نظر لکھنوی نعت: میدانِ محمِدت میں ہے لازم ادب کا پاس ٭ نظرؔ لکھنوی

میدانِ محمِدت میں ہے لازم ادب کا پاس
رکھتا ہوں یونہی کھینچ کے رخشِ قلم کی راس

لبریزِ غم ہو جب بھی یہ قلبِ تنک حواس
آئی ہے دلدہی کہ تری یاد میرے پاس

اسرا کی شب گیا ہے وہ خلوت میں رب کے پاس
رتبہ شہِ ہدیٰ کا ہے بالائے ہر قیاس

لبریز قلب کیوں نہ ہو از جذبۂ سپاس
بندوں کو رب سے اس نے کیا آ کے روشناس

ق
طاری چہار سو ہو جب اک منظرِ ہراس
مختل ہوں عقل و ہوش اڑے جبکہ ہوں حواس

محشر میں جبکہ کوئی نہ پھٹکے کسی کے پاس
اس روز اے حبیبِ خدا تجھ سے سب کو آس

ہے حبِ بندگانِ خدا دین کا شعار
توحیدِ ذاتِ رب ہے ترے دین کی اساس

سب رند ہیں گواہ کہ اے ساقی جہاں
تیرے ہی میکدہ سے بجھی ہے دلوں کی پیاس

ان کی کتابِ پاک کا اللہ رے معجزہ
پُر نور ہو یہ قلب پڑھیں کوئی اقتباس

نورِ یقیں سے پُر ہے ہر اک آیتِ کتاب
ان کی کتاب پاک ہے از نقصِ التباس

مقبولِ بارگاہِ خداوند ہو گئی
امت کی مغفرت کے لئے ان کی التماس

اے کملی والے حشر میں مجھ پر بھی ہو نگاہ
توشہ نہیں ہے حسنِ عمل کا نظرؔ کے پاس

٭٭٭
محمد عبد الحمید صدیقی نظرؔ لکھنوی
 

الف نظامی

لائبریرین
طاری چہار سو ہو جب اک منظرِ ہراس
مختل ہوں عقل و ہوش اڑے جبکہ ہوں حواس

محشر میں جبکہ کوئی نہ پھٹکے کسی کے پاس​
اس روز اے حبیبِ خدا تجھ سے سب کو آس
 
Top