نقوش اقبال از مولانا سید ابو الحسن علی ندوی ( مکمل صفحات)

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

عائشہ عزیز

لائبریرین
29 اور 30


مخدومی رشید احمد صدیقی نے بہت صحیح کہا ہے کہ اقبال پر دنیا کے بڑے مذہب کی گرفت اتنی نہیں جتنی ایک بڑی شخصیت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے۔
اب نفس کتاب سے متعلق چند تصریحات ضروری معلوم ہوتی ہیں، فکری لحاظ سے بھی "اقبال اور مغربی تہذیب و ثقافت" "اقبال اور عصری نظام تعلیم"
"اقبال کا نظریہ علم و فن" "انسانِ کامل اقبال کی نظر میں" "شخصیت اقبال کے تخلیقی عناصر" اس مجموعہ کے اہم مضامین ہیں دونوں مواخر الذکر ترجمے جناب طیب صاحب عثمانی ندوی کے ہیں، جو ان کی کتاب "حدیثِ اقبال" سے لئے گئے ہیں، "اقبال درِ دولت پر" کا ترجمہ مولانا محمد الحسنی مدیر "البعث الاسلامی" کے قلم سے
ہے جو "کاروان مدینہ" سے لیا گیا ہے۔
"روائع اقبال " سلسلے میں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ اس کے اولین مخاطب عرب تھے اور یہ انہیں کو سامنے رکھ کر لکھی گئی تھی، اس لیے اس میں اقبال کے کلام کے وہ حصے خصوصیت سے لئے گئے تھے جو عربوں سے متعلق تھے، مثلاََ "بلاد عرب کے نام" پس چہ بایدکرو کی نظم "حرفے چند با امت عربیہ" کا ترجمہ ہے، مسجد قرطبہ، ذوق و شوق، طارق کی دعا، ابو جہل کی نوحہ گری، جاہلیت کی باز گشت بھی عربوں سے متعلق ہے، لیکن عجم کے صاحب ذوق بھی ان سے پورا لطف اٹھا سکتے ہیں۔
روائع کا مقصد عرب ممالک میں اقبال کا تعارف تھا، اس لیے ان کے سوانح و افکار کے اجمالی جائزہ کے ساتھ ہی ان کی چند بہترین شاہکار نظموں کا ترجمہ بھی کیا گیا تھا، اس سلسلے میں میں سمجھتا ہوں کہ اقبال کی بہترین نظمیں اس مجموعہ میں آگئی ہیں "یعنی مسجد قرطبہ، ذوق و شوق، ابلیس کی مجلس شوریٰ ساقی نامہ ، جاوید نامہ " اور "مثنوی مسافر" کے اہم حصے بھی اس میں شامل ہوگئے ہیں، اردو میں اس ترجمے کے ترجمے کا زیادہ لطف تو نہیں لیکن مصنف کے جذبات و خیالات کی اہمیت کے پیش نظر اس کا بھی ایک خاص مقام ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ "روائع اقبال" کی عرب دنیا میں بڑی اہمیت ہے، اس سے پہلے جناب عبد الوہاب عزام۔۔۔ (سفیر مصر) نے اقبال کا عربی میں منظوم ترجمہ کیا تھا اور ایک مصری فاضل عباس محمود نے "تجدید التفکیر الدینی فی الاسلام" بھی لکھی تھی۔
لیکن اقبال کا تعارف نہیں ہوسکا تھا، چنانچہ عالم عربی کے اسلامی ادیب علمی طنطاوی نے مولانا کے نام مجلّہ المسلمون (دمشق) میں ایک کھلا خط شائع کیا جس میں انہیں اس کام کی طرف متوجہ کیا گیا تھا، مولانا نے انہی تقاضوں کے پیش نظر چند مضامین سپرد قلم کیے جو کتاب بن گئے۔ "روائع اقبال" منظوم ترجمہ نہیں لیکن اس کی فصاحت و ادبیت اتنی مسحور کن ہے کہ اسے شعر منشور کہا جاسکتا ہے لیکن مجھے افسوس ہے کہ اردو ترجمہ میں اصل خوبیاں نہیں آسکی ہیں۔
یہ کتاب اقبالیات میں کوئی اہم اضافہ تو نہیں لیکن اقبال کے شائقین کی دلچسپی کی چیز ضرور ہے اور اپنے بعض پہلوؤں خصوصاََ دعوتی طرز فکر کی صحت اور ذوق کی اسلامیت کے لیے ممتاز ہے، ویسے بھی اقبال کے سلسلے میں کوئی حرف آخر کہنے کا دعویٰ کیا بھی نہیں جاسکتا۔
شوق گرزندہ جا دید بنا شد عجب است
کہ حدیث تو دریں یک دو نفس نتواں گفت

شمس تبریز خان، دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ
یکم ربیع الاول ؁1389 ہجری
مطابق 19 مئی ؁1969
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
31 اور 32​
میرا تعلق اقبال اور ان کے فن سے


میری نشوونما اس عہدمیں ہوئی جب اقبال کا فن شہرت کے بام عروج پر پہنچ چکا تھا اقبال کا اپنے عہد پر جو اثر تھا اس کی مثال کسی زمانے کے شاعر و ادیب میں نہیں ملتی، اس لیے اگر میں نے انہیں اپنے بچپن میں پسند کیا اور جب سن تمیز کو پہونچ کر ان کو اپنا موضوع بنایا، تو یہ محل تعجب نہیں۔
اقبال کو پسند کرنے کے اسباب بہت ہوسکتے ہیں اور ہر شخص اپنی پسند کے مختلف وجوہ بیان کرسکتا ہے، انسان کی پسند کی وجہ یہی ہوتی ہے کہ وہ کسی فن پارے کو اپنے خوابوں کا ترجمان اور اپنے دل کی زبان پانے لگتا ہے، انسان بہت خودنین درخود پسند واقع ہوا ہے۔ اس کی محبت اور نفرت تمناؤں اور دلچسپیوں کا مرکز و محور بڑی حد کت اس کی ذات ہی ہوتی ہے، اس لیے اسے ہر وہ چیز اپیل کرتی ہے، جو اس کی آرزؤں کا ساتھ دے سکے اور اس کے احساسات سے ہم آہنگ ہوجائے۔ میں بھی اپنے کو اس کلیہ سے الگ نہیں کرتا میں نے کلام اقبال کو عام طور پر اسی لیے پسند کیا ہے کہ وہ میری پسند کے معیار پر پورا اترتا۔ اور میرے جذبات و محسوسات کی ترجمانی کرتا ہے۔ وہ میرے فکر و عقیدہ ہی کے ساتھ ہم آہنگ نہیں بلکہ اکثر میرے شعور اور احساسات کا بھی ہم نوا بن جاتا ہے۔
سب سے بڑی چیز جو مجھے ان کے فن کی طرف لے گئی وہ بلند حوصلگی محبت اور ایمان ہے، جس کا حسین امتزاج ان کے شعر اور پیغام میں ملتا ہے اور جس کا ان کے معاصرین میں کہیں پتہ نہیں لگتا، میں بھی اپنی طبیعت اور فطرت میں انہی تینوں کا دخل پاتا ہوں، میں ہر اس ادب اور پیغام کی طرف بے اختیار بڑھتا ہوں جو بلند نظری، عالی حوصلگی اور احیاء اسلام کی دعوت دیتا اور تسخیر کائنات اور تعمیر انفس و آفاق کے لیے ابھارتا ہے جو مہر و وفا کے جذبات کو غذا دیتا اور ایمانی شعور کو بیدار کرتا ہے، جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت اور ان کے پیغام کی آفاقیت و ابدیت پر ایمان لاتا ہے۔
میری پسند اور توجہ کا مرکز و اسی لیے ہیں کہ بلند نظری، محبت اور ایمان کے شاعر ہیں، ایک عقیدہ، دعوت اور پیغام رکھتے ہیں اور مغرب کی مادی تہذیب کے سب سے بڑی ناقداور باغی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ اسلام کی عظمت رفتہ اور مسلمانوں کے اقبال گزشتہ کے لیے سب سے زیادہ فکر مند، تنگ نظر قومیت و وطنیت کے سب سے بڑے مخالف اور انسانیت و اسلامیت کے عظیم داعی ہیں۔
میں نے بچپن اور عنفوان شباب میں ان کے شعر پڑھنا شروع کیے۔ بعض نظموں کو عربی کا جامہ پہنانے کی کوشش بھی کی لیکن صحیح یہ ہے کہ میں نے اس وقت صرف "بانگ درا" پڑھی تھی۔ ان کے فارسی مجموعے نکل چکے تھے لیکن اس وقت تک میں ان کا ذوق شناس نہیں ہوا تھا۔
اقبال سے میری پہلی ملاقات ؁1939 میں ہوئی جب میں اپنی عمر کے سولہویں سال میں تھا، یہ وہ موقع تھا جب میں نے شہر علم و ثقافت ۔۔۔ لاہور ۔۔۔۔۔ کی سیر کی، مئی کے آخر گرم دن تھے جب ڈاکٹر عبد اللہ چغتائی (حال استاذ اسلامی فن تعمیر پنجاب یونیورسٹی) مجھے اقبال کی خدمت میں لے گئے
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
33 اور 34


اور مجھے ان کے شعر کے شائق کی حیثیت سے پیش کیا وہاں انہوں نے میرے والد مرحوم مولانا حکیم سید عبد الحی حسنی (م 1341ھ) کا بھی ذکر کیا جنہیں اقبال اور دوسرے ادیب و نقادان کی گرانقدر کتاب "گل رعنا" کی وجہ سے جانتے تھے، جو تازہ نکلی تھی اور لوگوں کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی تھی۔
میں نے اس صحبت میں ان کی نظم "چاند" کا عربی ترجمہ انہیں پیش کیا اقبال نے اسے دیکھ کر مجھ سے بعض عرب شعراء کے متعلق کچھ ایسے سوالات بھی کیے جن میں سے میری معلومات کا اندازہ ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کے بعد مجلس ختم ہوئی اور میں اس عظیم شاعرہ کی تواضع، سادگی، بے تکلفی کا نہایت اچھا اثر لے کر واپس ہوا، جو ان کی بات چیت اور زندگی میں نظر آتی تھی۔
1929۔۔1937ء کے درمیان لاہور میرا اکثر جانا اور مہینوں ٹھہرنا ہوتا لیکن یہ سوچ کر اس عظیم شاعر سے ملنے کی تمنا نہیں پیدا ہوتی تھی کہ ابھی تو وہ بہت دنوں ہمارے لیے رہیں گے ویسے بھی بڑے لوگوں سے ملنے کے معاملے میں میں طبعاََ شرمیلا اور عزلت پسند واقع ہوا ہوں میری طالب علمانہ زندگی اور مصروفیت کو بھی اس میں دخل تھا۔
اس مدت میں ان کے دو اردو مجموعے ان کی فارسی گوئی کے طویل زمانے کے بعد منظر عام پر آئے تھے، اسلامی اور ادبی حلقوں میں ان کا بڑا چرچا تھا اور واقعہ بھی یہ تھا کہ ان میں ان کی شاعری اور ان کے فکر کی پختگی بہت نمایاں اور ان کی دعوت بہت واضح تھی۔
اس وقت "ضرب کلیم" کو میں زیادہ پسند کرتا تھا اگرچہ بعد میں "بال جبریل" کی طرف میری توجہ اور دلچسپی بڑھتی گئی اور نقل و ترجمہ کا کام زیادہ تر اسی سے لیا گیا۔
میں اس وقت دارالعلوم ندوۃ العلماء میں تدریسی فرائض انجام دیتا تھا، برادر محترم مولانا مسعود عالم ندوی مرحوم کے ساتھ ہی مقیم تھا۔ اس لیے اقبال کے شعر ہم ایک دوسرے کو سناتے اور لطف لیتے تھے، مولانا مسعود عالم صاحب کی اقبال کے بارے میں حمایت حمیت تک پہنچی ہوئی تھی، وہ ان کے بڑے پرجوش مبلغ تھے۔
ہمیں یہ بات کھٹکتی تھی کہ ٹیگور، اقبال کے مقابلے میں بلاد عربیہ میں زیادہ روشناس ہیں اور مصر و شام وغیرہ کے عرب ادیب ان کے عام طور پر گرویدہ ہیں، ہم اس صورت حال کو اپنی ہی کوتاہی کا نتیجہ سمجھتے تھے کہ ہم نے اقبال کو متعارف نہیں کرایا عربی مجلات میں ٹیگور وغیرہ پر جب کبھی ہم تعریفی مقالات دیکھتے تو اقبال کے عربی ترجمہ کا عزم تازہ ہوجاتا اور اسے اپنے ذمہ قرض و امانت سمجھنے لگتے۔
خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ اسلام کے اس عظیم شاعری کی وفات سے چند ماہ پہلے ایک تفصیلی اور تاریخی ملاقات کا موقع ملا۔ (16 رمضان ؁1356۔ 22 نومبر ؁1937) کی تاریخ تھی جب میں اپنے پھوپھا مولانا سید طلحہ [1] حسنی (سابق استاذ اورینٹل کالج لاہور) کے ساتھ اقبال کے دولت کدے پر گیا برادر عزیز مولوی سید ابراہیم حسنی بھی میرے ساتھ تھے، یہ اقبال کی طویل علالت کا زمانہ تھا، لیکن وہ بڑے نشاط و انبساط کے ساتھ ملے ہوسکتا ہے کہ ہم لوگوں کی آمد سے انہیں یہ وقتی مسرت حاصل ہوئی ہو، غرض اس دن ان کی طبیعت کے بند کھل گئے تھے، ہماری نشست بڑے خوشگوار ماحول میں جاری رہی ان کا بوڑھا خادم (علی بخش) بیچ بیچ میں آکر انہیں زیادہ بیٹھنے اور بات کرنے سے روکنا چاہتا لیکن وہ اسے ٹال جاتے اس صحبت میں ہر طرح کے موضوعات زیر بحث آتے رہے، سلسلہ گفتگو میں شعر جاہلیت کا ذکر آیا تو اقبال نے اس کی صداقت و واقعیت، اس کے جوش و خروش کا پسندیدگی کے ساتھ ذکر کیا اور حماسہ کے بعض اشعار پڑھے۔
وہ کہنے لگے کہ اسلام اپنے پیروؤں میں عملیت اور حقیقت پسندی پیدا کرتا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] افسوس ہے کہ جمعہ 22 رجب ؁1390ھ مطابق 25 ستمبر ؁1970 کو مولانا نے کراچی میں انتقال کیا۔
 

نایاب

لائبریرین
81
میں ہوں نومید تیرے ساقیان سامری فن سے
کہ بزم خاوراں میں لیکے آئے ساتگیں خالی
نئی بجلی کہاں ان بادلوں کے جیب و دامن میں
پرانی بجلیوں سے بھی ہے جنکی آستیں خالی
وہ دوسری تہذیب و افکار کی اندھی تقلید کی مذمت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ "وہ ہر قوم کے لیئے عار کی بات ہے اور اس قوم کے لیئے ناقابل معافی گناہ ہے جو قوموں کی قیادت اور عالمی انقلاب کے لیئے پیدا کی گئی ہے " کہتے ہیں ۔۔
جو عالم ایجاد میں ہے صاحب ایجاد
ہر دور میں کرتا ہے طواف اسکا زمانہ
تقلید سے ناکارہ نہ کر اپنی خودی کو
کر اس کی حفاظت کہ یہ گوہر ہے یگانہ
اس قوم کو تجدید کا پیغام مبارک
ہے جس کے تصور میں فقط بزم شبانہ
لیکن مجھے ڈر ہے کہ یہ آوازہ تجدید
مشرق میں ہے تقلید فرنگی کا بہانہ
وہ مشرق کی اسلامی اقوام کو ملامت کرتے ہیں ۔ جن کا منصب قیادت و امامت کا تھا ۔ لیکن وہ پست درجہ کی شاگردی اور ذلیل قسم کی نقالی کا کردار ادا کر رہی ہیں ۔ غالبا ترکوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں ۔۔
کر سکتے تھے جو اپنے زمانے کی امامت
وہ کہنہ دماغ اپنے زمانے کے ہیں پیرو
جاوید نامہ میں سعید حلیم پاشا کی زبان سے ترکی میں " کہانی اصلاح و انقلاب "کی سطعیت اس کے کھوکھلے پن اور اس کے داعی و زعیم (کمال اتاترک )کی فکری کہنگی اور یورپ کی بے روح نقالی کی مذمت کھلے طریقہ پر کی ہے ۔۔
مصطفے کو از تجدد می سرود
گفت نقش کہنہ را با ید زدود
نو نگرد و کعبہ را رخت حیات
گر نا فرنگ آمدش لات و منات
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
35 اور 36

اور ادھر آج کی سائنس بھی اپنی حقیقت پسندی اور تخیلات سے گریز میں اسلام سے قریب نظر آتی ہے، اسلام کی دو صدیوں میں مسلمانوں میں یہ روح زندہ رہی جس کے نتیجے میں وہ عقیدہ و عمل، سیرت و اخلاق کے جادہ استوار پر گامزن رہے لیکن یونانی فلسفہ الہٰیات نے مشرق کو مرد بیمار اور بیکار بنا دیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یورپ کی نشاۃ ثانیہ بھی اسی وقت ہوئی جب اس نے اپنے کندھوں سے فلسفہ مابعد الطبیعات کا جوا اتار پھینکا اور مفید نتیجہ خیز علوم کی طرف متوجہ ہوا، لیکن اس عہد میں وہ مسائل پیدا ہونے لگے جنہوں نے یورپ کو بھی رجعت پسندی کی لائن پر ڈال دیا، انہوں نے کہا کہ عربی مزاج اسلام کے للیے بہت ساز گار ثابت ہوا، لیکن عجمی تخیلات نے اسلام پر وہی ظلم کیا جو کلیسا نے یورپ پر کیا تھا، مجموعی طور پر آریائی فکر نے دونوں مذہبوں کو کم و بیش اپنی گرفت میں لے لیا۔
آپ نے تصوف کے ذکر میں بعض صوفیہ کے فکری غلو پر تنقید کی اور وجد و سماع کے بارے میں کہنے لگے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کو بجائے ان خیال آرائیوں کے شہسواری اور جانسپاری میں طرب و اہتزاز اور راحت و مسرت محسوس ہوتی تھی۔
ہندوستان میں اسلام کی تجدید و احیاء کی بات نکلی تو یہ شیخ احمد سرہندی شاہ ولی اللہ دہلوی، سلطان محی الدین عالمگیر کی بڑی تعریف کی اور فرمایا کہ میں ہمیشہ کہتا ہوں کہ اگر ان کا وجود اور ان کی جدوجہد نہ ہوتی تو ہندوستان تہذیب اور فلسفہ اسلام کو نگل جاتا، ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پاکستان کے بارے میں فرمایا [1] کہ جو قوم اپنا ملک نہیں رکھتی وہ اپنے مذہب و تہذیب کو بھی برقرار نہیں رکھ سکتی، دین و تہذیب حکومت و شوکت ہی سے زندہ رہتے ہیں، اس لیے پاکستان ہی مسلم مسائل کا واحد حل ہے اور یہی اقتصادی مشکلات کا حل بھی ہے، ضمناََ انہوں نے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] یہ پاکستان کے وجود میں آنے سے پورے دس برس پہلے کی بات ہے۔


اسلام کے نظام زکوٰۃ اور بیت المال کا بھی ذکر کیا۔
ہندوستان میں مسلمانوں کا مستقبل کے بارے میں فرمایا کہ میں نے بعض مسلم والیانِ ریاست و حکومت کو غیر مسلموں میں تبلیغ کی طرف توجہ دلائی۔۔۔ اور مسلمانوں میں بھی دعوت کے کام پر زور دیا۔۔۔ اور عربی زبان کی ترقی اور ایک عالمی بنک کے قیام کے بارے میں بھی بات چیت کی ۔۔۔ میرا خیال ہے کہ مسلمانوں کے معاملات کی وکالت کے لیے ایک بلند پایہ انگریزی اخبار بھی ضروری ہے جس سے ملت کی آواز میں طاقت اور اثر پیدا ہو، لیکن افسوس ہے کہ مسلم والیانِ ریاست نے مسئلے کی اہمیت نہیں سمجھی اور نہ انھیں خطرات کا احساس ہوا۔ ان کی تنگ نظری، پست خیالی اور خود غرضی کے وہ بہت شاکی تھے۔
ہم نے ڈاکٹر صاحب کی گفتگو سے اندازہ لگایا کہ وہ ابھی اس صحبت کو کچھ اور طول دینا چاہتے ہیں، لیکن ہم نے ان کے آرام کے خیال سے اجازت طلبی ہی مناسب سمجھی اور سلام کرکے رخصت ہوئے اور اسی دن یا دوسرے دن لاہور کو چھوڑا۔
مجھے یاد ہے کہ میں نے اس مجلس میں جب ان سے عربی ترجمہ کی اجازت لی تو وہ بہت خوش ہوئے اور اس کی اجازت دی میں نے "ضرب کلیم" کی اپنی بعض پسندیدہ نظمیں پڑھ کر سنائیں تو انہوں نے ڈاکٹر عبدالوہاب عزام کے عربی ترجمہ کے ارادے کا بھی ذکر کیا، چھ ماہ بعد اپریل ؁38 کو جب ہم نے ان کی خبر وفات سنی تو ان کے فن شخصیت پر کچھ کام کرنے کا عزم اور پختہ ہوگیا اور مین نے اس سلسلے میں رفیق محترم مولانا مسعود عالم صاحب کو پٹنہ خط لکھا جہاں وہ مقیم تھے ہم دونوں نے ایک دوسرے کی ماتم پرسی کی اور اس مہم میں تعاون کی وعدہ کیا انہوں نے یہ رائے ظاہر کی کہ وہ ان کی حیات و پیغام پر لکھیں اور میں ان کے شعر کو عربی جامہ پہناؤں اس لیے کہ ان کو ترجمہ کے کام سے زیادہ مناسبت نہیں ہے۔
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
37 اور 38

چنانچہ کام شروع ہوا اور میرے مرحوم دوست نے استاد محب الدین خطیب کی ادارت میں قاہرہ سے نکلنے والے رسالہ "الفتح" میں اقبال پر ایک مضمون لکھا اور میں نے ان کی زندگی پر ایک مقالہ لکھا جو بہت بعد میں حجاز ریڈیو سے نشر ہوا اس کے بعد تقریباََ 10 سال تک تعلیمی اور تصنیفی اشغال کی وجہ سے یہ سلسلہ بند رہا۔
؁1950 میں جب حجاز اور مصر و شام کے سفر کا اتفاق ہوا اور تقریبا ایک سال سے زائد قیام کا موقع ملا تو میں نے اقبال اور ان کے فکر و فن سے متعلق چند مقالات لکھے اور انہیں دارالعلوم اور قاہرہ یونیورسٹی میں پڑھا۔
ایک اور مقالہ ؁1956 کے سفر شام میں دمشق میں لکھنے کا اتفاق ہوا جو "محمد اقبال فی مدینہ الرسول" کے عنوان سے دمشق ریڈیو سے نشر ہوا لیکن اقبال کے ترجمہ پر آمادگی نہیں ہو پاتی تھی، اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ڈاکٹر عبدالوہاب عزام نے اس کام کو شروع کیا تھا، جو اپنی عربی فارسی لیاقت اور اقبال سے فکری تعلق کے بنا پر اس کے لیے بہت موزوں بھی تھے، بعد میں ان کے تراجم کے کئی مجموعے سامنے آئے [1]، لیکن میرے بعض دوستوں نے کہا کہ ترجمہ میں اصل کا زور اور تاثیر نہیں، اس لیے فکر اقبال کی واضح نقش آرائی اس سے نہیں ہوسکتی اور نہ وہ اقبال کی شہرت کے شایانِ شان ہے۔
میں نے بھی ان ترجموں کو جب دیکھا تو معلوم ہوا کہ ترجمہ، علم و فہم اور ان کی نظر میں کوئی خامی نہیں بلکہ اصل خرابی یہ ہے کہ انہوں نے منظوم ترجمہ کا بیڑا اٹھا کر اپنے ساتھ انصاف نہیں کیا جس سے اصل اور نقل دونوں کی خوبیاں سامنے نہیں آسکیں اور کہیں کہیں ژولیدگی نے اس پر اور اضافہ کردیا جو قاری اور ذوق شعری کے درمیان حائل ہو جاتی ہے۔
_________________________________________________________
[1] ان کے نام یہ ہیں رسالۃ المشرق، ضرب الکلیم، انہوں نے اسرار خودی و رموز بے خودی اور جاوید نامہ کے کچھ حصوں کا بھی ترجمہ کیا ہے۔



ان جیسے آدمی کے لیے عربی کا ادیب اور فارسی کا زبانداں ہے، یہ مناسب تھا کہ وہ فکر اقبال کو ہضم کرکے پھر سے اسے عربی نثر کا جامہ پہناتے جیسا کہ انہوں نے مصر کے مشہور رسالوں "الرسالہ" "الثقافۃ"کے بعض موثر مقالات میں کیا ہے۔
ظاہر ہے کہ ہر زبان کی خاص فضا، نفسیات اور تعبیرات ہوتی ہیں، جن کی جڑیں اس کی معاشرت اور تاریخ میں دیکھی جاسکتی ہیں۔
لفظی ترجمہ اگر ان باتوں سے خالی ہوگا تو اپنا جمال اور معنویت کھو دے گا۔ اس کے باوجود ڈاکٹر عزام کی خدمت اسلام و ادب کی ایک بڑی خدمت جوہر قدردانی اور شکر و اعتراف کی مستحق ہے اور خود ان کی عربیت، ان کے حسنِ طبیعت، عزم اخلاص اور اسلامی فکر سے محبت کی دلیل ہے، یہ اقبال کی خوش نصیبی تھی کہ انہیں عزام سا ترجمان ملا، اقبال کی روح ان کی اس محنت و محبت سے یقیناََ بہت مسرور ہو رہی ہوگی! اللہ انہیں جزائے خیر دے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں یہ کہہ رہا تھا کہ اپنی تنوع مصروفیات کے سبب ترجمہ کا کام شروع کرنے پر کوئی آمادگی نہیں تھی لیکن ایک واقعہ نے عزمِ خفتہ کو بیدار کردیا اور نشاط تازہ ہوگیا، میں نے دمشق کے موقر رسالہ "المسلمون" میں عربی کے مشہور ادیب علی طنطاوی کا کھلا خط پڑھا جس میں انہوں نے مجھے شعر اقبال کے ترجمہ کی دعوت دی کہ اقبال کا عرب میں تعارف ہو اور ان کی شاعری کے پیام کو صحیح شکل میں دیکھا جا سکے، انہوں نے لکھاتھا کہ کیا آپ شعر اقال کے منتخب حصے کا ترجمہ کرکے ہمیں اقبال اور ان کے فکر و عقیدہ کی عظمت کو سمجھنے اور اس کا راز معلوم کرنے کا موقع عنایت کریں گے اس لیے کہ ان کے عربی ترجمے ہمارے درمیان سے اجنبیت کی دیوار کو پوری طورح نہیں ڈھا سکے ہیں، کیا آپ اس جلیل القدر خدمت کو اپنی خدمات میں شامل کریں گے اور اس نظروں سے
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
39 اور 40

اوجھل چمن زار کی سیر کا موقع دیں گے یا ہدیہ شمیم و نکت بھیج کر اس گلستاں سے محروم لوگوں کو نوازیں گے [1]؟
اس پیشکش کا جواب گرمجوشی سے دیا گیا اور اس نے بجھی اور تھکی ہوئی طبیعت میں ازسر نو تازگی و آمادگی پیدا کردی جس کے نتیجے میں "مسجد قرطبہ" کا ایک ہی نشست میں ترجمہ تیار ہوگیا اور میں نے اپنے اندر کا ترجمہ کا ایک ایسا اندرونی تقاضہ اور جذبہ محسوس کیا جس کو میں دبا نہیں سکتا تھا، اس کے بعد مسلسل کئی مقالات لکھے گئے۔
یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ میں اقبال کو کئی معصوم و مقدس ہستی اور کوئی دینی پیشوا اور امام مجتہد نہیں سمجھتا اور نہ میں ان کے کلام سے استناد اورر مدح سرائی میں حد افراط کو پہونچا ہوا ہوں جیسا کہ ان کے غالی معتقدین کا شیوہ ہے، میں سمجھتا ہوں کہ حکیم سنائی، عطار اور عارف رومی، آداب شریعت کے پاس اور لحاظ اور ظاہر و باطن کی یک رنگی اور دعوت و عمل کی ہم آہنگی میں ان سے بہت آگے ہیں۔ اقبال کے یہاں اسلامی عقیدہ و فلسفہ کی ایسی تعبیریں بھی ملتی ہیں جن سے اتفاق کرنا مشکل ہے بعض پرجوش نوجوانوں کی طرح اس کا بھی قائل نہیں کہ اسلام کو ان سے بہتر کسی نے سمجھا ہی نہیں اور اس کے علوم و حقائق تک ان کے سوا کوئی پہنچا ہی نہیں بلکہ سچ تو یہ ہے کہ میں اپنی زندگی کے ہر دور میں اس کا قائل رہا ہے کہ وہ اسلامیات کے ایک مخلص طالب علم رہے اور اپنے مقتدر معاصرین سے برابر استفادہ کرتے رہے [2]۔
ان کی نادر شخصیت میں بعض ایسے کمزور پہلو بھی ہیں جو ان کے علم و فن اور پیغام کی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] المسلمون شمارہ 3 جلدی 6
[2] مولانا انور شاہ کشمیری، مولانا سید سلیمان ندوی، مولانا مسعود عالم ندوی کے نام خطوط سے ان کے اخلاق و تواضع اور علمی ذوق کا پتہ چلتا ہے۔



عظمت سے میل نہیں کھاتے [1] اور جنہیں دور کرنے کا موقع انہیں نہیں ملا، البتہ میں سمجھتا ہوں کہ اقبال وہ شاعر ہیں جن سے اللہ تعالیٰ نے اس زمانے کے مطابق بعض حکم و حقائق کہلوائے ہیں، جو کسی دوسرے معاصر شاعر و مفکر کی زبان سے نہیں ادا ہوئے۔ میرا خیال ہے کہ پیغام محمدی کے بقائے دوام، امت مسلمہ کے استحکام اور اس کی قائدانہ صلاحیت، عصری نظریات و فلسفہ کے بے مائگی پر ان کے پختہ عقیدہ سے ان کی فکر میں وضاحت اور پختگی آئی ہے اور ان کی خودی کی تعمیر ہوئی ہے۔ اس معاملے میں وہ خاص کر دینی علوم کے ان فضلاء سے بھی آگئے ہیں جو مغربیت کی حقیقت سے واقف نہیں اور نہ انہیں اس کے حقیقی اغراض و مقاصد اور تاریخ سے گہری واقفیت ہے۔
آخر میں پھر کہتا ہوں کہ انہیں میں نے اولوالعزمی، محبت اور ایمان کا نواخواں شاعر پایا اور اپنے بارے میں میری گواہی یہ ہے کہ جب جب بھی ان کا کلام پڑھا تو دل جوش سے امنڈنے لگا اور لطیف جذبات نے انگڑائیاں لینا شروع کردیں، احساسات و کیفیات کی لہریں بیدار ہونے لگیں اور رگوں میں شجاعتِ اسلامی کی رو دوڑنے لگی، میری نظر میں یہی ان کے شعر کی اصل قدر و قیمت ہے۔
یہ کتاب عربی میں میں نے اس لیے لکھی کہ مشرق اوسط میں مغربی فلسفہ و تہذیب کے حد سے بڑھے ہوئے اثرات میری نظر میں تھے اور میں دیکھتا تھا کہ عالم اسلامی و عربی کس طرح جاہلیت قدیمہ و جدیدہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] ان کے مدارس کے خطبات میں جو انگریزی میں RECONSTRUCTION OF ISLAM TO THOUGHT کے نام سے شائع ہو چکے ہیں اور ان کا اردو اور عربی ترجمہ بھی ہوا ہےبہت سے ایسے خیالات و افکار ملتے ہیں جن کی تاویل و توجیہ اور اہل سنت کے اجماعی عقائد سے مطابقت مشکل ہی سے کی جاسکتی ہے، یہی احساس استاد محترم مولانا سید سلیمان ندوی کا تھا، ان کی تمنا تھی کہ یہ لکچر شائع نہ ہوئے ہوتے تو اچھا تھا۔
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
41 اور 42

کے دوراہے پر آکھڑا ہوا ہے، جہاں ایک طرف حد سے بڑھی ہوئی قومیت ہے تو دوسرے سمت اشتمالت و اشتراکت، ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ان دونوں کا اثر شعر و ادب، سیاسی و تجارتی تعلقات آرٹ اور فنونِ لطیفہ تک میں نفوذ کر گیا ہے لیکن وہاں ایسے اہل قلم نایاب ہوتے جارہے ہیں جو عالم عربی کے پیغام کو سمجھنے اور کی مخلصانہ خدمت کرتے اور اپنی تمام فکری صاحیتوں کو اس جاہلیت کے خلاف جنگ میں صرف کردیتے، جو آسمانی دعوتوں اور اخلاقی قدروں کے لیے پیام موت ہے۔ جو اس فکری ارتداد کے خلاف صف آرا ہوجاتے جو تعلیم یافتہ طبقہ کو اپنی گرفت میں لیتا جارہا ہے۔
مغربی فکر کی اس مسموم اور مکدر فضا اور اس دنیا کو (جو اپنی قیمت و صلاحیت، اپنے پیغام اور دعوتی مقام سے بالکل غافل ہوچکی تھی) پیش نظر رکھتے ہوئے اس شاعر کی قمیت و عظمت یقیناًً بہت بڑھ جاتی ہے، جو گہوارہ اسلام سے بہت دور ایک نو مسلم برہمن خاندان اور ایسے ملک میں پیدا ہوتا ہے جہاں فرنگ اور فرنگی تہذیب کی حکومت ہو وہ عصری اور مغربی علوم فنون کے بڑے سے بڑے مرکزوں میں تعلیم حاصل کرتا ہے مگر پیغام محمدی پر اس کا ایمان مضبوط ہی ہوتا چلا جاتا ہے، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت ان کی امت کی صلاحیت اور اس کے مستقبل پر اعتماد بڑھتا ہی چلا جارہا ہے، اسلامیت کی حمیت اور مغربی فلسفہ و تہذیب سے نفرت اس کی طبیعت بن جاتی ہے اور وہ اپنی تمام فنی صلاحیتوں کی اپنی فکر و عقیدہ کی راہ میں لگا دیتا ہے اور صاحب ایمان شاعری، داعیانہ نظر اور فلسفیانہ پختہ کاری کی علامت بن جاتا ہے اور اپنے افکار کی ضرب سے برصغیر کے بحر منجمد میں ایک شورش و طوفاں پیدا کر دیتا ہے جس کی لہریں بحر ہند سے گزر کر ساحل عرب اور عالم اسلام کی سر زمین سے ٹکراتی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس لیے میں نے مناسب سمجھا کہ یہی وہ بہترین فکری ہدیہ ہے، جو ہم اسلام کی نئی نسل اور اٹھتے اور ابھرتے ہوئے جوانانِ عرب کو دے سکتے ہیں، میں یہ کتاب پیش کرتے ہوئے امیدوار ہوں کہ شایداس سے عزم و ارادہ کو حرکت میں لانے، طبیعتوں کا جمود توڑنے، سوئی ہوئی غیرت و حمیت کو جگانے کا کوئی سامان اور فکر و ادب کو نیا موڑ دینے کا کوئی رحجان ضرور پیدا ہوتا۔
واللہ من وراء القصد
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
43 اور 44

شاعر اسلام اقبالؒ
حیات و خدمات

اقبال پنجاب کے شہر سیالکوٹ میں ؁1877 میں پیدا ہوئے، ان کا خاندان کشمیری برہمنوں کا خاندان تھا، ان کے جد اعلیٰ دو سو سال قبل اسلام لائے تھے اور اسی وقت سے صلاح و تقویٰ کا رنگ خاندان میں قائم رہا، خود اقبال کے والد ایک صوفی صافی انسان تھے۔
اقبال کی انگریزی تعلیم اپنے شہر کے اسکول میں ہوئی جہاں کا امتحان امتیاز سے پاس کرکے وہ شہر کے کالج میں پڑھنے لگے جہاں سید میر حسن ایسے کامل استاد سے سابقہ پڑا جو اپنے تلامذہ میں اپنا رنگ اور علمی ذوق پیدا کردینے میں ید طولیٰ رکھتے تھے، اقبال بھی ان سے متاثر ہوکر علوم اسلامیہ کی طرف متوجہ ہوئے اور آخر عمر تک ان کا احسان نہ بھلا سکے۔
سیالکوٹ سے لاہور جاکر گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلہ لیا اور فلسفہ، عربی اور انگریزی مضامین اختیار کرکے بی اے کی سند لی۔ وہیں مسٹر آرنلڈ اور سر شیخ عبد القادر (مدیر مخزن) سے متعارف ہوئے، ؁1901 میں اقبال کی نظم "چاند " اور دوسری نظمیں "مخزن" میں شائع ہوئیں جو ادبی حلقوں میں ایک نئی آواز سمجھی گئیں، اور نوجوان شاعر کی طرف تحسین کی نگاہیں اٹھنے لگیں۔
اسی عرصے میں اقبال نے فلسفہ میں امتیاز کے ساتھ ایم اے کیا اور تاریخ، فلسفہ و سیاسیات کے لکچرر کی حیثیت سے اورینٹل کالج لاہور میں ان کا تقرر ہوا پھر گورنمنٹ کالج میں فلسفہ اور انگریزی کے استاد مقرر ہوئے، جہاں طلبہ اور اساتذہ نے ان کی علمیت و فضیلت کا لوہا مان لیا اور انہوں نے محکمہ تعلیم کے ذمہ داروں کا اعتماد حاصل کیا۔
وہ ؁1905 میں کیمرج میں داخل ہوئے اور فلسفہ و معاشیات کی امتیازی ڈگریاں پاکر تین سال تک لندن میں قیام پذیر رہے اور اس عرصے میں اسلامی موضوعات پر خطبات مقالات کا سلسلہ بھی جاری رہا جس سے ان کی شہرت و مقبولیت علمی حلقوں میں پھیلی۔ اسی مدت میں پروفیسر آرنلڈ کی غیر موجودگی میں لندن یونیورسٹی کے شعبہ عربی میں تدریسی فرائض بھی انجام دئیے اور میونخ جاکر فلسفہ میں ڈاکٹریٹ حاصل کی اور پھر لندن آکر قانون کا اعلیٰ امتحان پاس کرکے کامرس کالج لندن میں استاد ہوگئے۔ اور پھر سیاسیات و اقتصادیات میں امتیاز پیدا کرنے کے بعد ؁1908 میں عازمِ وطن ہوئے اقبال جب سسلی سے گزرے تو اسے اشک حسرت سے سیراب کرتے ہوئے گزرے:۔
رولے اب دل کھول کر اے دیدہ خونابہ بار
وہ نظر آتا تہذیب حجازی کا مزار
یہ سارے امتیاز اسے اقبال کو کل 32۔33 سال کی عمر ہی میں حاصل ہوئے واپسی پر دوستوں اور قدر دانوں نے ان کے اعزاز میں استقبالیہ دیا اقبال نے وکالت شروع کی لیکن سچ یہ ہے کہ وہ ان کو راس نہ آئی نہ وہ ان کے مذاق کی چیز تھے، ان کے
 

اشتیاق علی

لائبریرین
صفحہ نمبر 75
روشن ہے، لیکن اس میں کوئی موسی نہیں جو خدائی کلام و الہام سے مشرف ہوتا، اس میں کوئی ابراہیم بھی نہیں ہے جو بت شکن بنتا اور آگ کو گلزار بنا دیتا۔
اس تہذیب میں عقل پروان چڑھتی ہے ، لیکن محبت اور انسانی جذبات اسی حساب سے مرجھاتے اور دم توڑتے رہتے ہیں ، اس تہذیب کے بڑے انقلابی اور ترقی پسند بھی رسم و راہ عام کی پابندی اور محدود دائروں کی حد بندی سے نہیں نکل سکتے اور ان کا انقلابی ذہن انقلاب میں تقلید پسند ہی رہتا ہے۔
یاد ایا مے کہ بودم درخمستان فرنگ
جام اور روشن تراز آئینہ اسکندر است
چشم مست مے فروشش بادہ را پروردگار
بادہ خوراں رانگاہ ساقی اش پیغمبر است
جلوہ اوبے کلیم و شعلہ اوبے خلیل
عقل نا پروا متاع عشق راغا رنگر است
درہوایش گرمی یک آہ بے تابانہ نیست
رندایں میخانہ رایک لغزش متانہ نیست

آدمیت زار نالید از فرنگ
زندگی ہنگانہ بر چیدا ز فرنگ
یورپ از شمشیر خود بسمل فتاد
زیر گردوس رسم لا دینی نہاد
مشکلات حضرات انساں از وست
آدمیت راغم پنہاں از واست
درنگاہش آدمی آب و گل است
کاروان زندگی بے منزل است
یورپ میں علم و ہنر کی روشنی ملی تو بہت ہے لیکن سچ یہ ہے کہ یہ بخر طلمات چشمہ حیواں نہیں رکھتا اس کی مادہ پرستی کا یہ حال ہےکہ رعنائی تعمیر، رونق اور حسن میں گرجوں کی عمارات سے بنکوں کی تعمیرات بڑھی ہوئی ہیں ، اس کی تجارت میں ایک کا نفع اور لاکھوں کی موت پوشیدہ ہے،
________
پیام مشرق 248
 

اشتیاق علی

لائبریرین
صفحہ نمبر 76
اور یہ علم و حکمت ، یہ سیاست و حکومت جس پر یورپ کو ناز ہے ، خالی خولی مظاہر ہیں جن کے پیچھے کوئی حقیقت نہیں ، مغربی قائدین بنی آدم کا خون پیتے ہیں ، اور اسٹیج پر آکر انسانی مساوات اور عدالت اجتماعی کی تعلیم دیتے ہیں ، بیکاری ،عریانی ، مے نوشی اور افلس ہی فرنگی مدنیت کی سر فہرست فتوحات اور کارنامے ہیں جو قوم فیضان سماوی سے محروم ہوتی ہے ، اس کے کمالات کی حد اور اس کا مبلغ علم برق و بخارات سے آگے نہیں ہوتا ، جس تہذیب میں مشینوں کی حکومت ہو صنعت و حرفت ہی کی بادشاہی ہو اور انہی کا سکہ چلتا ہو اس میں دلوں کی موت ، احساس مروت اور انسانی شرف و عزرت کی ہلاکت یقینی ہے۔
یورپ میں بہت روشنی علم و ہنر ہے
حق یہ ہے کہ بے چشمہ حیوان ہے یہ ظلمات
رعنائی تعمیر میں رونق میں صفا میں
گرجوں سے کہیں بڑھ کے ہیں بنکونکی عمارات
ظاہر میں تجارت ہے حقیقت میں جواہے
سوو لیک کا لاکھوں کیلئے مرگ مفاجات
یہ علم یہ حکمت ، یہ تدبر یہ حکومت
پیتے ہیں لہو دیتے ہیں تعلیم مساوات
بیکاری و عریانی و میخواری و افلاس
کیا کم ہیں فرنگی مدنیت کے فتوحات؟
وہ قوم کہ فیضان سماوی سے ہو محروم
عد اسکے کمالات کی ہے برق و بخارات
مغرب پر تنقید و تجزیہ کے لئے ان کی کتاب "تشکیل جدید الہیات اسلامیہ"میں بہت سی تصریحات ملتی ہیں ، وہ مغرب کی مادی تہذیب اور اس کے پیدا کردہ مشکلات و مسائل کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:-
"حاصل کلام یہ کہ عصر حاضر کی ذہنی سرگرمیوں سے جو نتائج مرتب ہو ئے انکے زیر اثر انسان کی روح مردہ ہو چکی ہے ، یعنی وہ اپنے ضمیر اور باطن سے ہاتھ دھو بیٹھا ہے ، خیالات اور تصورات کی جہت سے دیکھئے تو اس کا وجود خود اپنی ذات سے
 

اشتیاق علی

لائبریرین
صفحہ نمبر 77
متصادم ہے ، سیاسی اعتبار سے نظر ڈالئے تو افراد افراد سے دوست و گریباں ہیں) اس میں اتنی سکت ہی نہیں کہ اپنی بے رحم اتانیت اور ناقابل تسکین جوع زو پر قابو حاصل کر سکے۔ یہ باتیں ہیں جن کے زیر اثر زندگی کے اعلی مراتب کے لئے اس کی جدوجہد بتدریج ختم ہو رہی ہے ۔ بلکہ یہ کہنا چاہئے کہ وہ درحقیقت زندگی ہی ےس اکتا چکا ہے اس کی نظر حقائق پر ہے ، یعین جو اس کے اس سرچشمے پر جو اس کی آنکھوں کے سامنے ہے ، لہذا اس کا تعلق اپنے اعماق وجود سے منقطع ہو چکا ہے ، اور پھر جیسا کہ کمبلے کو کبھی خدشہ تھا اور جسکا بتا سف وہ اظہار بھی کر چکا ہے، مادیات کی اس باقاعدہ نشوونما اس کے رگ و پے بھی مفلوج کر دئیے ہیں کجھ ایسی ہی حقیقت مشرق کی ہے۔
عصر حاضر کی لادینی اشتراکیت کا مطیح نظر بیشک نسبتا زیادہ وسیع ہے اور اس کے جوش و سرگرمی کا بھی وہی عالم ہے جو کسی نئے مذہب کا لیکن اس کی اساس چونکہ ہیگل کے مخالف نظر متبعین پر ہے لہذا وہ اس چیز ہی سے بر سر پیکار ہے ، جو اس کے لئے زندگی اور طاقت کا سر چشمہ بن سکتی تھی ، بہر حال یہ وطنیت ہو یا لادینی اشتراکیت دونوں مجبور ہیں ، کہ بحالت موجودہ انسانی روابط کی دنیا میں تطابق و توافق کی جوصورت ہے ، اس کے پیش نظر ہر کسی کو نفرت ، بدگمانی اور غم و غصے پر اکسائیں ، حالانکہ اس طرح انسان کا باطن اور ضمیر مردہ ہو جاتا ہے ، اور وہ اس قابل نہیں رہتا کہ اپنی روحانی طاقت اور قوت کے مخفی سر چشمے تک پہنچ سکے جب تک انسان کو اپنے آغاز و انجام کی کوئی نئی جھلک نظر نہیں آتی وہ کبھی اس معاشرے پر غالب نہیں آ سکتا جس میں باہمد گر مقابلے اور مسابقت
 

اشتیاق علی

لائبریرین
صفحہ نمبر 78
نے ایک بری غیر انسانی شکل اختیار کر رکھی ہے نہ اس تہذیب و نمدن پر جسکی روحانی وحدت اس کی مذہبی اور سیاسی قدروں کے اندرونی تصادم سے پارہ پارہ ہو چکی ہے۔ "
اقبال مغربی معاشرے کی تصویر کشی کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اس میں حرکت اور ترقی بغیر طبقاتی کشمکش اور وحشیانہ مقابلے کے ممکن نہیں ، دینی اور سیاسی قدروں کی تفریق اور دین و دنیا کی علیحدگی کے تصور نے اس کی وحدت ختم کر دی ہے ، وہ ہر صاحب نظر کی طرح سرمایہ داری اور اشتراکیت دونوں کو مادیت ہی کی دو شکلیں سمجھتے ہیں ، جس میں ایک مشرقی اور دوسری مغربی ہوتے ہوئے بھی مادیت اور محدود انسانیت کے نقطے پر مل جاتی ہیں ، وہ جاوید نامہ میں سید جمال الدین افغانی کی زبان سے کہتے ہیں کہ "مغرب روحانی قدروں اور غیبی حقائق کو کھو کر روح کو معدے میں تلاش کر رہا ہے ، حالانکہ روح کی قوت و حیات کا جسم سے کوئی تعلق نہیں ، لیکن اشتراکیت کی نظر بطن و عدہ سے آگے جاتی ہی نہیں اور وہ حد سے حد مساوات شکم ہی تک سوچتی ہے"۔ اخوت انسانی کی تعمیر مادی و معاشی مساوات پر ممکن نہیں بلکہ اس کے لیے قلبی محبت ، انسانی اقدار اور معنوی و روحانی بنیادوں کی بھی ضرورت ہے۔
عریباں گم کردہ اند افلاک را
در شکم جیند جان پاک را
رنگ و ب از تن نہ گیرد جان پاک
جزیہ تن کارے ندارد اشتراک
دین آں پیغمبر حق نا شناس
برمساوات شکم دارد اساس
تا اخوت را مقام اندرول است
بیخ او در دل نہ در آب و گل است
_____
تشکیل جدید الہیات اسلامیہ 29-93جاوید نامہ 69
 

اشتیاق علی

لائبریرین
صفحہ نمبر 79
اسی طرح ملوکیت اور اشتراکیت ، مادی نقطہ نظر ، حرص و ہوس ، اضطراب و انتشار ، خدا بے زاری ، اور انسان کا استحصال کرنے کے نقطے پر آکر مل جاتی ہیں، زندگی مگر اشتراکیت میں " خروج "ہے تو ملوکیت میں "خراج"، محروم انسان ان دو چکیوں کے درمیان بے بسی اور کس مپرسی کے عالم میں پستا اور کچلتا جا رہا ہے ، اشتراکیت اگر علم و فن اور دین و اخلاق کی دشمن ہے تو ملوکیت عوام الناس کے خون کی پیاسی ہے ، اور امیر غریب دونوں کا خون چوستی ہے ، دونوں سرتاپا مادی لذتوں میں غرق ہیں ، ان کا جسم بہت تازہ اور روشن ہے ، لیکن ان کا قلب ظالم فاجر اور تاریک ہے۔
ہر دور ا جاں نا صبورو نا شکیب
ہر دویزداں نا شناس آدم فریب
زندگی ایں را "خروج" آں را "خراج"
درمیان ایں دو سنگ آدم زجاج
ایں بہ علم و دین و فن آرد شکست
آں بردجاں راز تن ناں راز دست
غرق دیدم ہر دور اور آب و گل
ہر دور اتن روشن و تاریک دل
زندگانی سو ختن باساختن
درگلے تخم دلے ان اختن
مغربی تہذیب اور مسلم ممالک
اقبال کا پختہ عقیدہ ہے کہ مغربی تہذیب ممالک اسلامیہ کو ہر گز نجات نہیں دلا سکتی ، نہ انکے مسائل کو حل کر سکتی ہے ، نہ ان میں نئی زندگی کی کوئی روح پھونک سکتی ہے، وہ کہتے ہیں کہ جو تہذیب اپنی موت آپ مر رہی ہے ، وہ دوسروں کو زندگی کب دے سکتی ہے"،
خفتہ را خفتہ کے کند بیدار
_____
جاوید نامہ ۔70
 

اشتیاق علی

لائبریرین
صفحہ نمبر 80
نظر آتے نہیں بے پنہ ہ حقائق ان کو
آنکھ جنگی ہوئی محکومی و تقلید سے کور
زندہ کر سکتی ہے ایران و عرب کو کیونکر
یہ فرنگی مدنیت کہ جو ہے خود لب گور
مغرب نے ہمیشہ ممالک کے احسان کا بدلہ احسان فراموشی اور کافر نعمتی سے ، اور بھلائی کی جزا برائی سے دی ہے ، شام نے مغرب کو حضرت عیسی کی شخصیت دی جن کا پیام عفت و عصمت اور غم خواری و ورحمت ، برائی کے بدلے بھلائی ، ظلم کے مقابلے پرعفو تھا ، لیکن مغرب نے شام پر اپنے قبضہ کے دوران خمر و قمار ، بے پردگی اور آوارگی کے سوا کوئی تحفہ نہیں دیا :-
فرنگیوں کو عطا خاک سوریا نے کیا
بنی عفت و غم خواری و کم آزاری
صلہ فرنگ سے آیا ہے سوریا کے لئے
مے و قمار و ہجوم زنان بازاری!
مشرق میں تجدید کے علمبرداروں پر ان کی تنقید
وہ اسلامی ممالک میں تحریک تجدید (لیکن زیادہ صحیح الفاظ میں "مغربیت")کے علمبرداروں سے بد گمان نظر آتے ہیں ، اور یہ اندیشہ ظاہر کرتے ہیں کہ تجدید کی دعوت کہیں تقلید فرنگ کا بہانہ اور پردہ نہ ہو ، کہتے ہیں :-
لیکن مجھے ڈر ہے کہ یہ آوازہ تجدید
مشرق میں ہے تقلید فرنگی کا بہانہ
وہ اس تحریک اصلاح و تجدید (مغربیت) کے علمبرداروں کی بے بضاعتی اور نہی مانگی کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:-
_____
ضرب کلیم۔68
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
45 اور 46

اکثر اوقات غور و فکر یا سخن سنجی میں صرف ہوتے تھے، وہ انجمن حمایت اسلام کے سالانہ جلسوں میں پابندی سے شریک ہوتے تھے، اسی کے ایک جلسے میں انہوں نے "شکوہ" اور دوسرے جلسے میں "جواب شکوہ" پڑھی جو ایک قومی نظم کی حیثیت اختیار کر گئی اور جسے بے مثال قبولِ عام حاصل ہوا اور یہ صحیح بھی ہے کہ زبان و بیان کے اعتبار سے وہ بہترین نظمیں تھیں۔
انہی دنوں آپ نے "ترانہ ہندی" اور "ترانہ ملی" لکھا دونوں ترانوں نے ضرب المثل شہرت و مقبولیت پائی اور دونوں قومی اور ملی محفلوں کے افتتاح کے لیے قومی ترانہ سمجھنے جانے لگے[1]۔
؁1910 میں طرابلس و بلقان کی جنگوں نے اقبال پر اپنا شدید اثر ڈالا اور ان کے قلبی احساسات کو ایک کاری زخم لگا جس نے مغربی تہذیب اور یورپی سامراج سے شدید نفرت کی شکل اختیار کر لی ان کے رنج و الم نے ان سے وہ پر جوش نظمیں کہلوائیں جو مسلمانوں کے غم میں گرم آنسو اور مغرب کے خلاف تیز و نشتر تھیں۔
بغاوت و انقلاب کی یہ روح ان کی اس زمانے کی تمام ہی نظموں میں جاری و ساری ہے، بلاد اسلامیہ، وطنیت، ہلال عید، مسلم، فاطمہ بنت عبداللہ (جو جہاد طرابلس و محاصرہ ادرنہ میں شہید ہوئی) صدیقؓ، بلال ؓ تہذیب حاضر، دین اور حضور رسالت مآب میں ان نظموں میں انہوں نے مسلمانوں کے ان قائدین و زعما کے رویے پر افسوس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] جواہر لالہ نہرو کے بارے مین سننے میں آیا کہ وہ اسے قومی ترانہ بنانا چاہتے تھے، لیکن تقسیم ہند کے بعد بدقسمتی سے اقبال پاکستان کے اور ٹیگور ہندوستان کے قومی شاعر سمجھے جانے لگے اور ٹیگور کا ترانہ قومی ترانہ بنا۔ (مترجم)


ظاہر کیا ہے، جو اسلامی قیادت کے دعویدار ہیں مگر حضرت رسالت مآبؐ سے انہیں کوئی قلبی اور روحانی رابطہ نہیں، وہ کہتے ہیں کہ میں ان تمام لیڈروں سے بری ہوں جو یورپ کے لیے شدر حال تو کررہے ہیں، لیکن وہ آپؐ سے نہ آشنا ہیں نہ کسی گہرے تعلق کا اظہار کرتے ہیں۔
کل ایک شوریدہ خواب گاہِ نبیؐ پہ رو رو کے کہہ رہا تھا
کہ مصر و ہندوستان کے مسلم بنائے ملت مٹا رہے ہیں
یہ زائریں حریم مغرب، ہزار رہبر بنیں ہمارے
ہمیں بھلا ان سے واسطہ کیا جو تجھ سے نا آشنا رہے ہیں
شاعر عالم خیال میں بارگاہ رسالت میں حاضری دیتا ہے تو حضور رسالت مآبؐ سوال فرماتے ہیں ہمارے لیے کیا ہدیہ لائے ہو شاعر نے جو نذرانہ پیش خدمت کیا وہ اس کے شعروں سے ظاہر ہے؎
نکل کے باغ جہاں سے برنگ بو آیا ۔۔۔۔۔ ہمارے واسطے کیا تحفہ لے کے تو آیا؟
مگر میں نذر کو ایک آبگینہ لایا ہوں۔۔۔۔۔۔جو چیز اس میں ہے جنت میں بھی نہیں ملتی
جھلکتی ہے تری امت کی آبرو اس میں۔۔۔۔ طرابلس کے شہیدوں کا ہے لہو اس میں!
پھر اس کے بعد ؁1914 میں جب یورپ میں جبگ عظیم کا لاوا پھوٹا اور علم اسلام پر جو حالات و حوادث گزرے انہوں نے ان کو دردمند شاعر، مجاہد، داعی،فلسفی حکیم اور دیدہ ور مبصر بنا دیا جو حالات سے مستقبل کا اندازہ لگا لیتا ہے اور پیشنگوئی کرتا اور حقائق و عبر کو نظم کا لباس پہناتا، اپنی آتش نوائی اور شعلہ نفسی سے ایمان و یقین، خودی اور بے جگری کی آگ بھڑکاتا تھا۔
اس زمانے میں ان کے سینے کا جوش، دل کی فیضان اور طبیعت کا سیلان
 

اشتیاق علی

لائبریرین
صفحہ نمبر 111
اسی طرح وہ پیرس کی عالیشان مسجد دیکھتے ہیں ، لیکن ہو ان کا دامان نظر نہیں کھینچتی اس لئے کہ اس کی اساس میں کوئی پرکشش بات نہیں۔
مری نگاہ کمال سبز کو کیا دیکھے
کہ حق سے یہ حرم مغربی ہے بیگانہ!
حرم نہیں ہے فرنگی کرشمہ بازوں نے
تن حرم میں چھپا دی ہے روح بتخانہ
یہ بتکدہ انہی غارتگروں کی ہے تعمیر
دمشق ہاتھ سے جنکے ہوا ہے ویرانہ
(پیرس کی مسجد)
لیکن سلطان قطب الدین ایبک کی بنائی ہوئی "مسجد قوت الاسلام"کا کھنڈر ان کو جان جی سے بھاتا ہے اور وہ اس کا کلمہ پڑھنے لگتے ہیں ، اس لئے کہ اس ویرانہ میں انہیں عزم و اخلاص کا وہ تاریخی پس منظر یاد آ جاتا ہے جب اسلام کا مسافر غربت کدہ ہند میں رخت انداز ہوا تھا ، اس روحانی یاد سے ان کے دل کا ہر تار بج اٹھتا ہے اور وہ یوں حسرت سنج ہو جاتے ہیں۔
ہے مرے سینہ بے نور ویں اب کیا باقی
لاالہ مروہ و افسردہ و بے ذوق نمود
چشم فطرت بھی نہ پہچان سکے گی مجھکو
کسا یاوی سے دگر گوں ہے مقام محمود
کیوں مسلماں نہ خجل ہو تری سنگینی سے
کہ غلامی سے ہوا مثل زجاج اسکا وجود
ہے تری شان کی شایاں اسی مومن کی نماز
جسکی تکبیرمیں ہو معرکہ بود و نبود!
اب کہاں میرے نفس میں وہ حرارت وہ گداز
بے تب و تاب ہوں میری صلوۃ اور درود
ہے مری بانگ اذاں میں نہ بلندی نہ شکوہ
کیا گوارا ہے تجھے ایسے مسلماں کا سجود!
(مسجد قوت الاسلام)
وہ قطب الدین ایبک ، شیر شاہ سوری اور شاہجہاں کی تعمیرات کو مردان آزاد کے فن تعمیر کا نام دیتے ہیں ،اور کہتے ہیں کہ اگر تم میں دل و جگر کی تاب ہے تو ان کی یادگاروں کو دیکھو کہ کس طرح انہوں نے اپنی شخصیت کو ان عظیم عمارتوں میں ظاہر کیا ہے اور پتھروں کی
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
47 اور 48

اپنے عروج پر تھا، اس وقت انہوں نے جو نظمیں کہیں ان میں "خضر راہ" گل سرسبد کا حکم رکھتی ہے، جس ہر قطعہ شعر و ادب، دروں بینی اور حقیقت شناسی کا شاہکار ہے، لیکن "طلوع اسلام" بیت الغزل کا حکم رکھتا ہے جس کی مثال اسلامی ادب میں مشکل سے کہیں اور مل سکے گی۔
بانگ درا ؁1924 میں منظر عام پر آئی اور جب سے اب تک اردو کے افق پر اس کا ستارہ غروب نہیں ہوا نہ اس کی آواز صدائے صحرا، اس کی اشاعت کے بعد کا دور ان کی وفات تک فکری پختگی اور دائرہ علم کی وسعت و بیکرانی کے لیے مشہور ہے۔ اسی دور میں ان کے نصب العین اور دعوت و پیغام میں وضاحت و قطعیت پیدا ہوئی اور ان کے فارسی مجموعہ کلام سامنے آئے۔
انہوں نے فارسی کو اپنے اظہار خیال کے لیے اس لیے ترجیح دی کہ اردو کے مقابلے میں اس کا دائرہ وسیع تھا اور عربی کے بعد عالم اسلامی کی وہ دوسری زبان کا درجہ رکھتی تھی، ایران و افغانستان کی تو وہ مادری زبان ہی تھی اور اب بھی ہند و بیرون ہند میں اس کے ذوق آشنا بہت ہیں اور اس کا اثر ترکستان، روس اور ترکی تک پھیلا ہوا ہے۔ اس دور میں ان کے اردو مجموعوں کے علاوہ فارسی میں اسرار خودی و رموز بے خودی، پیام مشرق، زبور عجم، جاوید نامہ، پس چہ باید کرد، مسافر شائع ہوئیں مدارس لکچرز (تشکیل جدید الہٰیات اسلامیہ) اور کیمبرج کے لکچر اس کے بعد شائع ہوئے جن پر اہل ادب اور ارباب مذہب و فلسفہ نے یکساں طور پر توجہ کی اور ہاتھوں ہاتھ لیا اور معتدد زبانوں میں ان کا ترجمہ ہوا، نکلسن نے اسرار رموز کا انگریزی ترجمہ کیا اور جرمنی و اطالیہ میں ان کے شعر و پیام پر غور و فکر کے لیے ان کے نام سے اکیڈمیاں قائم ہوئیں۔ ؁1930 میں آلٰہ آباد میں مسلم لیگ کے اجلاس کے خطبہ صدارت میں انہوں نے پہلی بار پاکستان کا نظریہ پیش کیا اور پنجاب کے مجلس قانون ساز کے ممبر منتخب ہوئے اور ؁1930۔31 کی گول میز کانفرنس میں مسلمانوں کی نمائندگی کی، لندن میں انہیں فرانس، اسپین اور اٹلی کی حکومتوں نے ملکی دورے کی دعوت دی چنانچہ آپ موخر الذکر دونوں ملکوں کی دعوت پر گئے اور میڈریڈ مین اسلامی آرٹ پر چند خطبات دئیے، مسلمانوں کی صدیوں کی جلا وطنی کے بعد مسجد قرطبہ میں پہلی نماز پڑھی اور عربوں کی 8 سو سالہ حکومت اور ان کے اقبال رفتہ کی یاد میں آٹھ آٹھ آنسو روئے اور دل کے پھپھولے پھوڑے اقبال نے اپنی نظم میں اپنے احساسات اور سچے جذبات کا ایسا نقشہ کھینچا ہے جس میں اسلامی اندلس کی تہذیبی روح اور اس کے ماضی کا عطر کھنچ آیا ہے، معلوم ہوتا ہے کہ شاعر کی نگاہوں کے سامنے عظمت رفتہ کی تمام تصویریں آکھڑی ہوئی ہیں، مسجد قرطبہ اپنی ویرانی کی فریاد کررہی اور نمازیوں کے سجدہ پرشوق کو ترس رہی ہے، قرطبہ کی فضائیں اذان کی صداؤں کے لیے گوش برآواز ہیں اور اندلس عہد اسلامی کی یاد میں اب تک سوگوار ہے، اس نظم میں اقبال کے فکر و فن اپنی معراج پر ہیں اور وہ عالمی ادبیات عالیہ میں شمار ہونے کے لائق ہے۔ اسپین میں اقبال کا پرجوش استقبال ہوا تھا۔ اسی طرح اٹلی میں بھی موسولینی نے ان کی پذیرائی کی جو ان کی کتابیں پڑھے ہوئے اور ان کے فلسفہ سے واقف تھا، اس لیے دیر تک آپس میں گفتگو ہوتی رہی۔
حکومت فرانس نے ان کو شمالی افریقہ کی مستعمرات کی سیر اور پیرس کی مسجد آنے کی دعوت دی لیکن غیرت مند مسلمان شاعر نے دعوت کو یہ کہہ کر ٹھکرا دیا کہ یہ تو دمشق کی دردناک تباہی کی حقیر قیمت ہے۔
یورپ کے دورانِ قیام ان کے دوستوں اور قدر دانوں نے کیمبرج، روم، سوربون، مڈریڈ یونیورسٹی اور رومن رائل سوسائٹی نے ان کے اعزاز میں جلسے کیے، واپسی میں آپ بیت المقدس کی موتمر اسلامی میں شریک ہوئے اور اثنائے راہ میں اپنی پراثر نظم "ذوق و شوق" کہی۔
 

اشتیاق علی

لائبریرین
صفحہ نمبر 112
سلوں میں وقت گریز پا کو بند کر دیا ہے، ان کی پختگی دیکھ کر آدمی میں پختگی پیدا ہوتی اور اس کی دنیا بدل جاتی ہے، ہمت مردانہ اور طبع بلند ان پتھروں کے سینے میں لعل ارجمند کی طرح چمک رہے ہیں ، یہ پتھر کس کی سجدہ گاہ ہیں ، یہ مجھ سے مت پوچھ روداد جاں اہل دل ہی بتا سکتے ہیں میں تو اتنا جاتا ہوں کہ جس لوح جبیں میں نیرو ئے الا اللہ نہیں وہ شایان بارگاہ نہیں۔
ور من آں نیرورئے الا اللہ است
سجدہ ام شایان ایں درگاہ است!
اس کے ساتھ وہ تاج محل کو خراج عقیدت دیتے ہوئے کہتے ہیں "تاج کو چاندنی میں دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ مر مر کی سلوں میں آب رواں سے زیادہ تیزی آ گئی ہے اور ابد کا طویل دور یہاں کے ایک ایک لمحہ کے برابر ہو گیا ہے ، یہاں عشق نے پتھروں کی زبانی اپنا راز کھولا اور انہیں نوک مژگان میں پر دیا ہےیہاں سنگ و خشت سے جنت کے نغمے پھوٹ رہے ہیں اورعشق حدود و تعینات کی سرحدیں پھاند کر لا زوال بن گیا ہے "۔
وہ کہتے ہیں کہ محبت ہی ہے ، جو انسان کو پر لگا دیتی ہے ، اور جذبات کو بلند و ارجمند کر دیتی ہے، عشق سے عقل کی صیقل ہوتی ہے، اور خشت و سنگ میں جوہر آئینہ کی جھلک آ جاتی ہے عشق سے اہل دل کو سینہ سینا اور اہل ہنر کو ید بیضا مل جاتا ہے۔
اقبال کے نظریہ فن کے سلسلے میں یہ بتانا ضروری ہے کہ وہ جمال کو جلال ہی کا ایک رخ سمجھتے ہیں اور جمال بے جلال انہیں متاثر نہیں کرتا۔
دلبری بے قاہری جادوگری است
دلبری باقاہری پیغمبری است
(زبور عجم)
تانہ گیری از جلال حق نصیب
ہم نیابی او جمال حق نصیب
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
49 اور 50


؁1932 میں شاہ نادر خان شہیدؒ کی دعوت پر اس علمی وفد کے ساتھ افغانستان گئے جس میں سرراس مسعود اور علامہ سید سلیمان ندویؒ بھی شریک تھے، بادشاہ نے بہت اخلاص کے ساتھ رازدارانہ گفتگو کی اور اپنا دل کھول کر رکھ دیا، دونوں ایک دوسرے کے ساتھ دیر تک گفتگو کرتے رہے اور روتے رہے، سلطان محمود غزنویؒ اور حکیم سنائی کے مزار پر پہنچ کر ان کا جذبہ بے اختیار پھر سے اشک حسرت کی شکل میں ظاہر ہوا جس نے نظم کا لبا س پہنا اس سفر کے تاثرات "مسافر" میں جھلکتے ہیں۔
اقبال عرصے سے طرح طرح کے امراض و عوارض کا شکار چلے آرہے تھے۔ بالآخر ان کی صحت نے جواب دے دیا اور وہ صاحب فراش ہوگئے، لیکن اس حال میں بھی شعر گوئی تصانیف اور ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رہا ان دنوں کے مشاغل میں قومیت کے نظریہ کی تردید ان کی تحریروں کا بہت نمایاں حصہ ہے، انہی دنوں آپ نے یہ قطعہ کہا تھا۔
بہشتے بہر پاکانِ حرم ہست۔۔۔۔۔۔بہشتے بہر اربابِ ہمم ہست
بگو ہندی مسلماں را کہ خوش باش۔۔۔۔ بہشتے فی سبیل اللہ ہم ہست
اور اپنی وفات سے 10 منٹ پہلے وہ قطعہ کہا جو شوق و حسرت کا بیان اور ان کی زندگی کا ترجمان ہے۔
سرودے رفتہ باز آید کہ ناید ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نسیمے از حجاز آید کہ ناید!
سرآمد روز گار این فقیرے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دگر دانائے راز آید کہ ناید!
اور پھر اپنا آخری لافانی شعر کہا:۔
نشانِ مرد مومن با تو گویم
چو مرگ آید تبسم برلبِ اوست!
یہ آخری دلیل تھی، جو انہوں نے صداقت اسلام اور مومن کے ایمان و یقین پر قائم کی اور اپنے بوڑھے وفادار خادم کی گود میں آخری سانس لی اور عالم اسلامی میں پھیلے ہوئے دوستوں، شاگردوں اور قدردانوں سے منھ موڑ کر اور ان کو سوگوار چھوڑ کر دین و ادب کا آفتابِ عظمت و اقبال جس نے دلوں کو حرکت و حرارت روشنی اور گرمی عطا کی تھی، 31 اپریل ؁1938 کا آفتاب نکلنے سے پہلے غروب ہوگیا[1]۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] یہ مقالہ ؁1951 کو سعودی ریڈیو سے نشر ہوا تھا۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top