نقوشِ خاموش۔۔ صادق اندوری

الف عین

لائبریرین
نام : غلام معین الدین ۔ والد کا نام : مولا بخش۔ تخلص : صادقؔ
(والدِ مرحوم کہا کرتے تھے کہ تمہارے پر داد عبداللہ صدیقی مغل فوج میں رسالدار تھے۔ لیکن 1857 ء کی جنگ آزادی میں قتل کردیے گئے اور تمہارے دادا نصیر آباد میں سکونت پذیر ہو گئے اور میں وہیں پیدا ہوا اس طرح ہمارا آبائی وطن دہلی ہی ہے )
مقام و تاریخ پیدائش : بروز جمعہ بوقت صبح صادق رانی پورہ روڈ اندور میں 7 / محرم الحرام 1336 ھ مطابق 25/اکتوبر 1917ء پیدا ہوا، اور یہیں مستقل سکونت ہے۔
والدہ کا نام صغریٰ بیگم تھا جو سابق ریاست جاوڑہ(مالوہ) کے عامل (نائب تحصیلدار) جناب جان علی خاں کی سب سے بڑی صاحبزادی تھیں جن کو دالیانِ ریاست سے رشتہ تھا۔
ابتدائی حالات اور تعلیم : شرفا کے دستور کے مطابق جب میری عمر چار سال،چار ماہ اور دس دن کی ہو گئی تو مجھے قرآن پاک پڑھنے کے لیے بٹھا دیا۔ بسم اللہ شریف حافظ قاری مولوی حکیم عبدالرزاق غریقؔ خیر آبادی نے بڑھائی ۔ جب میں نے قرآن پاک ختم کیا اس وقت میری عمر بمشکل ساڑھے چھ سال کی تھی۔ قرآن پاک والسہ مرحوم نے ہی پڑھایا تھا اور جب میں قرآن پاک دُہراچکا تو والسہ نے اردو کی تعلیم دینی شروع کی۔ جب اردو پڑھنے کی شد بد پیدا ہوگئی تو رسالۂ دینیات (جو انجمن حمایت الاسلام لاہور سے طبع ہوتا تھا ) شروع کرا دیا گیا کیونکہ والدہ مروم کی دلی تمنا تھی کہ مجھے مولوی بنائیں ۔ جب قریب سوا سات سال کا ہو گیا تو فارسی کی پہلی کتاب شروع کرائی گئی۔ یہ کتاب ختم بھی نہیں ہوئی تھی کہ والدہ سخت بیمار ہوگئیں اور تین چار ماہ کی علالت کےبعد ہمیشہ کے لیے داغ مفارقت دے گئیں ۔ اس وقت چونکہ گھر میں کوئی عورت نہیں تھی اور والد ریلوے کے ملازم تھے، میری نگہداشت نہیں کر سکتے تھے اس لیے انہوں نے میری والدہ کے ماموں حافظ سید احسان علی صاحب کےپاس مجھے جاوڑہ بھجوادیا ۔ میں وہاں حافظ نور عالم مرحوم سے فارسی کا درس لیتا رہا لیکن تین یا چار ماہ گزرے تھے کہ میں وہاں یکایک بیمار پڑگیا اور مرض نے شدت اختیار کرلی ۔ وہاں معقول علاج کا انتظام نہ تھا اس لیے والد مرحوم پھر اندور لے آئے ۔ مرض کا یہ عالم تھا کہ یہاں متعدد معالجین کی سمجھ میں نہ آتا تھا۔ میرے دونوں ماموں محمد علی خاں صاحب شایقؔ اور حامد علی خاں صاحب قریب قریب مایوس ہو چکے تھے لیکن والد مرحوم ہر قربانی دینے کے لیے تیار تھے۔ کیونکہ میں ان کی تین مرحوم بیویوں میں تنہا بچہ تھا ۔ ادھر قدرت مجھ سے ادبی خدمت لینے کے لیے زندہ رکھنا چاہتی تھی، اور قدرت نےایک ایسا وسیلہ مہیا کر دیا یعنی خوش قسمتی سے حکیم غریقؔ صاحب مرحوم کےیہاں ٹونک سے ایک بزرگ تشریف لے آئے جو صرف حکیم ہی نہیں بلکہ صوفی اور پیر طریقت بھی تھے۔ حکیم غریقؔ صاحب والد مرحوم سے قلبی تعلق رکھتے تھے۔ اس لیے فوراً ہی پیر کامل کی آمد کی اطلاع دی ۔(یہ بزرگ شاعر بھی تھے۔ نام تھا شیخ محمد ابراہیم تخلص روحیؔ فرماتے تھے) اسی وقت والد مرحوم مع حکیم غریقؔ صاحب ان بزرگ کو لےکر آئے ۔ جمعرات کا دن تھا اور عصر کا وقت ۔ جب وہ تشریف لائے تو میری حالت نہایت غیر تھی ۔ ہر دو بزرگوں نے بغور معائنہ فرمایا اور والد سے فرمایا کہ دعا کیجیے اگر یہ رات بعافیت گزر گئی تو بچے کی زندگی کی امید کی جاسکتی ہے۔ انہوں نے چند نقش چینی کی طشتری پر زعفران سے لکھ کر مرحمت فرمائے اور کوئی دوا چاٹنے کے لیے دی ۔ نقش پلائے جارہے تھے، دوا چٹائی جارہی تھی لیکن نصف رات تک وہی عالم رہا کہ دورہ پندرہ پندرہ منٹ کے بعد پڑتا تھا اور نبض ڈوبنے لگتی تھی مگر خدا نے سب کی دعائیں قبول فرمائیں ۔ اور صبح ہوتے ہوتے مرض میں کافی فرق پڑگیا۔ بعد نماز فجر حکیم غریقؔ صاحب اور روحیؔ صاحب بہ نفس نفیس تشریف لائے۔ میری حالت دیکھی اور والد مرحوم سے کہا مبارک ہو بابو صاحب ! بچے کی جان بچ گئی۔ آج کی رات انتہائی سخت تھی جو گزر گئی ۔ انشاء اللہ تعالیٰ اب مرض میں افاقہ ہوتا رہے گا ۔ پھر انہوں نےکچھ عرق اور معجونیں تجویز کیں جن کا فوراً ہی استعمال شروع کر دیا گیا ۔ پندرہ دن تک روحیؔ صاحب قیام پذیر رہے، اس دوران میں میری حالت ایسی ہوگئی تھی کہ بستر پر سے خود بخود اٹھ جاتا تھا اور کسی کے سہارے سے کھڑا بھی ہو جاتا تھا ۔ مکمل صحت میں قریب تین ماہ لگ گئے اور پھر میری تعلیم کا سلسلہ شروع ہو گیا ۔ حکیم غریقؔ صاحب نے گلزار دبستاں شروع کرائی۔ مرحوم سے کم و بیش ایک سال تک فارسی کا درس لیتا رہا لیکن والد مرحوم سے وگوں نے کہا کہ انگریزی کا زمانہ ہے، آپ تو انگریزی شوع کرایئے۔ غرض انگریزی کی تعلیم شروع کی گئی اور جب ابتدائی مراحل طےہو گئے تو باقاعدہ درسی کتب کا مطالعہ شروع کیا گیا اور پھر مہاراجہ شیواجی راؤ ہائی اسکول میں داخلہ لے کر 1937 ء میں میٹرک کا امتحان پاس کیا ، جہاں اردو و فارسی بطور مضمون خصوصی پڑھیں۔ بعد ازاں الہ آباد بورڈ سے اعلیٰ قابلیت اردو (اعلیٰ قابل) کا امتحان پاس کیا لیکن انٹر میڈیٹ (ایف ۔ اے) میں کامیاب نہ ہو سکا ، اس طرح تعلیم مکمل نہ ہو سکی۔ لیکن اپنی طور پر انگریزی اور فارسی کی متعدد کتابیں زیر مطالعہ رہیں اور اردو ادب کا غائر مطالعہ کیا۔ جو اِس عمر میں کسی حد تک جاری ہے ۔
شاعری کی ابتدا: میرے ایک مرحوم دوست جمیلؔ اور مفتوںؔ نگنیوی نے تحریک دی کہ میں بھی شعر کہوں۔ غرض انہیں کی تحریک اور تحریص سے میں نے34 ء کے وسط میں شعر کہنا شروع کیا اور چونکہ اردو اور فارسی میرے نصاب میںتھیں اس لیے شعر کہنے میں کافی مدد ملی اور بہت کم وقفہ میںمشق و مزاولت نے کئی منزلیں طے کرادیں ۔
شاگردی : کوئی فن بغیر استاد کے حاصل نہیں ہوتا ۔ عزیزم جمیلؔ و مفتوںؔ میرے ماموں جناب شایقؔ کے شاگرد تھے ۔ اس لیے ابتدا میں انہیں سے اپنے کلام پر اصلاح لی لیکن میںمطمئن نہیں تھا اور کسی ماہر فن کی تلاش تھی کوئی دو سال کے بعد اتفاقاً والد مرحوم کےخاص دوست پنڈت پربھودیال مصر عاشقؔ لکھنوی اندور تشریف لائے چنانچہ میں نے ان کے سامنے زانوئے ادب نہ کیا لیکن ان سے صرف چار پانچ غزلوں پر ہی اصلاح لی تھی کہ ان کا انتقال ہوگیا ۔ایسی صورت میں غیرت نے گوارا نہیں کیا کہ کسی اور کے سامنے جاؤں ۔ اس لیے میں نے اپنے ذوق و وجدان اور خود اعتمادی کے سہارے ہی ہر دشوار راہ عبور کی۔ بنڈت عاشق لکھنوی پہلےبیان و یزادنی میرٹھی سے اصلاح لیتے تھے لیکن ان کی وفا کے بعد مولانا حالیؔ سے منسلک ہوگئے ۔ اس طرح میرا سلسلہ غالبؔ تک پہنچتا ہے۔
شادی : 1941 ء میں شہر جاوڑہ کےمشہور عالم اور مفتیٔ شہر مولوی سیّد احمد علی صاحب کی صاحبزادی عبیدہ خاتون سے ہوئی جو بفضلہ خودبھی ادیب اور شاعر ہیں اور عبیدہ انجمؔ کے نام سے کبھی کبھی لکھتی رہتی ہیں ۔
اولادیں : یوں تو خدا نے چھ بچے عنایت فرمائے لیکن تین لڑکیاں کم عمری ہی میں فوت ہو گئیں ۔ اب بفضلہ تین بقید حیات ہیں۔ پہلی لڑکی عاتکہ فرزانہ۔ ایم، اے (علیگڑھ)
دوسرا لڑکا اعجاز اختر۔ ایم ایس سی جیولوجی (علیگ) اور تیسرا لڑکا ریحان احمد۔ دونوں بڑے بچے برسر روزگار ہیں اور معقول عہدوں پر فائز ہیں۔ اعجاز اختر سلمہٗ جدید نظمیں اور غزلیں کہتے ہیں اعجاز عبید کےنام سے چھپتے رہتےہیں ۔
نظریات : میں ادب میں کسی تحریک یا نظام (Ism) کا قائل نہیں ہوں ۔ ابتدائے شاعری میں مجھے حضرات اصغرؔ گونڈوی، فانیؔ بدایونی اور سیمابؔ اکبر آبادی نے اور کسی حد تک جگرؔمرادآبادی نے متاثر کیا تھا اور اس کا عکس میری ابتدائی غزلوں میں دیکھا جا سکتا ہے لیکن جوں جوں شعور میں پختگی آنا شروع ہوئی میں اپنے لیے نئے راستے نکالنے کی کوششیں کیں ۔ شعری زندگی سے لے کر آج تک شراب اور مستی سے متعلق کوئی شعر نہیں کہا کیونکہ شروع ہی سے اسے ’’ام الخبائث‘‘سمجھتا ہوں ۔ ہاں جو کچھ محسوس کیا اور حالات حاضرہ سے تاثر ملا انہیں کو اپنے شعروں میں ڈھالنے کی کوشش کی اور شعر برائے شعر سے حتی الوسع پرہیز کیا۔ کبھی قدیم، جدید، اور نئی شاعری کے جھمیلوں میں نہیں پڑا اور نہ ہی کسی کی مخالفت کی۔ اپنی صلح جو طبیعت نے اسی لیے کسی کا پابند نہ ہونےدیا اور اسی سبب سے ہر مکتب خیال کے لوگ مجھ سے صرف محبت ہی نہیں بلکہ احترام بھی کرتے ہیں۔ تادم حیات عروض و فن سے بیزاری کے اظہار کو بدعت سیہ کے متراوف تصور کرتا ہوں۔ ہمیشہ زبان وہ باین کی نوک پلک درست کرنے کی کوشش میں رہتا ہوں۔ میرے مجموعۂ کلام میں اسی وجہ سے کم سے کم اسقام و عیوب ملیں گے۔ کیونکہ پاک اور بے عیب ذات تو صرف خدائے برتر کی ہے، میں تو بہر حال انسان ہوں ۔
میری محبوب صنف غزل اور رباعی ہے لیکن میں نے نظمیں ، قطعات، نعتیں، سلام، اور منقبتیں بھی کہی ہیں۔ اجمیر، علی گڑھ ، چتّوڑ، رتلام، احمد آباد، میرٹھ ، بھوپال ، جاؤڑہ، کھنڈوہ، برہانپور ، نیماہیڑہ تیمچ اور کئی مقامات کے مشاعروں میں شرکت کی اور علامہ مانیؔ جالسی سیمابؔ ، جوشؔ ، جگرؔ ، فراقؔ، انجمؔ فوقی بدایونی، روش صدیقی، علامہ ثروت میرٹھی ، مولانا ابراحسنی گنّوری، شکیل بدایونی، شعری بھوپالی، باسط بھوپالی، مجروحؔ سلطانپوری ، بہزاد لکھنوی، شفاؔ گوالیاری، اعجازؔ صدیقی ولی شاہ جہاں پوری ، قبلہ بیدلؔ اجمیری (یاد گار ظہیر دہلوی) اور متعدد مشاہیر سے مجالست رہی ۔ اور ان کےساتھ مشارے پڑھے ، اور کئی سال تک معیاری رسائل میں چھپتا رہا ۔
مجموعۂ کلام : ابتدا میں 1934 ء سے 1937 ء تک ایک اچھا خاصا کلام جمع ہو چکا تھا جس کا تاریخی نام ’’خم خانۂ خیال ‘‘ رکھا تھا ۔ اس میں 120 غزلیں ، 40 رباعیاں ، اتنے ہی قطعات اور 12 نظمیں متفرق موضوعات پر تھیں لیکن شعور میں قدرے پختگی پیدا ہوتے ہی اسے محض ہذیان (بکواس) جان کر ضائع کر دیا ۔ اب جو کلام موجود ہے وہ 1938 ء سے شروع ہوتا ہے جس میں غزلیات ، رباعیات ، قطعات اور نظمیں سب کچھ ہیں۔ غزلیں مدھیہ پردیش اردو اکیڈیمی بھوپال نے حال ہی میں چھاپی ہیں اور نظمیں فخر الدین علی احمد کمیٹی حکومت اترپردیش لکھنو کے مالی تعاون سے چھپوا کر پیش کر رہا ہوں ۔
تلامذہ : یہ بھی عجیب بات ہوئی کہ جس شاعر نے مجھے شعر کہنےکے لیے توجہ دلائی وہی سب سے پہلے مجھ سے مشورۂ سخن کے لیے آگے آئے ۔ یعنی جمیلؔ و مفتوں نگینوی اور پھر کئی احباب و عزیز مشورۂ سخن کرنے لگے ۔ اور اب بھی کچھلوگ مشورہ لیتے ہیں۔ بیشتر تلامذہ ترک وطن کر گئے ۔ جن کی زندگی کا ثبوت آج تک فراہم نہ ہو سکا اور کئی اللہ کو پیارے ہوگئے ۔ اب جو باقی رہ گئے ہیں، وہ ہیں (1) عزیزی نادمؔ صادقی(احمد آباد)(2) محمد عزیز خاں قمر ٹونکی (نیوکراچی) (3) احسان علیم نکہتؔ (کراچی) (4) عبدلمجید سالکؔ (سیہور) (5) بسملؔ نقشبندی(بانسواڑہ، راجستھان) (6) شاہدؔ تلامی (رتلام) (7) انورؔ صادقی (اندور) (8) ایس ایم طارق شاہینؔ (اندور) (9ّ) مراد رضا وسیمؔ (دوحد گجرات) (10) ممتازؔ صادقی(مہو) ۔ اندم صادقی اور بسملؔ نقشبندی فارغ الاصلاح ہی نہیں بلکہ متعدد لوگوں کی تربیت میں مصروف ہیں ۔ ماہرؔ ، ممتازؔ اور انورؔ صادقی کی ترقی اچھی ہے اور اس سے اچھی توقع کی جاسکتی ہے ۔
0ہ0ہ0ہ0ہ0ہ0ہ0ہ0ہ0ہ0
 

الف عین

لائبریرین
نعت رسولؐ

خلق و ایثار کی اک تازہ ہوا مانگے ہے
کائنات آج محمدؐ کی نوا مانگے ہے
جس کی چھاؤں نے معاصی کے اندھیرے توڑے
تیرہ گیتی وہی قرآں کی روا مانگے ہے
ریگ زاروں کو کیا جس نے شبستاں بکنار
آج کا دور وہی آب و ہوا مانگے ہے
زندگی تیرہ مراحل کی تجلّی کے لیے
نقش پاک شہ لو لاک لما مانگے ہے
منزلیں بڑھ کے قدم چومتی ہیں خود اس کے
جو مسافر رہِ تسلیم و رضا مانگے ہے
آپؐ وہ رحمتِ عالم ہیں کہ اللہُ غنی !
آپؐ کا لطف ہر اک شاہ و گدا مانگے ہے
عرصۂ حشر میں یہ آپ کا شیدا صادقؔ
آپ کی چشمِ کرم نور خدا مانگے ہے
 

الف عین

لائبریرین
ملاقات کے بعد

رسیلی انکھڑیوں کا کیف بہتر یاد آئے گا
تبسم زیر لب کا حسن مضمر یاد آئے گا
نظر کا تیر اور ابر و کا خنجر یاد آئے گا
حقیقت ہے کہ تو اے فتنہ پر یاد آئےگا
تری پیہم ملاقاتوں کا منظر یاد آئے گا
بہ ہر صٓورت بہ ہر عنوان اکثر یاد آئےگا
ضیائے ماہ سے ضو ریز گلہائے طرب ہوں گے
زر گلزار طالب اور مطلوب ایک جب ہوں گے
نظارے حُسن کے جس وقت بے ذوق طلب ہوں گے
فلک پر جب ستارے انجمن آرائے شب ہوں گے
تری پیہم ملاقاتوں کا منظر یاد آئے گا
بہ ہر صورت ، بہ ہر عنوان اکثر یاد آئےگا
فضائے دہر پر جس وقت چھا جائے گی رنگینی
نظر آئے گی ہر جانب بہاروں کی دل آویزی
شمیمِ دل کشا پھیلائے گی جب اپنی سرمستی
پھرے گی ہر طرف جس دم نسیم اٹھ کھیلیاں کرتی
تری پیہم ملاقاتوں کا منظر یاد آئے گا
بہ ہر صورت بہ ہر عنوان اکثر یاد آئے گا
امید افزا میں جس دم شوق کی تصویر دیکھوں گا
محبت کو محبت ہی کا دامن گیر دیکھوں گا
کسی مہجور کیب اوج پر تقدیر دیکھوں گا
کنار عشق میںجب حسن کی تصویر دیکھوں گا
تری پیہم ملاقاتوں کا منظر یاد آئے گا
بہ ہر صورت بہ ہر عنوان اکثر یاد آئے گا
کسی بلبل کو جب دیکھوں گا پھولوں کا تماشائی
جہانِ رنگ و بو میں جب نمایاں ہوگی رعنائی
نظر آئے گا جب کوئی ہم آغوش تمنّائی
کسی محبوب کو دیکھوں گا جب نزدیک شیدائی
تری پیہم ملاقاتوں کا منظر یاد آئے گا
کہیں جب ہستی پر وانہ شیدائے طرب ہوگی
کہیں جب شمع کوئی بزم آرائے طرف ہوگی
کہیں جب خود محبت کو تمنائے طرب ہوگی
تری پیہم ملاقاتوں کا منظر یاد آئے گا
بہ ہر صورت بہ ہر عنوان اکثر یاد آئے گا
کوئی غارت گر دل ہوگا جب پہلوئے رہزن میں
قبائے گل کو جب دیکھوں گا جب بلبل کے نشیمن میں
کسی کو نغمہ پیرا جب سنوں گا صحنِ گلشن میں
نظر آئے گا جب کوئی کنول دیا کے دامن میں
تری پیہم ملاقاتوں کا منظر یاد آئے گا
بہ ہر صورت بہ ہر عنوان اکثر یاد آئےگا
کسی پیماں شکن کےجب کبھی وعدے وفا ہوں گے
عیاں جب انکھڑیوں سے عشوہ ہائے دلربا ہوں گے
کسی کےلب کسی کے لب سے جب خط آشنا ہوں گے
یہ نظارے مگر میرے لیے محشر نما ہوں گے
تری پیہم ملاقاتوں کا منظر یاد آئے گا
بہ ہر صورت بہ ہر عنوان اکثر یاد آئے گا
اندھیری رات میں رہ رہ کے وہ جگنو کی تابانی
بھری برسات میں ہو پے بہ پے نغموں کی ارزانی
نظر آئے گی جب ہر سو ترانوں کی فراوانی
میسر ہوگی جب صادقؔ کے دل کو اشک افشانی
تری پیہم ملاقاتوں کا منظر یاد آئے گا
بہ ہر صورت بہ ہر عنوان اکثر یاد آئے گا
(15/ جنوری 1941ء مطبوعہ ’آئینہ‘ بمبئی )
۔۔۔۔۔۔۔
 

الف عین

لائبریرین
شوہر کا انتظار

لے کر دوائے سوزش پنہاں کب آئیں گے
اللہ! وہ سکونِ دل و جاں کب آئیں گے
آرائشِ جمال کےساماں کب آئیں گے
عقدہ کشائے زلف پریشاں کب آئیں گے
دشوار ہورہی ہے گھڑی انتظار کی
اللہ وہ سکون بداماں کب آئیں گے
ہوں زندگیِ ہجر سے مجبور و مضطرب
وہ میرے جسم و جاں کے نگہباں کب آئیں گے
سونی پڑی ہے مسند خلوت میںکیا کروں
اے دل تو ہی بتا مرے سلطاں کب آئیں گے
اللہ پا رہا ہے غمِ عشق پھر فروغ !
لونڈی کےپاس عیسیِ دوراں کب آئیں گے
برباد ہورہا ہے مرا باغِ آرزو
وہ مالک بہارِ گلستاں کب آئیں گے
مجھ میزباں کو بخشیں گےجو سرمدی سکوں
رہ رہ کے دیکھتی ہوں وہ مہماں کب آئیں گے
کچھ منہ سے پھوٹ تو ہی اری خاموشی شوق !
ہاں بزمِ ناز میں وہ غزل خواں کب آئیں گے
آنکھیں ہیں اشک ریز تو ویراں ہے دل کا گھر
درمانِ دیدہو دل ویراں کب آئیں گے
تاریک ہے مرے لیے ہر رات اے خدا
وہ میرے شب کے ماہِ درخشاں کب آئیں گے
اب سست پڑ رہی ہے مری نبضِ آرزو
یارب! یمِ حیات میں طوفاں کب آئیں گے
بیٹھی ہوں نذر کرنے میں آج اپنے جسم و جاں
وہ بادشاہِ مملکت جاں کب آئیں گے
(3/جون 41ء، مطبوعہ آئینہ)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

الف عین

لائبریرین
چیونٹی

سرِ دیوار اک چیونٹی کو میں نے رینگتے دیکھا
بہ شانِ بےنیازی چڑھ رہی تھی ہو بلندی پر
بظاہر تو نظر آتا نہ تھا کوئی معین اس کا
مقرر ہو بھی کوئی شاید اس کی درد مندی پر
تعجب تھا مجھے اتنی سی جاں اور اتنی اونچائی
بغیر اسباب چڑھنا چاہتی تھی اس بلندی پر
تعجب کو کیا ضائع مرے اس فکر بے جانے
کہ میں خود کو مقرر کردوں س کی راہ بندی پر
ہٹا دیتا تھا جتنی بار اسے میں اس کے مرکز سے
مگر ہر بار چڑھ جاتی تھی وہ اتنی بلندی پر
مری یہ کوششیں تھیں احمقنہ اصل میں لیکن
خود اس کی فکر تھی مائل کمال ہوشمندی پر
ہر اک کوشش مری جب کوشش بے کار ہوتی تھی
مجھے خود شرم آجاتی تھی اس کی فتح مندی پر
وہ جب چڑھتی تو زنجیرِ غلامی توڑتی چڑھتی
وقار و سطوت آقا کا پنجہ موڑتی چڑھتی
(18/جون 41ء مطبوعہ آئینہ)
 

الف عین

لائبریرین
نئی باتیں

وہ عیش کی شب ، حسن طرح دار کی باتیں
انکار کی باتیں کبھی اقرار کی باتیں
وہ عرغ تمنا پہ تکلم کی خموشی
وہ آنکھوں ہی آنکھوں میں حیا کار کی باتیں
وہ جلوۂ مقصود کی رنگین شعاعیں
پروانے سے وہ شمع ضیا بار کی باتیں
وہ ناصیۂ ناز کی تابانیِ پیہم !
وہ سلسلۂ نورِ گہر بار کی باتیں
وہ عَارض گل گوں کی درخشانی دلکش
وہ حسنِ مہ و مہر سے تکرار کی باتیں
آنکھوں سے چلکتے ہوئے وہ حسن کےجلوے
نثروں سے چھلکتی ہوئی وہ پیار کی باتیں
ہونٹوں کی خموشی میں ترنم کی ترنگیں
اللہ رے س جذبۂ بیدار کی باتیں
ہر جنبش ابر و میں اک انداز کا نقشہ
وہ قتل گہ ناز میں تلوار کی باتیں
وہ گیسوئے مشکیں کی مہکتی ہوئی خوشبو
وہ یاسمن و عنبر و تاتار کی باتیں
ہلکےسے تبسم میں سخن ہئے محبت
مدھم سے ترنم میں سروکار کی باتیں
ہر جذبۂ مشتاق تھا کھولےہوئے آغوش
وہ خامشیٔ ناز میں اقرار کی باتیں
وہ ان کی نگاہوں میں بلندی کے مناظر
معدوم وہ سب پستیٔ افکار کی باتیں
وہ میرے سوالات پہ خاموشیِ گفتار
وہ جذبۂ بےباک کے اظہار کی باتیں
صادقؔ کبھی بھولا ہوں نہ بھولوں گا میں تا حشر
وہ پردۂ انکار میں اقرار کی باتیں
(30/ جون 41ء مطبوعہ ’ آئینہ‘ بمبئی )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

الف عین

لائبریرین
کسی کو رخصت کرتے وقت

ابھی تو میری تمنّا جوان ہے دیکھو
ابھی سے میری تمنّا مٹا کے جاتی ہو
ابھی تو تکملۂ وصل کی ضرورت تھی
ابھی سے ہجر بہ داماں بنا کے جاتی ہو
ابھی تو میری نگاہوں میں تاب تھی باقی
ابھی سے پردۂ رنگیں گرا کےجاتی ہو
ابھی تو دل میں تھی حسرت شراب عشرت کی
ابھی سے بادۂ فرقت پلا کے جاتی ہو !
ابھی تو عیش کے لمحوں کو طول دینا تھا
ابھی سے عیش کے لمحے گھٹا کے جاتی ہو
تمہیں گمان ہے مسرور و شاد کام ہوں میں
مجھے یقین ہے مجھ کو مٹا کے جاتی ہو !
اکیلا چھوڑ کےجاتی ہو مجھ کو تم لیکن ،
مجھے خوشی ہے کہ اپنا بنا کے جاتی ہو !
’’وداع و وصل جدا گانہ لذتِ وارد
ہزار بار ہروصد ہزار بار بیا(1)‘‘
(1)غالب 21 ۔ جولائی 41 ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

الف عین

لائبریرین
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰ سے

سنو! کہ ایک پیامِ طرب سناتا ہوں
تمہارے پاس ، تمہارے قریب آتا ہوں
تمہاری یاد تمہارے خیال سے ہے سکوں
صعوبتیں بھی جو آئیں تو مسکراتا ہوں !
تمہاری یاد سے بیدار ہوتے ہیں احساس
ہر ایک ولولۂ دل کو گد گداتا ہوں !
پھر آرہا ہے تصوّر تمہاری آنکھوں کا
پھر اپنے دل کو مئے ارغواں پلاتا ہوں
پھر آرہی ہے تصوّر میں کاکُلِ مشکیں !
پھر اپنی محفلِ الفت کو گرم پاتا ہوں
پھر آج حسن تمہارا ہوا ہے جلوہ فروش
پھر آج تابِ نظر کو میں آزماتا ہوں
پھر آج دل کے دھڑکنے میں لطف آتا ہے
پھر آج خود کو تمہارے قریب پاتا ہوں
تمہارے چہرۂ انور کی دید ارے توبہ !
فروغِ مہر سے بازی لگائے جاتا ہوں
نظر کی آرزوئیں قلب کی تمنّائیں
برائے نذر تمہارے حضور لاتا ہوں
اگر پسند ہوں دامن میںاپنے بھر لینا
حقیر پیش کشوں کو قبول کرلینا

24/جولائی 41 ء ’ آئینہ‘ بمبئی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

الف عین

لائبریرین
مفلس کی عید

احساس آرزو ئے بہاراں نہ پوچھیے
دل میں نہاں ہے آتش سوزاں نہ پوچھیے
عید آئی اور عید کا سامان نہ پوچھیے
مفلس کی داستاں کسی عنواں نہ پوچھیے
ہے آج وہ بہ حالِ پریشاں نہ پوچھیے
روزے تو ختم ہو گئے باصد غم و ملال
اب عید آئی اور وہ ہونےلگا نڈھال
بچوں کا بھی خیال ہے اپنا بھی ہے خیال
دامن ہے چاک بال پریشان غیر حال
کچھ داستانِ چاک گریباں نہ پوچھیے
منہ میں نہیں زباں جو کچھ حالِ دل کہے
غیرت کا اقتضا ہے کہ خاموش ہی رہے
آنکھوں سے موج اشک جو بہتی ہے تو بہے
ہے سر پہ ایک ہاتھ تو اک ہاتھ دل پہ ہے (1)
افلاس کا یہ منظر عریاں نہ پوچھیے
دل میں لیے ہوئے ہوسِ عیش بے شمار
اور زیب تن کیے ہوئے ملبوس زر نگار
منعم ادھر رواں ہے بصد شان و افتخار
ہیں اس طرف نشاط کے اسباب آشکار
اور یہ ادھر ہے گر یہ بہ داماں نہ پوچھیے
منعم کو دیکھ کر دمِ بازو نکل گیا
اس کے ملال کا کوئی پہلو نکل گیا
مفلس کے دل سے نعرۂ یاہو نکل گیا
عید آئی اور آنکھ سے آنسو نکل گیا
کس درجہ ہے وہ بے سر و ساماں نہ پوچھیے
ہر چند دل میں حسرت وارماں ہیں بے قرار
لیکن وہ اپنا حال کرے کس پہ آشکار
دشمن وجود اس کا عدو اس کی جان زار
جائے کہاں نہیں ہے کوئی اس کا غم گسار
لائے کہاں سے عیش کے ساماں نہ پوچھیے
اک جانِ زار اس پہ ہزاروں جفا و جور
کس کا خیال رکھے وہ کس پر کرے وہ غور
کمزور سی اک آہ میں اس کی ہے اتنا زور
صادق بپا ہے محفِل مکاں میں ایک شور
برہم ہے نظمِ عالمِ امکاں نہ پوچھیے
1۔ضرورت شعری کے تحت

(13 / اکتوبر 41 ’آئینہ ‘، بمبئی)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

الف عین

لائبریرین
مشاہدہ
(سانٹ )

نہ جانے کیا جنوں مجھے سما رہا تھا ایک دن
نظر تمام اضطراب دل تمام آرزو
تصوّر حبیب سے خیال گرم گفتگو
نہ پوچھ ہم نشیں کہاں میں جا رہا تھا ایک دن
روش روش چمن چمن عیاں، نہاں ، نہاں عیاں
سمن بھی ، نسترن بھی، یاسمین اور گلاب بھی
نسیم بھی شمیم بھی، بہارِ پر شباب بھی
نظر کی زد میں آگیا تھا کل روغ بوستاں
مری نظر کے سامنے نہ تحت تھا نہ فوق تھا
غیاب اور حضور بھی، نیاز اور ناز بھی
عدم بھی اور وجود بھی، حقیقت اور مجاز بھی
مشاہدہ کو ذوق پھر مشاہدہ کا ذوق تھا
عجب عجب لطیف چیز دیکھتا چلا گیا
ہر ایک شکل بے تمیز دیکھتا چلا گیا

(2 / مارچ 42 ء آئینہ بمبئی )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

الف عین

لائبریرین
مَن کی دیوی

فضا میں جب گونجتے ہیں نغمے رسیلے اور مدھ بھرے سروں میں
نفس نفس کھو سی جاتی ہے جب کہ کائنات ان نئے سروں میں
بہار جب اپنا دامنِ گل فروش پھیلاتی ہے چمن پر
جب از سر نو شباب آتا ہے یاسمین اور نسترن پر
نسیم پر اپنے پھڑ پھڑا کر جب اپنی خوشبو بکھیر تی ہے
سحر کی دیوی چمن میں پڑھ پڑھ کے اپنا جادو بکھیرتی ہے
ہر اک کلی لب کے خنجروں سے دلِ عنادل کو چیرتی ہے
جراحتِ اضطراب جس وقت ہر رگِ دل کو چیرتی ہے
سُرور زن قمریاں چمن میںجب اپنے نغمات چھیڑتی ہیں
وفور جذبات کے سبب سے رسیلے نغمات چھیڑتی ہیں
گلاب جب مست بلبلوں کو قریب تراپنے دیکھتا ہو
ہجومِ کیف و سرور بنکر ورق ورق مسکرارہا ہو
کوئی نگارِ حسین چہرہ خرام کی مستیاں دکھا کر
روش روش چل رہا ہو جس دم ہر اک سے خود کو بچا بچا کر
سمندروں کا بسیط پانی بلند ہو جب سحاب بن کر
محیط بادل جب آسماں سےکریں ہو ط آب آب بن کر
زمین کا جب ہر ایک ذرّہ چمک اٹھےتاب دار ہو کر
گلوں کے سینوں سے پھوٹ نکلیں جو مستیاں بے قرار ہو کر
تمازتِ آفتاب میں جب ہر آدمی محو کار ہو کر
مسائلِ زندگی کو سلجھا رہا ہو بے اختیار ہو کر
اندھیری راتوں میں جب پپیہے کی ہر نظر ’’پی‘‘ کو ڈھوڈتی ہے
نگاہِ مے خوار موسم گل میںجب گلابی کو ڈھونڈتی ہے
حسین بجلی چمکتی ہے جب فراق کی تنگ و تار شب میں
چراغ جگنو کے ٹمٹماتے ہیں جب کبھی بار بار شب میں
امیر پر جب مشیت اپنے تمام گنجینے کھولتی ہے،
غریب مزدور کیمشقت جب اپنا دامن ٹٹولتی ہے
کوئی زماں ہو کوئی مکاں ہو کوئی ہو لمحہ کوئی ہو ساعت
ہمیشہ رہتی ہے میری دیوی مجھی پہ تیری نگاہ رحمت
وہ میں کہ بن کر ترا پجاری تری محبت میں جھومتا ہوں
وہ میں کہ چرنوں کو تیرے ہر دم جبین اور لب سے چومتا ہوں
مری رگوں میں تو موج زن ہے مرے لہو میں تو پیرتی ہے
تو میرے دریائے آرزو میں مثال کشتی کی تیرتی ہے
مرے تخیّل پہ تو مسلّط ، تو میرے افکار کی نگہباں !
مرے سخن پہ ترا تسلّط تو میرے اشعار کی نگہباں !
میری تمنّا کی تازگی ہے ، میری نگاہوں کی روشنی ہے
کبھی تو ہے جزو زندگانی کا اور کبھی عین زندگی ہے
میری محبت ترے لیے ہے، تری محبت مرے لیے ہے
میری عقیدت ترے لیے ہے، تیر عنایت مرے لیے ہے
حسین راتوں کی انجمن میں فروغ انجم مرے لیے ہے
ترا تکلم مرے لیے ہے ، ترا تبسم مرے لیے ہے
وہ میں کہ مجھ پر ہوئی ہیں ہر لمحہ تیرے الطاف کی نگاہیں
وہ تو کہ دل میں ترے ملی ہیں مرے ہر اک کرب کو پناہیں
مری محبت کی روزاول سے آج تک تو نے قدر کی ہے
ازل کے دن سے تری روش میں وہی قدیمی سلامتی ہے
اگر اٹھیں تو مری ہی جانب ، اگر پڑیں تو مرے گلے میں
جو لمسِ دشمن سے ہیں منزہ وہ نرم نرم اور گداز باہیں
تری محبت ، مری محبت جو ساتھ ساتھ استوار ٹہری
تری وفا پائدار ٹہری ، مری وفا پائدار ٹہری

25/ اپریل 42ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Top