک کہ حریفوں میں سے ایک ہمیشہ کے لئے خاک و خون میں سو نہ جائے ، اہل روما کے سامان تعیش پر مزید اضافہ ہوتا تھا ، دنیا کے ان فاتحؤں کو تجربہ کے بعد یہ بات معلوم ہوئی تھی کہ عبادت اور پرستش کے لائق اگر کوئی شے ہے تو وہ قوت ہے ، اس لئے کہ اس قوت کی بدولت تمام اس سرمایہ کا حاصل کرنا ممکن ہے ، جو محنت اور تجارت کی مسلسل جانکاہیوں اور عرق ریز یوں سے پیدا ہے ، مال و املاک کی ضبطی ، صوبجات کی محاصل کی تشخیص ، زرو باز کی بدولت جنگ میں کامیاب ہونے کا نتیجہ ہے ، اور فرمانروائے دولت روما اس زور و قوت کا نشان یا علامت ہے ۔ "
اس کے بعد ساتویں صدی ہجری کے نیم وحشی تاتاریوں کی اس یورش کی تفصیل جگر تھام کر تاریخ کی کتابوں میں پڑھئے ، جن کو ایک دو تجربوں کے بعد اس کا احساس اور علم ہو گیا تھا کہ اس وقت آس پاس کی دنیا میں ان کے سیل رواں کو روکنے والی قوت موجود نہیں ہے ، آج بھی اس کی تفصیل لرزتے ہوئے دل اور بہتے ہوئے آنسوؤں کے بغیر پڑھنی مشکل ہے ، یہ ایک فتنہ جہاں سوز تھا ، جس نے اس وقت کی متمدن دنیا کی چولیں ہلا کر رکھ دیں ، اس وقت کے سارے انسانوں پر وحشت و دہشت اور سراسیمگی اور مایوسی کی ایک کیفیت طاری تھی ، جو اس وقت کی تاریخ ہی نہیں ادب و
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1)" معرکہ مذہب و سائنس " مترجمہ مولوی ظفر علی خاں ص 49۔50
2) مثلاََ ابن کثیر کی "البدایہ والنہایہ "
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
صفحہ نمبر 307
شاعری اور اخلاق و تصوف کی کتابوں سے بھی عیاں ہے ، مورد ملخ اس لشکر کی تاخت سے صرف آباد ملک ، گلزار شہر اور مردم خیر و پررونق قصبوں ہی ایک اینٹ سے اینٹ نہیں بج گئی ، اور وہ خاک کے ایک تودہ میں تبدیل نہیں ہوئے ، بلکہ پوری انسانی تہذیب اس کی لپیٹ میں آگئی ، دنیا کی علمی و تمدنی ترقی صدیوں کے لئے بچھڑ گئی ، عالم اسلام پر جو اس وقت مذہب و اخلاق اور علم و حکمت کا علمبردار تھا ، علمی و فکری انحطاط کے سیاہ بادل چھا گئے ، زہانت کے سوتے عرصہ تک کے لئے خشک ہو گئے ، عراق و ایران اور ترکستان سے جو علوم اسلامیہ کا ملجا و مادی تھے ذہین و ذی علم خاندان اپنی جان و عزت بچانے کے لئے ہجرت کر کے ہندوستان میں پناہ لینے لگے ، جو عالم اسلام کے بعید ترین سرے پر واقع تھا ، جہاں ترکی النسل طاقت ور خاندان ، جوان وحشی تاتاریوں کو ترکی نہ ترکی جواب دے سکتے تھے ، حکومت کر ہے تھے ، عالم اسلام پر ایسا ذہنی اضمحلال ، علمی انحطاط سایہ فگن ہوا کہ بعض علمی حلقوں نے اجتہاد کے دروازہ کو بند کر دینے اور تقلید پر انحصار کرنے میں عافیت اور سلامتی سمجھی ،
سیزر ، سکندر ، چنگیز و ہلاکو اور تیمور لنگ و نادر شاہ افشار ، سب اسی نشہ قوت کے بیمار اور اپنے اپنے وقت میں نوع انسانی بے درد شکاری اور اپنے زور شمشیر اور قوت تسخیر کا دنیا کو تماشا دکھانے والے خطرناک بازیگر تھے ، ان کے ان
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
صفحہ نمبر 308
رزمیہ کارناموں اور ان کی اس صیدا فگنی اور زور آزمائی کی خونی داستان پڑھنے کے بعد اقبال کے حسب ذیل شعر پڑھئے ، اور داد دیجیے کہ انہوں نے کس طرح تاریخ کے ہزاروں صفحات کا عطر اپنے ان تین شعروں میں کھنچ کر رکھ دیا ہے ۔
اسکندر و چنگیز کے ہاتھوں سے جہاں میں
سوبار ہوئی حضرت انساں کی قباچاک
تاریخ امم کا یہ پیام ازلی ہے
صاحب نے ظراں ! نشہ قوت ہے خطرناک
اس سیل سبک یسرز میں گیر کے آگے
عقل و نظر و علم و ہنر ہیں خس و خاشاک
مشرق میں بہت سے دانشوروں کا احساس ہے کہ اس بیسویں صدی عیسوی میں یورپ ( اپنے دونوں مشرقی و مغربی کیمپوں کے ساتھ ) اور امریکہ قوموں اور تہذیبوں کے اسی قدیم مرض نشہ قوت اور حد سے بڑھے ہوئے " احساس برتری " کے ہیں انہوں نے اپنے کو قوموں اور ملکوں اتالیق و سرپرست اور ان کی قسمت کا مالک سمجھ لیا ہے ، وہ بھی ہر مسئلہ کو قوت کے ترازو پر تولتے اور سود و زیاں کے معیار سے جانچتے ہیں ، وہ بھی دنیا کے کسی گوشہ میں کسی صالح قیادت کو ابھرنے اور اگر ابھر آئے تو پنپنے نہیں دیتے، بلکہ اب تو مشرق کے بہت سے مبصروں کا خیال یہ کہ اکثر مشرقی و ایشیائی اور بالخصوص اسلامی ملکوں کی صورت ھال سے بگڑنے اور وہاں کے ذہنی و اخلاقی انتشار کی ذمہ داری مغرب کی یہی لیڈر شب ہے ۔
حق و انصاف سے بے نیاز ، سود و زیاں کی منطق مغربی قیادت کو مشرق کے کسی مسئلہ پر حقیقت پسندانہ غور کرنے اور اس کا منصفانہ حل تلاش کرنے کی اجازت نہیں دیتی ، وہ وہ کمزور لیکن برسرحق مظلوم کا ساتھ دینے کے بجائے ، طاقتور ظالم کا ساتھ دیتی ہے ، اسی کی وجہ سے اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل کے جیسے مفید ادارے بھی ، اپنا مقصد پورا
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
صفحہ نمبر 309
کرنے ، کسی آنے والی مصیبت کو روکنے اور انسانیت کی بے لوث خدمت کرنے سے قاصر ہے ، خلوص اور غیر جانبداری کے اس اہم عنصر کے فقداب نے مغرب کی ان عظیم فیاضانہ مالی ، غذائی اور ترقیاتی امدادوں کے بھی ، تقریباََ بے اثر بنا دیا ہے ، جن کے دہانے اس نے کھول رکھے ہیں ، اور مشرق پر ان کا وہ اخلاقی اثر نہیں ہے ، جو ہونا چاہئے ۔
لیکن یہی طاقت جب ایک صالح مقصد اور ایک مصلح رہنما کے ما تحت اور زیر اثر ہوتی ہے ، اور وہ پیل نے زنجیر نہیں بلکہ ایک راہ واں اور راہ ہیں ، اور رہنما شہسوار کی راکب نہیں بلکہ مرکب متبوع نہیں بلکہ تابع مقصد نہیں ، بلکہ وسیلہ ہوتی ہے ، تو وہ قہر و عذاب کے بجائے ، نعمت و رحمت ، ہلاکت کی بجائے حیات ، تخریب کے بجائے تعمیر کا ذریعہ بن جاتی ہے ، اس سے مظلوموں کی دادرسبی ، صدیوں کے غلاموں کی ، بند غلامی سے آزادی ، حقوق کی بلکہ انسانی کی حیثیت عرفی کی بحالی کا کام لیا جاتا ہے، اس سے دنیا میں پھر ایک نئے دور کا آغاز اور جہان نو کی تعمیر ہوتی ہے ، اس لئے وہ کہتے ہیں
لادین ہو تو ہے زہر ہلا ہل سے بھی بڑھ کر
ہو دیں کی حفاظت میں تو ہر زہر کا تریاق
اقبال کے نزدیک اس کی بہترین مثال اسلام کے حلقہ اور داعی عربوں کی وہ مبارک فتوحات ارو خدا کی دی ہوئی طاقت کا وہ صحیح استعمال ہے ، جو انہوں نے انہیں کے ایک سفیر کے الفاظ میں انسانوں کی بندگی سے نکال کر خدائے واحد کی بندگی میں داخل کرنے ، دنیا کے تنگ قفس سے رہائی دے کر دنیا اور آخرت کی بیکراں وسعتوں سے آشنا بنانے ، مذاہب کی نا انصافیوں اور کاتاہ اندیشیوں سے خلاصی دے کر
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top