نقد و نظر

آ بھی جا دل کے نگر اے ساقی
دید کا جام پلا دے مجھ کو

آ بھی جا دل کے نگر اے ساقی
دید کا جام پلا دے مجھ کو

جو تاثر مجھے ملا اس شعر سے وہ یہ ہے کہ عاشق اپنے محبوب کے دیدار کا تمنائی ہے اور التجا کرتا ہے " آ بھی جا سامنے تو اے ساقی " لیکن پہلے مصرع میں جو "دل کے نگر" کے الفاظ ہیں ان سے کچھ ابہام ہو رہا ہے یعنی اگر محبوب دل کا مکین ہی نہیں تو محبوب کیونکر ہوا ؟ پھر یہ کہ دید کا جام اگر ظاہری چیز ہے تو ساقی کو دل کے نگر کیوں بلایا جا رہا ہے ؟
اساتذہ اور ماہرین اگر توجہ دیں تو میری اصلاح ہو سکے
 
آخری تدوین:
آ بھی جا دل کے نگر اے ساقی
دید کا جام پلا دے مجھ کو

جو تاثر مجھے ملا اس شعر سے وہ یہ ہے کہ عاشق اپنے محبوب کے دیدار کا تمنائی ہے اور التجا کرتا ہے " آ بھی جا سامنے تو اے ساقی " لیکن پہلے مصرع میں جو "دل کہ نگر" کے الفاظ ہیں ان سے کچھ ابہام ہو رہا ہے یعنی اگر محبوب دل کا مکین ہی نہیں تو محبوب کیونکر ہوا ؟ پھر یہ کہ دید کا جام اگر ظاہری چیز ہے تو ساقی کو دل کے نگر کیوں بلایا جا رہا ہے ؟
اساتذہ اور ماہرین اگر توجہ دیں تو میری اصلاح ہو سکے

جو آپ نے نقل کیا، اس میں تو "کہ" نہیں، "کے" ہے۔
پھونک دے راکھ بنا دے مجھ کو
تیرگی عہدِ رواں کی ہے عجب
صبح کا تارا دکھا دے مجھ کو
آ بھی جا دل کے نگر اے ساقی
دید کا جام پلا دے مجھ کو

زندگی تلخ ہے ذہرابہِ ناب
عشق تریاق، پلا دے مجھ کو
مصلحت تیری عجب ہے ساقی
ہوش کی تُو نہ سزا دے مجھ کو
ہمسفر کون بنے ہے میرا
تو ہی اب ہاتھ ذرا دے مجھ کو

پتہ نہیں یہ اشِکال کیوں ہوا؟ باقی معاملات اپنی جگہ ہیں، البتہ۔
 
1
آتشِ عشق جلا دے مجھ کو
پھونک دے راکھ بنا دے مجھ کو
2
تیرگی عہدِ رواں کی ہے عجب
صبح کا تارا دکھا دے مجھ کو
3
آ بھی جا دل کے نگر اے ساقی
دید کا جام پلا دے مجھ کو
4
زندگی تلخ ہے ذہرابہِ ناب

عشق تریاق، پلا دے مجھ کو
5
مصلحت تیری عجب ہے ساقی
ہوش کی تُو نہ سزا دے مجھ کو
6
ہمسفر کون بنے ہے میرا
تو ہی اب ہاتھ ذرا دے مجھ کو

1 ۔ اردو محاورہ کے مطابق آگ جلاتی ہے پھونکتی نہیں ہے، ہاں پنجابی محاورہ میں پھونکتی بھی ہے۔
2۔ رعایات کا مسئلہ ہے۔ صبح مذکور ہے تو اوپر رات کا ذکر ہونا چاہئے تھا۔
3۔ مضمون بہت عامیانہ ہے۔
4۔ اس پر بات ہو چکی، اگرچہ صاحبِ کلام پر کسی قدر گراں گزری۔
5۔ مصلحت کو بیان بھی کیا جانا چاہئے تھے۔ دوسرا مصرع بہت کمزور ہے۔
6۔ اس پر بات ہو چکی۔ "بنے ہے" تکلفِ محض ہے، "بنے گا" مانوس لہجے سے قریب تر ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
 
استادِ محترم دو نئے اشعار برائے تنقید و اصلاح اور ایک غرض کے غزل کے حوالے سے خیال کیسا ہے راہنمائی فرمائیں اور اللہ تعالی سے اجر پائیں
ستم سہنے کی عادت ہو رہی ہے
ستم سہنے میں راحت ہو رہی ہے
میں صدقے تیرے ذوقِ تن فشانی
عجب مشق و ریاضت ہو رہی ہے
 
تکرار کی صنعت بہت احتیاط کی متقاضی ہے، ضروری نہیں کہ ہر جگہ اچھی لگے۔
تن فشانی، پر فشانی، جاں فشانی؛ ان کے معانی کے پرتو دیکھ لیجئے، کچھ نہ کچھ فرق ضرور ہے۔
اس تناظر میں ’’عجب مشق و ریاضت ہو رہی ہے‘‘ ۔۔۔۔ :warzish:
 
تکرار کی صنعت بہت احتیاط کی متقاضی ہے، ضروری نہیں کہ ہر جگہ اچھی لگے۔
تن فشانی، پر فشانی، جاں فشانی؛ ان کے معانی کے پرتو دیکھ لیجئے، کچھ نہ کچھ فرق ضرور ہے۔
اس تناظر میں ’’عجب مشق و ریاضت ہو رہی ہے‘‘ ۔۔۔۔ :warzish:
راہنمائی فرمانے کے لئے بہت بہت شکریہ استادِ محترم
 
ایک غزل برائے تنقید صاحبانِ علم

میں تشنہِ ساحل ہوں ،تو بحر میں غوطہ زن
کوئی لا دےگوہر تو اے واقفِ فکر و فن
کیا صبح کی آہیں ہیں، کیا رات کا رونا ہے
نا آشنا میں ان سے ہے خام گمان و ظن
نیرنگئ دنیا سے خوش میں بھی نہیں لیکن
لوٹا ئے کوئی کیسے پھر شوکتِ عہد کُہن
تکرار سے کیا حاصل ، انکار سے کیا حاصل
میں محوِ تماشا ہوں، خاموش زبانِ دہن
تقریر بھی لا حاصل، تدبیر بھی لا حاصل
تعلیم و ہنر ہے یاں بس زینہِ عیش و دھن
اک جہد مسلسل ہے مقصود کے حاصل کو
اس جہدِ مسلسل کا مقصود آسانیِ تن
اک ترکِ معاصی کا عقدہ یہاں مشکل ہے
ہو شہر کی رونق یا خاموش سا کوئی بن
کب چین مجھے صبح ،کب چین مجھے شب کو
اک شورِ ہلا ہل ہے سینے میں مِرے مدفن
ہے لا دے کوئی مجھ کو وہ گوہرِ بے پایاں
وہ فقرِ جسور و غیور، تھا کانپتا جس سے رن
نیلے رنگ والے مصرع کی اگر کوئی ممکنہ اصلاح ہو جائے تو زہے نصیب
 
ایک غزل برائے تنقید صاحبانِ علم
اس غزل کی بحر ہے: مفعول مفاعیلن مفعول مفاعیلن (ہزج مثمن اخرب سالم)
کوئی لا دےگوہر تو اے واقفِ فکر و فن
یہ مصرع اسی حالت میں وزن میں نہیں، یوں کر لیں تو وزن میں آجائے گا: لا دے کوئی گوہر تو اے واقفِ فکر و فن
نا آشنا میں ان سے ہے خام گمان و ظن
یہ مصرع بھی وزن میں نہیں، یوں کر لیں تو وزن برقرار رہے گا: میں ان سے ہوں نا واقف، ہے خام گمان و ظن
لوٹا ئے کوئی کیسے پھر شوکتِ عہد کُہن
عہد کہن بھی وزن میں نہیں۔ فعلاتن کے وزن پر کچھ چاہیے۔ میرے ذہن میں کوئی صورت فی الحال نہیں
میں محوِ تماشا ہوں، خاموش زبانِ دہن
یہاں بھی زبانِ دہن وزن میں نہیں۔ دوسری بات یہ کہ زبانِ دہن کی ترکیب بہت اوچھی ہے۔
تعلیم و ہنر ہے یاں بس زینہِ عیش و دھن
عیش و دھن کی ترکیب بھی غلط ہے۔ فارسی اور عربی الفاظ (جیسے عیش) ہندی الفاظ (جیسے دھن) کے ساتھ ترکیب نہیں بناتے۔
اس جہدِ مسلسل کا مقصود آسانیِ تن
اس مصرع میں بھی آسانی کا مد گر رہا ہے، جو کہ ذرا اچھا نہیں لگ رہا۔
کب چین مجھے صبح ،کب چین مجھے شب کو
صبح کا تلفظ بھی ٹھیک نہیں باندھا گیا۔ بحر سے خارج ہو رہا ہے۔
وہ فقرِ جسور و غیور، تھا کانپتا جس سے رن
مصرع بحر میں نہیں!

جملۂ معترضہ: بہت سی لسانی اور بدیعی اغلاط موجود ہیں جن کی طرف اور لوگ اشارہ کریں گے، ہم نے وزن پر بات کی ہے۔
 
ایک غزل برائے تنقید صاحبانِ علم
جملۂ معترضہ: بہت سی لسانی اور بدیعی اغلاط موجود ہیں جن کی طرف اور لوگ اشارہ کریں گے، ہم نے وزن پر بات کی ہے۔

متفق! تنقید کا مرحلہ ابھی دور ہے حضرت! مہدی نقوی حجاز کے کہے پر توجہ دیجئے اور جیسا میں نے بالمشافہ ملاقات میں بھی کہا تھا: زبان کی اغلاط شاعری میں ناقابلِ معافی ہوا کرتی ہیں۔ فی الحال تجربات سے گریز کیجئے اور آسان تر زبان میں بات کرنے کی کوشش کیجئے۔ بہت وقت پڑا ہے تجربوں کو!
 
اس غزل کی بحر ہے: مفعول مفاعیلن مفعول مفاعیلن (ہزج مثمن اخرب سالم)

یہ مصرع اسی حالت میں وزن میں نہیں، یوں کر لیں تو وزن میں آجائے گا: لا دے کوئی گوہر تو اے واقفِ فکر و فن

یہ مصرع بھی وزن میں نہیں، یوں کر لیں تو وزن برقرار رہے گا: میں ان سے ہوں نا واقف، ہے خام گمان و ظن

عہد کہن بھی وزن میں نہیں۔ فعلاتن کے وزن پر کچھ چاہیے۔ میرے ذہن میں کوئی صورت فی الحال نہیں

یہاں بھی زبانِ دہن وزن میں نہیں۔ دوسری بات یہ کہ زبانِ دہن کی ترکیب بہت اوچھی ہے۔

عیش و دھن کی ترکیب بھی غلط ہے۔ فارسی اور عربی الفاظ (جیسے عیش) ہندی الفاظ (جیسے دھن) کے ساتھ ترکیب نہیں بناتے۔

اس مصرع میں بھی آسانی کا مد گر رہا ہے، جو کہ ذرا اچھا نہیں لگ رہا۔

صبح کا تلفظ بھی ٹھیک نہیں باندھا گیا۔ بحر سے خارج ہو رہا ہے۔

مصرع بحر میں نہیں!

جملۂ معترضہ: بہت سی لسانی اور بدیعی اغلاط موجود ہیں جن کی طرف اور لوگ اشارہ کریں گے، ہم نے وزن پر بات کی ہے۔
بہت بہت شکریہ جناب آپ نے قابلِ التفات سمجھا اور اپنی گراں قدر آرا سے نوازا
 
متفق! تنقید کا مرحلہ ابھی دور ہے حضرت! مہدی نقوی حجاز کے کہے پر توجہ دیجئے اور جیسا میں نے بالمشافہ ملاقات میں بھی کہا تھا: زبان کی اغلاط شاعری میں ناقابلِ معافی ہوا کرتی ہیں۔ فی الحال تجربات سے گریز کیجئے اور آسان تر زبان میں بات کرنے کی کوشش کیجئے۔ بہت وقت پڑا ہے تجربوں کو!
جی استادِ محترم جیسا آپ کا حکم
 
فاروق بھائی ، تخیل کا جواب نہیں - یعنی کہیں امت مسلمہ کے مسائل ، کہیں معاشرتی تنزلی کی طرف اشارہ ، کہیں جذب و کیف کی قلبی واردات ، کہیں انسانیت کی پوری علمی و سماجی ترقی کے محرکات کی طرف اشارہ - بہت خوب بھئی - واہ واہ -
پھر یہ کہ مطلع میں جس طرح ایک ہی قبیل کے الفاظ کا انتخاب کیا وہ اپنی جگہ ایک ہنر ہے - مجھے تو بہت امیدیں ہیں انشاء الله اگر محترم یعقوب آسی صاحب کی رہنمائی میں یہ سفر آگے بڑھے گا توکامیابی قدم چومے گی اور جیسا کہ استاد آسی نے کہا کہ آسان زبان میں کوشش کی جائے تو اسے گرہ سے باندھنا چاہیے - میں نے بھی یہ بات اپنے ذہن میں محفوظ کرلی ہے -

مجموئی لحاظ سے یہ غزل آپکی صلاحیتوں روشناس کرانے میں کامیاب رہی ہاں جیسا کہ حجاز صاحب نے بتایا کہ کچھ چیزیں بہتر ہو جائیں تو بعید نہیں کے اس محفل میں ایک قابل ذکر شاعر کا اضافہ ہو -
 
فاروق بھائی ، تخیل کا جواب نہیں - یعنی کہیں امت مسلمہ کے مسائل ، کہیں معاشرتی تنزلی کی طرف اشارہ ، کہیں جذب و کیف کی قلبی واردات ، کہیں انسانیت کی پوری علمی و سماجی ترقی کے محرکات کی طرف اشارہ - بہت خوب بھئی - واہ واہ -
واقعی اتنے سارے مسائل بیان کر ڈالے میں نے یقین نہیں ہو رہا میں ذرا غور سے دوبارہ پڑھ لوں ؟ بہت شکریہ جناب حوصلہ افزائی کا وہ کیا کہتے ہیں کے اصل میں حسن دیکھنے والے کی نظر میں ہوتا ہے
انشاء الله اگر محترم یعقوب آسی صاحب کی رہنمائی میں یہ سفر آگے بڑھے گا توکامیابی قدم چومے گی اور جیسا کہ استاد آسی نے کہا کہ آسان زبان میں کوشش کی جائے تو اسے گرہ سے باندھنا چاہیے - میں نے بھی یہ بات اپنے ذہن میں محفوظ کرلی ہے -
ارے حضور
استادِ گرامی قدر جناب محمد یعقوب آسی صاحب اللہ انکو صحت وتندرستی لمبی عمر عطا فرمائے بہت شفقت فرماتے ہیں اورمیں شاعری بلکل بھی نہ کرپاتا اگر انکی شفقت نہ ہوتی اور سچ تو یہ ہے کہ بندہ اردو محفل میں استاد محترم سے فیض حاصل کرنے کی غرض سے حاضرہوا ہے کیونکہ ویسے تو روز ملنا یا ہفتہ مین ایک آدھ بار ملنا بھی مشکل تھا میرے لئے
 
مجموئی لحاظ سے یہ غزل آپکی صلاحیتوں روشناس کرانے میں کامیاب رہی ہاں جیسا کہ حجاز صاحب نے بتایا کہ کچھ چیزیں بہتر ہو جائیں تو بعید نہیں کے اس محفل میں ایک قابل ذکر شاعر کا اضافہ ہو -
نوازش جناب کوشش کروں گا کے آپ کے حسن ظن پہ پورا اتروں پر وہ کیا ہے کہ آتی ہے اردو زباں آتے آتے
 
"شہزاد عادل کی اپنی منتخب کی ہوئی بیس غزلیں ہمارے سامنے ہیں ، زمانی ترتیب میں۱۹۸۸ء سے ۲۰۱۴ء تک؛ جن میں ۲۰۰۰ء کی چار، اور ۲۰۱۴ء کی چار غزلیں ہیں، بقیہ میں پچیس برسوں سے شاعر نے بارہ غزلیں منتخب کی ہیں۔ یہ جو میں نے عنوان میں کہا ہے ’’اچھا لکھتے ہو‘‘، اس کی پہلی شہادت اس کا اپنا انتخاب ہے۔ اس نے یقیناًبہت سوچ سمجھ کر یہ بیس غزلیں منتخب کی ہیں۔"

تفصیل اس اجمال کی کچھ یوں ہے کہ ۔۔۔
شہزاد عادل نے اپنی 20 غزلیں دیارِ ادب ٹیکسلا میں بحث کے لئے پیش کر دی ہیں (اجلاس جمعہ 16 اکتوبر 2015ء کو اس فقیر کی کُٹیا میں ہو گا)۔ مذکورہ غزلوں پر اپنی گزارشات ایک مضمون کی صورت میں ترتیب دینے کی کوشش کی ہے۔ پورا مضمون میرے بلاگ پر برائے توجہ و مطالعہ و تبصرہ میسر ہے۔ زحمت فرمائیے گا۔ بہت آداب۔
 
آخری تدوین:
Top