نام : غلام معین الدین ۔ والد کا نام : مولا بخش۔ تخلص : صادقؔ
(والدِ مرحوم کہا کرتے تھے کہ تمہارے پر داد عبداللہ صدیقی مغل فوج میں رسالدار تھے۔ لیکن 1857 ء کی جنگ آزادی میں قتل کردیے گئے اور تمہارے دادا نصیر آباد میں سکونت پذیر ہو گئے اور میں وہیں پیدا ہوا اس طرح ہمارا آبائی وطن دہلی ہی ہے )
مقام و تاریخ پیدائش : بروز جمعہ بوقت صبح صادق رانی پورہ روڈ اندور میں 7 / محرم الحرام 1336 ھ مطابق 25/اکتوبر 1917ء پیدا ہوا، اور یہیں مستقل سکونت ہے۔
والدہ کا نام صغریٰ بیگم تھا جو سابق ریاست جاوڑہ(مالوہ) کے عامل (نائب تحصیلدار) جناب جان علی خاں کی سب سے بڑی صاحبزادی تھیں جن کو دالیانِ ریاست سے رشتہ تھا۔
ابتدائی حالات اور تعلیم : شرفا کے دستور کے مطابق جب میری عمر چار سال،چار ماہ اور دس دن کی ہو گئی تو مجھے قرآن پاک پڑھنے کے لیے بٹھا دیا۔ بسم اللہ شریف حافظ قاری مولوی حکیم عبدالرزاق غریقؔ خیر آبادی نے بڑھائی ۔ جب میں نے قرآن پاک ختم کیا اس وقت میری عمر بمشکل ساڑھے چھ سال کی تھی۔ قرآن پاک والسہ مرحوم نے ہی پڑھایا تھا اور جب میں قرآن پاک دُہراچکا تو والسہ نے اردو کی تعلیم دینی شروع کی۔ جب اردو پڑھنے کی شد بد پیدا ہوگئی تو رسالۂ دینیات (جو انجمن حمایت الاسلام لاہور سے طبع ہوتا تھا ) شروع کرا دیا گیا کیونکہ والدہ مروم کی دلی تمنا تھی کہ مجھے مولوی بنائیں ۔ جب قریب سوا سات سال کا ہو گیا تو فارسی کی پہلی کتاب شروع کرائی گئی۔ یہ کتاب ختم بھی نہیں ہوئی تھی کہ والدہ سخت بیمار ہوگئیں اور تین چار ماہ کی علالت کےبعد ہمیشہ کے لیے داغ مفارقت دے گئیں ۔ اس وقت چونکہ گھر میں کوئی عورت نہیں تھی اور والد ریلوے کے ملازم تھے، میری نگہداشت نہیں کر سکتے تھے اس لیے انہوں نے میری والدہ کے ماموں حافظ سید احسان علی صاحب کےپاس مجھے جاوڑہ بھجوادیا ۔ میں وہاں حافظ نور عالم مرحوم سے فارسی کا درس لیتا رہا لیکن تین یا چار ماہ گزرے تھے کہ میں وہاں یکایک بیمار پڑگیا اور مرض نے شدت اختیار کرلی ۔ وہاں معقول علاج کا انتظام نہ تھا اس لیے والد مرحوم پھر اندور لے آئے ۔ مرض کا یہ عالم تھا کہ یہاں متعدد معالجین کی سمجھ میں نہ آتا تھا۔ میرے دونوں ماموں محمد علی خاں صاحب شایقؔ اور حامد علی خاں صاحب قریب قریب مایوس ہو چکے تھے لیکن والد مرحوم ہر قربانی دینے کے لیے تیار تھے۔ کیونکہ میں ان کی تین مرحوم بیویوں میں تنہا بچہ تھا ۔ ادھر قدرت مجھ سے ادبی خدمت لینے کے لیے زندہ رکھنا چاہتی تھی، اور قدرت نےایک ایسا وسیلہ مہیا کر دیا یعنی خوش قسمتی سے حکیم غریقؔ صاحب مرحوم کےیہاں ٹونک سے ایک بزرگ تشریف لے آئے جو صرف حکیم ہی نہیں بلکہ صوفی اور پیر طریقت بھی تھے۔ حکیم غریقؔ صاحب والد مرحوم سے قلبی تعلق رکھتے تھے۔ اس لیے فوراً ہی پیر کامل کی آمد کی اطلاع دی ۔(یہ بزرگ شاعر بھی تھے۔ نام تھا شیخ محمد ابراہیم تخلص روحیؔ فرماتے تھے) اسی وقت والد مرحوم مع حکیم غریقؔ صاحب ان بزرگ کو لےکر آئے ۔ جمعرات کا دن تھا اور عصر کا وقت ۔ جب وہ تشریف لائے تو میری حالت نہایت غیر تھی ۔ ہر دو بزرگوں نے بغور معائنہ فرمایا اور والد سے فرمایا کہ دعا کیجیے اگر یہ رات بعافیت گزر گئی تو بچے کی زندگی کی امید کی جاسکتی ہے۔ انہوں نے چند نقش چینی کی طشتری پر زعفران سے لکھ کر مرحمت فرمائے اور کوئی دوا چاٹنے کے لیے دی ۔ نقش پلائے جارہے تھے، دوا چٹائی جارہی تھی لیکن نصف رات تک وہی عالم رہا کہ دورہ پندرہ پندرہ منٹ کے بعد پڑتا تھا اور نبض ڈوبنے لگتی تھی مگر خدا نے سب کی دعائیں قبول فرمائیں ۔ اور صبح ہوتے ہوتے مرض میں کافی فرق پڑگیا۔ بعد نماز فجر حکیم غریقؔ صاحب اور روحیؔ صاحب بہ نفس نفیس تشریف لائے۔ میری حالت دیکھی اور والد مرحوم سے کہا مبارک ہو بابو صاحب ! بچے کی جان بچ گئی۔ آج کی رات انتہائی سخت تھی جو گزر گئی ۔ انشاء اللہ تعالیٰ اب مرض میں افاقہ ہوتا رہے گا ۔ پھر انہوں نےکچھ عرق اور معجونیں تجویز کیں جن کا فوراً ہی استعمال شروع کر دیا گیا ۔ پندرہ دن تک روحیؔ صاحب قیام پذیر رہے، اس دوران میں میری حالت ایسی ہوگئی تھی کہ بستر پر سے خود بخود اٹھ جاتا تھا اور کسی کے سہارے سے کھڑا بھی ہو جاتا تھا ۔ مکمل صحت میں قریب تین ماہ لگ گئے اور پھر میری تعلیم کا سلسلہ شروع ہو گیا ۔ حکیم غریقؔ صاحب نے گلزار دبستاں شروع کرائی۔ مرحوم سے کم و بیش ایک سال تک فارسی کا درس لیتا رہا لیکن والد مرحوم سے وگوں نے کہا کہ انگریزی کا زمانہ ہے، آپ تو انگریزی شوع کرایئے۔ غرض انگریزی کی تعلیم شروع کی گئی اور جب ابتدائی مراحل طےہو گئے تو باقاعدہ درسی کتب کا مطالعہ شروع کیا گیا اور پھر مہاراجہ شیواجی راؤ ہائی اسکول میں داخلہ لے کر 1937 ء میں میٹرک کا امتحان پاس کیا ، جہاں اردو و فارسی بطور مضمون خصوصی پڑھیں۔ بعد ازاں الہ آباد بورڈ سے اعلیٰ قابلیت اردو (اعلیٰ قابل) کا امتحان پاس کیا لیکن انٹر میڈیٹ (ایف ۔ اے) میں کامیاب نہ ہو سکا ، اس طرح تعلیم مکمل نہ ہو سکی۔ لیکن اپنی طور پر انگریزی اور فارسی کی متعدد کتابیں زیر مطالعہ رہیں اور اردو ادب کا غائر مطالعہ کیا۔ جو اِس عمر میں کسی حد تک جاری ہے ۔
شاعری کی ابتدا: میرے ایک مرحوم دوست جمیلؔ اور مفتوںؔ نگنیوی نے تحریک دی کہ میں بھی شعر کہوں۔ غرض انہیں کی تحریک اور تحریص سے میں نے34 ء کے وسط میں شعر کہنا شروع کیا اور چونکہ اردو اور فارسی میرے نصاب میںتھیں اس لیے شعر کہنے میں کافی مدد ملی اور بہت کم وقفہ میںمشق و مزاولت نے کئی منزلیں طے کرادیں ۔
شاگردی : کوئی فن بغیر استاد کے حاصل نہیں ہوتا ۔ عزیزم جمیلؔ و مفتوںؔ میرے ماموں جناب شایقؔ کے شاگرد تھے ۔ اس لیے ابتدا میں انہیں سے اپنے کلام پر اصلاح لی لیکن میںمطمئن نہیں تھا اور کسی ماہر فن کی تلاش تھی کوئی دو سال کے بعد اتفاقاً والد مرحوم کےخاص دوست پنڈت پربھودیال مصر عاشقؔ لکھنوی اندور تشریف لائے چنانچہ میں نے ان کے سامنے زانوئے ادب نہ کیا لیکن ان سے صرف چار پانچ غزلوں پر ہی اصلاح لی تھی کہ ان کا انتقال ہوگیا ۔ایسی صورت میں غیرت نے گوارا نہیں کیا کہ کسی اور کے سامنے جاؤں ۔ اس لیے میں نے اپنے ذوق و وجدان اور خود اعتمادی کے سہارے ہی ہر دشوار راہ عبور کی۔ بنڈت عاشق لکھنوی پہلےبیان و یزادنی میرٹھی سے اصلاح لیتے تھے لیکن ان کی وفا کے بعد مولانا حالیؔ سے منسلک ہوگئے ۔ اس طرح میرا سلسلہ غالبؔ تک پہنچتا ہے۔
شادی : 1941 ء میں شہر جاوڑہ کےمشہور عالم اور مفتیٔ شہر مولوی سیّد احمد علی صاحب کی صاحبزادی عبیدہ خاتون سے ہوئی جو بفضلہ خودبھی ادیب اور شاعر ہیں اور عبیدہ انجمؔ کے نام سے کبھی کبھی لکھتی رہتی ہیں ۔
اولادیں : یوں تو خدا نے چھ بچے عنایت فرمائے لیکن تین لڑکیاں کم عمری ہی میں فوت ہو گئیں ۔ اب بفضلہ تین بقید حیات ہیں۔ پہلی لڑکی عاتکہ فرزانہ۔ ایم، اے (علیگڑھ)
دوسرا لڑکا اعجاز اختر۔ ایم ایس سی جیولوجی (علیگ) اور تیسرا لڑکا ریحان احمد۔ دونوں بڑے بچے برسر روزگار ہیں اور معقول عہدوں پر فائز ہیں۔ اعجاز اختر سلمہٗ جدید نظمیں اور غزلیں کہتے ہیں اعجاز عبید کےنام سے چھپتے رہتےہیں ۔
نظریات : میں ادب میں کسی تحریک یا نظام (Ism) کا قائل نہیں ہوں ۔ ابتدائے شاعری میں مجھے حضرات اصغرؔ گونڈوی، فانیؔ بدایونی اور سیمابؔ اکبر آبادی نے اور کسی حد تک جگرؔمرادآبادی نے متاثر کیا تھا اور اس کا عکس میری ابتدائی غزلوں میں دیکھا جا سکتا ہے لیکن جوں جوں شعور میں پختگی آنا شروع ہوئی میں اپنے لیے نئے راستے نکالنے کی کوششیں کیں ۔ شعری زندگی سے لے کر آج تک شراب اور مستی سے متعلق کوئی شعر نہیں کہا کیونکہ شروع ہی سے اسے ’’ام الخبائث‘‘سمجھتا ہوں ۔ ہاں جو کچھ محسوس کیا اور حالات حاضرہ سے تاثر ملا انہیں کو اپنے شعروں میں ڈھالنے کی کوشش کی اور شعر برائے شعر سے حتی الوسع پرہیز کیا۔ کبھی قدیم، جدید، اور نئی شاعری کے جھمیلوں میں نہیں پڑا اور نہ ہی کسی کی مخالفت کی۔ اپنی صلح جو طبیعت نے اسی لیے کسی کا پابند نہ ہونےدیا اور اسی سبب سے ہر مکتب خیال کے لوگ مجھ سے صرف محبت ہی نہیں بلکہ احترام بھی کرتے ہیں۔ تادم حیات عروض و فن سے بیزاری کے اظہار کو بدعت سیہ کے متراوف تصور کرتا ہوں۔ ہمیشہ زبان وہ باین کی نوک پلک درست کرنے کی کوشش میں رہتا ہوں۔ میرے مجموعۂ کلام میں اسی وجہ سے کم سے کم اسقام و عیوب ملیں گے۔ کیونکہ پاک اور بے عیب ذات تو صرف خدائے برتر کی ہے، میں تو بہر حال انسان ہوں ۔
میری محبوب صنف غزل اور رباعی ہے لیکن میں نے نظمیں ، قطعات، نعتیں، سلام، اور منقبتیں بھی کہی ہیں۔ اجمیر، علی گڑھ ، چتّوڑ، رتلام، احمد آباد، میرٹھ ، بھوپال ، جاؤڑہ، کھنڈوہ، برہانپور ، نیماہیڑہ تیمچ اور کئی مقامات کے مشاعروں میں شرکت کی اور علامہ مانیؔ جالسی سیمابؔ ، جوشؔ ، جگرؔ ، فراقؔ، انجمؔ فوقی بدایونی، روش صدیقی، علامہ ثروت میرٹھی ، مولانا ابراحسنی گنّوری، شکیل بدایونی، شعری بھوپالی، باسط بھوپالی، مجروحؔ سلطانپوری ، بہزاد لکھنوی، شفاؔ گوالیاری، اعجازؔ صدیقی ولی شاہ جہاں پوری ، قبلہ بیدلؔ اجمیری (یاد گار ظہیر دہلوی) اور متعدد مشاہیر سے مجالست رہی ۔ اور ان کےساتھ مشارے پڑھے ، اور کئی سال تک معیاری رسائل میں چھپتا رہا ۔
مجموعۂ کلام : ابتدا میں 1934 ء سے 1937 ء تک ایک اچھا خاصا کلام جمع ہو چکا تھا جس کا تاریخی نام ’’خم خانۂ خیال ‘‘ رکھا تھا ۔ اس میں 120 غزلیں ، 40 رباعیاں ، اتنے ہی قطعات اور 12 نظمیں متفرق موضوعات پر تھیں لیکن شعور میں قدرے پختگی پیدا ہوتے ہی اسے محض ہذیان (بکواس) جان کر ضائع کر دیا ۔ اب جو کلام موجود ہے وہ 1938 ء سے شروع ہوتا ہے جس میں غزلیات ، رباعیات ، قطعات اور نظمیں سب کچھ ہیں۔ غزلیں مدھیہ پردیش اردو اکیڈیمی بھوپال نے حال ہی میں چھاپی ہیں اور نظمیں فخر الدین علی احمد کمیٹی حکومت اترپردیش لکھنو کے مالی تعاون سے چھپوا کر پیش کر رہا ہوں ۔
تلامذہ : یہ بھی عجیب بات ہوئی کہ جس شاعر نے مجھے شعر کہنےکے لیے توجہ دلائی وہی سب سے پہلے مجھ سے مشورۂ سخن کے لیے آگے آئے ۔ یعنی جمیلؔ و مفتوں نگینوی اور پھر کئی احباب و عزیز مشورۂ سخن کرنے لگے ۔ اور اب بھی کچھلوگ مشورہ لیتے ہیں۔ بیشتر تلامذہ ترک وطن کر گئے ۔ جن کی زندگی کا ثبوت آج تک فراہم نہ ہو سکا اور کئی اللہ کو پیارے ہوگئے ۔ اب جو باقی رہ گئے ہیں، وہ ہیں (1) عزیزی نادمؔ صادقی(احمد آباد)(2) محمد عزیز خاں قمر ٹونکی (نیوکراچی) (3) احسان علیم نکہتؔ (کراچی) (4) عبدلمجید سالکؔ (سیہور) (5) بسملؔ نقشبندی(بانسواڑہ، راجستھان) (6) شاہدؔ تلامی (رتلام) (7) انورؔ صادقی (اندور) (

ایس ایم طارق شاہینؔ (اندور) (9ّ) مراد رضا وسیمؔ (دوحد گجرات) (10) ممتازؔ صادقی(مہو) ۔ اندم صادقی اور بسملؔ نقشبندی فارغ الاصلاح ہی نہیں بلکہ متعدد لوگوں کی تربیت میں مصروف ہیں ۔ ماہرؔ ، ممتازؔ اور انورؔ صادقی کی ترقی اچھی ہے اور اس سے اچھی توقع کی جاسکتی ہے ۔
0ہ0ہ0ہ0ہ0ہ0ہ0ہ0ہ0ہ0