نعتِ رسولِ مقبول۔ ۔ ۔۔ڈاکٹر اظہر وحید

سچ کہوں تو اسکو جینے کا قرینہ آگیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
قریہءِ جاں میں نظر جسکو مدینہ آگیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
کنتُ کنزّ مخفیُُُّ یوں منکشف ہونے لگا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
میم کے پردے سے باہر وہ خزینہ آگیا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
سینہءِ ہستی میں پنہاں وہ حسیں جو راز تھا
صوتِ اقراء سے حرا میں وہ دفینہ آگیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
رحمتِ عالم ہیں باقی اور باقی سب فنا۔ ۔ ۔ ۔
بیکراں رحمت کی موجوں میں سفینہ آگیا۔ ۔ ۔
آپ کی نسبت سے ملتی ہے فنا کو بھی بقا
یوں نہیں جو اولیاء کو مر کے جینا آگیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔
تشنگی کا ہیں مداوا ہاں وہی سیراب ہیں۔ ۔
جنکو مدوا ساقیءِ کوثر سے پینا آگیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔
محترم ہیں ، سب نبی ہیں ،منتظر ہیں مقتدی
مقتدر، مہرِ نبوّت کا نگینہ آگیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔
کب ملے ہے مثل انکی کب ملے کوئی مثال
وحدہُ کی معرفت کا یوں قرینہ آگیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
سج رہی ہیں محفلیں جو ہر طرف میلاد کیں
خوش نصیبی ہے کہ اظہر وہ مہینہ آگیا۔ ۔ ۔ ۔​
 
Top