نقوش اقبال از مولانا سید ابو الحسن علی ندوی ( مکمل صفحات)

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

ناعمہ عزیز

لائبریرین
صفحہ نمبر 258
وہ اپنی اس زندگی کا ذکر کرتے ہیں ، جو یورپ کے بڑے بڑے شہروں میں گزری تھی ، اور جہاں خشک و افسردہ کتابوں ، دقیق فلسفیانہ مباحث ، جمال فتنہ انگیز اور دل آویز خوشنما مناظر کے سوا انھیں اور کچھ نہ مل سکا ، اگر کوئی چیز ملی تو وہ خود فراموشی تھی جس نے ان کو ان کے وجود سے بھی محروم کر دینا چاہا،
بہ افرنگی بتاں دل باختم من
زتاب ویریاں بگدا ختم من
چناں از خویشتم بیگانہ نہ بودم
چو دیدم خویش رانشنا ختم من
اب بھی جب ان کو ان دنوں کی ویرانی و بے نوری یاد آتی ہے ، ان کی طبیعت پر وحشت و انقباض طاری ہو جاتا ہے ۔
وہ بڑے جوش کے ساتھ کہتے ہیں کہ میخانہ مغرب میں بیٹھ کر مجھے سوائے دردِ سری کے اور کچھ نہ ملا ، اس سے زیادہ بے سوز ، بے نور اور بے کیف شب و روز مجھے اپنی پوری عمر میں یاد نہیں ، جو ان دانشمندان فزنگ کے ساتھ گزرے ۔
مے از میخانہ مغرب چشیدم
بجانِ من کہ دردِ سر خریدم
نشستم بانکو یانِ فرنگی
ازاں بے سوز تر روزے ندیدم
پھر پڑے درد کے ساتھ کہتے ہیں میں تو آپ کے ایک فیض کا پروردہ ہوں ، " اہل دانش " اور " اہل خرد" کی یہ ساری نکتہ آدرنییاں اور لن ترانیاں میرے لئے دردِ سر کا سامن اور وبالِ جان میں ہیں ، میں تو صرف آپ کے در کا فقیر ہوں آپ کی گلی کا سائل ہوں مجھے کسی کے سنگ آستاں پر سر پھوڑنے اور قسمت آزمانے کی کیا ضرورت ؟
فقیزم از ت وخواہم ہر چہ خواہم
دل کو ہے خراش از برگ کاہم
مراد رس حکیماں درد سر داد
کہ من پروردہ فیض نگا ہم
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
صفحہ نمبر 259
پھر وہ اس طبقہ کی طرف متوجہ ہوتے ہیں ، جو علم کا نمائندہ سمجھا جاتا ہے وہ اس کی خشکی ، جمود ، محبت اور سوز دروں سے محرومی ، معلومات کی گرم بازاری اور اصطلاحات کی گراں باری کا شکوہ کرتے ہوئے بڑے شاعرانہ اور بلیغ انداز میں کہتے ہیں کہ اس کا صحرائے حجاز زمزم سے خالی اور بیت اللہ سے محروم ہے ، وہ کہتے ہیں کہ حجاز کے ریگستان کی قیمت تو بیت اللہ اور آب زمزم سے ہے ، اگر یہ نہ ہوں تو ان تیتے ہوئے بیابانوں اور خاموش پہاڑوں سے کیا فائدہ ؟ اسی طرح وہ عالم دیں لیکن اس کی محبت کے ایک آنسو اور دل کی تڑپ سے بھی نا آشنا ہے ، جس کے حصہ میں اس سر زمین مقدس کی صرف سختی اور گرمی آئی ہے ، خنکی اور نمی نہیں آئی ۔
دل ملا گرفتار غمے نیست
نگاہے ہست در چشمش نمے نیست
ازاں بگر یختم از مکتب او
کہ درد ریگ حجازش زمزے نیست
وہ کہتے ہیں کہ میں نے ایک بار غیر اللہ پر بھروسہ کیا اور اس کی سزا میں دوسو بار اپنے مقام سے نیچے گرایا گیا ، یہ وہ جگہ ہے جہاں روزِ شمشیر اور حسنِ تدبیر کام نہیں آتا،
یہ تقدیر الہیٰ اور مشیت ایزدی کا مقام ہے ، اور اس میں ایک لغزش قدم آدمی کو بہت نیچے گرا سکتی ہے ۔
دلِ خودرا بدست کس ندادم
گرہ ازروئے کار خود کشادم
بغیر اللہ کردم یک بار
دو صد باراز مقام خود فتادم
وہ کہتے ہیں کہ اس بے اخلاص و بے سوز عہد میں جو منفعت و مصلحت کے سوا
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
صفحہ نمبر 260
کسی اور چیز سے آشنا نہیں ، اور جس کا مصنوعی یا حیوانی دل ہر قسم کے لطیف اور مخلصانہ جذبات سے عاری ہے ، میرے لئے سوز دروں کی آگ میں جلنے اور خونِ جگر پینے کے سوا اور کیا ہے ۔
نگاہم زائچہ بنیم بے زاست
دل از سوز درونم در گدازاست
من و ایں عصر بے اخلاص و بے سوز
بگو بامن کہ آخر ایں چہ راز است
وہ کہتے ہیں مشرق و مغرب کسی جگہ میرا کوئی ہمدم و ہمراز نہیں ، میں اپنا غمِ دل خود اپنے ہی دل سے کہتا ہوں اور اپنے کو بہلاتا ہوں ۔
من اندر مشرق و مغرب غریبم
کہ ازیا ران محرم بے نصیبم
غم خودرا بگویم بادلِ خویش
چہ معصوانہ غربت را فریبم
ان کو اس کی شکایت ہے کہ ان کی مخلصانہ نصیحتوں اور مشوروں پر کسی نے عمل نہیں کیا اور ان کے نخل علم کا کسی نے پھل نہ کھایا ، انھوں نے شاعری میں جس سرفروشِ غیب کی ترجمانی کی اس پر کسی نے کان دھرا ، سب ان کو ترجمان ٖ حقیقت کے بجائے محض غزل خواں اور غزل گو سمجھتے رہے ۔
بآں رازمے کہ گفتم پے نہ بردند
زشاخِ نخل من خرما نخوردند
من اے میر ! مم داداز تو خواہم
مرا یاراں غزل خوانے شمردند
وہ رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم سے شکایت کرتے ہیں ، آپ کا حکم اور فرمان تو یہ ہے کہ میں لوگوں کو زندگی اور بقاء دوام کا پیغام پہونچاؤں ، لیکن یہ ناحق شناس مجھ سے یہ مطالبہہ کرتے ہیں کہ عام اور پیشہ اور شعراء کی طرح میں لوگوں کی تاریخ وفات نکالتا اور قطعہ تاریخ کہتا رہوں ۔
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
صفحہ نمبر 261
تو گفتی از حیات جادواں گوئے
بگوش مردہ پیغام جاں گوئے
ولے گویندایں ناحق شناشاں
کہ تاریخ وفات ایں وآں گوئے
وہ بڑے درد و سوز اور بڑی حسرت اور تلخی کے ساتھ اس بات کی شکایت کرتے ہیں کہ وہ علم اور وہ پیغام جو ان کے اشعار کی روح اور اصل قیمت ہے ، اس سے لوگوں کو سب سے کم دلچسبی ہے ، اس میں انھوں نے بڑی قناعت اور زہد کا ثبوت دیا ہے ، وہ کہتے ہین کہ اپنی ساری متاع کھول کر میں نے بازار میں رکھ دی ہے لیکن کوئی اس جنس نایاب کا خریدار نہ ملا ، میں نے ارمغان حجاز دل پیش کرنا چاہا لیکن اس کا بھی کوئی قدر داں نظر نہ آیا ، مجھ سے زیادہ غریب الوطن ، بیگانہ اور تنہا اس دنیا میں اور کون ہو سکتا ہے ۔
دلے برکف نہادم دلبرے نیست
متائے داشتم گرے نیست
دورنِ سینہ من منزلے گیر
مسلمانے زمن تنہائے ترے نیست
آخر مین وہ سلطان ابن سعود کو خطاب کرتے ہیں ، لیکن ان کاروئے سخن دراصل تمام عرب بادشاہوں اور عالم اسلام کے سربراہوں کی طر ف ہے ،اس میں انھوں نے غیر ملکیوں پر اعتماد کے نتائج سے آگاہ کیا ہے ، اور ان کے بجائے خدا پر اور اس کے بعد خود پر بھروسہ کرنے کی دعوت دی ہے ۔
وہ کہتے ہیں کہ اگر تناب تمھاری ہے تو جہاں چاہو اور جس وقت چاہو اپنا خیمہ گاڑ سکتے ہو اور ہر منزل جگہ بنا سکتے ہو ، اور اگر وہ نہیں تو پھر مستعارے لے کر تم آزادی کے ساتھ کوئی قدم نہیں بڑھا سکتے ۔
وہ کہتے ہیں کہ ذرا اپنے آپ کو پہچاننے کی کوشش کرو، اس روئے زمین میں
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
صفحہ نمبر 262
تم کو وہ مقام حاصل ہے جس کی شام دوسروں کی سحر سے زیادہ آئینہ فام ہے ۔
ترا انداز بیانا نے مقام است
کہ شامش چوں سحر آئینہ فام است
بہرجائے کہ خواہی خیمہ گستر
طناب از دیگراں جستن حرام است
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
صفحہ نمبر 263​
شکوہ اور مُناجات
اقبال مرد مومن تھے ، ایمان و یقین پر انھیں پورا پھروسہ تھا ، وہ اسے اپنی قوت کا راز اور سرمایہ اعزاز سمجھتے تھے ، ان کو کہنا تھا کہ علوم و معلومات کا دفتر بے پایاں سیدھے سادے ایمان کے سامنے بھی ہیچ ہے ، وہ اپنے ایک شعر میں کہتے ہیں کہ مرد فقیر تو لا الہٰ الا اللہ پر پختہ یقین اور اس کے کھلے ہوئے معنوں کی تصدیق کے سوا کچھ نہیں رکھتا ، لیکن فقیہ و خطیب اس کی تعبیروں کا ایک انبار لگائے بیٹھے ہیں ، لیکن معنی اوراس کے عملی تقاضے تم ان کی رسائی نہیں ، گویا ان قار دنوں کو اپنے خزانے سے مستفید ہونے کا حوصلہ نہیں​
قلندر جزدو حرف لاالہ کچھ بھی نہیں رکھتا​
فقیہ چہر قاروں ہے لغت ہائے حجازی کا !​
اسی طرح پیغام محمدی اور شخصیتِ نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے انتساب انھیں ہر شے سے بڑھ کر عزیز تھا ، وہ ان کے سوا کسی اور مکتب فکر سے استفادہ اور کسی اور سر چشمہ سے سیرابی​
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
صفحہ نمبر 364
غیرت ومحبت کے خلاف سمجھتے تھے ، وہ اپنے ایک شعر میں بڑے پر تاثر لہجے میں عرض رسا ہیں :۔
خواجہ مانگا دار آبروئے گدائے خویش
آنکہ جوئے دیگراں پر نکند پیالہ را
آخر عمر میں ان کی بیماری کا سلسلہ چل رہا تھا اور وہ بھوپال میں مقیم تھے کہ 13 اپریل سن 1932 کو عالم اسلام کے افسوسناک حالات ، اس کی روحانی و فکری پسماندگی ، اسلامی شخصیات کے فقدان نئی نسل کے مغربیت کی طرف رجحان اور اپنے پیغام سے غفلت کے احساسات نے انھیں بیقرار کر دیا اور انھوں نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض و معروض کی اور عالم اسلام کی ذہنی و عملی پسماندگی عروج کے بعد زوال اور نشاط کے بعد اضحلال کی شکایت کی ، اور کہا کہ حضور ! میں اس امت کی شکایت کرنا چاہتا ہوں جس پر آج موت کا خوف طاری ہے ، آپ نے لات و منات کے بُت تور دئیے ، اور دنیا کی از سر نو تعمیر کی اور اس کی بوڑھی ہڈیوں میں جوانی کا خون دوڑا دیا جس نے نتیجے میں آج دنیا میں ایمان و یقین ، ذوق و شوق اور عبادت و تقوی کا دور دورہ ہے ، آپ کے کلمہ سے وہ بیداری اور حضوری اور نوروسرور حاصل کر رہی ہے ، ہم بھی ایک بت پرست ملک میں پیدا ہوئے ، لیکن گائے بیل کی پوجا سے ہم سے بلند ہو گئے اور پروہتوں اور سنیاسیوں کے آگے سر نہیں جھکایا اور نہ دیوی ویوتاؤں کو سجدے کئے اور نہ بادشاہوں اور وزیروں کے آستانے کی خاک بوسی کی ، یہ سب آپ کے دین اور آپ کی محنت کا نتیجہ ہے
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
صفحہ نمبر 265
ہم نے بھی آپ کے اس "خوانِ یغما" سے زلہ رائی کی ہے ، جس سے ایک عالم سیر ہو رہا ہے ، آپ ہی کی ذات اور آپ کے ارشادات اس امت مرحومہ کا سرمایہ ذوق و مصدر شوق صدیوں سے بنے رہے ہیں ، او ر آپ کی تعلیمات ہی کے سبب یہ امت فقیری میں خودار اور محتاجی میں بھی بے نیاز او رآبرو دار ہی ہے، لیکن آج عالم اسلام نے اپنی قوت و قیمیت کا بیشتر حصہ کھو دیا ہے ۔
اے تو مابے چارگاں راسازو برگ
وار ہاں ایں قوم را وا ترسِ مرگ
سوختی لات و منات کہنہ را
تازی کردی کائنات کہنہ را
در جہانِ ذکر و فکر و انس و جاں
تو صلوۃِ صنح ، تو بانگ اذاں
لذت سوز و سردرا از لا الہ
در شب اندیشہ نور از لاالہ
نے خداہا سا ختیم از گاؤخر ،
نے حضور کا ہناں افگندہ سر
نے سجود پیش معبودانِ پیر
نے طواف کو شک سلطان و میر
ایں ہمہ از لطف بے پایانِ تست
فکر ما پروردہ احضان تست
ذکر ےو سرمایہ ذوق و سرور
قوم را دارد نہ فقر اندر غیود
اے مقام و منزل ہر راہ رو
جذب تو اندر دل ہر راہ رو
سا زمابے صوت گردید آنچناں
زخمہ بررگہائے او آید گراں
اقبال خدمتَ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں کہتے ہیں ، میں عالم اسلام میں بہت پھرا اور عرب و عجم کو دیکھا لیکن آپ کے پیرووں اوریاد کرنے والوں کو بہت کم ، لیکن ابو لہب کے نام لیواؤں کو ہر جگہ پایا اسلامی جوانوں کے دماغ روشن لیکن قلب و ضمیر تاریک ہو گئے ہیں ، ان کی جوانی نرمی و نزاکت کا نمونہ ہے ، راجائیت اور بعد نظر سے
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
صفحہ نمبر 266
ان کا دامن خلای ہے ، وہ غلامی کی افتاد پر پیدا ہو رہے ہیں ، اور اسی طرح کی نسلیں یکے بعد دیگرے جنم لے رہی ہیں ، وہ خوئے غلامی میں اتنے پختہ ہیں کہ آزادی کا خواب بھی نہیں دیکھ سکتے ، تعلیم جدید نے ان سے دینی احساسات چھین کر انہیں بے حیثیت بنا دیا ہے ، وہ مغرب کے پیچھے دیوانہ وار چلے جا رہے ہیں ، لیکن انھیں اپنی قیمت کا پتا نہیں ، وہ مغرب سے بھیک مانگتے اور اس کے بدلے اپنی روح اور ضمیر کو بیچتے ہیں ، اس طرح یہ شاہین زادے وہ ممولے بن گئے ہیں ، جو فضا کی وسعتوں کی تاب ہی نہیں لا سکتا ۔
نئی نسل کے معمار ۔۔۔۔۔ اور استاتذہ بھی چونکہ نکمے ہیں ، اس لئے وہ بھی انھیں خودی کی تعلیم نہ دے سکے ، اور نہ انھیں ان کے منصب و مقام سے آگاہ کر سکے آتش فزنگ نے نئی نسل کو موم کی طرح پگھلا دیا اور اسے اپنے مطلب کے مطابق ڈھال لیا ہے اور اسے مسخ کر کے رکھدیا ہے ۔
مسلمان آج موت و شھادت کی لذت سے بے خبر ہو چکا ہے ، اور " لا غالب الا اللہ " کا یقین کھو چکا ہے ، اب اسے حیات چند روزہ ہی کی فکر ہر دم لگی رہتی ہے اور ایک روٹی کے لیے سو 100 انسانوں کی خو شامد اس کا پیشہ بن گیا ہے ، فرزند ابراہیم علیہ السلام آج بت شکنی کی بجائے بت تراشی کر رہا اور فزنگ سے نئے اصنام درآمد کر رہا ہے، یہ نسل نشاۃ ثانیہ کی محتاج ہے ۔ آج اس سے پھر"قم باذن اللہ" کہنا ہو گا ، ہمیں مغرب نے مسحور ہی نہیں کیا بلکہ بغیر لڑے اس نے ہمارا خاتمہ کر دیا ، آپ کے اصحاب نے قیصر کسریٰ کے تخت الٹ دئیے تھے ، آج پھر اس مردِ مومن کی ضرورت ہے جو ایمان و یقین سے تہذیب جدید کے سحر و اثر کا
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
صفحہ نمبر 267
طلسم توڑ دے۔
در عجم گردیدم وہم در عرب
مصطفےٰ نایاب دار زاں بولہب
ایں مسلماں زادہ روشن دماغ
ظلمت آباد ضمیرش بے چراغ !
دو جوانی نرم و نازک چوں حریر
آرزو در سینہ اوزود میر
ایں غلام ابن غلام ابن غلام
حرست اندیشہ اور احرام
مکتب ازوے جذبہ دیں درربود
ازد جودش این قدر داند کہ بود
ایں زخود بیگانہ ایں مست فزنگ
نان خومی خواہد ازدست فزنگ
ناں خرید ایں فاقہ کس باجانِ پاگ
داد مارانالہ ہائے سوز ناک
دانہ چیں مانند مرغان سر است
از فضائے نیلگوں نا آشنا ست
شیخ مکتب کم سواد و کم نظر
از مقام اونداد اور اخبر
آتشَ افرنگیاں بگداختش
یعنی ایں دوزخ دگرگوں ساختش
مومن واز مز مرگ آگاہ نیست
درویش لاغالب الا اللہ نیست
ماہمہ افسوئی تہذیب غرب
کشتہ افرنگیاں بے حرب و ضرب
توازاں قومے کہ جام او شکست
وا نمایک بندہ اللہ مست
تا مسلماں باز بیند خویش را
از جہانے برگز یند خویش را
اقبال التجا کرتے ہیں کہ شہسوار گردوں رکاب ! خدارا ذرا دیر کے لئے رکاب بوسی کا موقع دیجیے کہ اپنے احزان و آلام کا بیان کر سکوں حالانکہ میری زبان کنگ اور ناطقہ سربگریباں ہے اور شوق و ادب میں کشمکش ہے ، شوق کہتا ہے کہ دوست قریب ہے ، تاب گویائی پیدا کر ! اور ادب مانع ہوتا ہے کہ فضول گوئی
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
صفحہ نمبر 268
چھوڑ ۔ لب بند کر اور آنکھیں کھول ۔ لیکن توسنَ شوق ادب کے قابو سے نکلا جاتا ہے ۔
شہسوار ا! ایک نفس در کش عناں
حرف من آساں نیا یدبر زباں
آرزو آید کہ ناید تا بلب ؟
می نہ گردو شوق محکوم ادب
آں بگوید لب کشا اے درد مند
ایں بگوید چشم لب بہ بند
حضوع میں وہ صید لاغروزبوں ہوں جسے کسی صیاد نے نہیں پوچھا لیکن وہ آپ کی طرف بھاگ کر اور ایک امید لیکر آیا ، میری آواز ہجوم آرزو سے دب گئی ہے ، اور دل کا شعلہ زبان تک نہیں آتا ، میری آتش نفسی اب دل کی آگ سے خالی ہو رہی ہے اور قرآنِ فجر کی لذت سے محروم ہوا جاتا ہوں ، وہ نفس جس کی گنجائش سینہ میں نہو وہ اس میں اسیر بن کر ہی وہ سکتا ہے ، حالانکہ اس کے لئے تو اسے لامحدود فضاؤں کی حاجت اور بیکراں آسمانوں کی ضرورت ہے ، میری جسمانی اور روحانی بیماریوں کا اس کے سوا کوئی علاج نہیں کہ آپ ایک نظر سے ہمیں نواز دیں ، طبیبوں کے نسخے میری بیمار روح کے لئے سازگار نہیں ، میری لطافت کڑوی کسیلی دواؤں کی متحمل نہین ، میرے گریہ پیہم پر رحم کیجیے اور کوئی داروئے خوشگوار تجویز کیجیے ، میں بوصیری کی طرح عرض پرواز ہوا ہوں کہ میری نوائے رفتہ مجھے واپس ملے ، گنہگار آہ کی شفاعت کے زیادہ مستحق ہوتے ہیں ، اور شفیق مائیں اپنے کمزور بچوں ہی کو زیادہ چاہتی ہیں :-
گرد تو گردد حریم کائنات
از تو خواہم یک نگاہِ التفات
ذکر و فکر و علم و عرفا نم توئی
کشتی و دریا و طوفا نم توئی
اے پناہ من حریم کوئے تو
من با میدے سوئے تو
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
صفحہ نمبر 269
آہ ازاں دردے کہ درجان و تن است
گوشہ چشم تو داردے من است
چوں بصیری از تومی خواہم کشود
تابمن باز آید آں روزے کہ بود
مہر تو بر عاصیاں افزوں تر است
در خطا بخشی چو مہر ما در است
اقبال اپنی عرض جاری رکھتے ہوئے کہتے ہیں میں پرستارانِ شب کے ساتھ ہمیشہ جنگ آزما رہا ہوں ، میری قندیل کو اور فروزاں کر دیجیے آپ کا وجود دنیا کے لئے فصٌ نہار تھا ، اور چمن انسانیت کے لئے موسم خوشگوار ، کیوں نہ نسیم جانفزا کا ایک جھونکا میری طرف بھی آ نکلے اور آفتاب عالمتاب کی ایک کرن ذرہ حقیر کو چمکا دے جسم کی قیمت روح سے ہے اور روح ، محبت کے دم سے ہے ۔
میری روشنی طبع نے فقہ و اسرارِ دین و شریعت تک پہنچا دیا لیکن میدان عمل میں میری ہمت جواب دے گئی ، میری مہم فرہاد خاراشکن سے بھی زیادہ مشکل اور روح فرسا ہے ، مجھے اس سے زیادہ قوت و ہمت اور صلاحیت کی ضرورت ہے کہ میں عصر حاضر میں اپنی صلاحیتوں کا صحیح استعمال کر سکوں ۔ آپ میری شمشیر آبدار کی سان تیز کر دیں کہ یہ کند ہے ، لیکن جوہرے سے خالی نہیں۔
میں نے اگرچہ اپنی زندگی ضائع اور جوانی رائگاں کی ہے لیکن ایک شے لطیف جسے "دل" کہتے ہیں اسے میں نے محفوظ رکھا ہے ، اس کے بارے میں میں ہمیشہ خود دار و غیرت مند رہا اس لئے کہ اس پر شروع سے آپ کے سمندناز کا نقش کفِ پاثبت تھا۔۔۔۔۔ جو غلام دنیا سے کوئی مطلب نہیں رکھتا وہ اپنے مالک ہی کی رضا اور مہربانی کا جویا رہتا اور اس کے ہجر و فراق کو موت سمجھتا ہے۔
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
صفحہ نمبر 270
اے وہ برگزیدہ ہستی ! جس نے ایک کرد کو سوزِ عربی بخشا ، ایک ہندوستانی کو بھی اجازت مرحمت فرما کہ وہ حاضری دے اور کچھ عرض کرے ، وہ ایک دلِ خوں گشتہ اور ایک جگر تفتہ لے کر خدمت میں آیا ہے، اس لے جاننے والے دوست اور عزیز بھی یہ نہیں جانتے کہ اسکے غم و الم کا کیا خیال ہے ؟ میں وہ بانسری ہوں جو اپنی اصل سے جدا ہے لیکن عہد و صال کی یاد میں نغمہ ہائے فراق اس کے سینے میں گونج رہے ہیں اور غم جدائی کی شکایت سے اس کا دل لبریز ہے ، میں وہ چوب خشک صحرا ہوں جسے کارواں آگ لگا کر روانہ ہو گیا ، اور اسے پیچھے چھوڑ گیا ، لیکن وہ مسلسل جلتی تہی اور اس کا وجود شعلہ و شر ار بنکر بکھرتا رہا ، لیکن اس کی نیم سوختگی کو کس اور کارواں کی تلاش اور اب تک اس کا انتظار ہے کہ وہ اس کے وجود کو سراپا سوز بنا دے :-
اے وجود تو جہاں رانو بہار
پر تو درایغ از من مدار
خود بدانی قدر تن از جاں بود
قدر جاں از پر تو جاناں بود
تاز غیر اللہ ندارم ہیچ امید
یا مرا شمشیر گرداں یاکلید
فکر من در فہم دیں چالاک و چست
تخم کر دا رے زخاک من نرست
تیشہ ام راتیز تر گرداں کہ من
محنتے دارم فزوں از کوہ کن
مو منم از خو یشتن فرنیم
درفسانم زن کہ بدگو ہرنیم
گرچہ کشت عمر من بے حاصل است
چیز کے دارم کہ نام اودل است
دارمش پوشیدہ از چشم جہاں
کزسم شیدیز تو دار دنشاں
بندہ راکو نخواہد سازو برگ
زندگانی بے حضور خواجہ مرگ
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
276

ربط و ضبط ملت بیضا ہے مشرق کی نجات
ایشیا والے ہیں اس نکتے سے اب تک بے خبر
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر
جو کرے گا امتیاز رنگ و خوں مٹ جائے گا
ترک خرگاہی ہو یا اعرابی والا گہر
نسل اگر مسلم کی مذہب پر مقدم ہوگئی
اڑ گیا دنیا سے مانند خاک رہگزر
نظم "طلوع اسلام" میں فرماتے ہیں؂

بتانِ رنگ و خوں کو توڑ کر ملت ميں گم ہو جا
نہ ایرانی رہے باقی نہ تورانی نہ افغانی!
یہ ہندی وہ خراسانی یہ افغانی وہ تورانی
تو اے شرمندہ ساحل اچھل کر بیکراں ہو جا
ہوس نے ٹکڑے ٹکڑے کردیا ہے نوع انساں کو
اخوت کا بیاں ہوجا محبت کی زباں ہو جا
غبار آلودہ رنگ و نسب ہیں بال و پر ترے
تو اے مرغ حرم اڑنے سے پہلے پرفشاں ہوجا

اپنے دوسرے مجموعہ کلام یں فرماتے ہیں؂

تو ابھی رہگزر میں ہے قید مقام سے گزر
مصر و حجاز سے گزر، پارس و شام سے گزر

بڑھ کے خیبر سے ہے یہ معرکہ دین وطن
اس زمانہ میں کوئی حیدر کرار بھی ہے

نہ چینی و عربی نہ رومی و شامی
سما سکا نہ دو عالم میں مرد آفاقی

اقبال کی زندگی میں ترکوں کے مقابلہ میں انگریزوں نے جس طرح عربوں میں قومیت کی روح بیدار کی اس کے خطرناک نتائج نے ملت کو متنبہ کیا، اور عربوں کو بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے عرب کی کوئی اہمیت نہ تھی لیکن آپً کے بعد وہ ایک عالمی مذہب و تہذیب کا سرچشمہ بن گیا اور دنیا کی قیادت و امامت اس کے ہاتھ آگئی؂
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
277-278


نہیں وجود حدود و ثغور سے اس کا
محمد عربیً سے ہے عالم عربی!
اقبال کہتے ہیں کہ انسان کے واہمہ نے ہر دور میں نئے نئے بت بنائے ہیں، اسی طرح اس زمانہ کا بت انسان نے قوم و وطن کی شکل میں تراشا ہے، کمزور اور چھوٹی قوموں کی قربانی کا طالب رہتا ہے، اس لیے انسان کو انسانیت کی بحالی اور عالمی اخوت کے لیے اس بت کو توڑ دینا چاہیے؎
فکر انساں بت پرستے بت گرے
ہر زماں در جستجوئے پیکرے
باز طرح آذری انداخت ست
تازہ تر پروردگارے ساخت است
کایداز خوں ریختن اندر طرب
نام اورنگ ست وہم ملک و نسب
آدمیت کشتہ شد چوں گو سفند
پیش پائے ایں بت نا ارجمند
اے کہ خوردستی زمینائے خلیل
گرمی خونت زصہبائے خلیل
برسر ایں باطلِ حق پیرہن
تیغ لا موجود الا ھو بزن!

وہ اسلام کے بخشے ہوئے اس جہانی اندازِ نظر پر فخریہ کہتے ہیں:۔
فطرت نے مجھے بخشے ہیں جوہر ملکوتی
خاکی ہوں مگر خاک سے رکھتا نہیں پیوند
درویش خدامست نہ شرقی ہے نہ غربی
گھر میرا نہ دلی نہ صفاہاں نہ سمر قند
پھر ملت کی زبان سے کہتے ہیں؎
مسلما نیم و آزاد از مکانیم
بروں از حلقہ نہ آسمانیم
بما آمو ختند آں سجدہ کزوے
بہائے ہر خداوندے بدانیم
اسلامیت کی صفات کے بارہ میں کہتے ہیں، وہ غمخواری و دلداری اور فرد کے ملت میں گم ہوجانے کا نام ہے؎
مسلمانی غمِ دل در خریدن
چوں سیماب ازتب یاراں تپیدن
حضور ملت از خود در گذشتن
دگر بانگ انا العلت کشیدن
آج کل کی طرح پہلے بھی اقوام متحدہ (یونائیٹڈ نیشنز) جو پہلے (لیگ آف نیشنز) کہلاتی تھی، بڑی طاقتوں کے اشارہ پر کام کرتی تھی اور چھوٹے ملکوں کو اس کے ذریعہ انصاف مشکل سے مل پاتا تھا، اس کی ناکامی کے نتائج اقبال کے سامنے آچکے تھے، اس لیے وہ اس سے کچھ زیادہ پر امید نہیں تھے، بلکہ اسے کفن چوروں کی انجمن کہنے لگے تھے، جو انہوں نے تقسیم قبور کے لیے بنائی ہے۔
اقبال کہتے ہیں کہ مغربی قومیں مشرق اور ایشیا کو عدل و مساوات کا حق دینا نہیں چاہتیں اور ہمیشہ انہیں کمزور دیکھنا چاہتی ہیں اسی لیے وہ جب مجبوراََ دنیا کو متحد کرنے اٹھتی بھی ہیں تو وحدتِ انسانیت کے نام سے نہیں بلکہ وحدتِ اقوام کے نام پر۔
یہ طریقہ انہوں نے اس مقصد سے اپنایا ہے کہ قوموں کے اندر احساس قومیت بیدار ہے اور وہ باہمی رقابت و عدوات کا کھیل کھیلتی رہیں اور اس طرح بڑی قوموں کو مداخلت اور ثالثی کا موقع ملتا رہے، "مکہ اور جنیوا" کے عنوان سے انہوں نے لکھا تھا؎
اس دور میں اقوام کی صحبت بھی ہوئی عام
پوشیدہ نگاہوں سے رہی وحدتِ آدم
تفریق ملل حکمت افرنگ کا مقصود
اسلام کا مقصود فقط ملتِ آدم!
مکے نے دیا خاک جنیوا کو یہ پیغام
جمعیتِ اقوام کہ جمعیتِ آدم؟
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
279-280

جاوید نامہ میں نظریہ قومیت پر تنقید فرماتے ہوئے لکھتے ہیں:۔
لُرد مغرب آں سراپا مکر و فن
اہل دیں را داد تعلیم وطن
او بفکر مرکز تودر نفاق
بگزراز شام و فلسطین و عراق
تو اگر داری تمیز خوب و زشت
دل نہ بندی باکلوخ و سنگ و خشت
چیست دیں برخوامتن ازر وئے خاک
تاز خو آگاہ گرد و جانِ پاک
گرچہ آدم برد مید از آب و گل
رنگ نم چوں گل کشید از آب و گل
حیف اگر در آب و گل غلطد مدام
حیف اگر برتر نہ پر دزیں مقام
گفت تن در شو بخاک رہ گزر
گفت جاں پہنائے عالم رانگر
جاں نگنجد در جہات اے ہوشمند
مرد حر بیگانہ از ازہر قید و بند
حرز خاکِ تیرہ آید در خروش
زانکہ از بازاں نیاید کارموش
انہوں نے آل انڈیا ریڈیو (لاہور) کی استدعا پر یکم جنوری ؁1935 کو سال نو کے موقع پر اپنے پیغام میں دنیا کو انسان دوستی کی طرف بلایا اور قومیت کو ہلاکت خیزیاں یاد دلائیں۔
"آج زمان و مکان کی پہنائیاں سمٹ رہی ہیں اور انسان نے فطرت کے اسرار کی نقاب کشائی اور تسخیر میں حیرت انگیز کامیابی حاصل کی ہے، لیکن اس تمام ترقی کے باوجود استبداد نے جمہوریت، قومیت، اشتراکیت اور فسطائیت اور نہ جانے کیا کیا نقاب اوڑھ رکھے ہیں۔
ان نقابوں کی آر میں دنیا بھر میں قدر حریت اور شرف انسانیت کی ایسی مٹی پلید ہورہی ہے کہ تاریخ عالم کو کوئی تاریک سے تاریک صفحہ بھی اس کی مثال نہیں پیش کرسکتا۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔
وحدت صرف ایک ہی معتبر ہے اور وہ بنی نوع انسان کی وحدت ہے، جو نسل و زبان و رنگ سے بالاتر ہے، جب تک اس نام نہاد جمہوریت اس ناپاک قوم پرستی اور اس ذلیل ملوکیت کی لعنتوں کو پاش پاش نہ کردیا جائے گا، جب تک انسان اپنے عمل کے اعتبار سے "الخلق عیال اللہ" کے اصول کا قائل نہ ہوجائے گا، جب تک جغرافیائی وطن پرستی اور رنگ و نسل کے اعتبارات کو نہ مٹایا جائےگا، اس وقت تک انسان اس دنیا میں فلاح و سعادت کی زندگی بسر نہ کرسکیں گے اور اخوت، حریت اور مساوات کے شاندار الفاظ شرمندہ معنی نہ ہونگے"
خطبہ صدارت مسلم کانفرنس منعقدہ لاہور ؁1936 میں فرمایا تھا:۔
"میں یورپ کے پیش کردہ نیشنلزم کا مخالف ہوں اس لیے کہ مجھے اس تحریک میں مادیت اور الحاد کے جراثیم نظر آرہے ہیں اور یہ جراثیم میرے نزدیک دور حاضر کی انسانیت کے لیے شدید ترین خطرات کا سر چشمہ ہیں۔
اگرچہ حبِ وطن ایک فطری امر ہے اور اس لیے انسان کی اخلاقی زندگی کا ایک جز ہے لیکن جو شے سب سے زیادہ ضروری ہے وہ انسان کا مذہب، اس کا کلچر اور اس کی ملی روایات ہیں۔ یہی وہ چیزیں ہیں جن کے لیے
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
281-282


انسانوں کو زندہ رہنا چاہیے اور جن کی خاطر انہیں اپنی جان قربان کرنی چاہیے، وہ خطہ زمین جس میں وہ رہتا ہے اور جس کے ساتھ عارضی طور پر اس کی روح وابستہ ہوتی ہے، اس لائق نہیں کہ اسے خدا اور مذہب سے برتر قرار دیا جائے۔"
اپنی وفات سے ایک ماہ پہلے مارچ ؁1938 میں انہوں نے اپنے ایک مضمون میں لکھا تھا:۔
"قدیم الایام سے اقوام اوطان کی طرف اور اوطان اقوام کی طرف منسوب ہوتے چلے آئے ہیں، ہم سب ہندی ہیں اور ہندی کہلاتے ہیں۔ کیونکہ ہم سب کرہ ارضی کے اس حصہ میں بود و باش رکھتے ہین، جو ہند کے نام سے موسوم ہے، علیٰ ہذالقیاس، چینی، عربی، جاپانی، ایرانی وغیرہ
وطن محض ایک جغرافیائی اصطلاح ہے اور اس حیثیت سے اسلام سے متصادم نہیں ہوتا، ان وطنوں میں ہر انسان فطری طور پر اپنے جنم بھوم سے محبت رکھتا ہے اور بقدر اپنی بساط کے اس کے لیے قربانی کرنے کو تیار رہتا ہے، مگر زمانہ حال کے سیاسی لٹریچر میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وطن کا مفہوم محض جغرافیائی نہیں بلکہ "وطن" ایک اصول ہے، ہئیت اجتماعیہ انسانیہ کا اور اسی اعتبار سے ایک سیاسی تصور ہے، چونکہ اسلام بھی ایک ہئیت اجتماعیہ انسانیہ کا قانوں ہے۔ اس لیے جب لفظ "وطن" کو ایک سیاسی تصور کے طور پر استعمال کیا جائے تو وہ اسلام سے متصادم ہوتا ہے۔"​


عورت، اقبال کے کلام میں[1]


جدید اردو شاعری میں غالباََ حالی و اقبال ہی دو ایسے شاعر ہیں جن کے یہاں غزلوں میں صنفی آلودگی، عریانیت اور سطحیت نہیں ملتی۔ بلکہ اس کے برخلاف عورت کے مقام و احترام اور اس کی حیثیت عرفی کو بحال کرنے میں ان دونوں کا بڑا ہاتھ نظر آتا ہے۔
اقبال عورتوں کے لیے وہی طرز حیات پسند کرتے تھے جو صدر اسلام میں پایا جانا تھا، جس میں عورتیں مروجہ برقع کے نہ ہوتے ہوئے بھی شرم و حیا اور احساسِ عفت و عصمت میں آج سے کہیں زیادہ آگے تھیں اور شرعی پردے کے اہتمام کے ساتھ ساتھ زندگی کی تمام سرگرمیوں میں حصہ لیتی تھیں۔
؁1912 میں طرابلس کی جنگ میں جب ان کو اس کا ایک نمونہ دیکھنے کو ملا یعنی ایک عرب لڑکی فاطمہ بنت عبداللہ غازیوں کو پانی پلاتے ہوئے شہید ہوئی تو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1]اضافہ از قلم مترجم​
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
283-284

انہوں نے اس کا زور دار ماتم کیا:۔
فاطمہ! تو آبروئے امتِ مرحوم ہے
ذرہ ذرہ تیری مشتِ خاک کا معصوم ہے
یہ سعادت و حور صحرائی تری قسمت میں تھی
غززیانِ دیں کی سقائی تری قسمت میں تھی
یہ جہاد اللہ کے رستے میں بے تیغ و سپر
ہے جسارت آفریں شوق شہادت کسقدر
یہ کلی بھی اس گلستانِ خزاں منظر میں تھی
ایسی چنگاری بھی یارب اپنی خاکستر میں تھی
اپنے صحرا میں بہت آہوا بھی پوشیدہ ہیں
بجلیاں برسے ہوئے بادل میں بھی خوابیدہ ہیں
فاطمہ! تیری خاک کا کتنا نشاط انگیز ہے
ذرہ ذرہ زندگی کی سوز سے لبریز ہے
ہے کوئی ہنگامہ تیری تربت خاموش میں
پل رہی ہے ایک قوم تازہ اس آغوش میں
انہیں ہنرو رانِ ہند اور ایسے تمام فن کاروں سے شکایت تھی جو عورت کے نام کا غلط استعمال کرکے ادب کی پاکیزگی، بلندی اور مقصدیت کو صدمہ پہنچاتے ہیں، وہ اپنی ایک نظم میں کہتے ہیں۔
چشم آدم سے چھپاتے ہیں مقامات بلند
کرتے ہیں روح کو خوابیدہ بدن کو بیدار
ہند کے شاعر و صورتگر و افسانہ نویس
آہ بیچاروں کے اعصاب پہ عورت ہے سوار
وہ "دخترانِ ملت" سے خطاب کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ مسلمان خاتون کے لیے دلبری اور بناؤ سنگار ایک معنی میں کفر ہے، بلکہ انہیں تو اپنی شخصیت، انقلابی فطرت اور پاکیزہ نگاہی سے باطل کی امیدوں پر پانی پھیر دینا چاہیے۔
بہل اے دخترک ایں دلبری ہا
مسلمان رانہ زیبد کافری ہا
منہ دل برجمال غازہ پرور
بیا موز از نگہ غار تگری ہا
وہ کہتے ہیں کہ مسلمان عورت کو پردہ کے اہتمام کے ساتھ بھی معاشرہ اور زندگی میں اس طرح رہنا چاہیے کہ اس کے نیک اثرات معاشرہ پر مرتب ہوں اور اس کے پرتو سے حریم کائنات اس طرح روشن رہے جس طرح ذات باری کی تجلی حجاب کے باوجود کائنات پر پڑ رہی ہے؂
ضمیر عصر حاضر بے نقاب ست
کشادش در نمود رنگ آب ست
جہاں تابی زنور حق بیاموز
کہ اوباصد تجلی در حجاب ست
وہ دنیا کی سرگرمیوں کی اصل ماؤں کی ذات کو قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان کی ذات امینِ ممکنات ہے اور انقلاب انگیز مضمرات کی حامل اور جو قومیں ماؤں کی قدر نہیں کرتیں ان کا نظامِ زندگی سنبھل نہیں سکتا؂
جہاں را محکمی از امہات ست
نہادِ شاں امین ممکنات ست
اگر یاں نکتہ را قومے نداند
نظام کاروبارش بے ثبات ست
وہ اپنی صلاحیتوں اور کارناموں کو اپنی والدہ محترمہ کا فیض نظر بتاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آداب و اخلاق تعلیم گاہوں سے نہیں ماؤں کی گود سے حاصل ہوتے ہیں؂
مراداد ایں خرد پرور جنو نے
نگاہ مادرِ پاک اندرو نے
زمکتب چشم و دل نتواں گرفتن
کہ مکتب نیست جز سحر و فسونے
وہ قوموں کی تاریخ اور ان کے ماضی و حال کو ان کی ماؤں کا فیض قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ماؤں کی پیشانیوں پر جو لکھا ہوتا ہے وہی قوم کی تقدیر ہوتی ہے؂
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
285-286


خنک آں ملتے کز وارد اتش
قیامت ہا بہ بیند کائناتش
چہ پیش آیدچہ پیش افتادا درا
تواں دید از جبینِ امہاتش
وہ ملت کی خواتین کو دعوت دیتے ہیں کہ ملت کی تقدیر سازی کا کام کریں اور ملت کی شام الم کو صبحِ بہار سے بدل دیں اور وہ اس طرح گھروں میں قرآن کا فیض عام کریں جیسے حضرت عمرؓ کی ہمشیر نے اپنی قرآن خوانی سے ان کی تقدیر بدل دی اور اپنے لحن و لہجہ کے سوز و ساز سے ان کے دل کو گداز کردیا تھا؂
زشام مابروں آور سحر را
بہ قرآں باز خواں اہل نظر را
توی دانی کہ سوز قرأت تو
دگرگوں کرد تقدیر عمرؓ را
اقبال معاشرتی اور عائلی زندگی میں ماں کے مرکزی مقام کے قائل ہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ خاندانی نظام میں جذبہ امومت اصل کا حکم رکھتا ہے اور اسی کے فیض سے نسل انسانیت کا باغ لہلہاتا رہتا ہے، ان کا خیال ہے کہ جس طرح گھر سے باہر کی زندگی میں مردوں کو فوقیت حاصل ہے، اسی طرح گھر کے اندر کی سرگرمیوں میں عورت اور خصوصاََ ماں کی اہمیت ہے، اس لیے کہ اس کے ذمہ نئی نسل کی داشت و پراخت اور دیکھ بھال ہوتی ہے، انسان کا پہلا مدرسہ ماں کی گود ہوتی ہے، ماں جتنی مہذب، شائستہ اور بلند خیال ہوگی بچے پر بھی اتنے ہی یہ اثرات مرتب ہوں گے۔ اور ایک اچھی اور قابل فخر نسل تربیت پاسکتے گی؂
وہ فیضان نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی
سکھائے کس نے اسماعیلؑ کو آداب فرزندی
اقبال کی نظر میں عورت کا شرف و امتیاز اس کے ماں ہونے کی وجہ سے ہے۔۔۔ ۔جو قومیں امومت (حق مادری) کے آداب نہیں بجا لاتیں تو ان کا نظام ناپائدار اور بے اساس ہوتا ہے اور خاندانی امن و سکون درہم برہم ہوجاتا ہے، افراد خاندان کا باہمی اتحاد و اعتماد ختم ہو جاتا ہے، چھوٹے بڑے کی تمیز اٹھ جاتی ہے اور بالآخر اقدار عالیہ اور اخلاقی خوبیاں دم توڑ دیتی ہیں، ان کے خیال میں مغرب کا اخلاقی بحران اسی لیے رونما ہوا ہے کہ وہاں ماں کا احترام اور صنفی پاکیزگی ختم ہوگئی ہے۔
وہ آزادئ نسواں کی تحریک کے۔۔۔ ۔۔ اسی لیے حامی نہیں کہ اس کا نتیجہ دوسرے انداز میں عورتوں کی غلامی ہے، اس سے ان کی مشکلات آسان نہیں اور پیچیدہ ہو جائیں گی، اور انسانیت کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوگا کہ جذبہ امومت ختم ہوجائے گا۔ ماں کی مامتا کی روایت کمزور پڑ جائے گی، اسی لیے وہ کہتے ہیں کہ جس علم سے عورت اپنی خصوصیات کھو دیتی ہے وہ علم نہیں بلکہ موت ہے اور فرنگی تہذیب قوموں کو اسی موت کی دعوت دے رہی ہے:۔
تہذیب فرنگی ہے اگر مرگِ امومت
ہے حضرتِ انساں کے لیے اس کا ثمر موت
جس علم کی تاثیر سے زن ہوتی ہے نا زن
کہتے ہیں اسی علم کو ارباب نظر موت
بیگانہ رہے دیں سے اگر مدرسہ زن
ہے عشق و محبت کے لیے علم و ہنر موت

علم اوبارِ امومت برنتافت
برسرِ شاخش یکے اختر نتافت
ایں گل ازبستانِ مانا رستہ بہ
داغش از دامانِ ملت شستہ بہ
اقبال کے خیال میں آزادئ نسواں ہو یا آزادئ رجال یہ دونوں کوئی معنی نہیں رکھتے، بلکہ مرد و زن کو ربط باہمی، ایثار اور تعاون ایک دوسرے کے لیے ضروری ہے۔ زندگی کا بوجھ ان دونوں کو مل کر اٹھانا اور زندگی کو آگے بڑھانا ہے،
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
287-288


ایک دوسرے سے عدم تعاون کا سبب زندگی کا کام ادھورا اور اس کی رونق پھیکی ہوجائے گی۔ اور بالآخر یہ نوع انسانی کا نقصان ہوگا۔
مرد و زن وابستہ یک دیگر ند
کائنات شوق را صورت گراند
زن نگہ دارندہ نارِ حیات
فطرت او لوحِ اسرارِ حیات
آتش مارا بجانِ خود زند
جوہر او خاک را آدم کند
در ضمیرش ممکناتِ زندگی
ازتب و تابش ثباتِ زندگی
ارجِ ما از ارجمندی ہائے او
باہمہ از نقشبندی ہائے او
اقبال فرماتے ہیں ہیں کہ عورت اگر علم و ادب کی کوئی بڑی خدمت انجام نہ دے سکے تب بھی صرف اس کی مامتا ہی قابل قدر ہے، جس کے طفیل مشاہیر عالم پروان چڑھتے ہیں اور دنیا کا کوئی انسان نہیں جو اس کا ممنون احسان نہیں؂
وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوزِ دروں
شرف میں بڑھ کے ثریا سے مشتِ خاک اس کی
کہ ہر شرف ہے اسی درج کا درِمکنوں
مقالمات فلاطون نہ لکھ سکی لیکن
اسی کے شعلے سے ٹوٹا شرارِ افلاطون!

آزادئ نسواں کی تحریک سے مرد و زن کا رشتہ جس طرح کٹا اور اس کے جو برے نتائج سامنے آئے اقبال کی نظر میں اس کی ذمہ دار مغربی تہذیب ہے، "مرد فرنگ" کے عنوان سے کہتے ہیں۔
ہزار بار حکیموں نے اس کو سلجھایا
مگر یہ مسئلہ زن رہا وہیں کا وہیں
قصور زن کا نہیں ہے کچھ اس خرابی میں
گواہ اس کی شرافت پر ہیں مہ و پرویں
فساد کا ہے فرنگی معاشرت میں ظہور
کہ مرد سادہ ہے بیچارہ زن شناس نہیں

کوئی پوچھے حکیم یورپ سے
ہند و یوناں ہیں جس کے حلقہ بگوش
کیا یہی ہے معاشرت کا کمال
مرد بیکار و زن تہی آغوش
اقبال پردے کی حمایت میں کہتے ہیں کہ پردہ عورت کے لیے کوئی رکاوٹ نہیں وہ پردے میں رہ کر تمام جائز سرگرمیوں میں حصہ لے سکتی ہے اور اپنے فرائض کی انجام دہی کرسکتی ہے، کیونکہ خالق کائنات پس پردہ ہی کار گاہِ عالم کو چلا رہا ہے۔ اس کی ذات گو حجاب قدس میں ہے لیکن اس کی صفات کی پرچھائیاں بحر و بر پر پھیلی ہوئی ہیں، مولانا آسی نے خوب کہا ہے؂
بے حجابی یہ کہ ہر شے سے ہے جلوہ آشکار
اس پر پردہ یہ کہ صورت آج تک نادیدہ ہے

اقبال عورت کو خطاب کرتے ہیں کہ؂

جہاں تابی زنور حق بیاموز
کہ اوبا صد تجلی درحجاب است
وہ پردہ کے مخالفوں کے جواب میں کہتے ہیں کہ پردہ جسم کا حجاب ہے لیکن اسے عورت کی بلند صفات اور پنہاں امکانات کے لیے رکاوٹ کیسے کہا جاسکتا ہے۔ اصل سوال یہ نہیں کہ چہرے پر پردہ ہو یا نہ ہو بلکہ یہ ہے کہ شخصیت اور حقیقت ذات پر پردے نہ پڑے ہوں اور انسان کی خودی بیدار اور آشکار ہو چکی ہو؂
بہت رنگ بدلے سپہر بریں نے
خدایا یہ دنیا جہاں تھی وہیں ہے
تفاوت نہ دیکھا زن وشو میں میں نے
وہ خلوت نشیں ہے، یہ جلوت نشیں ہے
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top